برائیوں کے پھیلنے سے روکنے کی ذمہ داری
اہل ایمان پر برائیوں کے پھیلنے سے روکنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی ذمہ داری پر عن أبي سعيد الخدري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان. رواه مسلم کی حدیث کی تشریح مطلوب ہے۔
الجواب وباللہ التوفیق:
عن أبي سعيد الخدري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان . رواه مسلم
ترجمہ: " حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جو شخص کسی خلاف شرع امر کو دیکھے (یعنی جس چیز کو شریعت کے خلاف جانے) تو اس کو چاہئے کہ اس چیز کو اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالے (یعنی طاقت کے ذریعہ اس چیز کو نیست و نابود کر دے مثلا باجوں گا جوں اور آلات لہو و لعب کو توڑ پھوڑ دے، نشہ آور مشروبات کو ضائع کر دے اور ہڑپ کی ہوئی چیز کو اس کے مالک کے سپرد کرا دے وغیرہ وغیرہ) اور اگر وہ خلاف شرع امر کے مرتکب کے زیادہ قوی ہونے کی وجہ سے ہاتھوں کے ذریعہ اس امر کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دے (یعنی خلاف شرع امور کے بارے میں وعید کی آیتیں اور احادیث کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دے (یعنی اس کو دل سے برا جانے قلبی کڑھن رکھے اور عزم و ارادہ پر قائم رہے کہ جب بھی ہاتھ یا زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دینے کی طاقت حاصل ہوگی تو اپنی ذمہ داری کو ضرور پورا کرے گا، نیز اس خلاف شرع امر کے مرتکب کو بھی برا جانے اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرے) اور یہ (آخری درجہ) ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔" (مسلم)
تشریح: برائیوں کے پھیلنے سے روکنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی جو ذمہ داری اہل ایمان پر عائد ہوتی ہے اس سے عہدہ برآ، ہونے کے تین درجے بیان کئے گئے ہیں پہلا درجہ یہ ہے کہ ہر برائی کا سر طاقت کے ذریعہ کچل دیا جائے بشرطیکہ اس طرح کی طاقت میسر ہو اور اگر یہ طاقت حاصل نہ ہو تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو روکنے کا فریضہ زبان کے ذریعہ ادا کیا جائے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر زبان کے ذریعہ بھی کسی برائی کی مذمت کرنے اور اس کو ختم کرنے کی ہمت نہ ہو تو پھر دل سے اس فریضہ کو انجام دیا جائے۔ یعنی کسی خلاف شرع امر کو دیکھ کر اسے دل سے برا جانے اور اس کے مرتکب کے خلاف قلب میں عداوت و نفرت کے جذبات رکھے جائیں، اس درجہ کو ایمان کا سب سے کمزور درجہ قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب اہل ایمان اس درجہ کمزور ہو جائیں کہ وہ کسی برائی کو مٹانے کے لئے ہاتھ اور زبان کی طاقت سے محروم ہوں تو سمجھا جائے کہ یہ ایمان کے لئے سب سے کمزور زمانہ ہے کہ اگر اہل ایمان طاقتور ہوتے تو وہ کسی برائی کو اپنی قولی و فعلی طاقت کے ذریعہ مٹانے کی بجائے محض قلبی نفرت پر اکتفا نہ کرتے۔ یا، وذالک اضعف الایمان، کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی برائی کو محض قلبی طور پر برا جاننے پر اکتفا کرتا ہے بلکہ ہاتھ اور زبان کے ذریعہ اس برائی کو مٹانے کی جدوجہد کرتا ہے، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ بہترین جہاد، ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ آیت (ولا یخافون لومۃ لائم) اور ان کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا۔
بعض علماء نے فرمایا ہے کہ حدیث میں پہلے حکم (یعنی برائی کو ہاتھ کے ذریعہ مٹانے) کا تعلق ان اہل ایمان سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے طاقت و اقتدار سے نوازا ہے یعنی بادشاہ و حاکم وغیرہ، چنانچہ طاقت و اقتدار رکھنے والے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر و اقتدار میں سختی و شدت کے ساتھ برائیوں کی سرکوبی کریں اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کریں دوسرے حکم (یعنی برائی کو زبانی مذمت اور تلقین و نصیحت کے ذریعہ ختم کرنے) تعلق علماء کی ذات سے ہے ۔ یعنی یہ اہل علم اور واعظین کا فریضہ ہے کہ وہ جن برائیوں کو دیکھیں اپنے وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان کی مذمت کریں اور عوام کو تلقین و نصیحت کے ذریعہ ان برائیوں سے روکیں اور تیسرے حکم (یعنی برائیون اور ان کے مرتکبین کے خلاف دل میں نفرت کا جذبہ رکھنے کا تعلق عام مسلمانوں سے ہے، چنانچہ عام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ خلاف شرع امور کو دیکھ کر محض اعراض و بے اعتنائی کا رویہ اختیار نہ کریں بلکہ ان امور کو دل سے برا جانیں اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قلبی نفرت رکھیں۔
بعض حضرات نے حدیث کے اس آخری جملہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ یہ چیز یعنی کسی برائی کو دیکھ کر محض دل میں اس کو برا سمجھنے پر اکتفا کر لینا ایمان کے مراتب میں سب سے کمزور مرتبہ ہے کیونکہ اگر کوئی مسلمان ایسی چیز کو دیکھے کہ جس کا دینی نقطہ نظر سے برا ہونا قطعی طور پر ثابت و ظاہر ہو اور وہ اس چیز کو برا بھی نہ سمجھے بلکہ اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے اور اس کو اچھا جانے تو مسلمان نہیں رہے گا بلکہ کافر ہو جائے گا۔
اس موقع پر اس بات کو بھی جان لینا چاہئے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا حکم بھلائیوں یا برائیوں کی حیثیت کے تابع ہوتا ہے یعنی اگر کوئی چیز اس درجہ کی ہے کہ اس کو اختیار کرنا واجب ہے تو اس کو اختیار کرنے کا حکم دینا (یعنی امر بالمعروف) بھی واجب ہوگا اور اگر وہ چیز مستحب ہوگی تو امر بالمعروف بھی مستحب ہوگا، اسی طرح اگر کوئی خلاف شرع چیز حرام کا درجہ رکھتی ہو اس سے روکنا یعنی نہی عن المنکر واجب ہوگا اور اگر وہ چیز مکروہ ہو تو اس صورت میں نہی عن المنکر بھی مستحب ہوگا۔ اسی کے ساتھ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ امر بالمعروف ونہی وعن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ ان کی وجہ سے کسی فتنہ و فساد کے پیدا ہو جانے کا خوف نہ ہو مثلاً اگر یہ ظاہر ہو کہ فلاں شخص کو کسی نیک کام کی تلقین کرنے کی وجہ سے فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا یا جو شخص کسی برے کام کا مرتکب ہے اگر اس کو اس برائی سے روکا گیا تو اس کے نتائج اور زیادہ فتنہ و فساد کی صورت میں نکلیں گے تو اس صورت میں اس فریضہ کی ادائیگی قطعا ضروری نہیں ہوگی۔ اسی طرح ایک شرط یہ بھی ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو قبول کئے جانے کا گمان بھی ہو، لہٰذا اگر یہ گمان ہو کہ جس شخص کو نیک کام کرنے کی تلقین کی جائے گی یا اس کو کسی برے کام سے روکا جائے گا تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا تو اس کو اس نیک کام کا حکم کرنا یا برے کام سے روکنا واجب نہیں ہوگا البتہ مستحسن ضرور رہے گا تاکہ شعار اسلام کا اظہار ہو جائے ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کے خلاف نقل کیا ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
حدیث کے الفاظ من رای منکم منکرا میں لفظ من کے ذریعہ مذکورہ حکم کا مخاطب جن لوگوں کو قرار دیا گیا ہے ان میں ملت کا ہر فرد شامل ہے، یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہر مسلمان کو ادا کرنا چاہئے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ آزاد ہو یا غلام یہاں تک کہ فاسق بھی اس امر کا ذمہ دار ہے ۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ امر بالمعروف کے لئے شرط نہیں ہے کہ جو شخص کسی نیکی کا حکم کرنے والا ہو وہ پہلے خود بھی اس نیکی پر عامل ہو اور بغیر اپنے عمل کے امر بالمعروف کا فریضۃ انجام دینا اس کے لئے درست نہ ہو کیونکہ جس طرح خود اپنے نفس کو کسی نیکی پر عمل کرنے کی تلقین کرنا ایک واجب چیز ہے اسی طرح ایک واجب امر یہ ہے کہ دوسروں کو نیکی کی تلقین کی جائے، لہٰذا اگر ان میں سے کوئی ایک واجب ترک ہوتا تو اس کی وجہ سے دوسرے واجب کو ترک کرنا قطعاً جائز نہیں ہوگا، یہ الگ بات ہے کہ جس واجب کا ترک ہوگا اس کا گناہ بہر صورت لازم آئے گا۔ لہٰذا قرآن کریم میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ۔ آیت (لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ) 61۔ الصف : 2)۔ (یعنی تم اس چیز کو کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے) تو اس آیت کریمہ کا محمول امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو تسلیم کرنے کی صورت میں یہ کہا جائے گا کہ اس آیت کی مراد ترک عمل سے روکنا اور اس پر زجر و تنبیہ ہے نہ کہ دوسروں کو بھلائی کی تلقین کرنے سے منع کرنا مراد ہے، اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھئے کہ جو شخص بھلائیوں کی تلقین کرتا ہے اور دوسروں سے نیک عمل اختیار کرنے کو کہتا ہے لیکن وہ خود اس بھلائی اور نیک عمل کو اختیار نہیں کرتا تو یہ آیت کریمہ ایسے شخص کو متنبہ کرتی ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ تم دوسروں کو بھلائی اور نیک عمل کرنے کی تلقین کرتے ہو لیکن یہ نہایت غیر موزوں بات ہے کہ تم خود اس بھلائی اور نیک عمل کو اختیار نہیں کرتے۔ لہٰذا آیت یہ بات قطعا ثابت نہیں کرتی کہ جو شخص خود نیک عمل اختیار نہ کرے وہ دوسروں کو بھی نیک عمل اختیار کرنے کی تلقین نہیں کر سکتا، تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیکی کی تلقین کرنے والا اگر خود بھی نیکی کو اختیار کرے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی، کیونکہ جو شخص خود عمل نہیں کرتا، اس کی تلقین و نصیحت دوسروں پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حدیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کی جو ترتیب ذکر کی گئی ہے وہ قرآن و سنت اور اجماع امت کے ذریعہ واجب ہے اس بارہ میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ کچھ روافض کا اس سے اختلاف ہے جن کا کوئی اعتبار نہیں ہے، لہٰذا جس شخص نے مذکورہ ترتیب کے مطابق اس فریضہ کو انجام دیا اور مخاطب نے اس کو قبول کر لیا تو سبحان اللہ اور اگر قبول نہ کیا تو وہ شخص اپنی ذمہ داری سے بہرحال سبکدوش ہوجائے گا، اس کے بعد اب اس پر کوئی اور چیز واجب نہیں ہوگی۔ نیز علماء نے کہا ہے کہ اس امر (یعنی بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے) کی فرضیت بطریق کفایہ ہے اور جو شخص اس فریضہ کی ادائیگی کی طاقت و قوت رکھنے کے باوجود اس ذمہ داری کو بلا کسی عذر کے پورا نہ کرے تو وہ گناہ گار ہوتا ہے لیکن بعض صورتوں میں یہ امر فرض عین بھی ہو جاتا ہے۔ مثلا کوئی برائی کسی ایسی جگہ رونما ہو رہی ہو کہ ایک شخص کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا یا اس کے اذالہ کی قدرت اس کے علاوہ کوئی اور نہیں رکھتا جیسے اپنی بیوی یا بیٹی کسی برائی کا ارتکاب کرے تو اس برائی کو ختم کرنے کی ذمہ داری خاص طور سے اسی شخص پر عائد ہوگی۔
امام نووی رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ عدم قبولیت کا گمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وجوب کو ساقط نہیں کرتا، لہٰذا اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ فلاں شخص کے سامنے بھلائی کی تلقین کرنا یا اس کو برے کام سے روکنا بے کار ہے کیونکہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قبول نہیں کرے گا تو اس صورت میں بھی اس پر واجب ہوگا کہ وہ اس شخص کو نیک کام کرنے کا حکم دے اور برائی کے راستہ سے روکے اور اس بات کی قطعا پرواہ نہ کرے کہ اس کی بات مانی جائے گی یا نہیں کیونکہ موعظت و نصیحت اول تو بذات خود بڑے فائدے رکھتی ہے اور کسی نہ کسی صورت میں اور کبھی نہ کبھی ضرور اثر کرتی ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے ۔ آیت (فان الذکری تنفع المومنین)۔ دوسرے یہ کہ محض اس گمان کی بنا پر کہ مخاطب تلقین و نصیحت سے کوئی اثر نہیں لے گا اپنی ذمہ داری سے اعراض نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر بھلائیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو مٹانے کی جدوجہد میں مصروف رہنا چاہئے کہ لوگوں نے تو رسولوں تک کو جھٹلایا ہے اور پیغمبروں تک کی موعظت و نصیحت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے تو کیا ان رسولوں اور پیغمبروں نے حق بات پہچاننے کا فریضہ ترک کر دیا تھا۔ قرآن نے جو بات رسول و پیغمبر کے بارے میں فرمائی ہے وہ ہر شخص پر صادق آتی ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے یعنی آیت (وما علی الرسول الا البلاغ المبین) (یعنی رسول کا کام بس یہ ہے کہ ) اللہ کے احکام) صاف صاف پہنچا دے (ان احکام کا ماننا یا نہ ماننا دوسروں کا کام ہے۔
واضح رہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضۃ صرف حاکم اور مقتدر مسلمانوں ہی پر عائد نہیں ہوتا اور نہ یہ ضروری ہے کہ اس امر کی انجام دہی کے لئے حاکم اپنی طرف سے احکام جاری کر دے، بلکہ اس کا حق عام لوگوں کو بھی پہنچتا ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کام کو انجام دیں، بلکہ ایسے زمانہ میں جب کہ طاقت و اقتدار رکھنے والے مسلمان اس فریضہ سے بالکل لاپرواہی برتتے ہیں۔ خصوصیت سے عام مسلمانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس کام کو انجام دیں اور تمام مسلمانوں میں بھی زیادہ ذمہ داری علماء و مشائخ پر عائد ہوتی ہے، اسی طرح اس فریضہ کی ادائیگی میں اپنا مخاطب صرف عام مسلمانوں ہی کو نہیں ماننا چاہئے بلکہ خواص جیسے حاکموں وغیرہ کو بھی مناسب انداز میں بھلائیوں کی تلقین کرنی چاہئے اور وہ جن برائیوں میں مبتلا ہوں ان سے ان کو روکنا چاہئے، چنانچہ پچھلے زمانوں کے بزرگ صرف عوام الناس کو بھلائیوں کی تلقین نہیں کرتے تھے اور ان کو برائیوں سے روکنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ بادشاہوں حاکموں اور مقتدر مسلمانوں کے سامنے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ تاہم یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسی شخص کو کرنا چاہئے جو یہ علم رکھتا ہو کہ وہ جس چیز کا حکم دے رہا ہے یا جس چیز سے روک رہا ہے شریعت کے اعتبار سے اس کی کیا حیثیت و اہمیت ہے، چنانچہ جہاں تک ان چیزوں کا تعلق ہے جن کا فرض و واجب ہونا یا جن کا حرام ہونا اس طرح ظاہر ہے کہ تمام مسلمان ان کو جانتے ہیں، جیسے نماز اور روزہ وغیرہ یا زنا اور شراب وغیرہ، تو ان چیزوں کے بارے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عام مسلمان بھی شوق سے کر سکتے ہیں لیکن جو چیزیں کہ خواہ وہ قولی ہوں یا فعلی، ایسی ہیں کہ ان کے بارے میں عام مسلمانوں کو کوئی علم نہیں ہوتا جو اجتہاد سے تعلق رکھتی ہیں تو عوام کو ان طرح کی چیزوں میں سے صرف اسی چیز کو اختیار کرنے سے منع کرنا چاہئے جن کی ممانعت متفق علیہ ہو مختلف فیہ امور میں منع نہیں کرنا چاہئے خصوصا ان حضرات کے مسلک کے مطابق کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے۔
آخر میں یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری انجام دیں ان کو چاہئے کہ وہ اس فریضہ کی ادائیگی میں خوش خلقی، نرمی اور تہذیب و متانت کا رویہ اختیار کریں اور وہ اس امر کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر انجام دیں نہ کہ کسی دنیاوی غرض و مقصد اور نفس کی خاطر، اس صورت میں مخاطب پر بات اثر بھی کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ ثواب بھی عطا فرماتا ہے اسی طرح جب کسی شخص کو کوئی نصیحت کرنی ہو تو لوگوں کی موجودگی میں نہ کی جائے بلکہ تنہائی میں اور پوشیدہ طور پر اس کو نصیحت کرنی چاہئے کیونکہ لوگوں کی موجودگی میں کسی کو نصیحت کرنا، نصیحت نہیں بلکہ فضیحت ہے۔
از شرح مشکوۃ
-----------------------------------------
شریعت کا نفاذ اورعام آدمی کی ذمہ داری
سوال: شریعت کے نفاذ کے حوالے سے ایک عام آدمی کی ذمہ داری کیا بنتی ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اللہ تعالی نے ہر انسا ن کو اس کی وسعت کے بقدر ہی مکلف بنایا ہے، اور وسعت سے زیادہ انسان نہ مکلف ہے اور نہ ہی آخرت میں اس پر اس کی گرفت ومواخذہ ہوگا، امر بالمعروف یعنی نیک کاموں کا حکم دینا اور نہی عن المنکریعنی برائیوں کی روک تھام یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے، جس میں حکمرانوں اور عوام کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے، اس حوالے سے ایک فرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی وسعت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو ادا کرتا رہے، اور اس بارے میں شریعت کے آداب واصولِ تبلیغ کو پیش نظر رکھے، اور برائی کی روک تھام کے لیے خود کسی برائی کا مرتکب نہ ہو۔ عام فرد کا اس مقصد کے لیے طاقت کا استعمال جائز نہیں ہے، البتہ برائی کی شناعت کے پیشِ نظر اربابِ اقتدار کو بزور روکنے کا اختیار حاصل ہے، بشرطیکہ اس بنیاد پر شریعت کے دیگر احکام کی پامالی نہ ہو۔ چناں چہ مشکاۃ شریف کی روایت میں ہے:
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تم میں سے جو شخص کسی خلافِ شرع امر کو دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اس چیز کو اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالے اور اگر وہ( خلافِ شرع امر کے مرتکب کے زیادہ قوی ہونے کی وجہ سے یا بزورِ طاقت روکنا خلافِ مصلحلت ہونے کی وجہ سے ہاتھوں کے ذریعہ )اس امر کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کو دل سے برا جانے اور یہ (آخری درجہ) ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔‘‘ (مسلم)
علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ برائیوں کے پھیلنے سے روکنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی جو ذمہ داری اہلِ ایمان پر عائد ہوتی ہے اس سے عہدہ برآ،ہونے کے تین درجے بیان کیے گئے ہیں: پہلا درجہ یہ ہے کہ ہر برائی کا سر طاقت کے ذریعہ کچل دیا جائے بشرطیکہ اس طرح کی طاقت میسر ہو اور اگر یہ طاقت حاصل نہ ہو تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو روکنے کا فریضہ زبان کے ذریعہ ادا کیا جائے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر زبان کے ذریعہ بھی کسی برائی کی مذمت کرنے اور اس کو ختم کرنے کی ہمت نہ ہو تو پھر دل سے اس فریضہ کو انجام دیا جائے۔ یعنی کسی خلافِ شرع امر کو دیکھ کر اسے دل سے برا جانے ۔۔۔ ، اس درجہ کو ایمان کا سب سے کمزور درجہ قرار دیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب اہلِ ایمان اس درجہ کمزور ہو جائیں کہ وہ کسی برائی کو مٹانے کے لیے ہاتھ اور زبان کی طاقت سے محروم ہوں تو سمجھا جائے کہ یہ ایمان کے لیے سب سے کمزور زمانہ ہے کہ اگر اہلِ ایمان طاقتور ہوتے تو وہ کسی برائی کو اپنی قولی و فعلی طاقت کے ذریعہ مٹانے کی بجائے محض قلبی نفرت پر اکتفا نہ کرتے۔ یا ، ’’وَذٰلِکَ أَضْعَفُ الْإِیْمَانِ‘‘، کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی برائی کو محض قلبی طور پر برا جاننے پر اکتفا کرتا ہے، بلکہ ہاتھ اور زبان کے ذریعہ اس برائی کو مٹانے کی جدوجہد کرتا ہے ، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ بہترین جہاد، ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے ، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ آیت :((وَلَايَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ)) اور ان کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا ۔
بعض علماء نے فرمایا ہے کہ حدیث میں پہلے حکم (یعنی برائی کو ہاتھ کے ذریعہ مٹانے) کا تعلق ان اہلِ ایمان سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے طاقت و اقتدار سے نوازا ہے یعنی بادشاہ و حاکم وغیرہ، چنانچہ طاقت و اقتدار رکھنے والے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر و اقتدار میں سختی و شدت کے ساتھ برائیوں کی سرکوبی کریں اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں، دوسرے حکم (یعنی برائی کو زبانی مذمت اور تلقین و نصیحت کے ذریعہ ختم کرنے) تعلق علماء کی ذات سے ہے ۔ یعنی یہ اہلِ علم اور واعظین کا فریضہ ہے کہ وہ جن برائیوں کو دیکھیں اپنے وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان کی مذمت کریں اور عوام کو تلقین و نصیحت کے ذریعہ ان برائیوں سے روکیں، اور تیسرے حکم (یعنی برائیوں اور ان کے مرتکبین کے خلاف دل میں نفرت کا جذبہ رکھنے کا تعلق عام مسلمانوں سے ہے ، چنانچہ عام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ خلافِ شرع امور کو دیکھ کر محض اعراض و بے اعتنائی کا رویہ اختیار نہ کریں، بلکہ ان امور کو دل سے برا جانیں اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قلبی نفرت رکھیں۔
بعض حضرات نے حدیث کے اس آخری جملہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ یہ چیز یعنی کسی برائی کو دیکھ کر محض دل میں اس کو برا سمجھنے پر اکتفا کر لینا ایمان کے مراتب میں سب سے کمزور مرتبہ ہے، کیوں کہ اگر کوئی مسلمان ایسی چیز کو دیکھے کہ جس کا دینی نقطہ نظر سے برا ہونا قطعی طور پر ثابت و ظاہر ہو اور وہ اس چیز کو برا بھی نہ سمجھے، بلکہ اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کرے اور اس کو اچھا جانے تو مسلمان نہیں رہے گا، بلکہ کافر ہوجائے گا۔
اس موقع پر اس بات کو بھی جان لینا چاہیے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا حکم بھلائیوں یا برائیوں کی حیثیت کے تابع ہوتا ہے، یعنی اگر کوئی چیز اس درجہ کی ہے کہ اس کو اختیار کرنا واجب ہے تو اس کو اختیار کرنے کا حکم دینا (یعنی امر بالمعروف) بھی واجب ہوگا اور اگر وہ چیز مستحب ہوگی تو امر بالمعروف بھی مستحب ہوگا، اسی طرح اگر کوئی خلافِ شرع چیز حرام کا درجہ رکھتی ہو اس سے روکنا یعنی نہی عن المنکر واجب ہوگا اور اگر وہ چیز مکروہ ہو تو اس صورت میں نہی عن المنکر بھی مستحب ہوگا۔
اسی کے ساتھ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ امر بالمعروف ونہی وعن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ ان کی وجہ سے کسی فتنہ و فساد کے پیدا ہو جانے کا خوف نہ ہو، مثلاً: اگر یہ ظاہر ہو کہ فلاں شخص کو کسی نیک کام کی تلقین کرنے کی وجہ سے فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا یا جو شخص کسی برے کام کا مرتکب ہے اگر اس کو اس برائی سے روکا گیا تو اس کے نتائج اور زیادہ فتنہ و فساد کی صورت میں نکلیں گے تو اس صورت میں اس فریضہ کی ادائیگی قطعاً ضروری نہیں ہوگی۔
اسی طرح ایک شرط یہ بھی ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو قبول کیے جانے کا گمان بھی ہو، لہٰذا اگر یہ گمان ہو کہ جس شخص کو نیک کام کرنے کی تلقین کی جائے گی یا اس کو کسی برے کام سے روکا جائے گا تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا تو اس کو اس نیک کام کا حکم کرنا یا برے کام سے روکنا واجب نہیں ہوگا، البتہ مستحسن ضرور رہے گا؛ تاکہ شعارِ اسلام کا اظہار ہو جائے ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کے خلاف نقل کیا ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔
حدیث کے الفاظ ’’مَنْ رَأٰی مِنْکُمْ مُّنْکَرًا‘‘ میں لفظ ’’مَنْ‘‘ کے ذریعہ مذکورہ حکم کا مخاطب جن لوگوں کو قرار دیا گیا ہے ان میں ملت کا ہر فرد شامل ہے ، یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہر مسلمان کو ادا کرنا چاہیے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ آزاد ہو یا غلام، یہاں تک کہ فاسق بھی اس امر کا ذمہ دار ہے ۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ امر بالمعروف کے لیے شرط نہیں ہے کہ جو شخص کسی نیکی کا حکم کرنے والا ہو وہ پہلے خود بھی اس نیکی پر عامل ہو، اور بغیر اپنے عمل کے امر بالمعروف کا فریضہ انجام دینا اس کے لیےدرست نہ ہو، کیوں کہ جس طرح خود اپنے نفس کو کسی نیکی پر عمل کرنے کی تلقین کرنا ایک واجب چیز ہے اسی طرح ایک واجب امر یہ ہے کہ دوسروں کو نیکی کی تلقین کی جائے، لہٰذا اگر ان میں سے کوئی ایک واجب ترک ہوتا تو اس کی وجہ سے دوسرے واجب کو ترک کرنا قطعاً جائز نہیں ہوگا، یہ الگ بات ہے کہ جس واجب کا ترک ہوگا اس کا گناہ بہر صورت لازم آئے گا۔ لہٰذا قرآن کریم میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ۔ آیت (لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ) 61۔ الصف : 2)۔ (یعنی تم اس چیز کو کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے) تو اس آیت کریمہ کا محمول امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو تسلیم کرنے کی صورت میں یہ کہا جائے گا کہ اس آیت کی مراد ترکِ عمل سے روکنا اور اس پر زجر و تنبیہ ہے نہ کہ دوسروں کو بھلائی کی تلقین کرنے سے منع کرنا مراد ہے، اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھیے کہ جو شخص بھلائیوں کی تلقین کرتا ہے اور دوسروں سے نیک عمل اختیار کرنے کو کہتا ہے لیکن وہ خود اس بھلائی اور نیک عمل کو اختیار نہیں کرتا تو یہ آیتِ کریمہ ایسے شخص کو متنبہ کرتی ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ تم دوسروں کو بھلائی اور نیک عمل کرنے کی تلقین کرتے ہو، لیکن یہ نہایت غیر موزوں بات ہے کہ تم خود اس بھلائی اور نیک عمل کو اختیار نہیں کرتے۔ لہٰذا آیت یہ بات قطعاً ثابت نہیں کرتی کہ جو شخص خود نیک عمل اختیار نہ کرے وہ دوسروں کو بھی نیک عمل اختیار کرنے کی تلقین نہیں کر سکتا۔ تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیکی کی تلقین کرنے والا اگر خود بھی نیکی کو اختیار کرے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی، کیوں کہ جو شخص خود عمل نہیں کرتا، اس کی تلقین و نصیحت دوسروں پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حدیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کی جو ترتیب ذکر کی گئی ہے وہ قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے ذریعہ واجب ہے، اس بارہ میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ کچھ روافض کا اس سے اختلاف ہے جن کا کوئی اعتبار نہیں ہے، لہٰذا جس شخص نے مذکورہ ترتیب کے مطابق اس فریضہ کو انجام دیا اور مخاطب نے اس کو قبول کرلیا تو سبحان اللہ اور اگر قبول نہ کیا تو وہ شخص اپنی ذمہ داری سے بہرحال سبک دوش ہو جائے گا، اس کے بعد اب اس پر کوئی اور چیز واجب نہیں ہوگی۔
No comments:
Post a Comment