بخار کی تاب نہ لاتے ہوئے موت کیا شہادت والی ہے؟
انڈیا کے معرف شہر مرادآباد میں مدرسہ شاہی میں عربی دوم کا 13 سالہ نوعمر طالب علم محمد عاقب سیتاپوری بخار کی تاب نہ لاتے ہوئے اللہ کو پیارا ہوگیا.
انا للہ وانا الیہ راجعون کیا یہ موت شہادت والی ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
علماء نے احادیث و آثار کی روشنی میں کچھ امراض واسباب کی نشاندہی کی ہے جن میں وفات پانے والا شخص شہادت کا درجہ پائے گا، ان امراض واسباب میں
بخار سے ہونے والی موت بھی ہے-
-------------------------------------
رک جا! اس (بخار) کو گالی مت دے
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دخل علی ام السانب او المسیب فقال مالک یا ام السانب او ام المسیب تزفز فین قالت: الحمی لا بارک اللہ فیھا: لا تسبی الحمی، فانھا تذھب خطایا بنی آدم کما یذھب الکیر خبث الحدید. 1
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سائب کے ہاں گئے تو وہ (بخار میں سردی لگنے پر) کانپ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تجھے کیا ہوا؟ کہنے لگیں: بخار ہے، اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے۔ تو حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رک جا! اس (بخار) کو گالی مت دے کیونکہ یہ مومن کے گناہوں کو اس طرح لے جاتا ہے جس طرح لوہے کی بھٹی لوہے کے مَیل کو لے جاتی ہے۔ (الادب المفرد) بخار یا کسی بھی بیماری کو ہم برا بھلا کہتے ہیں لیکن ہم اس بات سے لا علم ہوتے ہیں کہ بخار ہمیں گناہوں سے بالکل پاک کردیتا ہے۔ اگر ہمیں ان باتوں کا علم ہو تو ہم ہر بیماری کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سمجھیں کہ یا تو اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمانا چاہتا ہے یا ہمارے درجات بلند کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم یہ یقین رکھیں اور کسی بھی بیماری پر صبر کریں تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا اجز عظیم عطا فرمائے گا۔
1۔ صحیح مسلم شریف، کتاب البروالصلتہ باب المومن جلد 2 صفحہ 319 کتاب: گالی
--------------------------------------------
میں نے بیماری آنے پر اپنے علاج کے لیے صدقہ دیا اور اس صدقہ پر مطمئن رہا (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر مطمئن رہا) اور انگریزی علاج نہیں کروایا لیکن اللہ کی شان اسی بیماری میں میری موت آگئی۔ یہ موت شہادت والی ہے یا حرام؟
الجواب وباللہ التوفیق:
آپ کے سامنے اللہ ے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کونسی بات تھی جس پر آپ مطمئن رہے؟ اسے لکھتے تو اس پر غور کیا جاتا، بہرحال ”علاج“ کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تداووا فإن اللہ لم یضع داءً إلا وضع لہ شفاء غیر داء واحد الہرم یعنی علاج کراوٴ؛ اس لیے کہ ہرمرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے شفا رکھی ہے سوائے موت کے (مشکاة ص: ۳۸۸) اس حدیث کی روشنی میں فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اسبابِ مظنونہ کے درجے میں ڈاکٹر یا حکیم کے ذریعے مرض کا علاج کروانا شرعاً مطلوب ہے، یہ توکل کے منافی نہیں ہے؛ لیکن چوں کہ علاج بہرحال ایک امر ظنی ہے، یقینی نہیں ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص علاج نہ کروائے اور اس بیماری میں وفات پاجائے تو اس پر مواخذہ نہ ہوگا۔ اعلم بأن الأسباب المزیلة للضرر تنقسیم إلے مقطوع بہ کالماء لضرر العطش والخبز المزیل لضرر الجوع و إلی مظنون کالفصد والحجامة وشرب المسہل وسائر أبواب الطب․․․ وإلی موہوم کالکي والرقیة․․․ وأما الدرجة المتوسطة وہي المظنونة کالمداوة بالأسباب الظاہرة عند الأطباء ففعلہ لیس مناقضًا للتوکل الخ (الفتاوی الہندیة: ۵/۳۵۵،ط: زکریا) وفیہا قبل أسطر: والرجل إذا استطلق بطنہ أو رمدت عیناہ فلم یعالج حتی أضعفہ ذلک وأضناہ ومات منہ لا إثم علیہ الخ رہی شہادت والی موت کی بات تو علماء نے احادیث و آثار کی روشنی میں کچھ امراض واسباب کی نشاندہی کی ہے جن میں وفات پانے والا شخص شہادت کا درجہ پائے گا، ان امراض واسباب میں سے بعض یہ ہیں
(۱) پیٹ کی بیماری (استسقاء یا اسہال)
(۲) نمونیہ
(۳) مرگی
(۴) بخار
(۵) آگ میں جلنے یا پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے موت واقع ہوجانا (۶) ولادت کے وقت موت
(۷) اچھو لگنے سے موت واقع ہوجانا
(۸) زہریلے جانور کے ڈسنے سے ہونے والی موت، وغیرہ۔
وکل ذلک في الشہید الکامل وإلا فالمرتث شہید الآخرة وکذا الجنب․․․ والغریق والطریق والغریب والمہدوم علیہ والمطعون والنفساء والمیت لیلة الجمعة وصاحب ذات الجنب (درمختار) أو بالسّلّ ․․․ أو بالصرع أو بالحمّی إلخ (الدر مع الرد: ۳/۱۶۴، باب الشہید ط: زکریا) اور دیکھئے: احکامِ میت موٴلفہ عارف باللہ ڈاکٹر محمد عبدالحی صدیقی عارفی صاحب (ص: ۱۱۳، ۱۱۴)؛ لہٰذا جو شخص اس طرح کی بیماری میں وفات پائے گا اسے آخرت میں شہادت کا درجہ حاصل ہوگا، خواہ اس نے علاج کرایا ہو یا نہ کروایا ہو؛ اس لیے کہ فقہاء نے علاج کے ساتھ اسے مقید نہیں کیا ہے۔
---------------------------------------------------------------------------------
بخار دور کرنے کیلئے دعا
بعض کے مجربات میں سے ہے کہ جس شخص کو بخار چڑھتا ہو وہ یہ دعا کثرت سے پڑھے۔ انشاءاللہ اس کا بخار بہت جلد ختم ہوجائے گا۔
بِسمَ اللّٰہِ الکَبِیرِ اَعُوذُ بِاللّٰہِ العَظِیمِ مِن شَرِّ کُلِّ عِرقِ نَعَّارٍ وَّمِن شَرِّ حَرِّ النَّارِ
بعض کے مجربات میں سے ہے کہ جس شخص کو بخار چڑھتا ہو وہ یہ دعا کثرت سے پڑھے۔ انشاءاللہ اس کا بخار بہت جلد ختم ہوجائے گا۔
بِسمَ اللّٰہِ الکَبِیرِ اَعُوذُ بِاللّٰہِ العَظِیمِ مِن شَرِّ کُلِّ عِرقِ نَعَّارٍ وَّمِن شَرِّ حَرِّ النَّارِ
No comments:
Post a Comment