اللہ اپنی اسکیم میں مداخلت پسند نہیں کرتا!
وہ اپنے ٹارگٹ تک بڑے لطیف اور غیر محسوس طریقے سے پہنچتا ہے!
یوسف علیہ السلام کو بادشاہی کا خواب دکھایا، باپ کو بھی پتہ چل گیا، ایک موجودہ نبی ھے تو دوسرا مستقبل کا نبی ہے! مگر دونوں کو ہوا نہیں لگنے دی کہ یہ کیسے ہوگا!
خواب خوشی کا تھا، مگر چَکہ غم کا چلادیا!
یوسف علیہ السلام دو کلومیٹر دور کنوئیں میں پڑے ھے، خوشبو نہیں آنے دی!
اگر خوشبو آگئی تو باپ ھے رہ نہیں سکے گا، جاکر نکلوا لے گا! جبکہ بادشاہی کے لئے سفر اسی کنوئیں سے لکھا گیا تھا!
سمجھا دوں گا تو بھی اخلاقی طور پہ بہت برا لگتا ھے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو بادشاہ بنانے کے لئے اسے کنوئیں میں ڈال کر درخت کے پیچھے سے جھانک جھانک کے دیکھ رہا ہے کہ قافلے والوں نے اٹھایا ہے یا نہیں! لہذا سارا انتظام اپنے ھاتھ میں رکھا ہے!
اگر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو پتہ ہوتا کہ اس کنوئیں میں گرنا بادشاہ بننا ہے اور وہ یوسف علیہ السلام کی مخالفت کرکے اصل میں اسے بادشاہ بنانے میں اللہ کی طرف سے استعمال ہورہے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی منتیں کرتے کہ مجھے دھکا دے دو!
یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے گھر گئے تو نعمتوں بھرے ماحول سے اٹھاکر جیل میں ڈال دیا کہ، ان مع العسرِ یسراً،
جیل کے ساتھیوں کی تعبیر بتائی تو بچ جانے والے سے کہا کہ میرے کیس کا ذکر کرنا بادشاہ کے دربار میں، مگر مناسب وقت تک یوسف علیہ السلام کو جیل میں رکھنے کی اسکیم کے تحت شیطان نے اسے بھلادیا. یوں شیطان بھی اللہ کی اسکیم کو نہ سمجھ سکا اور بطورِ ٹول استعمال ہوگیا، اگر اس وقت یوسف علیہ السلام کا ذکر ہوجاتا تو یوسف علیہ السلام سوالی ہوتے اور رب کو یہ پسند نہیں تھا، اس کی اسکیم میں بادشاہ کو سوالی بن کر آنا تھا، اور پھر بادشاہ کو خواب دکھاکر سوالی بنایا اور یوسف علیہ السلام کی تعبیر نے ان کی عقل ودانش کا سکہ جمادیا، بادشاہ نے بلایا تو فرمایا: میں باہر نہیں آؤں گا جب تک عورتوں والے کیس میں میری بے گناھی ثابت نہ ہوجائے، عورتیں بلوائی گئیں، سب نے یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی دی اور مدعیہ عورت نے بھی جھوٹ کا اعتراف کرکے کہہ دیا کہ: انا راودتہ عن نفسہ و انہ لمن الصادقین،
وہی قحط کا خواب جو بادشاہ کو یوسف علیہ السلام کے پاس لایا تھا، وہی قحط ہانکا کرکے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو بھی ان کے دربار میں لے آیا اور دکھادیا کہ یہ وہ بے بس معصوم بچہ ہے جسے تمہارے حسد نے بادشاہ بنادیا، فرمایا پہلے بھی تم میرا کرتہ لے کر گئے تھے، جس نے میرے باپ کی بینائی کھالی کیونکہ وہ اسی کرتے کو سونگھ سونگھ کر گریہ کیا کرتے تھے، فرمایا اب یہ کرتہ لے جاؤ، یہ وہ کھوئی ہوئی بینائی واپس لے آئے گا!
اب یوسف علیہ السلام نہیں یوسف علیہ السلام کا کرتا مصر سے چلا ہے تو: کنعان (فلسطین) کے صحراء مہک اٹھے ھیں، یعقوب علیہ السلام چیخ پڑتے ہیں: انی لَاَجِدُ ریح یوسف لو لا ان تفندون،
تم مجھے سٹھیایا ہوا نہ کہو تو ایک بات کہوں" مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے: سبحان اللہ، جب رب نہیں چاہتا تھا تو 2 کلومیٹر دور کے کنوئیں سے خبر نہیں آنے دی، جب سوئچ آن کیا ہے تو مصر سے کنعان تک خوشبو سفر کرگئی ہے!
واللہ غالبٓ علی امرہ ولٰکن اکثر الناس لا یعلمون!
اللہ جو چاہتا ہے وہ کرکے ہی رہتا ہے مگر لوگوں کی اکثریت یہ بات نہیں جانتی!
یاد رکھیں آپ کے حاسدین کی چالیں اور حسد شاید آپ کے بارے میں اللہ کی خیر کی اسکیم کو ہی کامیاب بنانے کی کوئی خدائی چال ہو، انہیں کرنے دیں جو وہ کرتے ھیں، اللہ پاک سے خیر مانگیں!
منقول
حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کو ”احسن القصص“ یعنی تمام قصوں میں سب سے اچھا قصہ فرمایا۔ اس لیے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی مقدس زندگی کےا تار چڑھاؤ اور رنج وراحت اورغم وسرور کے مدوجزر میں ہرایک واقعہ بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے سامان اپنے دامن لیے ہوئے ہے۔ ہم اس قصہ کا خلاصہ تحریرکرتے ہیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے ان کے نام یہ ہیں:
1۔ یہودہ
2۔ روبیل
3۔ شمعون
4۔ لاوی
5۔ زبولون
6۔ یجر
7۔ دان
8۔ فتائی ۔
9۔ جاد
10۔ آسر
11۔ یوسف۔
12۔ بنیامین
ان میں حضرت بنیامین حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی تھے ۔باقی دوسری ماؤں سے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے تمام بھائیوں میں سب سے زیادہ اپنے باپ کے پیارے تھے ۔ا ورچونکہ ان کی پیشانی پر نبوت کے نشان درخشاں تھے اس لیے حضرت یعقوب علیہ السلام ان کا بے حدا حترام کرتے ان سے انتہائی محبت فرماتے تھے ۔ سات برس کی عمر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاندسورج ان کو سجدہ کررہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب اپنا خواب اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کو سنایا توآپ نے ان کو منع فرمایا کہ پیارے بیٹے! خبردار تم اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے مت بیان کرنا ورنہ وہ لوگ جذبہ حسد میں تمہارے خلاف کوئی چال چل دیں گے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان کے بھائیوں کو ان پر حسد ہونے لگا۔ یہاں تک کہ سب بھائیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان کو کس طرح گھر سے لے جاکر جنگل کے کنویں میں ڈال دیا جائے؟ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے سب بھائی جمع ہو کر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس گئے۔ اور بہت اصرار کرکے شکار اور تفریح کا بہانہ بناکر ان کو گھر سے کندھوں پر بٹھاکر لے چلے۔ لیکن جنگل میں پہنچ کر دشمنی کے جوش میں ان کو زمین پر پٹخ دیا اور سب نے بہت زیادہ مارا، پھر ان کا کرتا اتارکر اور ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک گہرے اندھیرے کنویں میں گرادیا۔ لیکن فوراً ہی حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کنویں میں تشریف لاکر ان کو غرق ہونے سے اس طرح بچالیاکہ ان کو ایک پتھر پر بٹھادیا جو اس کنویں میں تھا اور ہاتھ پاوں کھول کرتسلی دیتے ہوئے ان کا خوف وہراس دورکردیا اور گھر سے چلتے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کا جو کرتا تعویذ بناکر آپ کے گلے میں ڈال دیا تھا وہ نکال کر انہیں پہنادیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے اس اندھیرے کنویں میں روشنی ہوگئی۔ یہ کرتا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تھا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی آپ کو کنویں میں ڈال کر آپ کے پیراہن کو بکری کے خون سے لت پت کرکے اپنے گھرکو روانہ ہوگئے۔ اور مکان کے باہر ہی سے چیخیں مارکر رونے لگے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام گھبراکر گھر سے باہر نکلے۔ اور رونے کا سبب پوچھا کہ ”تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ ”کیا تمہاری بکریوں کو نقصان پہنچ چکا ہے یا پھر۔۔۔۔؟ حضرت یعقوب علیہ السلام نے دریافت کیا کہ ”یوسف کہاں ہے؟“ میں اس کو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ تو بھائیوں نے روتے ہوئے کہا کہ ہم کھیلتے ہوئے دور نکل گئے اور یوسف علیہ السلام کو اپنا سامان کے پاس بٹھادیا۔ تو ایک بھیڑیا آیا اور بھائی کو کھاگیا۔ یہ ان کا کرتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اشک بار ہوکر اپنے نور نظر کے کرتے کو جب ہاتھ میں لے کرغورسے دیکھا توکیادیکھتے ہیں کہ کرتاتو بالکل سلامت ہے ۔ کرتا کہیں سے بھی پھٹا ہوا نہیں ہے۔ (ان لوگوں نے کرتے میں خون تو لگایا تھا لیکن پھاڑنا بھول گئےتھے۔) آپ ان لوگوں کے مکر اور جھوٹ کو بھانپ گئے۔ اورفرمایا کہ: بڑا ہوشیاراورسیانا بھیڑ تھا کہ میرے یوسف کو تو پھاڑ کر کھاگیا مگر ان کے کرتے پر ایک ذراسی خراش بھی نہیں آئی۔ توآپ نے صاف صاف فرمادیا کہ یہ سب تم لوگوں کی کارستانی اورمکروفریب ہے۔ پھر آپ نے دکھے دل اوردرد بھری آواز میں فرمایا کہ:
فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ سورہ یوسف، آیت ۱۸
اب تو میرے لیے صبر ہی بہتر ہے۔ اور جو باتیں تم بنارہے ہو، ان پر اللہ ہی کی مدد درکار ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام تین دن اس کنویں میں تشریف فرما رہے۔ یہ کنواں کھارا تھا مگرآپ کی برکت سے اس کا پانی بہت ہی شیریں/ میٹھا ہوگیا۔ اتفاق سے ایک قافلہ مدین سے مصر جارہا تھا۔ جب اس قافلے کا ایک آدمی جس کا نام مالک بن ذعرخزاعی تھا۔ پانی بھرنے کے لیے آیا۔ کنویں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام ڈول پکڑکر لٹک گئے۔ مالک بن ذعر نے ڈول کھینچا توآپ کنویں سے باہر نکل آئے جب اس نے آپ کے حسن وجمال کو دیکھا تو ”یبشریٰ ھذا غلام“ یہ کہہ کر ا پنے ساتھیوں کو خوش خبری سنانے لگا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جو اس جنگل میں روزانہ بکریاں چرایا کرتے تھے۔ روزانہ کنویں میں جھانک جھانک کردیکھا کرتے تھے۔ جب ان لوگوں نے آپ کو کنویں میں نہیں دیکھا تو تلاش کرتے ہوئے قافلے کے پاس جاپہنچے۔ اور آپ کو دیکھتے ہی کہنے لگے یہ تو ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے۔ جو بالکل ہی ناکارہ اور نافرمان ہے۔ اگر تم اس کو خریدو تو بہت ہی سستا تمہیں فروخت کردیں گے مگرشرط یہ ہے کہ تم لوگ اس کو یہاں سے اتنی دور لے جاکر فروخت کرنا کہ یہاں تک اس کی خبر تک نہ پہنچے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بھائیوں کے خوف سے خاموش کھڑے رہے۔اور ایک لفظ بھی نہ بولے پھر ان کے بھائیوں نے ان کو مالک بن ذعر کے ہاتھوں 20 درہم میں فروخت کردیا۔ مالک بن ذعر نے ان کو خرید کر مصر کے بازار کا رخ کیا۔ اور بازار میں ان کو فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ ان دنوں مصرکا بادشاہ ریان بن ولید عملیق تھا۔ اوراس نے اپنے وزیراعظم قطفیر مصری کو مصر کی حکومت اور خزانے سونپ دئیے تھے۔ اور مصر میں لوگ اس کو عزیز مصر کے خطاب سے پکارتے تھے۔ جب عزیز مصر کو معلوم ہوا کہ بازار مصر میں ایک بہت ہی خوبصورت غلام فروخت کے لیے لایا گیا ہے۔ اور لوگ اس کی خریداری کے لیے بڑی بڑی رقمیں لے کر بازار میں جمع ہوگئے۔ توعزیز مصر نےحضرت یوسف علیہ السلام کے وزن کے برابر سونا اور اتنی ہی چاندی اور اتنا ہی مشک اتنے ہی حریر قیمت دے کر خرید لیا۔ اور گھر لے جاکر اپنی بیوی ”زلیخا “ سے کہا کہ اس غلام کو نہایت ہی اعزاز واکرام کے ساتھ رکھو اس وقت آپ کی عمر 13 یا 17 برس تھی۔
زلیخا حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کے فریفتہ ہوگئی۔ ایک دن خوب بناؤ سنگھار کرکے تمام دروازوں کو بند کردیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو تنہائی میں لبھانے لگی۔ آپ نے ”معاذ اللہ “ کہہ کر فرمایا کہ: میں اپنے مالک عزیز مصر کے احسان کو فراموش کرکے ہر گز اس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کرسکتا۔ پھر جب خود زلیخا آپ کی طرف لپکی توآپ بھاگ نکلے۔ اور زلیخا نے دوڑکر پیچھے سے آپ کا پیراہن پکڑلیا۔ جو پھٹ گیا اور آپ کے پیچھے زلیخا دوڑتی ہوئی صدر دروازے پر پہنچ گئی۔ اتفاق سے ٹھیک اسی حالت میں عزیز مصر مکان میں داخل ہوا۔ اوردونوں کو دوڑتے ہوئے دیکھ لیا۔
اس وقت زلیخا نے مکاری کی اور فورا بولی:
اس غلام کی سزا یہ ہے کہ اس کو جیل خانہ بھیج دیا جائے یا اور کوئی دوسری سخت سزادی جائے۔ کیونکہ اس نے تمہاری گھروالی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تھا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا:
عزیز مصر! یہ بالکل غلط بیانی کررہی ہےاس نے خود مجھے خود مجھے لبھایا میں اس سے بچنے کے لیے بھاگا تواس نے میرا پیچھا کیا۔ عزیز مصر دونوں کا بیان سن کر حیران رہ گیا۔ اور بولا:
اے یوسف! میں کس طرح یقین کرلوں کہ تم سچے ہو؟
آپ نے فرمایا:
گھر میں 4 مہینے کا ایک بچہ پالنے میں لیٹا ہوا ہے، جو زلیخا کے ماموں کا لڑکا ہے. اس سے دریافت کرلیجیے کہ کیا واقعہ ہے؟
عزیز مصر نے کہا:
بھلا چارماہ کا بچہ کیا جانے اور وہ کیسے بولے گا؟
آپ نے فرمایا:
اللہ اس کو ضرور میری بے گناہی کی شہادت دینے کی قدرت عطا فرمائے گا کیونکہ میں میں بے قصور ہوں۔
چنانچہ عزیز مصر نے جب اس بچے سے پوچھا تو اس بچے نے بآواز بلند فصیح زبان میں یہ کہا:
اِنْ كَانَ قَمِيْصُهٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ 26 وَاِنْ كَانَ قَمِيْصُهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ 27 (سورہ یوسف)
اگر یوسف کی قمیص سامنے کی طرف سے پھٹی ہو تو عورت سچ کہتی ہے، اور وہ جھوٹے ہیں اور اگر ان کی قمیص پیچھے کی طرف سے پھٹی ہے تو عورت جھوٹ بولتی ہےاور یہ سچے ہیں۔
بچے کی زبان سے عزیز مصر نے یہ شہادت سن کر جو دیکھا تو ان کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا تھا تو اس وقت عزیز مصرنے حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا:
فَلَمَّا رَاٰ قَمِيْصَهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّهٗ مِنْ كَيْدِكُنَّ ۭ اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌ28 (سورۃ یوسف)
پھر جب شوہر نے دیکھا کہ ان کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو اس نے کہا کہ : یہ تم عورتوں کی مکاری ہے، واقعی تم عورتوں کی مکاری بڑی سخت ہے۔
يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا وَاسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۢبِكِ ښ اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخطئین29ۧ (سورۃ یوسف)
یوسف! تم اس بات کا خیال نہ کرو، اور اے عورت! تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، یقینی طور پر تو ہی خطاکار تھی۔
شہر کی معززعورتوں میں اس واقعے کا چرچا ہونے لگا۔ کہنے لگیں کہ عزیز مصر کی بیوی اپنے غلام کو ورغلا نا چاہتی تھی، یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے!!! جب زلیخا نے یہ بات سنی توان عورتوں کو دعوت بھیجی اور پھل وغیرہ ان کے سامنے رکھے۔ اورایک چھری پکڑوادی اور حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ ذرا ان کے سامنے آئیے! جب ان عورتوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا توحیرت کے مارے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پھل کاٹنے کی بجائے اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ بولیں یہ تو انسان نہیں ہے بلکہ یہ فرشتہ ہے۔ ان خواتین نےاپنے اپنے طور سے یوسف علیہ السلام کو اپنے جال میں پھنسانا چاہا، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام ان کے دامن ِ فریب میں نہ پھنسے۔
جب اس طرح کے واقعات بڑھ گئے تو وزراء اورارکان سلطنت سے عزیز مصر نے مشورہ کیا اور طے پایا کہ یوسف علیہ السلام کو قید خانہ بھجوادیا جائے۔ آپ نے جیل پہنچ کر فرمایا:
اے اللہ! یہ قید خانہ کی کوٹھری مجھ کو اس بلا سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف زلیخا اور خواتین ِمصر مجھے بلارہی تھی۔
آپ سات یا بارہ برس جیل خانہ میں رہے۔ اور قیدیوں میں توحید اور اعمال صالحہ کی دعوت فرماتے رہے۔ تمام قیدی آپ کے حسن اخلاق اور آپ کے کردار کے گرویدہ ہوگئے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس دن آپ قید خانے میں داخل ہوئے اس دن آپ کے ساتھ بادشاہ مصر کے دو خادم ایک شراب پلانے والا دوسرا باورچی دونوں جیل خانے میں داخل ہوئے۔ دونوں پر الزام تھا کہ انھوں نے بادشاہ کے کھانے میں زہر ملایا ہے۔ ان دونوں نے جیل میں خواب دیکھا، دونوں نے اپنا اپنا خواب حضرت یوسف علیہ السلام سے بیان کیا جس کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے بیان کی جو سو فیصد صحیح ثابت ہوئی۔
پہلے کا خواب یہ تھا کہ: إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ میں نے دیکھا ہے کہ میں نچوڑ رہا ہوں شراب کا رس۔ اس کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے کچھ یوں دی کہ تم الزام سے بری ہوجاؤگےاور دوبارہ اپنے عہدے پر بحال ہوکر اپنے مالک کو شراب پلاؤ گے ۔
دوسرے کا خواب یہ تھا کہ: وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ ۖ (سورۃ یوسف) میں نے دیکھا ہے میں اٹھائے ہوئے ہوں اپنے سر پرروٹی کہ کھارہے ہیں اس میں سے پرندے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر بیان کی کہ تمہیں سولی پر لٹکایا جائے گا اور تمہارے سر کو پرندے نوچ نوچ کر کھائیں گے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ساقی بری ہوگیا اور باورچی کو سزائے موت ہوگئی۔ قیدخانے میں آپ کا نام معبر یعنی تعبیر دینے والا مشہور ہوگیا۔
اسی دوران مصر کے بادشاہ اعظم ریان بن ولید نے بھی خواب دیکھا ـ
اَرٰي سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ ۭ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِيْ فِيْ رُءْيَايَ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْيَا تَعْبُرُوْنَ 43 (سورۃ یوسف)
میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں، نیز سات خوشے ہرے بھرے ہیں، اور سات اور ہیں جو سوکھے ہوئے ہیں۔ اے درباریو! اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو تو میرے اس خواب کا مطلب بتاؤ۔
بادشاہ اعظم نےا پنے درباریوں اس خواب کی تعبیر دریافت کی تو لوگوں نے اس خواب کو خواب پریشان کہہ کر اس کی کوئی تعبیر نہ بتائی. اتنے میں بادشاہ کا ساقی جو قید خانے سے رہا ہوکر آگیا تھا. اس نے کہا کہ مجھے اس خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے جیل خانے میں جانے کی اجازت دے دی جائے چنانچہ یہ بادشاہ کا قاصد بن کر قید خانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس گیا۔ بادشاہ کا خواب بیان کر کے تعبیر دریافت کی کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ سات برس مسلسل کھیتی کرواور ان کےا ناجوں کو بالیوں میں محفوظ رکھو پھر سات برس تک سخت خشک سالی رہے گی۔ قحط کے ان سات برسوں میں پہلے سات برسوں کا محفوظ کیا ہوا اناج لوگ کھائیں گے۔ اس کے بعد پھر ہریالی کا سال آئے گا۔
قاصد نے واپس جاکربادشاہ سے اس کے خواب کی تعبیر بتائی تو بادشاہ نے حکم دیاکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانے سے نکال کر میرے دربار میں لاؤ۔ قاصد رہائی کا پروانہ لے کر جیل خانہ میں پہنچا۔ تو آپ نے فرمایا کہ پہلے زلیخا اوردوسری عورتوں کے ذریعے میری بے گناہی اور پاک دامنی کا اظہار کروالیا جائے۔ اس کے بعد ہی جیل سے باہرنکلوں گا۔ چنانچہ بادشاہ نےاس کی تحقیقات کروائی۔ تو تحقیقات کے دوران زلیخا نے اقرارکرلیا کہ میں نے خود ہی حضرت یوسف علیہ السلام کو پھسلایا تھا۔ خطا میری ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام سچے اور پاک دامنی ہیں۔ اس کے بعد بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دربار میں بلا کر کہا کہ آپ ہمارے دربار کے معزز ہیں۔ قحط سالی کے بعد یہ مشورہ ہوا وزراء سے مشورہ ہوا اورآپ سے بھی تو حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا کہ آپ زمین کے خزانے کے انتظامی امور اورحفاظتی نظام کے انتظام پر میرا تقرر کردیں۔ میں پورے نظام کو سنبھال لوں گا۔ بادشاہ نے خزانےکا انتظامی معاملہ اور ملک کے نظام کا پورا شعبہ آپ کے سپرد کردیا۔ اس طرح ملک مصر کی حکمرانی کا اقتدار آپ کو مل گیا۔
اس کے بعد آپ نے خزانوں کا نظام اپنے ہاتھ میں سات سال تک کھیتی کی۔ اور اناجوں اور بالیوں میں محفوظ رکھا یہاں تک کہ قحط اورخشک سالی کا زورشروع ہوگیا تو پوری سلطنت کے لوگ غلے کی خریداری کے لیے مصر آنا شروع ہوگئے اوران کے غلے کی فروخت شروع ہوگئی. اس سلسلے میں آپ کے بھائی کنعان سے مصر آئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان لوگوں کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں پہچان لیا۔ ان کے بھائیوں نے آپ کو نہ پہنچانا۔ آپ نے ان لوگوں کو غلہ دے دیا اور پھر فرمایا:
مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارا ایک بھائی یہ بھی ہے۔ آئندہ اس کو ساتھ لے کرآنا اگر تم لوگ ان کوساتھ نہ لائے تو تمہیں غلہ نہیں ملے گا۔
بھائیوں نے جواب دیا:
ہم اس کے والد کو رضامند کرنے کی کوشش کریں گے۔
پھر حضرت یوسف علیہ السلام اپنے غلاموں سے کہا کہ تم لوگ ان کی نقدیوں کو ان کی بوریوں میں ڈال دو۔ یہ لوگ جب اپنے گھر پہنچیں اور نقدیوں کو دیکھیں گے تو ضرور واپس آئیں گے۔
چنانچہ یہ لوگ اپنے والد کے پاس پہنچے تو کہنے لگے:
اباجان! اب کیا ہوگا؟ عزیز مصر نے یہ کہہ دیا جب تک تم لوگ بنیامین کو ساتھ لے کر نہ آؤ گے تمہیں غلہ نہیں ملے گا۔ لہذا آپ بنیامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔ تاکہ ہم ان کے حصے کا بھی غلہ لے لیں۔ اورآپ اطمینان رکھیں کہ ہم لوگ ان کی حفاظت کریں گے۔
اس کے بعد جب ان لوگوں نے اپنی بوریوں کو کھولا تو حیران رہ گئے کہ ان کی رقمیں اور نقدیاں ان کی بوریوں میں موجود تھی یہ دیکھ کر برادرز یوسف علیہ السلام نے پھر اپنے والد سے کہا:
اباجان! اس سے بڑھ کر اچھا سلوک کیا چاہیے؟ دیکھ لیجیے! عزیز مصر نے ہم کو پورا غلہ بھی دیا ہے اور ہماری نقدیوں کو بھی واپس کردیا ہے لہذا آپ بلاخوف وخطر ہمارے بھائی بنیامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:
میں ایک مرتبہ یوسف کے معاملہ میں تم لوگوں پر بھروسہ کرچکا ہوں، اب میں دوبارہ تم لوگوں پر بھروسہ کیسے کروں۔ میں اس طرح بنیامین کو ہرگز تم لوگوں کے ساتھ نہیں بھیجوں گا۔ لیکن ہاں اگر تم لوگ جاؤ اٹھاکر میرے سامنے عہد کرو تو البتہ میں اس کو بھیج سکتا ہوں۔
یہ سن کر بھائیوں نے حلف کا عہد اٹھالیا۔ اورآپ نے ان لوگوں کے ساتھ بنیامین کو بھیج دیا۔ جب یہ لوگ عزیز مصر کے دربار میں پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی بنیامین کو اپنی مسند میں بٹھادیا۔ اور چپکے سے ان سے کہا کہ میں تمہارا بھائی (یوسف) ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت یوسف علیہ السلام نے یہاں ایک چال چلی ان تمام بھائیوں کی بوریاں اناج سے بھردی اور اپنے بھائی بنیامین کے سامان میں پیالہ / پیمانہ شاہی رکھوادیا۔ پھر ایک پکارنے والے نے پکارا:
تم تو چور ہو۔
وہ سارے بھائی متوجہ ہوگئے۔ اور ان سے کہنے لگے:
تم کیا گم کر بیٹھے ہو؟
وہ بولے ہمارا ایک شاہی پیالہ گم ہوا ہے۔ جو اسے ڈھونڈ کر لائےگا اسے ایک اونٹ کا بوجھ ملے گا۔
سارے بھائی بولے:
اللہ کی قسم ہم توچور نہیں ہیں ۔
پکارنے والے نے کہا:
اگر تم پر چوری ثابت ہوجائے تو کیا سزا ہے؟
وہ بھائی بولے:
جس کے پاس سے وہ پیالہ/ پیمانہ شاہی نکلے وہ بندہ ہی اس کی سزا ہے (ا س لیے کہ ان کی شریعت میں چور کی یہی سزا تھی)
پھر انہوں نے سامان کی تلاش شروع کی پہلے دوسرے بھائیوں کا سامان کھنگالا اور آخر میں بنیامین کے سامان کی تلاشی لی۔ بنیامین کے سامان سے وہ پیالہ / پیمانہ شاہی نکال لیا گیا۔
بھائی بولے:
اس نے چوری کی ہے تو اس کا بھائی بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے۔
پھر کہنے لگا:
اے عزیز! بے شک ہمارا باپ بوڑھا اور لمبی عمر والا ہے اس کی جگہ ہمیں پکڑلوو ہم دیکھتے ہیں آپ کو احسان کرنے والوں میں سے“۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم اللہ کی پناہ پکڑیں سوائے اس کے کہ ہم نے پایا اپنا سامان جس کے پاس۔ بے شک میں اس وقت ظالموں سے ہوں گا۔
اب برادران یوسف سخت پریشان ہوئے اپنے والد کے روبرو یہ عہد کرکے آئے تھے کہ ہم اپنی جان پر کھیل کر اس کی حفاظت کریں گے۔ اور یہاں بنیامین ان کے ہاتھوں سے چھین لیےگئے اب گھر جائیں تو کیسے؟ اور ٹھہریں تو کیسے؟
یہ معاملہ دیکھ کر سب سے بڑا بھائی یہودا کہنے لگا:
میرے بھائیو! سوچو تم نے اپنے والد کو کیا عہد دیا ہے؟ اس سے پہلے بھی تم اپنے بھائی یوسف کے ساتھ کتنی بڑی کوتاہی کرچکے ہو۔ لہذا میں تواس وقت تک یہاں سے نہ جاؤں گا جب تک والد صاحب خود آنے کا فرمائیں یا اللہ تعالی اس معاملے کو حل فرمادیں!
چنانچہ یہودا کے سوا دوسرے سب بھائی لوٹ کر گھر آئے اور اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے سارا حال بیان کردیا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:
یوسف کی طرح بنیامین کے معاملے میں بھی تم لوگوں نے حیلہ بازی کی ہے۔ خیر! میں صبر کرتا ہوں اور صبر بہت اچھی چیز ہے۔
پھر آپ نے منہ پھیرکر رونا شروع کردیا اور کہا:
ہائے افسوس! میرا یوسف!
اور یوسف علیہ السلام کو یاد کرکے اتنا روئے کہ شدت غم سے نڈھال ہوگئے اور روتے روتے آنکھیں سفید ہوگئیں۔ آپ کی زبان سے یوسف علیہ السلام کا نام سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام سے ان کے بیٹوں، پوتوں نے کہا:
اباجان! آپ ہمیشہ یوسف علیہ السلام کو ہی یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ لب گور ہوجائیں یا جان سے گزرجائیں، اپنے بیٹوں، پوتوں کی بات سن کر آپ نے فرمایا:
’’میں اپنے غم اور پریشانی کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں۔ اور میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم لوگوں کو معلوم نہیں۔‘‘
پھر فرمایا:
میرے بیٹوں تم لوگ جاؤ۔ یوسف اور اس کے بھائی بنیامین کو تلاش کرو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہونا! اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجانا کافروں کا کام ہے۔
چنانچہ برادران یوسف پھرمصر کو روانہ ہوئے اور جاکر عزیز مصر سے کہا:
اے عزیز مصر! ہمارے گھروالوں کو بہت بڑی مصیبت پہنچ چکی ہے۔
اپنے بھائیوں کی زبان سے گھر کی داستان سن کر حضرت یوسف علیہ السلام پر رقت طاری ہوگیا۔ اور آپ نے بھائیوں سے پوچھا:
تم لوگوں کو یاد ہے تم لوگوں نے یوسف اور اس کے بھائی بنیامین کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
یہ سن کر بھائیوں نے حیران ہوکر پوچھاـ
سچ سچ آپ یوسف علیہ السلام ہیں؟
آپ نے فرمایا:
ہاں! میں ہی یوسف ہوں۔ اور بنیامین میرا بھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پربڑا فضل واحسان کیا ہے۔
یہ سن کر بھائیوں نے نہایت شرمندگی اور لجاجت کے ساتھ کہنا شروع کیا کہ بے شک ہم لوگ واقعی بڑے خطاکار ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہم پر بڑی فضیلت بخشی ہے۔ بھائیوں کی شرمندگی اور لجاجت سے متاثر ہوکرآپ کا دل بھر آیا۔ آپ نے فرمایا:
آج میں تم لوگوں کو ملامت نہیں کروں گا، جاؤ میں نے سب کچھ معاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ تم کو معاف فرمائے۔ اب تم لوگ یہ میرا کرتا لے جاؤ اور اباجان کے چہرے پر ڈال دو تو ان کی آنکھوں میں روشنی آجائے گی۔ پھر تم سب گھروالوں کو ساتھ لے کر مصر چلے آؤ۔
بڑا بھائی کہنے لگا:
یہ کرتا میں لے کر جاؤں گا کیونکہ میں ہی آپ کا کرتا بکری کے خون میں رنگ کرکے اپنے والد کے پاس لے گیا تھا اور انہیں یہ کہہ کر غمگین کردیا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھاگیا۔ تو میں نے ہی انہیں غمگین کیا تھا اور آج حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کی خوشخبری بھی میں ہی سناؤں گا۔ اور ان کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔
یہودا اس کرتے کو لے کر اسی کوس تک ننگے سر دوڑتا ہوا چلاگیا۔ راستے کی خوراک کےلیے اس کے پاس سات روٹیاں تھیں مگر فرط مسرت اور جلد سے جلد سفر طے کرکے والد محترم کے پاس جا پہنچا۔ یہودا جیسے ہی کرتا لے کر مصر سے کنعان کی طرف روانہ ہوا ادھر کنعان میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو محسوس ہوئی۔ آپ نے اپنے پوتوں سے فرمایا:
اِنِّىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ 94 (سورہ یوسف)
اگر تم مجھے یہ نہ کہو کہ بوڑھا سٹھیا گیا ہے، تو مجھے تو یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔
آپ کے پوتوں نے جواب دیا:
خدا کی قسم! آپ اب بھی اس پرانی سی بات پر پڑے ہوئے ہیں۔ بھلا کہاں یوسف ہیں اور کہاں ان کی خوشبو؟
لیکن جب یہودا کرتا لے کر کنعان پہنچا اور جیسے ہی کرتے کو حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالا تو فوراً ہی ان کی آنکھوں کی روشنی لوٹ آئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:
فَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَ الْبَشِيْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰي وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِيْرًا ۚ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ ڌ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 96
پھر جب خوشخبری دینے والا پہنچ گیا تو اس نے (یوسف کی) قمیص ان کے منہ پر ڈال دی، اور فورا ان کی بینائی واپس آگئی۔ انہوں نے (اپنے بیٹوں سے) کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اللہ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے؟
پھر یعقوب علیہ السلام نے تہجد کےوقت کے بعد اپنے سب بیٹوں کے لیے دعائے مغفرت فرمائی اور یہ دعا مقبول ہوگئی۔ چنانچہ آپ پر وحی اتری کہ آپ نے صاحبزادوں کی خطائیں بخش دی گئی ہیں۔
پھر مصر کو روانگی کا سامان ہوا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نےا پنے والد اور سب گھر نے اہل وعیال لانے کے لیے بھائیوں کے ساتھ دو سو سواریاں بھیج دیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے گھر والوں کو جمع کیا تو کل بہتر یا تہتر آدمی تھے۔ جن کو ساتھ لے کر مصرروانہ ہوگئے، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی نسل میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو چھ لاکھ سے زیادہ تھے۔ حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے مصر جانے سے صرف چارسوسال بعد کا زمانہ ہے۔ جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ مصر کے قریب پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے چار ہزار لشکر اور بہت سے مصری سواروں کو ساتھ لے کر آپ کا استقبال کیا۔ اور جھنڈے اور قیمتی پرچم لہراتے ہوئے قطاریں باندھے مصری باشندے جلوس کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے فرزند یہودا کو کہا:
یہ فرعون مصر کا لشکر ہے؟
تو یہودا نے عرض کیا:
جی نہیں۔ یہ آپ کے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو اپنے لشکروں اور سواروں کے ساتھ استقبال کے لیے آئے ہوئے ہیں۔
آپ کو متعجب دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا:
اے اللہ کے نبی! سراٹھا کر فضائے آسمانی میں نظر فرمائیے کہ آ پ کے سرورشادمانی میں شرکت کے لیے ملائکہ کا جم غفیر حاضر ہے۔ جو مدتوں آپ کے غم میں روتے رہیں۔ ملائکہ کی تسبیح اور گھوڑوں کی ہنہناہٹ ا ور طبل وبوق کی آوازوں نے عجیب سا سماں پیدا کردیا تھا۔ جب باپ بیٹے دونوں قریب ہوگئے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے سلام کا ارادہ کیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ آپ ذرا توقف کیجیے۔ چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان لفظوں میں ان کو سلام کہا کہ السلام علیک یا مذھب الاحزان ”اے تمام غموں کو دور کرنے والے آپ پر سلام ہو۔
پھر باپ بیٹے بڑی گرمجوشی سے ملے اور فرط مسرت میں دونوں خوب روئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے سہارادے کر اپنے والد محترم کو تخت شاہی پر بٹھادیا ۔ اور آپ کے ارد گرد گیارہ بھائی اورآپ کی والدہ بیٹھ گئے، اور سب کے سب حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے سجدے میں گر پڑے۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا:
ترجمہ: اے اباجان! یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بے شک اسے میرے رب نے سچا کیا۔ اور بے شک اس نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے قید سے نکالا اور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا۔ اس کے بعد شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کروادی۔ بے شک میرا رب جس بات کو چاہے آسان کردے اور بے شک وہی علم وحکمت والا ہے۔ یعنی میرے گیارہ بھائی ستارے ہیں اور میرے باپ سورج اور میری والدہ چاند ہیں اور یہ سب مجھ کو سجدہ کررہے ہیں۔
یہ تاریخی واقعہ محرم کی دس تاریخ عاشورہ کے دن وقوع پذیر ہوا، حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کے وقت آپ کی عمر ایک سو برس تھی۔ تو حضرت یوسف علیہ السلام کو سنگ مرمر لکڑی کے صندوق میں ڈال دیا تھا۔ اورا ن لوگوں نے حصول برکت لیے بیچ وبیچ دریائے نیل میں رکھ دیا۔ پھر چار سو برس بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دریائے نیل سے نکال کر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پہلو مبارک ملک شام میں دفن کردیا گیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحٰق علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر مبارک ملک شام میں ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ
یوسف علیہ السلام کو بادشاہی کا خواب دکھایا، باپ کو بھی پتہ چل گیا، ایک موجودہ نبی ھے تو دوسرا مستقبل کا نبی ہے! مگر دونوں کو ہوا نہیں لگنے دی کہ یہ کیسے ہوگا!
خواب خوشی کا تھا، مگر چَکہ غم کا چلادیا!
یوسف علیہ السلام دو کلومیٹر دور کنوئیں میں پڑے ھے، خوشبو نہیں آنے دی!
اگر خوشبو آگئی تو باپ ھے رہ نہیں سکے گا، جاکر نکلوا لے گا! جبکہ بادشاہی کے لئے سفر اسی کنوئیں سے لکھا گیا تھا!
سمجھا دوں گا تو بھی اخلاقی طور پہ بہت برا لگتا ھے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو بادشاہ بنانے کے لئے اسے کنوئیں میں ڈال کر درخت کے پیچھے سے جھانک جھانک کے دیکھ رہا ہے کہ قافلے والوں نے اٹھایا ہے یا نہیں! لہذا سارا انتظام اپنے ھاتھ میں رکھا ہے!
اگر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو پتہ ہوتا کہ اس کنوئیں میں گرنا بادشاہ بننا ہے اور وہ یوسف علیہ السلام کی مخالفت کرکے اصل میں اسے بادشاہ بنانے میں اللہ کی طرف سے استعمال ہورہے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی منتیں کرتے کہ مجھے دھکا دے دو!
یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے گھر گئے تو نعمتوں بھرے ماحول سے اٹھاکر جیل میں ڈال دیا کہ، ان مع العسرِ یسراً،
جیل کے ساتھیوں کی تعبیر بتائی تو بچ جانے والے سے کہا کہ میرے کیس کا ذکر کرنا بادشاہ کے دربار میں، مگر مناسب وقت تک یوسف علیہ السلام کو جیل میں رکھنے کی اسکیم کے تحت شیطان نے اسے بھلادیا. یوں شیطان بھی اللہ کی اسکیم کو نہ سمجھ سکا اور بطورِ ٹول استعمال ہوگیا، اگر اس وقت یوسف علیہ السلام کا ذکر ہوجاتا تو یوسف علیہ السلام سوالی ہوتے اور رب کو یہ پسند نہیں تھا، اس کی اسکیم میں بادشاہ کو سوالی بن کر آنا تھا، اور پھر بادشاہ کو خواب دکھاکر سوالی بنایا اور یوسف علیہ السلام کی تعبیر نے ان کی عقل ودانش کا سکہ جمادیا، بادشاہ نے بلایا تو فرمایا: میں باہر نہیں آؤں گا جب تک عورتوں والے کیس میں میری بے گناھی ثابت نہ ہوجائے، عورتیں بلوائی گئیں، سب نے یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی دی اور مدعیہ عورت نے بھی جھوٹ کا اعتراف کرکے کہہ دیا کہ: انا راودتہ عن نفسہ و انہ لمن الصادقین،
وہی قحط کا خواب جو بادشاہ کو یوسف علیہ السلام کے پاس لایا تھا، وہی قحط ہانکا کرکے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کو بھی ان کے دربار میں لے آیا اور دکھادیا کہ یہ وہ بے بس معصوم بچہ ہے جسے تمہارے حسد نے بادشاہ بنادیا، فرمایا پہلے بھی تم میرا کرتہ لے کر گئے تھے، جس نے میرے باپ کی بینائی کھالی کیونکہ وہ اسی کرتے کو سونگھ سونگھ کر گریہ کیا کرتے تھے، فرمایا اب یہ کرتہ لے جاؤ، یہ وہ کھوئی ہوئی بینائی واپس لے آئے گا!
اب یوسف علیہ السلام نہیں یوسف علیہ السلام کا کرتا مصر سے چلا ہے تو: کنعان (فلسطین) کے صحراء مہک اٹھے ھیں، یعقوب علیہ السلام چیخ پڑتے ہیں: انی لَاَجِدُ ریح یوسف لو لا ان تفندون،
تم مجھے سٹھیایا ہوا نہ کہو تو ایک بات کہوں" مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے: سبحان اللہ، جب رب نہیں چاہتا تھا تو 2 کلومیٹر دور کے کنوئیں سے خبر نہیں آنے دی، جب سوئچ آن کیا ہے تو مصر سے کنعان تک خوشبو سفر کرگئی ہے!
واللہ غالبٓ علی امرہ ولٰکن اکثر الناس لا یعلمون!
اللہ جو چاہتا ہے وہ کرکے ہی رہتا ہے مگر لوگوں کی اکثریت یہ بات نہیں جانتی!
یاد رکھیں آپ کے حاسدین کی چالیں اور حسد شاید آپ کے بارے میں اللہ کی خیر کی اسکیم کو ہی کامیاب بنانے کی کوئی خدائی چال ہو، انہیں کرنے دیں جو وہ کرتے ھیں، اللہ پاک سے خیر مانگیں!
منقول
حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کو ”احسن القصص“ یعنی تمام قصوں میں سب سے اچھا قصہ فرمایا۔ اس لیے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی مقدس زندگی کےا تار چڑھاؤ اور رنج وراحت اورغم وسرور کے مدوجزر میں ہرایک واقعہ بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے سامان اپنے دامن لیے ہوئے ہے۔ ہم اس قصہ کا خلاصہ تحریرکرتے ہیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے ان کے نام یہ ہیں:
1۔ یہودہ
2۔ روبیل
3۔ شمعون
4۔ لاوی
5۔ زبولون
6۔ یجر
7۔ دان
8۔ فتائی ۔
9۔ جاد
10۔ آسر
11۔ یوسف۔
12۔ بنیامین
ان میں حضرت بنیامین حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی تھے ۔باقی دوسری ماؤں سے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے تمام بھائیوں میں سب سے زیادہ اپنے باپ کے پیارے تھے ۔ا ورچونکہ ان کی پیشانی پر نبوت کے نشان درخشاں تھے اس لیے حضرت یعقوب علیہ السلام ان کا بے حدا حترام کرتے ان سے انتہائی محبت فرماتے تھے ۔ سات برس کی عمر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاندسورج ان کو سجدہ کررہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب اپنا خواب اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کو سنایا توآپ نے ان کو منع فرمایا کہ پیارے بیٹے! خبردار تم اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے مت بیان کرنا ورنہ وہ لوگ جذبہ حسد میں تمہارے خلاف کوئی چال چل دیں گے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان کے بھائیوں کو ان پر حسد ہونے لگا۔ یہاں تک کہ سب بھائیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ان کو کس طرح گھر سے لے جاکر جنگل کے کنویں میں ڈال دیا جائے؟ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے سب بھائی جمع ہو کر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس گئے۔ اور بہت اصرار کرکے شکار اور تفریح کا بہانہ بناکر ان کو گھر سے کندھوں پر بٹھاکر لے چلے۔ لیکن جنگل میں پہنچ کر دشمنی کے جوش میں ان کو زمین پر پٹخ دیا اور سب نے بہت زیادہ مارا، پھر ان کا کرتا اتارکر اور ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک گہرے اندھیرے کنویں میں گرادیا۔ لیکن فوراً ہی حضرت جبرئیل علیہ السلام نے کنویں میں تشریف لاکر ان کو غرق ہونے سے اس طرح بچالیاکہ ان کو ایک پتھر پر بٹھادیا جو اس کنویں میں تھا اور ہاتھ پاوں کھول کرتسلی دیتے ہوئے ان کا خوف وہراس دورکردیا اور گھر سے چلتے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کا جو کرتا تعویذ بناکر آپ کے گلے میں ڈال دیا تھا وہ نکال کر انہیں پہنادیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے اس اندھیرے کنویں میں روشنی ہوگئی۔ یہ کرتا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تھا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی آپ کو کنویں میں ڈال کر آپ کے پیراہن کو بکری کے خون سے لت پت کرکے اپنے گھرکو روانہ ہوگئے۔ اور مکان کے باہر ہی سے چیخیں مارکر رونے لگے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام گھبراکر گھر سے باہر نکلے۔ اور رونے کا سبب پوچھا کہ ”تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ ”کیا تمہاری بکریوں کو نقصان پہنچ چکا ہے یا پھر۔۔۔۔؟ حضرت یعقوب علیہ السلام نے دریافت کیا کہ ”یوسف کہاں ہے؟“ میں اس کو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ تو بھائیوں نے روتے ہوئے کہا کہ ہم کھیلتے ہوئے دور نکل گئے اور یوسف علیہ السلام کو اپنا سامان کے پاس بٹھادیا۔ تو ایک بھیڑیا آیا اور بھائی کو کھاگیا۔ یہ ان کا کرتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اشک بار ہوکر اپنے نور نظر کے کرتے کو جب ہاتھ میں لے کرغورسے دیکھا توکیادیکھتے ہیں کہ کرتاتو بالکل سلامت ہے ۔ کرتا کہیں سے بھی پھٹا ہوا نہیں ہے۔ (ان لوگوں نے کرتے میں خون تو لگایا تھا لیکن پھاڑنا بھول گئےتھے۔) آپ ان لوگوں کے مکر اور جھوٹ کو بھانپ گئے۔ اورفرمایا کہ: بڑا ہوشیاراورسیانا بھیڑ تھا کہ میرے یوسف کو تو پھاڑ کر کھاگیا مگر ان کے کرتے پر ایک ذراسی خراش بھی نہیں آئی۔ توآپ نے صاف صاف فرمادیا کہ یہ سب تم لوگوں کی کارستانی اورمکروفریب ہے۔ پھر آپ نے دکھے دل اوردرد بھری آواز میں فرمایا کہ:
فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ سورہ یوسف، آیت ۱۸
اب تو میرے لیے صبر ہی بہتر ہے۔ اور جو باتیں تم بنارہے ہو، ان پر اللہ ہی کی مدد درکار ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام تین دن اس کنویں میں تشریف فرما رہے۔ یہ کنواں کھارا تھا مگرآپ کی برکت سے اس کا پانی بہت ہی شیریں/ میٹھا ہوگیا۔ اتفاق سے ایک قافلہ مدین سے مصر جارہا تھا۔ جب اس قافلے کا ایک آدمی جس کا نام مالک بن ذعرخزاعی تھا۔ پانی بھرنے کے لیے آیا۔ کنویں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام ڈول پکڑکر لٹک گئے۔ مالک بن ذعر نے ڈول کھینچا توآپ کنویں سے باہر نکل آئے جب اس نے آپ کے حسن وجمال کو دیکھا تو ”یبشریٰ ھذا غلام“ یہ کہہ کر ا پنے ساتھیوں کو خوش خبری سنانے لگا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جو اس جنگل میں روزانہ بکریاں چرایا کرتے تھے۔ روزانہ کنویں میں جھانک جھانک کردیکھا کرتے تھے۔ جب ان لوگوں نے آپ کو کنویں میں نہیں دیکھا تو تلاش کرتے ہوئے قافلے کے پاس جاپہنچے۔ اور آپ کو دیکھتے ہی کہنے لگے یہ تو ہمارا بھاگا ہوا غلام ہے۔ جو بالکل ہی ناکارہ اور نافرمان ہے۔ اگر تم اس کو خریدو تو بہت ہی سستا تمہیں فروخت کردیں گے مگرشرط یہ ہے کہ تم لوگ اس کو یہاں سے اتنی دور لے جاکر فروخت کرنا کہ یہاں تک اس کی خبر تک نہ پہنچے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بھائیوں کے خوف سے خاموش کھڑے رہے۔اور ایک لفظ بھی نہ بولے پھر ان کے بھائیوں نے ان کو مالک بن ذعر کے ہاتھوں 20 درہم میں فروخت کردیا۔ مالک بن ذعر نے ان کو خرید کر مصر کے بازار کا رخ کیا۔ اور بازار میں ان کو فروخت کرنے کا اعلان کیا۔ ان دنوں مصرکا بادشاہ ریان بن ولید عملیق تھا۔ اوراس نے اپنے وزیراعظم قطفیر مصری کو مصر کی حکومت اور خزانے سونپ دئیے تھے۔ اور مصر میں لوگ اس کو عزیز مصر کے خطاب سے پکارتے تھے۔ جب عزیز مصر کو معلوم ہوا کہ بازار مصر میں ایک بہت ہی خوبصورت غلام فروخت کے لیے لایا گیا ہے۔ اور لوگ اس کی خریداری کے لیے بڑی بڑی رقمیں لے کر بازار میں جمع ہوگئے۔ توعزیز مصر نےحضرت یوسف علیہ السلام کے وزن کے برابر سونا اور اتنی ہی چاندی اور اتنا ہی مشک اتنے ہی حریر قیمت دے کر خرید لیا۔ اور گھر لے جاکر اپنی بیوی ”زلیخا “ سے کہا کہ اس غلام کو نہایت ہی اعزاز واکرام کے ساتھ رکھو اس وقت آپ کی عمر 13 یا 17 برس تھی۔
زلیخا حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن کے فریفتہ ہوگئی۔ ایک دن خوب بناؤ سنگھار کرکے تمام دروازوں کو بند کردیا اور حضرت یوسف علیہ السلام کو تنہائی میں لبھانے لگی۔ آپ نے ”معاذ اللہ “ کہہ کر فرمایا کہ: میں اپنے مالک عزیز مصر کے احسان کو فراموش کرکے ہر گز اس کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کرسکتا۔ پھر جب خود زلیخا آپ کی طرف لپکی توآپ بھاگ نکلے۔ اور زلیخا نے دوڑکر پیچھے سے آپ کا پیراہن پکڑلیا۔ جو پھٹ گیا اور آپ کے پیچھے زلیخا دوڑتی ہوئی صدر دروازے پر پہنچ گئی۔ اتفاق سے ٹھیک اسی حالت میں عزیز مصر مکان میں داخل ہوا۔ اوردونوں کو دوڑتے ہوئے دیکھ لیا۔
اس وقت زلیخا نے مکاری کی اور فورا بولی:
اس غلام کی سزا یہ ہے کہ اس کو جیل خانہ بھیج دیا جائے یا اور کوئی دوسری سخت سزادی جائے۔ کیونکہ اس نے تمہاری گھروالی کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تھا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا:
عزیز مصر! یہ بالکل غلط بیانی کررہی ہےاس نے خود مجھے خود مجھے لبھایا میں اس سے بچنے کے لیے بھاگا تواس نے میرا پیچھا کیا۔ عزیز مصر دونوں کا بیان سن کر حیران رہ گیا۔ اور بولا:
اے یوسف! میں کس طرح یقین کرلوں کہ تم سچے ہو؟
آپ نے فرمایا:
گھر میں 4 مہینے کا ایک بچہ پالنے میں لیٹا ہوا ہے، جو زلیخا کے ماموں کا لڑکا ہے. اس سے دریافت کرلیجیے کہ کیا واقعہ ہے؟
عزیز مصر نے کہا:
بھلا چارماہ کا بچہ کیا جانے اور وہ کیسے بولے گا؟
آپ نے فرمایا:
اللہ اس کو ضرور میری بے گناہی کی شہادت دینے کی قدرت عطا فرمائے گا کیونکہ میں میں بے قصور ہوں۔
چنانچہ عزیز مصر نے جب اس بچے سے پوچھا تو اس بچے نے بآواز بلند فصیح زبان میں یہ کہا:
اِنْ كَانَ قَمِيْصُهٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ 26 وَاِنْ كَانَ قَمِيْصُهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ 27 (سورہ یوسف)
اگر یوسف کی قمیص سامنے کی طرف سے پھٹی ہو تو عورت سچ کہتی ہے، اور وہ جھوٹے ہیں اور اگر ان کی قمیص پیچھے کی طرف سے پھٹی ہے تو عورت جھوٹ بولتی ہےاور یہ سچے ہیں۔
بچے کی زبان سے عزیز مصر نے یہ شہادت سن کر جو دیکھا تو ان کا کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا تھا تو اس وقت عزیز مصرنے حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کا اعلان کرتے ہوئے یہ کہا:
فَلَمَّا رَاٰ قَمِيْصَهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّهٗ مِنْ كَيْدِكُنَّ ۭ اِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيْمٌ28 (سورۃ یوسف)
پھر جب شوہر نے دیکھا کہ ان کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو اس نے کہا کہ : یہ تم عورتوں کی مکاری ہے، واقعی تم عورتوں کی مکاری بڑی سخت ہے۔
يُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا وَاسْتَغْفِرِيْ لِذَنْۢبِكِ ښ اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخطئین29ۧ (سورۃ یوسف)
یوسف! تم اس بات کا خیال نہ کرو، اور اے عورت! تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، یقینی طور پر تو ہی خطاکار تھی۔
شہر کی معززعورتوں میں اس واقعے کا چرچا ہونے لگا۔ کہنے لگیں کہ عزیز مصر کی بیوی اپنے غلام کو ورغلا نا چاہتی تھی، یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے!!! جب زلیخا نے یہ بات سنی توان عورتوں کو دعوت بھیجی اور پھل وغیرہ ان کے سامنے رکھے۔ اورایک چھری پکڑوادی اور حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ ذرا ان کے سامنے آئیے! جب ان عورتوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا توحیرت کے مارے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ پھل کاٹنے کی بجائے اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ بولیں یہ تو انسان نہیں ہے بلکہ یہ فرشتہ ہے۔ ان خواتین نےاپنے اپنے طور سے یوسف علیہ السلام کو اپنے جال میں پھنسانا چاہا، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام ان کے دامن ِ فریب میں نہ پھنسے۔
جب اس طرح کے واقعات بڑھ گئے تو وزراء اورارکان سلطنت سے عزیز مصر نے مشورہ کیا اور طے پایا کہ یوسف علیہ السلام کو قید خانہ بھجوادیا جائے۔ آپ نے جیل پہنچ کر فرمایا:
اے اللہ! یہ قید خانہ کی کوٹھری مجھ کو اس بلا سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف زلیخا اور خواتین ِمصر مجھے بلارہی تھی۔
آپ سات یا بارہ برس جیل خانہ میں رہے۔ اور قیدیوں میں توحید اور اعمال صالحہ کی دعوت فرماتے رہے۔ تمام قیدی آپ کے حسن اخلاق اور آپ کے کردار کے گرویدہ ہوگئے۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس دن آپ قید خانے میں داخل ہوئے اس دن آپ کے ساتھ بادشاہ مصر کے دو خادم ایک شراب پلانے والا دوسرا باورچی دونوں جیل خانے میں داخل ہوئے۔ دونوں پر الزام تھا کہ انھوں نے بادشاہ کے کھانے میں زہر ملایا ہے۔ ان دونوں نے جیل میں خواب دیکھا، دونوں نے اپنا اپنا خواب حضرت یوسف علیہ السلام سے بیان کیا جس کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے بیان کی جو سو فیصد صحیح ثابت ہوئی۔
پہلے کا خواب یہ تھا کہ: إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ میں نے دیکھا ہے کہ میں نچوڑ رہا ہوں شراب کا رس۔ اس کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے کچھ یوں دی کہ تم الزام سے بری ہوجاؤگےاور دوبارہ اپنے عہدے پر بحال ہوکر اپنے مالک کو شراب پلاؤ گے ۔
دوسرے کا خواب یہ تھا کہ: وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ ۖ (سورۃ یوسف) میں نے دیکھا ہے میں اٹھائے ہوئے ہوں اپنے سر پرروٹی کہ کھارہے ہیں اس میں سے پرندے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس خواب کی تعبیر بیان کی کہ تمہیں سولی پر لٹکایا جائے گا اور تمہارے سر کو پرندے نوچ نوچ کر کھائیں گے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ساقی بری ہوگیا اور باورچی کو سزائے موت ہوگئی۔ قیدخانے میں آپ کا نام معبر یعنی تعبیر دینے والا مشہور ہوگیا۔
اسی دوران مصر کے بادشاہ اعظم ریان بن ولید نے بھی خواب دیکھا ـ
اَرٰي سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ يَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّسَبْعَ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّاُخَرَ يٰبِسٰتٍ ۭ يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ اَفْتُوْنِيْ فِيْ رُءْيَايَ اِنْ كُنْتُمْ لِلرُّءْيَا تَعْبُرُوْنَ 43 (سورۃ یوسف)
میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں، نیز سات خوشے ہرے بھرے ہیں، اور سات اور ہیں جو سوکھے ہوئے ہیں۔ اے درباریو! اگر تم خواب کی تعبیر دے سکتے ہو تو میرے اس خواب کا مطلب بتاؤ۔
بادشاہ اعظم نےا پنے درباریوں اس خواب کی تعبیر دریافت کی تو لوگوں نے اس خواب کو خواب پریشان کہہ کر اس کی کوئی تعبیر نہ بتائی. اتنے میں بادشاہ کا ساقی جو قید خانے سے رہا ہوکر آگیا تھا. اس نے کہا کہ مجھے اس خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لیے جیل خانے میں جانے کی اجازت دے دی جائے چنانچہ یہ بادشاہ کا قاصد بن کر قید خانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس گیا۔ بادشاہ کا خواب بیان کر کے تعبیر دریافت کی کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ سات برس مسلسل کھیتی کرواور ان کےا ناجوں کو بالیوں میں محفوظ رکھو پھر سات برس تک سخت خشک سالی رہے گی۔ قحط کے ان سات برسوں میں پہلے سات برسوں کا محفوظ کیا ہوا اناج لوگ کھائیں گے۔ اس کے بعد پھر ہریالی کا سال آئے گا۔
قاصد نے واپس جاکربادشاہ سے اس کے خواب کی تعبیر بتائی تو بادشاہ نے حکم دیاکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانے سے نکال کر میرے دربار میں لاؤ۔ قاصد رہائی کا پروانہ لے کر جیل خانہ میں پہنچا۔ تو آپ نے فرمایا کہ پہلے زلیخا اوردوسری عورتوں کے ذریعے میری بے گناہی اور پاک دامنی کا اظہار کروالیا جائے۔ اس کے بعد ہی جیل سے باہرنکلوں گا۔ چنانچہ بادشاہ نےاس کی تحقیقات کروائی۔ تو تحقیقات کے دوران زلیخا نے اقرارکرلیا کہ میں نے خود ہی حضرت یوسف علیہ السلام کو پھسلایا تھا۔ خطا میری ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام سچے اور پاک دامنی ہیں۔ اس کے بعد بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دربار میں بلا کر کہا کہ آپ ہمارے دربار کے معزز ہیں۔ قحط سالی کے بعد یہ مشورہ ہوا وزراء سے مشورہ ہوا اورآپ سے بھی تو حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا کہ آپ زمین کے خزانے کے انتظامی امور اورحفاظتی نظام کے انتظام پر میرا تقرر کردیں۔ میں پورے نظام کو سنبھال لوں گا۔ بادشاہ نے خزانےکا انتظامی معاملہ اور ملک کے نظام کا پورا شعبہ آپ کے سپرد کردیا۔ اس طرح ملک مصر کی حکمرانی کا اقتدار آپ کو مل گیا۔
اس کے بعد آپ نے خزانوں کا نظام اپنے ہاتھ میں سات سال تک کھیتی کی۔ اور اناجوں اور بالیوں میں محفوظ رکھا یہاں تک کہ قحط اورخشک سالی کا زورشروع ہوگیا تو پوری سلطنت کے لوگ غلے کی خریداری کے لیے مصر آنا شروع ہوگئے اوران کے غلے کی فروخت شروع ہوگئی. اس سلسلے میں آپ کے بھائی کنعان سے مصر آئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان لوگوں کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں پہچان لیا۔ ان کے بھائیوں نے آپ کو نہ پہنچانا۔ آپ نے ان لوگوں کو غلہ دے دیا اور پھر فرمایا:
مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارا ایک بھائی یہ بھی ہے۔ آئندہ اس کو ساتھ لے کرآنا اگر تم لوگ ان کوساتھ نہ لائے تو تمہیں غلہ نہیں ملے گا۔
بھائیوں نے جواب دیا:
ہم اس کے والد کو رضامند کرنے کی کوشش کریں گے۔
پھر حضرت یوسف علیہ السلام اپنے غلاموں سے کہا کہ تم لوگ ان کی نقدیوں کو ان کی بوریوں میں ڈال دو۔ یہ لوگ جب اپنے گھر پہنچیں اور نقدیوں کو دیکھیں گے تو ضرور واپس آئیں گے۔
چنانچہ یہ لوگ اپنے والد کے پاس پہنچے تو کہنے لگے:
اباجان! اب کیا ہوگا؟ عزیز مصر نے یہ کہہ دیا جب تک تم لوگ بنیامین کو ساتھ لے کر نہ آؤ گے تمہیں غلہ نہیں ملے گا۔ لہذا آپ بنیامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔ تاکہ ہم ان کے حصے کا بھی غلہ لے لیں۔ اورآپ اطمینان رکھیں کہ ہم لوگ ان کی حفاظت کریں گے۔
اس کے بعد جب ان لوگوں نے اپنی بوریوں کو کھولا تو حیران رہ گئے کہ ان کی رقمیں اور نقدیاں ان کی بوریوں میں موجود تھی یہ دیکھ کر برادرز یوسف علیہ السلام نے پھر اپنے والد سے کہا:
اباجان! اس سے بڑھ کر اچھا سلوک کیا چاہیے؟ دیکھ لیجیے! عزیز مصر نے ہم کو پورا غلہ بھی دیا ہے اور ہماری نقدیوں کو بھی واپس کردیا ہے لہذا آپ بلاخوف وخطر ہمارے بھائی بنیامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:
میں ایک مرتبہ یوسف کے معاملہ میں تم لوگوں پر بھروسہ کرچکا ہوں، اب میں دوبارہ تم لوگوں پر بھروسہ کیسے کروں۔ میں اس طرح بنیامین کو ہرگز تم لوگوں کے ساتھ نہیں بھیجوں گا۔ لیکن ہاں اگر تم لوگ جاؤ اٹھاکر میرے سامنے عہد کرو تو البتہ میں اس کو بھیج سکتا ہوں۔
یہ سن کر بھائیوں نے حلف کا عہد اٹھالیا۔ اورآپ نے ان لوگوں کے ساتھ بنیامین کو بھیج دیا۔ جب یہ لوگ عزیز مصر کے دربار میں پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی بنیامین کو اپنی مسند میں بٹھادیا۔ اور چپکے سے ان سے کہا کہ میں تمہارا بھائی (یوسف) ہوں۔
اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت یوسف علیہ السلام نے یہاں ایک چال چلی ان تمام بھائیوں کی بوریاں اناج سے بھردی اور اپنے بھائی بنیامین کے سامان میں پیالہ / پیمانہ شاہی رکھوادیا۔ پھر ایک پکارنے والے نے پکارا:
تم تو چور ہو۔
وہ سارے بھائی متوجہ ہوگئے۔ اور ان سے کہنے لگے:
تم کیا گم کر بیٹھے ہو؟
وہ بولے ہمارا ایک شاہی پیالہ گم ہوا ہے۔ جو اسے ڈھونڈ کر لائےگا اسے ایک اونٹ کا بوجھ ملے گا۔
سارے بھائی بولے:
اللہ کی قسم ہم توچور نہیں ہیں ۔
پکارنے والے نے کہا:
اگر تم پر چوری ثابت ہوجائے تو کیا سزا ہے؟
وہ بھائی بولے:
جس کے پاس سے وہ پیالہ/ پیمانہ شاہی نکلے وہ بندہ ہی اس کی سزا ہے (ا س لیے کہ ان کی شریعت میں چور کی یہی سزا تھی)
پھر انہوں نے سامان کی تلاش شروع کی پہلے دوسرے بھائیوں کا سامان کھنگالا اور آخر میں بنیامین کے سامان کی تلاشی لی۔ بنیامین کے سامان سے وہ پیالہ / پیمانہ شاہی نکال لیا گیا۔
بھائی بولے:
اس نے چوری کی ہے تو اس کا بھائی بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے۔
پھر کہنے لگا:
اے عزیز! بے شک ہمارا باپ بوڑھا اور لمبی عمر والا ہے اس کی جگہ ہمیں پکڑلوو ہم دیکھتے ہیں آپ کو احسان کرنے والوں میں سے“۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم اللہ کی پناہ پکڑیں سوائے اس کے کہ ہم نے پایا اپنا سامان جس کے پاس۔ بے شک میں اس وقت ظالموں سے ہوں گا۔
اب برادران یوسف سخت پریشان ہوئے اپنے والد کے روبرو یہ عہد کرکے آئے تھے کہ ہم اپنی جان پر کھیل کر اس کی حفاظت کریں گے۔ اور یہاں بنیامین ان کے ہاتھوں سے چھین لیےگئے اب گھر جائیں تو کیسے؟ اور ٹھہریں تو کیسے؟
یہ معاملہ دیکھ کر سب سے بڑا بھائی یہودا کہنے لگا:
میرے بھائیو! سوچو تم نے اپنے والد کو کیا عہد دیا ہے؟ اس سے پہلے بھی تم اپنے بھائی یوسف کے ساتھ کتنی بڑی کوتاہی کرچکے ہو۔ لہذا میں تواس وقت تک یہاں سے نہ جاؤں گا جب تک والد صاحب خود آنے کا فرمائیں یا اللہ تعالی اس معاملے کو حل فرمادیں!
چنانچہ یہودا کے سوا دوسرے سب بھائی لوٹ کر گھر آئے اور اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے سارا حال بیان کردیا۔
حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا:
یوسف کی طرح بنیامین کے معاملے میں بھی تم لوگوں نے حیلہ بازی کی ہے۔ خیر! میں صبر کرتا ہوں اور صبر بہت اچھی چیز ہے۔
پھر آپ نے منہ پھیرکر رونا شروع کردیا اور کہا:
ہائے افسوس! میرا یوسف!
اور یوسف علیہ السلام کو یاد کرکے اتنا روئے کہ شدت غم سے نڈھال ہوگئے اور روتے روتے آنکھیں سفید ہوگئیں۔ آپ کی زبان سے یوسف علیہ السلام کا نام سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام سے ان کے بیٹوں، پوتوں نے کہا:
اباجان! آپ ہمیشہ یوسف علیہ السلام کو ہی یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ لب گور ہوجائیں یا جان سے گزرجائیں، اپنے بیٹوں، پوتوں کی بات سن کر آپ نے فرمایا:
’’میں اپنے غم اور پریشانی کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں۔ اور میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم لوگوں کو معلوم نہیں۔‘‘
پھر فرمایا:
میرے بیٹوں تم لوگ جاؤ۔ یوسف اور اس کے بھائی بنیامین کو تلاش کرو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہونا! اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجانا کافروں کا کام ہے۔
چنانچہ برادران یوسف پھرمصر کو روانہ ہوئے اور جاکر عزیز مصر سے کہا:
اے عزیز مصر! ہمارے گھروالوں کو بہت بڑی مصیبت پہنچ چکی ہے۔
اپنے بھائیوں کی زبان سے گھر کی داستان سن کر حضرت یوسف علیہ السلام پر رقت طاری ہوگیا۔ اور آپ نے بھائیوں سے پوچھا:
تم لوگوں کو یاد ہے تم لوگوں نے یوسف اور اس کے بھائی بنیامین کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
یہ سن کر بھائیوں نے حیران ہوکر پوچھاـ
سچ سچ آپ یوسف علیہ السلام ہیں؟
آپ نے فرمایا:
ہاں! میں ہی یوسف ہوں۔ اور بنیامین میرا بھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پربڑا فضل واحسان کیا ہے۔
یہ سن کر بھائیوں نے نہایت شرمندگی اور لجاجت کے ساتھ کہنا شروع کیا کہ بے شک ہم لوگ واقعی بڑے خطاکار ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہم پر بڑی فضیلت بخشی ہے۔ بھائیوں کی شرمندگی اور لجاجت سے متاثر ہوکرآپ کا دل بھر آیا۔ آپ نے فرمایا:
آج میں تم لوگوں کو ملامت نہیں کروں گا، جاؤ میں نے سب کچھ معاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ تم کو معاف فرمائے۔ اب تم لوگ یہ میرا کرتا لے جاؤ اور اباجان کے چہرے پر ڈال دو تو ان کی آنکھوں میں روشنی آجائے گی۔ پھر تم سب گھروالوں کو ساتھ لے کر مصر چلے آؤ۔
بڑا بھائی کہنے لگا:
یہ کرتا میں لے کر جاؤں گا کیونکہ میں ہی آپ کا کرتا بکری کے خون میں رنگ کرکے اپنے والد کے پاس لے گیا تھا اور انہیں یہ کہہ کر غمگین کردیا تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھیڑیا کھاگیا۔ تو میں نے ہی انہیں غمگین کیا تھا اور آج حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی کی خوشخبری بھی میں ہی سناؤں گا۔ اور ان کو خوش کرنا چاہتا ہوں۔
یہودا اس کرتے کو لے کر اسی کوس تک ننگے سر دوڑتا ہوا چلاگیا۔ راستے کی خوراک کےلیے اس کے پاس سات روٹیاں تھیں مگر فرط مسرت اور جلد سے جلد سفر طے کرکے والد محترم کے پاس جا پہنچا۔ یہودا جیسے ہی کرتا لے کر مصر سے کنعان کی طرف روانہ ہوا ادھر کنعان میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو محسوس ہوئی۔ آپ نے اپنے پوتوں سے فرمایا:
اِنِّىْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْلَآ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ 94 (سورہ یوسف)
اگر تم مجھے یہ نہ کہو کہ بوڑھا سٹھیا گیا ہے، تو مجھے تو یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔
آپ کے پوتوں نے جواب دیا:
خدا کی قسم! آپ اب بھی اس پرانی سی بات پر پڑے ہوئے ہیں۔ بھلا کہاں یوسف ہیں اور کہاں ان کی خوشبو؟
لیکن جب یہودا کرتا لے کر کنعان پہنچا اور جیسے ہی کرتے کو حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر ڈالا تو فوراً ہی ان کی آنکھوں کی روشنی لوٹ آئی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے:
فَلَمَّآ اَنْ جَاۗءَ الْبَشِيْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰي وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِيْرًا ۚ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ ڌ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 96
پھر جب خوشخبری دینے والا پہنچ گیا تو اس نے (یوسف کی) قمیص ان کے منہ پر ڈال دی، اور فورا ان کی بینائی واپس آگئی۔ انہوں نے (اپنے بیٹوں سے) کہا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اللہ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے؟
پھر یعقوب علیہ السلام نے تہجد کےوقت کے بعد اپنے سب بیٹوں کے لیے دعائے مغفرت فرمائی اور یہ دعا مقبول ہوگئی۔ چنانچہ آپ پر وحی اتری کہ آپ نے صاحبزادوں کی خطائیں بخش دی گئی ہیں۔
پھر مصر کو روانگی کا سامان ہوا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نےا پنے والد اور سب گھر نے اہل وعیال لانے کے لیے بھائیوں کے ساتھ دو سو سواریاں بھیج دیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے گھر والوں کو جمع کیا تو کل بہتر یا تہتر آدمی تھے۔ جن کو ساتھ لے کر مصرروانہ ہوگئے، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی نسل میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو چھ لاکھ سے زیادہ تھے۔ حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے مصر جانے سے صرف چارسوسال بعد کا زمانہ ہے۔ جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ مصر کے قریب پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے چار ہزار لشکر اور بہت سے مصری سواروں کو ساتھ لے کر آپ کا استقبال کیا۔ اور جھنڈے اور قیمتی پرچم لہراتے ہوئے قطاریں باندھے مصری باشندے جلوس کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے فرزند یہودا کو کہا:
یہ فرعون مصر کا لشکر ہے؟
تو یہودا نے عرض کیا:
جی نہیں۔ یہ آپ کے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو اپنے لشکروں اور سواروں کے ساتھ استقبال کے لیے آئے ہوئے ہیں۔
آپ کو متعجب دیکھ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا:
اے اللہ کے نبی! سراٹھا کر فضائے آسمانی میں نظر فرمائیے کہ آ پ کے سرورشادمانی میں شرکت کے لیے ملائکہ کا جم غفیر حاضر ہے۔ جو مدتوں آپ کے غم میں روتے رہیں۔ ملائکہ کی تسبیح اور گھوڑوں کی ہنہناہٹ ا ور طبل وبوق کی آوازوں نے عجیب سا سماں پیدا کردیا تھا۔ جب باپ بیٹے دونوں قریب ہوگئے اور حضرت یوسف علیہ السلام نے سلام کا ارادہ کیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ آپ ذرا توقف کیجیے۔ چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان لفظوں میں ان کو سلام کہا کہ السلام علیک یا مذھب الاحزان ”اے تمام غموں کو دور کرنے والے آپ پر سلام ہو۔
پھر باپ بیٹے بڑی گرمجوشی سے ملے اور فرط مسرت میں دونوں خوب روئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے سہارادے کر اپنے والد محترم کو تخت شاہی پر بٹھادیا ۔ اور آپ کے ارد گرد گیارہ بھائی اورآپ کی والدہ بیٹھ گئے، اور سب کے سب حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے سجدے میں گر پڑے۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا:
ترجمہ: اے اباجان! یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے بے شک اسے میرے رب نے سچا کیا۔ اور بے شک اس نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے قید سے نکالا اور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا۔ اس کے بعد شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کروادی۔ بے شک میرا رب جس بات کو چاہے آسان کردے اور بے شک وہی علم وحکمت والا ہے۔ یعنی میرے گیارہ بھائی ستارے ہیں اور میرے باپ سورج اور میری والدہ چاند ہیں اور یہ سب مجھ کو سجدہ کررہے ہیں۔
یہ تاریخی واقعہ محرم کی دس تاریخ عاشورہ کے دن وقوع پذیر ہوا، حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کے وقت آپ کی عمر ایک سو برس تھی۔ تو حضرت یوسف علیہ السلام کو سنگ مرمر لکڑی کے صندوق میں ڈال دیا تھا۔ اورا ن لوگوں نے حصول برکت لیے بیچ وبیچ دریائے نیل میں رکھ دیا۔ پھر چار سو برس بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دریائے نیل سے نکال کر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پہلو مبارک ملک شام میں دفن کردیا گیا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحٰق علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر مبارک ملک شام میں ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ
No comments:
Post a Comment