Wednesday, 18 September 2019

کتابیات سلسلہ نمبر 1: کتاب "نهج البلاغة" کی اسنادی حیثیت

کتابیات سلسلہ نمبر 1: کتاب "نهج البلاغة" کی اسنادی حیثیت
نہج البلاغہ کتاب ادب کا تو اعلی نمونہ ہے، لیکن شرعی اعتبار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب من گھڑت باتوں پر مشتمل ہے، جن کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں ہے. اس لیے عوام کے لئے اس کا مطالعہ درست معلوم نہیں ہوتا. مفتی عبد الباقی صاحب کی تحقیق منسلک ہے.
کتابیات سلسلہ نمبر 1
کتاب "نهج البلاغة" کی اسنادی حیثیت
گذشتہ دنوں محمد علی مرزا کی ایک کلپ سوشل میڈیا پر آئی جس میں انہوں نے نہج البلاغہ کی بڑی تعریف کی.
اس پر مفتی ارشاد احمد اعجاز صاحب نے بندہ کے نام ایک پیغام لکھا کہ:
نهج البلاغہ کی اسنادی حیثیت کے بارے میں بھی اگر کوئی تنبیہ آجائے تو اچھا ہوگا، یہ کتاب بالکل بےسند نہیں ہے لیکن اس میں اضافے بھی کئے گئے ہیں.
○ نہج البلاغہ کے مصنف کے بارے میں:
ہر کتاب اپنے مصنف کی فکری ترجمان ہوتی ہے، لہذا سب سے پہلے مصنف کے بارے میں معلوم ہونا چاہیئے.
نہج البلاغہ کا مصنف کون؟
سب سے پہلے اس بات میں مؤرخین کا اختلاف ہے کہ اس کتاب کا مصنف کون ہے؟
اسکے بارے میں دو قول نقل کئے جاتے ہیں:
١. مشہور قول: یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف المرتضی علی بن حسین بن موسی الموسوی ہیں.
٢. دوسرا قول: ان کے بھائی شریف رضی اس کتاب کے مصنف ہیں.
علامہ ذہبی مصنف کے تعارف میں فرماتے ہیں کہ مرتضی علی بن حسین کی کتاب نہج البلاغہ میں جن الفاظ کی نسبت حضرت علی کی طرف کی گئی ہے اسکی کوئی سند موجود نہیں ہے اور اکثر الفاظ باطل ہیں، کچھ صحیح اور کچھ من گھڑت باتیں ہیں، اور اس کتاب میں صحابہ کو برا بھلا کہا گیا ہے.
□ قال الإمام الذهبي رحمه الله في ترجمة المرتضى علي بن حسين بن موسى الموسوي (المتوفى سنة 436 هـ) قلت: هو جامع كتاب "نهج البلاغة" المنسوبة ألفاظه إلى الإمام علي رضي الله عنه، ولا أسانيد لذلك، وبعضها باطل، وفيه حق، ولكن فيه موضوعات حاشا الإمام من النطق بها، ولكن أين المنصف؟ وقيل: بل جمع أخيه الشريف الرضي... وفي تواليفه سبّ أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنعوذ بالله من علم لا ينفع. (سير أعلام النبلاء: 17/589).
کتاب نہج البلاغہ جس کو شریف رضی نے جمع کیا ہے اس میں حضرت علی کے خطبے ہیں، بعض طویل اور بعض مختصر.
□ كتاب نهج البلاغة من أقدس كتب الشيعة؛ لأنهم يزعمون أنه مجموع ما اختاره الشريف الرضي محمد بن الحسين (المتوفى سنة 406 هجرية) من كلام أمير المؤمنين علي بن أبي طالب علي السلام، وفي هذا الكتاب خطب طويلة، وحكم قصيرة، ومواعظ بليغة، ونصائح كثيرة، وكلها منسوبة إلى الإمام علي بن أبي طالب رضي الله عنه.
بعض علماء کہتے ہیں کہ دونوں بھائیوں نے مل کر یہ کتاب لکھی ہے اور دونوں لغت اور فصاحت کے امام تھے.
□ وقال بعض المؤرخين: إن مؤلف نهج البلاغة هو الشريف المرتضى علي بن الحسين (المتوفى سنة 436هـ) أخو الشريف الرضي. وقيل: إن الأخوين الرضي والمرتضى اشتركا في تأليف نهج البلاغة، وكان كلاهما من أهل العلم باللغة والفصاحة.
امام ابومنصور الثعالبی کہتے ہیں کہ شریف رضی اپنے زمانے کا سب سے بڑا شاعر تھا اور اگر یوں کہوں کہ قریش کا سب سے بڑا شاعر تھا تو غلط نہ ہوگا.
□ قال أبومنصور الثعالبي (المتوفى سنة 429ھ) في الشريف الرضي: أشعر الطالبيين من مضى منهم ومن غبر، ولو قلت: إنه أشعر قريش لم أبعد عن الصدق. (يتيمة الدهر، للثعالبي (3/155).
امام ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کہ شریف رضی جو کہ متکلم، رافضی، معتزلی تھا اور اسکو علوم عقلیہ پر بھی کافی مہارت تھی، لیکن یہ کتاب اس نے خود لکھ کر حضرت علی کی طرف منسوب کی ہے.
□ وقال مؤرخ الإسلام الحافظ الذهبي (المتوفى سنة 748هـ) في الشريف المرتضى: الشريف المرتضى المتكلم الرافضي المعتزلي، صاحب التصانيف... وهو المتهم بوضع كتاب نهج البلاغة، وله مشاركة قوية في العلوم، ومن طالع كتابه نهج البلاغة جزم بأنه مكذوب على أمير المؤمنين علي رضي الله عنه. (ميزان الاعتدال في نقد الرجال، للذهبي (3/124).
□ کتاب نہج البلاغہ کے بارے میں:
کتاب نہج البلاغہ ایک مقدمہ اور تین اقسام پر مشتمل ہے:
مقدمے میں شریف رضی کتاب کے لکھنے کے اسباب بیان کرتا ہے.
١. پہلی قسم میں حضرت علی کے 241 خطبے نقل کرتا ہے.
٢. دوسری قسم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے 79 خطوط نقل کرتا ہے.
٣. تیسری قسم میں حضرت علی کی وصیتیں، فیصلے اور مواعظ نقل کرتا ہے جو 480 ہیں.
□ كتاب نهج البلاغة اشتمل على مقدمة وثلاثة أقسام.
في المقدمة شرح الشريف الرضي سبب جمعه للكتاب، وقدم تلخيصًا لموضوعات الكتاب، وتسميته.
أما القسم الأول من موضوعات الكتاب، فهو خطب أمير المؤمنين علي رضي الله عنه، وفيه مجموعة من الخطب التي ألقاها، وبلغ عددها (241) خطبة.
القسم الثاني أفرده المؤلف لكتب علي رضي الله عنه، وفيه محاسن الكتب والرسائل التي أرسلها، وبلغ عددها (79) كتابًا.
والقسم الثالث أفرده لحِكَم أمير المؤمنين ومواعظه ووصاياه، وبلغ عددها (480).
● نہج البلاغہ علمائے امت کی نظر میں:
اس امتِ مرحومہ کی سب سے بڑی خاصیت اسناد رہی ہے اور اسی بنیاد پر کسی بات کو صحیح یا غلط قرار دیا جاتا ہے، لہذا علمائے امت نے اس کتاب پر بھی من گھڑت ہونے کا حکم لگایا ہے اور اس کے اسباب ہیں:
. سند کا نہ ہونا:
شریف رضی (مصنف نہج البلاغہ) کا انتقال 406 ہجری میں ہوا ہے اور حضرت علی کا انتقال 40 ہجری میں ہوا، مصنف نے (درمیان کے اس طویل عرصے کی) سند کو کہیں بھی نقل نہیں کیا.
□ فالشريف الرضى توفي سنة (406هـ)، وأمير المؤمنين علي توفي سنة (40هـ)، وليس هناك إسناد متصل بينه وبين علي رضي الله عنه.
١.. علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ اس کتاب نہج البلاغہ کے اکثر خطبے جھوٹے اور من گھڑت ہیں، یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ ہیں.
□ وقال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله: أكثر الخطب التي ينقلها صاحب "نهج البلاغة" كذب على علي، وعليٌّ رضي الله عنه أجلُّ وأعلى قدرا من أن يتكلم بذلك الكلام، ولكن هؤلاء وضعوا أكاذيب وظنوا أنها مدح، فلا هي صدق ولا هي مدح.
٢.. خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ مختلف چیزیں جیسے دانیال علیہ السلام کی کتاب اور حضرت علی کے خطبے (نہج البلاغہ) یہ سب من گھڑت ہیں.
□ قال الإمام الحافظ أحمد بن علي بن ثابت المشهور بالخطيب البغدادي (المتوفى سنة 463ھ): أحاديث الملاحم وما يكون من الحوادث أكثرها موضوع، وجلها مصنوع، كالكتاب المنسوب إلى دانيال، والخطب المروية عن علي بن أبي طالب. (الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، للخطيب البغدادي (2/161).
٣.. امام ابن خلکان کہتے ہیں کہ اس کتاب نہج البلاغہ کے بارے میں پہلی اختلافی بات یہ ہے کہ اس کا مصنف کون ہے اور دوسری بات یہ کہ اس کتاب کی باتیں جو حضرت علی کی طرف منسوب ہیں سب مصنف کی من گھڑت باتیں ہیں.
□ قال ابن خلكان (المتوفي سنة 681 هـ): وقد اختلف الناس في كتاب نهج البلاغة المجموع من كلام الإمام علي بن أبي طالب رضي الله عنه، هل هو جمعه أم جمع أخيه الرضي، وقد قيل: إنه ليس من كلام علي، وإنما الذي جمعه ونسبه إليه هو الذي وضعه. والله أعلم. (وفيات الأعيان، لابن خلكان (3/3).
٤.. شیخ عفیف الدین الیافعی لکھتے ہیں کہ مصنف مرتضی کی مذہب شیعہ کے بارے میں لکھی گئی کتابیں اور اشعار کے دیوان ہیں، نہج البلاغہ کے بارے میں بھی یہی گمان ہے کہ یہ مصنف کی من گھڑت باتیں ہیں.
□ قال عفيف الدين عبدالله بن أسعد اليافعي (المتوفى سنة 768ھ): وللمرتضى تصانيف على مذهب الشيعة، ومقالة في أصول الدين، وله ديوان شعر كثيرة، وقد اختلف الناس في كتاب نهج البلاغة المجموع من كلام علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه، هل هو جمعه أو جمع أخيه الرضي؟ وقد قيل: إنه ليس من كلام علي، وإنما أحدهما هو الذي وضعه ونسبه إليه. والله تعالى أعلم. (مرآة الجنان وعبرة اليقظان، لليافعي (3/43).
٥.. محمد احمد العباد کہتے ہیں کہ اس کتاب کی نسبت کسی طور پر بھی حضرت علی کی طرف کرنا درست نہیں.
□ قال محمد أحمد العباد في تحقيقه لكتاب رسائل السنة والشيعة لمحمد رشيد رضا (2/144): كتاب نهج البلاغة لا يمكن بحال أن يُنسب لأمير المؤمنين علي رضي الله عنه انطلاقاً.
■ نہج البلاغہ پر اعتراضات:
سند کے متصل نہ ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر اعتراضات بھی اس کتاب پر ہیں:
● اشکال نمبر: ١
اس کتاب میں جو اصطلاحات استعمال کئے گئے ہیں یہ صحابہ کے زمانے میں نہیں تھے، جیسے: این، کیف، محسوسات، الکل والبعض، والصفات الذاتیة، والجسمانیات وغیرہ.
○ اشتماله على كثير من المصطلحات التي لم يكن يتداولها الناس في عهد علي رضي الله عنه، وإنما عرفت بعد ذلك كـ(الأين، والكيف)، وكذلك ما فيه من كلمات تجري على ألسنة المتكلمين كـ(المحسوسات، والكل والبعض، والصفات الذاتية، والجسمانيات).
● اشکال نمبر: ٢
علامہ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ نہج البلاغہ کے مصنف نے عوام کی بہت ساری باتیں اٹھا کر حضرت علی کی طرف منسوب کردیں اور حضرت علی کی طرف منسوب بہت ساری باتیں صرف اسی کتاب میں موجود ہیں، اس سے پہلے کی کسی کتاب میں نہیں.
○ قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله حين قال: صاحب نهج البلاغة وأمثاله أخذوا كثيرا من كلام الناس وجعلوه من كلام علي، ومنه ما يُحكى عن علي أنه تكلم به، ومنه ما هو كلام حق يليق به أن يتكلم به، ولكن هو في نفس الأمر من كلام غيره. ولهذا يوجد في كلام البيان والتبيين للجاحظ وغيره من الكتب كلام منقول عن غير علي، وصاحب نهج البلاغة يجعله عن علي. وهذه الخطب المنقولة في كتاب نهج البلاغة لو كانت كلها عن علي من كلامه لكانت موجودة قبل هذا المصنف، منقولة عن علي بالأسانيد وبغيرها. فإذا عرف من له خبرة بالمنقولات أن كثيرا منها (بل أكثرها) لا يُعرف قبل هذا، علم أن هذا كذب، وإلا فليبين الناقل لها في أي كتاب ذُکر. (منهاج السنة النبوية لابن تيمية:8/55،56).
● اشکال نمبر: ٣
احادیث ثابتہ کی نسبت حضرت علی کی طرف کرنا:
یعنی بہت ساری روایات جو سند کے لحاظ سے آپ علیہ السلام سے ثابت ہیں لیکن نہج البلاغہ کے مصنف نے ان کو حضرت علی کا قول بنادیا.
○ في نهج البلاغة بعض الأحاديث النبوية المعروف نسبتها إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فنسبها مؤلف نهج البلاغة إلى علي رضي الله عنه، ومن ذلك: "من بَطَّأَ به عمله، لم يُسرِع به نسبه"، فهذا نص حديث نبوي رواه مسلم (2699) في صحيحه والترمذي (2945)
○حديث: "إن الله فرض فرائض فلا تضيعوها، ونهى عن أشياء فلا تنتهكوها، وحد حدودا فلا تعتدوها، وغفل عن أشياء من غير نسيان فلا تبحثوا عنها"، فهذا نص حديث نبوي رواه الطبراني في المعجم الكبير (589)
○حديث: "إن لله أقواما اختصهم بالنعم لمنافع العباد، ويقرها فيهم ما بذلوها، فإذا منعوها نزعها عنهم وحولها إلى غيرهم"، فهذا نص حديث نبوي رواه الطبراني في المعجم الكبير (13925)
● اشکال نمبر: ٤
صحابہ کرام کے اقوال کی نسبت حضرت علی کی طرف کرنا:
جیسے ایک روایت جو کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ: دو بھوکے کبھی سیر نہ ہونگے: علم کا بھوکا اور مال کا بھوکا.
نہج البلاغہ میں اس قول کی نسبت حضرت علی کی طرف کی گئی ہے.
○ إن في نهج البلاغة بعض الأقوال المعروف نسبتها إلى بعض الصحابة أو التابعين، فنسبها مؤلف نهج البلاغة إلى علي رضي الله عنه، وأكتفي بهذا المثال: (منهومان لا يشبعان: طالب علم وطالب دنيا)، فهذا الأثر رواه ابن أبي شيبة (26118) بسنده
بلاغت اور ادبی ذوق کے طور پر نہج البلاغہ کا مطالعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کتاب کی باتیں کسی شرعی مسئلے میں دلیل نہیں.
□ أما من قرأه ليطالع بعض ما فيه من الجمل البلاغية فإن حكمه حكم بقية كتب اللغة، من غير نسبة ما فيه لأمير المؤمنين علي رضي الله عنه. (أنظر كتاب "كتب حذًّر منها العلماء" 2/250).
 خلاصہ کلام
کتاب نہج البلاغہ ایک ایسے مصنف کی لکھی ہوئی ہے جو غالی شیعہ ہونے کے ساتھ ہی معتزلی خیالات سے بھی متأثر تھا، اس کتاب میں مسلک شیعہ اور مسلک اعتزال کو خوب اچھی طرح پیش کیا گیا ہے، مصنف نے خوب من گھڑت باتیں بنا کر حضرت علی کی طرف منسوب کی ہیں جن کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کرنا 
بالکل بھی درست نہیں.
البتہ چونکہ مصنف ایک بلیغ شاعر اور ادیب تھے لہذا اس کتاب کو ادب کا ایک اعلی نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن شرعی طور پر اس کتاب کی کوئی بات معتبر نہیں.
《واللہ اعلم بالصواب》
《کتبه: عبدالباقی اخونزادہ》
٧ ستمبر ٢٠١٩ کراچی

No comments:

Post a Comment