محترم 'عبقری' کیا ہے؟ کیا یہ کوئی مسلک ہے؟
اے جے عابد جٹ
الجواب وباللہ التوفیق:
'عبقری' ایک رسالہ کا نام ہے. مذکورہ رسالے کے مندرجات عموماً تین طرح کے ہوتے ہیں:
1- وظائف۔
2- مجربات۔
3- دینی مسائل اور راہ نمائی وغیرہ۔
(1) وظائف سےمتعلق یہ حکم ہے کہ جو وظائف درجِ ذیل شرائط کے ساتھ ہوں وہ جائز ہیں:
(۱) ان کا معنی ومفہوم معلوم ہو،
(۲) ان میں کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو،
(۳) ان کے مؤثر بالذات ہونے کا اعتقاد نہ ہو۔
لہذا ایسے وظائف جو آیاتِ قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں تو لوگوں کے فائدے کے لئے جائز کاموں کے لیےان کو لکھنا، استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے؛ کیوں کہ اس کی حقیقت ایک جائز تدبیر سے زیادہ کچھ نہیں اور جن وظائف میں کلماتِ شرکیہ یا کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منترہوں یا الفاظ معلوم اور صحیح ہوں لیکن انہیں مؤثر حقیقی سمجھا جائے تو ان کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہے۔
(2) مجربات میں اگر کوئی خلافِ شرع بات نہ ہو تو مجربات کے طور پر ان کے استعمال کی گنجائش ہے، کیوں کہ ان کا تعلق دینی امور سے نہیں ہے، بلکہ تجربات سے ہے۔ البتہ اگر ان کا تعلق طب/میڈیکل سے ہو تو اس کے ماہرین سے رائے لئے بغیر ان پر عمل بھی مناسب نہیں ہے، ہر عمل ہر ایک کے لئے مفید نہیں ہوتا، مزاجوں اور علاقوں اور موسم کے اعتبار سے علاج میں بھی فرق آتا ہے۔
(3) دینی اور شرعی بات کا مستند ہونا ضروری ہوتا ہے، اس لیے اس میں مستند علماءِ کرام سے پوچھ پوچھ کر اور مستند کتب میں دیکھ کر ہی عمل اور نقل کیا جائے، مذکورہ رسالہ میں بسا اوقات دینی باتیں غیر مستند نقل کی جاتی ہیں، اس لئے ان کی دینی باتیں پڑھنے اور نقل کرنے سے احتیاط کریں اور اگر کبھی ایسی کوئی بات سامنے آجائے تو مستند علماء سے تصدیق کرکے عمل کریں۔
فقط واللہ اعلم
'عبقری' ایک رسالہ کا نام ہے. مذکورہ رسالے کے مندرجات عموماً تین طرح کے ہوتے ہیں:
1- وظائف۔
2- مجربات۔
3- دینی مسائل اور راہ نمائی وغیرہ۔
(1) وظائف سےمتعلق یہ حکم ہے کہ جو وظائف درجِ ذیل شرائط کے ساتھ ہوں وہ جائز ہیں:
(۱) ان کا معنی ومفہوم معلوم ہو،
(۲) ان میں کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو،
(۳) ان کے مؤثر بالذات ہونے کا اعتقاد نہ ہو۔
لہذا ایسے وظائف جو آیاتِ قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ یا کلماتِ صحیحہ پر مشتمل ہوں تو لوگوں کے فائدے کے لئے جائز کاموں کے لیےان کو لکھنا، استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے؛ کیوں کہ اس کی حقیقت ایک جائز تدبیر سے زیادہ کچھ نہیں اور جن وظائف میں کلماتِ شرکیہ یا کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منترہوں یا الفاظ معلوم اور صحیح ہوں لیکن انہیں مؤثر حقیقی سمجھا جائے تو ان کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہے۔
(2) مجربات میں اگر کوئی خلافِ شرع بات نہ ہو تو مجربات کے طور پر ان کے استعمال کی گنجائش ہے، کیوں کہ ان کا تعلق دینی امور سے نہیں ہے، بلکہ تجربات سے ہے۔ البتہ اگر ان کا تعلق طب/میڈیکل سے ہو تو اس کے ماہرین سے رائے لئے بغیر ان پر عمل بھی مناسب نہیں ہے، ہر عمل ہر ایک کے لئے مفید نہیں ہوتا، مزاجوں اور علاقوں اور موسم کے اعتبار سے علاج میں بھی فرق آتا ہے۔
(3) دینی اور شرعی بات کا مستند ہونا ضروری ہوتا ہے، اس لیے اس میں مستند علماءِ کرام سے پوچھ پوچھ کر اور مستند کتب میں دیکھ کر ہی عمل اور نقل کیا جائے، مذکورہ رسالہ میں بسا اوقات دینی باتیں غیر مستند نقل کی جاتی ہیں، اس لئے ان کی دینی باتیں پڑھنے اور نقل کرنے سے احتیاط کریں اور اگر کبھی ایسی کوئی بات سامنے آجائے تو مستند علماء سے تصدیق کرکے عمل کریں۔
فقط واللہ اعلم
--------------------------------------------------------------------------
عبقری کا ایک تجزیہ
عموماً یہ تاثر پایاجاتاہے کہ مولوی لوگ اپنے تعصب اور تنگ نظری کی دیرینہ عادت سے مجبور ہوکردوسروں کی تنقیص کرتے رہتے ہیں اس لیے ان کی تنقید کی اہمیت نہیں۔ درحقیقت اس تاثر اور خیال کے پیچھے کسی حد تک وہ 'مبینہ' بیانیہ ہے جو اس وقت پورے عالم میں رائج ہے کہ ہر شر کی جڑ مولوی ہے۔ دنیا میں کسی بھی فن کے ماہرین جب اپنے میدان سے وابستہ لوگوں پرتنقید کرتے ہیں تو اس کا سبب یا توان سے فنی وعلمی اختلاف ہوتاہے یا اختلاف کی وجہ فریق دوم کی پیشہ وارانہ نااہلی ہوتی ہے۔ ایک ڈرائیور دوسرے ڈرائیور پر اور ایک صحافی دوسرے صحافی پر تنقید کرتا ہے اس کی وجہ ہمیشہ ذاتی وپیشہ وارانہ تعصب نہیں ہوتی بلکہ اکثروبیشتر اس پروفیشنل کو وہ بنیادی نااہلی نظر آتی ہے جو ہماری نظروں سے مخفی ہوتی ہے۔کتنے بڑے بڑے اور خوبصورت سائن بورڈز لگانے والے نیم حکیم کی صورت میں خطرہ جان بنے ہوئے ہیں اب مستند حکیم کا پیشہ وارا نہ فرض ہوتاہے کہ وہ اس کے خطرے سے لوگوں کو آگاہ کریں۔
عبقری سے میری وابستگی کے چند ماہ ہی ہوئے ہیں اور میں ذاتی طور پر کئی لوگوں کو اس کا شیدائی بناچکا ہوں۔ مجھے عبقری کے بارے میں اس وقت تحفظات ہوئے جب میگزین میں متواترغیر مستند مواد پڑھنے کو ملتے رہے۔ یہ میرا تجزیاتی مطالعہ ہے کوئی صاحب ‘فتوی’ قرار دے کر عبقری کی گمراہی کا فیصلہ نہ کریں اور نہ ہی راقم کو اپنی توپوں کا نشانہ بنائے۔ محض غور کرنے کے لیے یہ تجزیہ پیش کر رہاہوں تا کہ اس پُر فتن دور میں محتاط ہوکر روحانی اور دینی ذرائع کو قبول کیا جائےاور کسی بھی ذریعے کو قبول کرنے سے پہلے ملک کےمستند اور معروف علماء کی رہنمائی حاصل کی جائے۔
میگزین اور ویب سائیٹ کے تجزیے سے معلوم ہوتاہے کہ غیر مستند مواد شائع کرنے کے لیے کوئی موثر چھان بین کا پیمانہ (Screening Criteria) نہیں۔ مثلاً امسال ایک شمارے میں پورامضمون ربیع الاول کی مخصوص تاریخوں میں نوافل کی فضیلت کے بارے شائع کیا جس کا کوئی شرعی ثبوت نہیں۔ عبقری کا ایک معروف وظیفہ ملاحظہ فرمالیں:یَارَبِّ موسٰی یَا رَبِّ کَلِیْم بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ تمام اہل علم جانتے ہیں کہ عربی زبان کےکسی بھی جملے کا درست مطلب اس کی ترکیب میں مضمر ہوتاہے۔ اس جملےکی ترکیب سے شرک کی بو آتی ہے۔ یا ربِ کا تو معنی ہوا اے میرے رب ،موسی کا مطلب موسی تو بہ ظاہر ترجمہ یوں بنتاہے
اے میرے رب موسی۔ اے میرے رب کلیم۔ اگر کوئی کلمہ محذوف ہے، یا ‘موسی’ اور کلیم کے معانی کچھ اور لیے گئے ہیں تو وہ کیا ہیں؟
چلیں وہ معانی مقصودہ اگر درست ہیں تو پھر بھی کیا ایسا کوئی وظیفہ تجویز کرنا درست ہے جو واضح المعنی نہ ہو؟
یہ وظیفہ ہر شمارے میں اسی طرح تحریر ہے سوائے ایک شمارے کے جس میں ‘یا رب’ بالفتح لکھا ہے۔ ترکیب کو ہم نظر انداز بھی کرسکتے تھے اگراس وظیفے کا کوئی شرعی حوالہ درج ہوتا۔ اس طرح کے متعدد وظائف میں عربی اغلاط نظر سے گزرے ہیں۔ قلتِ وقت کی وجہ سے چند ایک مثالیں پیش کیں۔
وظائف کے ماہر تو حکیم چغتائی صاحب ہیں مگر حیرت کی بات ہے کہ ہر شمارے میں قارئین کے وظائف اور نسخہ جات کے لیے ایک حصہ مختص ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ کس طرح کوئی بھی قاری حقیقی یا خود ساختہ وظیفہ یا نسخہ شائع کراسکتاہے۔ اس پیج کی چھان بین کا تو یہ حال ہے کہ ایک دفعہ ایک قاری استخارے کا نیا طریقہ بتارہے تھے کہ استخارہ نماز کے اندر التحیات کے دوران بھی ایک مخصوص طریقے سے ہوسکتا ہے۔
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اس وقت عوام میں وظائف کے سلسلے میں انوکھے پن ،تنوع اور ایجادیت کا رجحان ہے اور یہی بعض عاملوں کی Market Driven Policy ہےجیسا کہ دیہاتوں میں ڈاکٹروں کی MDP انجیکشن کاکثرت سے استعمال ہے۔ لوگ ایک انوکھے اور نامانوس وظیفے کے متلاشی ہوتے ہیں اور ایسے وظیفے رواج دئیے جارہے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ قرآن و حدیث میں موجود آسان، معروف، موثراور واضح الفاظ کو چھوڑکرہمیں نامانوس الفاظ وکلمات کی ہوس کیوں ہے؟تلاوت،نماز، مسنون اذکار اور درود شریف کے ہوتے ہوئے اتنے بے تحاشہ شخصی وظائف کا رواج اسلام کی اصل روح سے لوگوں کو بعید کردے گا۔ عجیب بات ہے اگر کوئی دم تعویذ کے طلب گار کو قرآن وحدیث کے الفاظ پر مشتمل کلمات کے علاوہ وظیفہ دیا جائے تو اسے زیادہ مقبولیت ملتی ہے۔اگر مستند اور غیر مستند ذریعےکی بحث سے صرفِ نظر کیا جائے تو پھرنعوذ باللہ شرکیہ الفاظ کا استعمال کیسے رکے گا؟
صحیح غلط کی تمیز، مضامین اور عربی متن کی جانچ کا کام اہل علم کا ہے مگر میگزین یا ادارے کے پینل اور مجلس ِمشاورت میں کسی اہل علم کا نام نہیں ملا. تبھی ہر میگزین میں غیرمستند مواد کی بھرمارہے۔ اگر میرا یہ اعتراض بے بنیاد ہے تو پھر اس بات کا جواب دیں کہ دنیا میں ہر اہم کام کے لیے لوگ پروفیشنل سے کیوں رہنمائی لیتے ہیں؟ تو جو آپ کا جواب وہ میرا جواب۔ اللہ کی قسم دین کا میدان کسی بھی شعبے سے کہیں زیادہ حساس اور نازک ہے اس لیے دین سے متعلق تحقیق اور تشریح کے لیے مستند اہلیت بھی ضروری ہے۔
عبقری کے پلیٹ فارم سے اتنے سارے وظائف شائع کئے جاتے ہیں کہ بندہ کنفیوژ ہوجاتا ہے کس پر عمل کروں کس کو چھوڑوں؟ میرے ایک قریبی رشتہ دار کچھ دن پہلے حضرت حکیم چغتائی صاحب سے خصوصی ملاقات کے لیے گئے انہیں ایک خاص وظیفہ دیا گیا کہ صرف یہ معمول بنالیں اس کے علاوہ دیگر وظیفے نہ پڑھا کریں کیونکہ ہر وظیفہ دوسرے سے ٹکراتا ہے جس كا نتيجہ نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ میں نے ایک آہ بھر کے کہا کہ میگزین کے وظائف کے فوائد اور جادوئی اثرات پڑھ کر میرا تو بہ یک وقت دسیوں وظائف کا موڈ بن جاتا ہے۔ اب ان میں سے متعدد متصادم وظائف بھی تو ہوں گے۔ مبالغہ آرائی یا ترغیب اتنی زیادہ کہ بعض وظیفوں کے نام تو'ایٹم بم' بعض کے 'دھماکہ' رکھے ہیں۔ یہ غیرمناسب زبان ہے،
اور وظائف کے مزاج سے بالکل موافق نہیں۔
اگر کوئی یہ کہیں کہ خامیوں کو رد کرکے ان کی مفید باتوں کی وجہ سے قبول کیا جائے یہ علماء کی حد تک تو درست ہے مگر عوام کیسے سمجھیں گے کہ کونسی بات درست اور کونسی غلط ہے؟ جب کہ قاری عبقری کو ایک معتبر ذریعہ سمجھ کر پڑھتا ہے۔
عبقری کا اسکوپ /دائرہ کار کیا ہے؟ عملیات اوروظائف کے ذریعے روحانی مسائل کا حل؟ عملیات اور روحانیات کے موضوع پر مبنی میگزین میں‘ بین المذاہب ہم آہنگی جیسے عنوانات ‘بھی محلِ نظر ہیں۔پاکستان اور امت کے مسائل کو اگر دیکھیں تو اس وقت مسائل مذہب کے پیروکاروں کے باہمی اختلافات کی نسبت دجالیت اور شیطانیت کی طرف سے ہیں نہ کہ اسلام، عیسائیت وغیرہ کی باہمی کشمکش کی وجہ سے۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں دنیا کی لگام ہے ان میں سے اکثریت مذہب سے بیزار ہیں۔
عین ممکن ہے کہ حکیم چغتائی صاحب کی نمائندگی کرنے والے میگزین ان کے مشاوروں کے رحم وکرم پرچھوڑا گیاہےاور حکیم صاحب کوپورا ادراک نہ ہو اور اہل علم کے شامل نہ ہونے کی وجہ سے ان ابلاغی ذرائع سے ہمیں غلط تصویر مل رہی ہو۔
------------------------------------------------------------------
● سوال: ایک شخص عبقری کی یہ پوسٹ سامنے آئی ہے کہ بچوں میں بغاوت، بیماریاں، تکالیف، مشکلات اور مسائل کی ایک وجہ گلیوں میں کھیلنا بھی ہے، اس لئے بچوں کو گلیوں میں مت کھیلنے دیں. میرے آقا کا فرمان ہے کہ ”گلیوں میں بلائیں نکلتی ہیں“ لہذا بچوں کو ہر جگہ کھلائیں لیکن گلیوں میں نہیں، یہ میری زندگی کا نچوڑ ہے… کیا یہ بات درست ہے؟ اور کیا ایسی کوئی روایت موجود ہے؟
الجواب باسمه تعالی
اس سوال کے جواب میں چند امور کو ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
١. سوال میں مذکور روایت کا حکم.
٢. گلی میں بچوں کا کھیلنا.
٣. عبقری کا فتنہ.
● سوال میں مذکور روایت کا حکم:
عبقری نے جس روایت کو بیان کیا ہے یہ روایت کسی بھی صحیح، ضعیف حتی کہ من گھڑت روایات کی بھی کسی کتاب میں موجود نہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ عبقری کی گھڑی ہوئی کہانی ہے تو غلط نہ ہوگا.
● گلی میں بچوں کا کھیلنا:
صحیح روایات سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام کے زمانے میں بچے گلیوں میں کھیلا کرتے تھے اور آپ علیہ السلام نے کبھی کسی بچے کو گلی میں کھیلنے سے منع نہیں فرمایا.
حضرت انس کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے مجھے ایک کام سے بھیجا اور میرا گزر کچھ بچوں پر ہوا جو بازار میں کھیل رہے تھے اتنے میں آپ علیہ السلام تشریف لائے الخ
وعن أنس رضي الله عنه قال: ((كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مِن أحسن النَّاس خُلُقًا، فأرسلني يومًا لحاجة، فقلت: والله لا أذهب، وفي نفسي أن أذهب لما أمرني به نبيُّ الله صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم، قال: فخرجت حتى أمرَّ على صبيان وهم يلعبون في السُّوق، فإذا رسول الله صلَّى الله عليه وآله وسلَّم، قابضٌ بقفاي مِن ورائي، فنظرت إليه وهو يضحك، فقال: يا أنيس! اذهب حيث أمرتك، قلت: نعم، أنا أذهب يا رسول الله. قال أنس: والله لقد خدمته سبع سنين أو تسع سنين ما علمت قال لشيء صنعتُ: لم فعلتَ كذا وكذا؟ ولا لشيء تركتُ: هلَّا فعلتَ كذا وكذا؟
ایک صحابی کہتے ہیں کہ وہ آپ علیہ السلام کے ساتھ ایک دعوت کیلئے نکلے تو دیکھا کہ حسین رضی اللہ عنہ ایک گلی میں کھیل رہے تھے، آپ علیہ السلام آگے بڑھے اور اپنی بانہیں پھیلادیں، حسین رضی اللہ عنہ ایک طرف سے دوسری طرف بھاگ رہے تھے اور آپ علیہ السلام ان کو ہنسا رہے تھے، پھر آپ علیہ السلام نے ان کو پکڑا اور فرمایا: حسین مجھ سے ہے، اللہ تعالی اس شخص سے محبت کرے جو حسین سے محبت کرے.
□ أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى طَعَامٍ دُعُوا لَهُ فَإِذَا حُسَيْنٌ يَلْعَبُ فِي السِّكَّةِ قَالَ: فَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَامَ الْقَوْمِ وَبَسَطَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَفِرُّ هَا هُنَا وَهَا هُنَا وَيُضَاحِكُهُ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَخَذَهُ فَجَعَلَ إِحْدَى يَدَيْهِ تَحْتَ ذَقْنِهِ وَالْأُخْرَى فِي فَأْسِ رَأْسِهِ فَقَبَّلَهُ وَقَالَ: حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ، أَحَبَّ الله مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنْ الْأَسْبَاطِ.
○ بچوں کے گھر سے نکلنے کے ممنوع اوقات:
صحیح روایات میں وارد ہے کہ آپ علیہ السلام نے رات کا اندھیرا پھیلتے وقت بچوں کو گھر میں روکنے کی ہدایت فرمائی ہے کیونکہ یہ شیطانوں کے پھیلنے کا وقت ہوتا ہے، البتہ کچھ دیر بعد وہ گھر سے نکل سکتے ہیں.
□ فقد قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا كَانَ جُنْحُ اللَّيْلِ أَوْ أَمْسَيْتُمْ فَكُفُّوا صِبْيَانَكُمْ فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ تَنْتَشِرُ حِينَئِذٍ فَإِذَا ذَهَبَتْ سَاعَةٌ مِنْ اللَّيْلِ فَخَلُّوهُمْ. (الحديث رواه البخاري ومسلم).
علامہ نووی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد رات کا اندھیرا پھیلنے کا وقت ہے.
□ قال النووي في شرح صحيح مسلم: قَوْله: جُنْح اللَّيْل هُوَ ظَلَامه، وَيُقَال: أَجْنَحَ اللَّيْل أَيْ: أَقْبَلَ ظَلَامه. فَكُفُّوا صِبْيَانكُمْ أَيْ: اِمْنَعُوهُمْ مِنْ الْخُرُوج ذَلِكَ الْوَقْت.
علامہ الشبیھی فرماتے ہیں کہ یہ سورج غروب ہونے کا وقت مراد ہے.
□ وقال الشبيهي الإدريسي في الفجر الساطع على الصحيح الجامع: إِذَا كَانَ جُنْحُ اللَّيْلِ: أي أوله عند غروب الشمس.
مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ جب سورج غروب ہورہا ہو تو بچوں کو اور جانوروں کو گھر میں روکے رکھو یہاں تک کہ کچھ رات گذر جائے کیونکہ اس وقت شیاطین پھیلتے ہیں.
□ لَا تُرْسِلُوا فَوَاشِيَكُمْ وَصِبْيَانَكُمْ إِذَا غَابَتْ الشَّمْسُ حَتَّى تَذْهَبَ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ تَنْبَعِثُ إِذَا غَابَتْ الشَّمْسُ حَتَّى تَذْهَبَ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ. (رواه مسلم).
امام نووی فرماتے ہیں کہ ممانعت ہر طرح کے جانور اور انسانوں کیلئے ہے.
اور یہ ممانعت صرف مغرب اور عشاء کے درمیان کے وقت کیلئے ہے.
□ قال النووي: الْفَوَاشِي كُلّ مُنْتَشِر مِنْ الْمَال كَالْإِبِلِ وَالْغَنَم وَسَائِر الْبَهَائِم وَغَيْرهَا، وَفَحْمَة الْعِشَاء ظُلْمَتهَا وَسَوَادهَا، وَفَسَّرَهَا بَعْضهمْ هُنَا بِإِقْبَالِهِ وَأَوَّل ظَلَامه، وَكَذَا ذَكَرَهُ صَاحِب نِهَايَة الْغَرِيب، قَالَ: وَيُقَال لِلظُّلْمَةِ الَّتِي بَيْن صَلَاتَيْ الْمَغْرِب وَالْعِشَاء: الْفَحْمَة، وَلِلَّتِي بَيْن الْعِشَاء وَالْفَجْر الْعَسْعَسَة.
☆ بچوں کو مغرب کے وقت گھر سے نہ نکلنے دینے کا حکم فرض یا واجب درجے کا نہیں، بلکہ آپ علیہ السلام کا اپنی امت کیلئے پیار بھرا مشورہ ہے.
□ فعلى هذا، يبدأ وقت المنع من غروب الشمس حتى دخول وقت صلاة العشاء، فإذا ذهب هذا الوقت فلا حرج في خروج الأطفال، وهذه الأوامر الواردة في الحديث محمولة على الندب والإرشاد عند أكثر العلماء، كما نص عليه جماعة من أهل العلم، منهم: ابن مفلح في الفروع، والحافظ ابن حجر في فتح الباري.
● عبقری کا فتنہ:
گذشتہ دو سالوں میں حکیم طارق محمود (المعروف عبقری، المعروف شیخ الوظائف وغیرہ وغیرہ) سے بندہ کی دو ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ان دونوں ملاقاتوں میں بندہ نے ان سے عرض کیا کہ آپ کے یہاں من گھڑت روایات کا بہت استعمال ہے، خدارا ان سے اجتناب کریں کہ اس کی بہت سخت وعیدیں ہیں، لیکن یہ باز نہیں آئے، اور اب اس روایت کو بیان کرکے اس شخص عبقری نے یہ قدم اٹھایا کہ اس نے اپنی طرف سے احادیث میں تصرف کرکے صحیح روایات میں سے ایک غلط مفہوم نکال کر من گھڑت روایات بنانے کی بنیاد رکھ لی ہے (اللہ تعالی ان کی ہدایت نصیب فرمائے)
جو کہ ایک بہت عظیم فتنے کی بنیاد ہے… اللہ تبارک وتعالی اس کے فتنے سے سب مسلمانوں کو محفوظ رکھے.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور روایت بلکل من گھڑت اور صحیح روایات کے مفہوم کو توڑ کر بنائی گئی ہے، اس بنانے والے کو اللہ تبارک وتعالی کے دربار میں علانیہ توبہ کرنی چاہیئے.
تمام مسلمانوں كو چاہیئے کہ اس عبقری نامی فتنے سے اور اس کے وظائف اور کہانیوں سے دور رہیں کہ ان کے معاملات اب بہت حد تک غلط سمت جارہے ہیں
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٥ جولائی ٢٠١٩ مکہ مکرمہ
No comments:
Post a Comment