Sunday 15 September 2019

مسلم حکمران اور پروپیگنڈا

مسلم حکمران اور پروپیگنڈا
یہ ان حضرات کیلئے ہے جن کی وجہ سے یہ بات مشہور ہوئی ہے کہ جب انگریز آکسفورڈ اور کیمبریج بنارہے تھے اس وقت ہمارے حکمران تاج محل بنارہے تھے.
چند سال سے اس ملک کے ٹیلیویژن چینلز پر تعلیم کے نام پر سفید جھوٹ پر مبنی پروگرام چلائے جا رہے ہیں اور یہ باور کروانے کی کوشش ہے کہ جب یوروپ میں یونیورسٹیاں کھل رہی تھیں تو مسلم بادشاہ تاج محل اور شالامار باغ بنارہے تھے. میری یہ تحریر مختلف مصنفین کے متعلقہ کالمز اور پروفیسرز، مورخین یا محققین کی تحقیق کے اس حصہ پر مبنی ہے جو میں نے ذاتی تحقیق کے بعد درست پائے، اس تحریر میں میرے اپنے الفاظ کم اور مندرجہ بالا شخصیات کے الفاظ زیادہ ہیں. تاریخ کی گواہی بعد میں پیش کروں گا پہلے بنیادی عقل کا ایک درس پیش کروں. ان چینلز یا پروگرامز میں اگر کوئی سمجھ بوجھ والا آدمی بیٹھا ہوتا تو اسکو سمجھنے میں یہ مشکل نہیں آتی کہ مسلم دور کی شاندار عمارات جس عظیم تخلیقی صلاحیت سے تعمیر کی گئی، وہ دو چیزوں کے بغیر ممکن نا تھیں. پہلی فن تعمیر کی تفصیلی مہارت، جس میں جیومیٹری، فزکس، کیمسٹری اور ڈھانچے کے خدوخال وضع کرنے تک کے علوم شامل ہوتے ہیں. دوسری کسی ملک کی مضبوط معاشی اور اقتصادی حالت، اس قدر مضبوط کے وہاں کے حکمران شاندار عمارات تعمیر کرنے کا خرچ برداشت کر سکیں. معاشی حوالے سے ہندوستان بالعموم مسلم ادوار اور بالخصوص مغلیہ دور (اکبر-عالگیر) میں دنیا کے کل GDP میں اوسطاً 25% فیصد حصہ رکھتا تھا. درآمدات انتہائی کم اور برآمدات انتہائی زیادہ تھیں اور آج ماہر معاشیات جانتے ہیں کہ کامیاب ملک وہ ہے جس کی برآمدات زیادہ اور درآمدات کم ہوں. سترویں صدی میں فرانسیسی سیاح فرانکیوس برنئیر ہندوستان آیا اور کہتا ہے کہ ہندوستان کے ہر کونے میں سونے اور چاندی کے ڈھیر ہیں. اسی لئے سلطنت مغلیہ ہند کو سونے کی چڑیا کہتے تھے.
اب تعمیرات والے اعتراض کی طرف آتے ہیں. فن تعمیر کی جو تفصیلات تاج محل، شیش محل، شالامار باغ، مقبرہ ہمایوں، دیوان خاص وغیرہ وغیرہ میں نظر آتی ہے، اس سے لگتا ہے کہ انکے معمار جیومیٹری کے علم کی انتہاؤں کو پہنچے ہوئے تھے. تاج محل کے چاروں مینار صرف آدھا انچ باہر کی جانب جھکائے گئے تاکہ زلزلے کی صورت میں گرے تو گنبد تباہ نہ ہوں. مستری کے اینٹیں لگانے سے یہ سب ممکن نہیں، اس میں حساب کی باریکیاں شامل ہیں. پورا تاج محل 90 فٹ گہری بنیادوں پر کھڑا ہے. اس کے نیچے 30 فٹ ریت ڈالی گئی کہ اگر زلزلہ آئے تو پوری عمارت ریت میں گھوم سی جائے اور محفوظ رہے. لیکن اس سے بھی حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنا بڑا شاہکار دریا کے کنارے تعمیر کیا گیا ہے اور دریا کنارے اتنی بڑی تعمیر اپنے آپ میں ایک چیلنج تھی، جس کے لئے پہلی بار ویل فاونڈیشن (well foundation) متعارف کروائی گئی یعنی دریا سے بھی نیچے بنیادیں کھود کر انکو پتھروں اور مصالحہ سے بھردیا گیا، اور یہ بنیادیں سینکڑوں کی تعداد میں بنائی گئی گویا تاج محل کے نیچے پتھروں کا پہاڑ اور گہری بنیادوں کا وسیع جال ہے، اسطرح تاج محل کو دریا کے نقصانات سے ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا گیا. عمارت کے اندر داخل ہوتے ہوئے اسکا نظارہ فریب نظر یعنی (Optical illusion) سے بھرپور ہے. یہ عمارت بیک وقت اسلامی، فارسی، عثمانی، ترکی اور ہندی فن تعمیر کا نمونہ ہے. یہ فیصلہ کرنے کے لئے حساب اور جیومیٹری کی باریک تفصیل درکار ہے. پروفیسر ایبا کوچ (یونیورسٹی آف وینیا) نے حال میں ہی تاج محل کے اسلامی اعتبار سے روحانی پہلو واضح (decode) کئے ہیں.اور بھی کئی راز مستقبل میں سامنے آسکتے ہیں. انگریز نے تعمیرات میں (well foundation) کا آغاز انیسویں صدی اور (optical illusions) کا آغاز بیسویں صدی میں کیا. جب کے تاج محل ان طریقہ تعمیر کو استعمال کرکے سترھویں صدی کے وسط میں مکمل ہوگیا تھا. آج تاج محل کو جدید مشین اور جدید سائنس کو استعمال کرتے ہوئے بنایا جائے تو 1000 ملین ڈالر لگنے کے باوجود ویسا بننا تقریباً ناممکن ہے. 'ٹائل موزیک' فن ہے، جس میں چھوٹی چھوٹی رنگین ٹائلوں سے دیوار پر تصویریں بنائی جاتی اور دیوار کو منقش کیا جاتا ہے. یہ فن لاہور کے شاہی قلعے کی ایک کلومیٹر لمبی منقش دیوار اور مسجد وزیرخان میں نظر آتا ہے. ان میں جو رنگ استعمال ہوئے، انکو بنانے کے لئے آپ کو موجودہ دور میں پڑھائی جانے والی کیمسٹری کا وسیع علم ہونا چاہئیے. یہی حال فریسکو پینٹنگ کا ہے، جن کے رنگ چار سو سال گزرنے کے باوجود آجتک مدہم نہیں ہوئے . تمام مغل ادوار میں تعمیر شدہ عمارتوں میں ٹیرا کوٹا (مٹی کو پکانے کا فن) سے بنے زیر زمین پائپ ملتے ہیں. ان سے سیوریج اور پانی کی ترسیل کا کام لیا جاتا تھا. کئی صدیاں گزرنے کے باوجود یہ اپنی اصل حالت میں موجود ہیں. مسلم فن تعمیر کا مکمل علم حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور موجودہ دور کے سائنسی پیمانوں پر ایک نصاب کی صورت تشکیل دیا جائے تو صرف ایک فن تعمیر کو مکمل طور پر سیکھنے کے لیے پی ایچ ڈی (PhD) کی کئی ڈگریاں درکار ہوں گی. کیا یہ سب کچھ اس ہندوستان میں ہوسکتا تھا، جس میں جہالت کا دور دورہ ہو اور جس کے حکمرانوں کو علم سے نفرت ہو؟؟ یہ مسلم نظام تعلیم ہی تھا جو سب کے لئے یکساں تھا، جہاں سے بیک وقت عالم، صوفی، معیشت دان، طبیب، فلسفی، حکمران اور انجینئر نکلتے تھے. شیخ احمد سرہندی رح ہوں یا جھانگیر ہو یا استاد احمد لاہوری ہو، یہ سب مختلف گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک ہی تعلیمی نظام میں پروان چڑھے، اسی لئے ان سب کی سوچ انسانی مفاد کی تھی.
مزید بھی میں مغربی مصنفین کی گواہی پیش کروں گا، اسلئے کہ میرے ان "عظیم" صاحبان علم کو کسی مسلمان یا لوکل مصنف کی گواہی سے بھی بو آتی ہے. ول ڈیورانٹ مغربی دنیا کس مشہور ترین مورخ اور فلاسفر ہے. وہ اپنی کتاب story of civilization میں مغل ہندوستان کے بارے میں لکھتا ہے: "ہر گاوں میں ایک سکول ماسٹر ہوتا تھا، جسے حکومت تنخواہ دیتی تھی. انگریزوں کی آمد سے پہلے صرف بنگال میں 80 ہزار سکول تھے. ہر 400 افراد پر ایک سکول ہوتا تھا. ان سکولوں میں 6 مضامین پڑھائے جاتے تھے. گرائمر، آرٹس اینڈ کرافٹس، طب، فلسفہ، منطق اور متعلقہ مذہبی تعلیمات. " اس نے اپنی ایک اور کتاب A Case For India میں لکھا کہ مغلوں کے زمانے میں صرف مدراس کے علاقے میں ایک لاکھ 25 ہزار ایسے ادارے تھے، جہاں طبی علم پڑھایا جاتا اور طبی سہولیات میسر تھیں. میجر ایم ڈی باسو نے برطانوی راج اور اس سے قبل کے ہندوستان پر بہت سی کتب لکھیں. وہ میکس مولر کے حوالے سے لکھتا ہے "بنگال میں انگریزوں کے آنے سے قبل وہاں 80 ہزار مدرسے تھے". اورنگزیب عالمگیر رح کے زمانے میں ایک سیاح ہندوستان آیا' جس کا نام الیگزینڈر ہملٹن تھا، اس نے لکھا کہ صرف ٹھٹھہ شہر میں علوم و فنون سیکھانے کے 400 کالج تھے. میجر باسو نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ہندوستان کے عام آدمی کی تعلیم یعنی فلسفہ، منطق اور سائنس کا علم انگلستان کے رئیسوں حتیٰ کہ بادشاہ اور ملکہ سے بھی زیادہ ہوتا تھا. جیمز گرانٹ کی رپورٹ یاد رکھے جانے کے قابل ہے. اس نے لکھا " تعلیمی اداروں کے نام جائیدادیں وقف کرنے کا رواج دنیا بھر میں سب سے پہلے مسلمانوں نے شروع کیا. 1857ء میں جب انگریز ہندوستان پر مکمل قابض ہوئے تو اس وقت صرف روحیل کھنڈ کے چھوٹے سے ضلع میں، 5000 اساتذہ سرکاری خزانے سے تنخواہیں لیتے تھے." مذکورہ تمام علاقے دہلی یا آگرہ جیسے بڑے شہروں سے دور مضافات میں واقع تھے. انگریز اور ہندو مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ تعلیم کا عروج عالمگیر رح کے زمانے میں اپنی انتہا کو پہنچا. عالمگیر رح نے ہی پہلی دفعہ تمام مذاہب کے مقدس مذہبی مقامات کے ساتھ جائیدادیں وقف کیں. سرکار کی جانب سے وہاں کام کرنے والوں کے لئے وظیفے مقرر کئے. اس دور کے 3 ہندو مورخین سجان رائے کھتری، بھیم سین اور ایشور داس بہت معروف ہیں. سجان رائے کھتری نے "خلاصہ التواریخ"، بھیم سین نے "نسخہ دلکشا" اور ایشور داس نے "فتوحات عالمگیری" لکھی. یہ تینوں ہندو مصنفین متفق تھے کہ عالمگیر نے پہلی دفعہ ہندوستان میں طب کی تعلیم پر ایک مکمل نصاب بنوایا اور طب اکبر، مفرح القلوب، تعریف الامراض، مجربات اکبری اور طب نبوی جیسی کتابیں ترتیب دے کر کالجوں میں لگوائیں تاکہ اعلیٰ سطح پر صحت کی تعلیم دی جا سکے. یہ تمام کتب آج کے دور کے MBBS نصاب کے ہم پلہ ہیں. اورنگزیب سے کئی سو سال پہلے فیروز شاہ نے دلی میں ہسپتال قائم کیا، جسے دارالشفاء کہا جاتا تھا. عالمگیر نے ہی کالجوں میں پڑھانے کے لیے نصابی کتب طب فیروزشاہی مرتب کرائی. اس کے دور میں صرف دلی میں سو سے زیادہ ہسپتال تھے.
تاریخ سے ایسی ہزاروں گواہیاں پیش کی جا سکتی ہیں. ہو سکے تو لاہور کے انارکلی مقبرہ میں موجود ہر ضلع کی مردم شماری رپورٹ ملاحظہ فرمالیں. آپکو ہر ضلع میں شرح خواندگی 80% سے زیادہ ملے گی جو اپنے وقت میں بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ تھی، لیکن انگریز جب یہ ملک چھوڑ کر گیا تو صرف 10% تھی. بنگال 1757ء میں فتح کیا اور اگلے 34 برسوں میں سبھی سکول و کالج کھنڈر بنا دیئے گئے. ایڈمنڈ بروک نے یہ بات واضح کہی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے مسلسل دولت لوٹی جس وجہ سے ہندوستان بدقسمتی کی گہرائی میں جاگرا. پھر اس ملک کو تباہ کرنے کے لئے لارڈ کارنیوالس نے 1781ء میں پہلا دینی مدرسہ کھولا. اس سے پہلے دینی اور دنیاوی تعلیم کی کوئی تقسیم نہ تھی. ایک ہی مدرسہ میں قرآن بھی پڑھایا جاتا تھا، فلسفہ بھی اور سائنس بھی. یہ تاریخ کی گواہیاں ہیں. لیکن اشتہار و پروگرام بنانے والے جھوٹ کا کاروبار کرنا چاہے تو انہیں یہ باطل اور مرعوب نظام نہیں روکتا.
مجھے دہلی جانے کا اتفاق ہوا ہے اور ان تعمیرات کا مشاہدہ کیا ہے، آپ یقین کیجئیے کہ ان عمارات کے سحر سے نکلنا ایک مشکل کام ہوتا تھا اور فخر اور حیرانی ہوتی تھی کہ ان ادوار میں مشین کا وجود نا ہونے کے باوجود ایسے شاہکار تعمیر کرنا ناممکن لگتا ہے. لاہور میں مغلیہ فن تعمیر پر کبھی نظر دوڑائیے، آپ انجینئرنگ کے کارناموں پر محو حیرت رہے گے کیونکہ جب یورپ یونیورسٹیاں بنارہا تھا تو یہاں وہ تعلیمات عام ہو چکی تھیں. لیکن یہ موجودہ ظالم نظام جہاں ہمیں اپنی اعانت کے لئے اپنا کلرک بناتا ہے وہاں ہماری عظیم تاریخ کو بھی مبہم بناتا ہے.
تحریر کا اختتام کرنے کے لئے بہت کچھ ہے لیکن ایک سنہری قول سے اختتام کروں گا.
"آج مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہیں ذرائع ابلاغ (Media) کا پروپیگنڈا بہا کے لے گیا.
(کاپی از پاسبان علم و ادب)
مغربی دانشوروں کا اسلام کو خراجِ عقیدت
مغربی دنیا اگرچہ اسلام کی سخت مخالف رہی ہے اور سمجھنے کی بجائے اس نے اس مذہب سے ہمیشہ ہی جنگ برپارکھی ہے لیکن اس تمام دور میں انہی میں سے بعض مفکرین ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے اسلام کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش اور اپنے ہم مذہبوں کے ملامت کی پروا کئے بغیر اس کی خوبیو ں کی برملا تعریف کی ہے۔ انہوں نے اقرار کیا ہے کہ دنیا میں اگر اسلام کا ورود نہ ہوا ہوتا تو دنیا،آج کے دور تک محض گھسٹ گھسٹ کر ہی چل رہی ہوتی۔ ان مفکرین نے واقف کروایا کہ تصور میںا تارے جانے کے برعکس اسلام خون آشامی کا نہیں بلکہ علم و تہذیب، امن و آشتی، حفظان ِ صحت ، آزادیٔ رائے اور عمدہ طرزِ حکومت کا داعی مذہب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھیوں نے اسلام کا صرف تعصب کی نظر سے مطالعہ کیاہے،ورنہ اگر حقیقت کی نظروں سے وہ اس کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ اس جیسا ’’انسان ہمدرد‘‘ او ر علم دوست مذہب دنیا میں اور کوئی نہیں ۔
    یہ ایک ازلی سچائی ہے کہ صداقت میں اپنا ایک زور ہوتا ہے۔اس کیخلاف کتنے ہی تعصبات روا رکھے جائیں اور اس کے علم برداروںپر کتنا ہی تشدد کیا جائے ،حقیقت اپناا ٓپ منوا کر رہتی ہے۔ گزشتہ صدیوں میں جبکہ عیسائی کلیسائوںنے سامنے آنے والے سائنسی حقائق کو جھٹلانے اور دبانے کی تمام تر جابرانہ کوششیں کی تھیں ، دنیا کے منہ بولتے ہوئے حقائق قدامت پرست کلیسائوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے ہرحال آگے ہی بڑھتے چلے گئے تھے۔ یہاں تک کہ پھر وہ زمانہ بھی آگیا جب کلیسا کوخود اپنی ہی چار دیواری تک محدود ہوجانا پڑاچنانچہ آج سب جانتے ہیں کہ عیسائی دنیا میں ان کلیسائوں کی کیا وقعت رہ گئی ہے؟ وہ سنسان پڑے ہیں اورمساجد کی تعمیر کی خاطر مسلمانوں کے ہاتھوں باقاعدہ فروخت ہورہے ہیں۔کلیسا صفر کی طرف جارہے ہیں اور مساجد خود سرکاری طور پر بنوائی جارہی ہیں!
      اسلام کے خلاف صلیبیوں نے آغازِ اسلام ہی سے اپنی ظالمانہ ومخالفانہ سرگرمیاں مسلسل جاری رکھی ہوئی ہیں تاکہ عیسائی عوام الناس کو اس کی سچائیوں اور برکتوں کی طرف متوجہ نہ ہونے دیاجائے تاہم جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ حقیقت حقیقت ہوتی ہے، اسلام جیسی سب سے عظیم سچائی ہر دور میں اپنی حقیقت منوا کرہی کر دم لیتی رہی ہے۔ تعصب و نفرت کے اس جدید دور میں اللہ کے چند نیک صفت سنجیدہ عیسائی و یہودی ممتازافراد قرآن ِپاک اورصدیوں پر پھیلی ہوئی ہماری تاریخ کا مطالعہ کرکے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جو کچھ بھی اس مذہب کے خلاف اب تک کہا اور پھیلایا جارہا ہے، محض جھوٹ اور پروپیگنڈے کا ڈھیرہے۔ اپنی عالمانہ تحریرو ں اور مدبرانہ تقریروں میں انہوں نے اسلام مخالف پروپیگنڈوں کا بر سر عام مدلل جواب دینے کی کوشش کی ہے۔یہ وہ مفکرین ہیں جن کی حیرانی ،اسلامی ادوار کے چیختے چنگھاڑتے سنہرے حقائق کو دیکھ کر ہمیشہ ہی بڑھتی رہی ہے اور نتیجتاً وہ یہ اعلان کرنے پر ببانگ ِ دہل مجبور ہوئے ہیں کہ عیسائیت اور یہودیت جیسے مذاہب ،دین ِاسلام کے برابر تو کیا، اس کے پاسنگ بھی نہیں ہیں!۔     
    جدیددور کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ غیر مسلم اقوام، مغربی سیکولر مفکرین کے تابڑ توڑ گمراہ کن پروپیگنڈ ے کے دھوکے میں آکر اپنی ہی اولا دکو قتل کرنے کے دھندے میں مصروف ہو گئی ہیں۔ اپنی ہی آبادی کو انہوں نے اس بے بنیاد خوف کے تحت دنیا میں آنے سے روکا ہوا  ہے کہ اربوں کی اس آبادی کو کھانے پینے کا سامان دنیا میں کہاں سے مہیا ہوگا؟ تاہم مغرب اس حماقت کو آج اپنی آنکھوں سے خود دیکھ رہا ہے۔نہ صرف یہ کہ وہاں کام کرنے والے افرادکی بدترین قلت پیداہوگئی ہے ،بلکہ حالت یہ ہے کہ ا ن کے بڑ ے بڑے عیسائی شہر بھی اب از خود مسلم شہروں میں تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
     کم آبادی والے اس فلسفے کو اگرچہ عالمی طورپر مسلمانوں نے بھی بخوشی اپنایا ہے،تاہم فرق یہ ہے کہ ان کے ہاں بچوں کی آمد پر مکمل پابندی نہیں ۔عیسائی گھرانوں کے برعکس مسلم گھرانوں میں4,3 کی حد تک توبچے ضرور ہی گھر کا تقاضا سمجھے جاتے ہیں چنانچہ آبادی کی اس کایا پلٹ نے مغربی دنیا پر جو اثرات مرتب کئے ہیں ، ان کا مطالعہ بھی خاصا دلچسپی کا حامل ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان مغربی دیار میں ہر جگہ اپنی حیثیت منوارہے ہیں حتی ٰ کہ مغربی دنیا کو آج ان کے بغیرا پنا نظام چلانا تقریباًناممکنات میں سے نظر آرہا ہے ۔
    مسلمانوں کیخلاف مغربی تعصب اور نفرت کی موجودہ جاری فضامیں انہی کے بعض سنجیدہ دانشوروں کے مثبت خیالات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ ذیل میں انہی خیالات کی جھلکیں پیش کی جاتی ہیں۔
    ٭  فلپ کے حتّی(Philip k Hatti):
    تاریخ کی دنیا میں فلپ کے حتی کا نام بہت معتبر ہے۔وہ لبنانی نژاد امریکی عیسائی ہیں۔ اسلامی تاریخ کے بارے میں انہوں نے ایک ضخیم کتا ب’’THE HISTORY OF ARABS ‘‘کے نام سے لکھی ہے جو تقریباً پوری کی پوری اسلام کے خصائص سے بھری ہوئی ہے۔کتاب میں مصنف کہتے ہیں:
    داعیٔ اسلام (ﷺ)کی وفات کے محض 100سال کے بعد ہی ان کے متبعین ایک ایسی عظیم سلطنت کے مالک بن بیٹھے تھے جو اپنے عروج کے وقت کی سلطنت ِ روما سے بھی کہیں زیادہ وسیع تھی او رجوBAY OF BISCAY  سے لے کر سندھ ، چین اور مصر تک پھیلتی چلی گئی تھی اوربنو امیہ کے دور میںجس کا دارالحکومت دمشق بنا ہوا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ جس کاغذ کو چین نے سمرقند میں آٹھوی صدی کے وسط میں تیا ر کرنا شروع کیا تھا، اور جواپنے معیار کے لحاظ سے بہت کمتر درجے کا حامل تھا، اسی صدی کے آخر تک مسلمانوںنے اسے کافی معیاری بنادیاتھا ۔یہی وجہ ہے کہ بغداد میں اس وقت دنیا کا کاغذ کاسب سے اولین کارخانہ قائم کیا جاسکا تھا ۔آہستہ آہستہ یہ کاغذسازی تمام عر ب ممالک میں پھیلتی چلی گئی اور لاتعداد کارخانے ہر جگہ وجود میں آنے لگے جہاں مختلف اقسام کے سفید و رنگین کاغذ تیا رہوتے تھے۔قدرتی طور پراس ایجاد نے دنیا بھر میںعلم کی توسیع میں بھرپور کردار ادا کیا(ص347)۔
    فلپ کے حتی اطلاع دیتا ہے کہ مسلمانوں کی معروف رواداری کے سبب ہم نویں صدی میں مسلم درباروں میں عیسائی شخصیتوں کو بھی اپنی ذمے داریاں انجام دیتے دیکھتے ہیں۔ایک عباسی خلیفہ المعتضد(902-892ء) نے ایک عیسائی کمانڈر کو اپنی جنگی سرگرمیوں کے ادارے کا سربراہ مقرر کیا تھا۔انہی میں سے ایک’’ راڈریگو ڈیاز‘‘بھی تھا جسے اسپین میں مسلم فوجیوںکا کمانڈرِ اعلیٰ مقرر کیا گیا تھا اور جسے دربار سے’’السید‘‘کا لقب دیاگیاتھا۔عیسائی دنیا میں وہ آج بھی راڈریگو ڈیاز کے اصل نام کی بجائے السیدCID  ہی کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہودیوں کا ذکرکرتے ہوئے وہ بیان کرتا ہے کہ ’’خلیفہ کے ساتھ دربار میں جاتے ہوئے یہودی سردار کشیدہ کاری والا ریشمی لباس پہنے ،اور سر پر جواہرات والی پگڑی اوڑھے3,2 گھڑ سواروں کے ہمراہ جاتا تھا جس کے آگے آگے ایک محافظ، چلاتا ہواجاتا تھاکہ خبردار !۔ ہمار ے سردار اورستارۂ دائودی کے بیٹے تشریف لارہے ہیں‘‘ (ص347،353،357،544)۔
    مسلمانوں میں پائی جانے والی شدیدعلمی پیاس کا ذکر کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے کہ نامور فلسفی ’’ابو یوسف یعقو ب ابن اسحاق الکندی‘‘محض فلسفی ہی نہیں تھا بلکہ بیک وقت ستارہ شناس، کیمیا دان ، ماہرِ چشم اور ماہر موسیقی بھی تھا۔اس کے نا م کے ساتھ کم ا ز کم بھی 360 کتابیں یا کتابچے معنون کئے جاتے ہیں لیکن افسوس کہ ان میں سے اکثر اب دنیا سے ناپید ہوچکے ہیں۔ معروف ریاضی دان الخوارزمی کی تیار کردہ کتاب ’’حسا ب الجبر و المقابلہ‘‘نے بھی یورپی جامعات میں سولھویں صدی تک اہم اور اصل کتاب کی حیثیت سے اپنا لوہا منوائے رکھا تھا۔ اس کی کتابوں کی افادیت کا اندازہ اس امر سے لگایاجاسکتا ہے کہ’’الجبرا ‘‘اور’ ’الگورتھم‘‘جیسے مضامین کے نام تک بھی اسی سائنس دان کے نام پر رکھے گئے ہیں(ص 371،379)۔مسلم صلیبی جنگوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد میں نامورتاریخ دان ایڈورڈگبن اور اس جیسے دوسرے مؤرخوں نے ان مقامات پر، جہاں کبھی گرجا پائے جاتے تھے، مسجدوں کو ابھرتے دیکھا اور جن آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں میں کبھی انجیل پڑھا ئی جاتی تھی، وہاں قرآن کی تلاوتیں سننے کوملیں(ص501) ۔
    فلپ کے حتی کہتاہے کہ جدید دنیاکی تعمیر میں مسلمانوں کا کردار کبھی نہیں بھلا یا جاسکتا۔ یہی وہ لوگ تھے جن کے ہاتھوں قدیم سائنس اور فلسفہ نہ صرف بازیافت ہو ئے تھے بلکہ ان پر نئے انداز میںعلمی تبصرے بھی کئے گئے تھے اور جنہیں مغرب میں اس طور سے منتقل کیا گیا تھا کہ بعد میں وہ وہاں ہر قسم کے احیا کا ذریعہ بن سکے تھے۔ اس تمام عمل میں ہسپانیہ کا کردار سب سے اولین تھاتاہم اسپین میں جب عیسائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر بربریت توڑی گئی تو اندازہ کیا جاتاہے کہ کم از کم بھی30 لاکھ مسلمانوں کو یا تو قتل کردیا گیاتھایا انہیں اسپین سے نکال دیا گیا تھا(ص356تا357)۔حال یہ تھا کہ مسلم ٹکسالوں میں عیسائی حکومتوں کے سکے ڈھلا کرتے تھے کیونکہ عیسائی ریاستوں کوسکے سازی کا فن نہیں آتاتھا۔اسپین کے بادشاہ’’ راجر ثانی‘‘ کے سکے جو اُس دور میں پائے گئے ہیں ،ان پر عربی رسم الخط میں ۱۳۸ ۱ء  اور چند حروف عربی کے پائے گئے ہیں۔راجر ثانی کو مسلم اندازِ زندگی کافی پسند آتا تھا اسی لئے دیگر یورپی بادشاہوں کے خلاف وہ عربی الفاظ سے کڑھے ہوئے مسلمانوں کے سے لباس پہنتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ نفرت سے اسے اس کے ہم مذہب لوگ ’’کافر‘‘ کہہ کر پکار اکرتے تھے۔ موئرخ ابنِ جبیر کے حوالے سے فلپ لکھتا ہے کہ راجر کے پوتے ولئیم ثانی (1189-1166ء) کے دور میں عیسائی خواتین بھی مسلم عورتوں کے سے لباس پہننے پر فخر کیاکرتی تھیں۔ اُس دور میں مشرقی لباس کی طلب کا حال یہ تھا کہ جب کوئی یوررپی اس وقت تک خوش لباس تصور نہیں کیا جاتا تھاجب تک کہ اس نے کوئی ایک لباس بھی مسلمانوں کا سا نہ پہنا ہو۔’’پیلرمو‘‘ شہر، مسلم اٹلی کے شاہی محلات میں کپڑے کے جو کارخانے قائم تھے ، وہاں سے یورپی حکمران خاندا ن کیلئے ایسے شاہانہ ریاستی لباس برآمد کئے جاتے تھے جن پرباقاعدہ عربی الفاظ کڑھے ہوتے تھے(ص607،613،616)۔
    نامور شخصیت ابن الہیثم ، جو بیک وقت ایک ریاضی دان، فلسفی، ماہر نجوم اورطبیب تھا، کی بینائی پر قیمتی کتاب ’’کتاب المناظر‘‘ نے اس موضوع پر اہم و بنیادی اصول بتا ئے تھے۔ اصل عربی کتاب اگرچہ اب دنیا میں موجود نہیں ہے،لیکن اس کے شائع شدہ ترجمے مطبوعہ1572ء نے یورپ کے سائنس دانوں کو آنکھ سے متعلق علم کو بہت آسان بنا دیاتھااور اسی نے محدب شیشے کی تیا ری بھی کی تھی جس کی صنعت سازی اٹلی نے بہت بعد میں 3صدیوںکے بعد کاروباری طور پر شروع کی تھی(ص929)۔  
    صلیبی جنگوں میں عیسائی قیدیوں کے ساتھ صلاح الدین ایوبی کے حسن سلوک کا ذکر کرتے ہوئے فلپ بیا ن کرتا ہے کہ فتح ِ یروشلم کے بعدا یوبی نے عیسائی قیدیوں کی آزادی کیلئے ایک مخصوص رقم عائد کی تھی لیکن جب اس کے بھائی نے قیدیوں کی غربت کا حال دیکھا تو بھائی سے رقم کی معافی کی درخواست کی جس کے بعد سلطان نے ایک ہزار مستحق دشمن قیدیوں کو بلا معاوضہ ہی رہا کردیا۔بعدازاں خود عیسائی بطریقوں نے بھی اس سے اپنے قیدیوں کی بلامعاوضہ رہائی کی سفارش کی جسے ایوبی نے تسلیم کیا اور مزید کئی قیدیوں کو بھی رہائی عطاکی جن میں بے شمار خواتین اور بچے شامل تھے۔ بہادری کی علامت کے طور پرسلطان نے شاہین کو اپنا قومی نشان قرار دیا تھا۔ایوبی کی مسکینی کا حال یہ تھا کہ وفات کے وقت اس کے پاس سے محض 47 درہم اور سونے کا ایک ٹکڑا ملا تھا۔یہی وہ تمام صفات تھیں جن کی وجہ سے یورپ میں اسے آج تک ایک شریف، پارسا اور بہادر انسان تسلیم کیا جاتا ہے (ص652,651)۔

No comments:

Post a Comment