Sunday 8 September 2019

فجر کی اذان میں ”الصَلاة خیرُ من النوم“ كا اضافہ کب اور کیسے ہوا؟

فجر کی اذان میں ”الصَلاة خیرُ من النوم“ كا اضافہ کب اور کیسے ہوا؟

فجر کی اذان میں ”الصَلاة خیرُ من النوم“ كا اضافہ کب اور کیسے ہوا؟ ۱) فجر کی اذان میں ”الصَلاة خیرُ من النوم“ كا اضافہ کب اور کیسے ہوا؟ ۲) اور اگر کوئی مؤذن ان کلمات کے بغیر فجر کی اذان کہے تو وه اذان صحیح ھوگی یا دوباره کہی جائےگی؟ رہنمائی فرمائیں..... نوازش ہوگی... الجواب بعون الملک الوھاب… ۱) احادیث مبارکہ کے تتبع سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ ہجرت کے پہلے سال اذان کی مشروعیت کے کچھ دنوں بعد ہوا ہے اس لئے کہ جن صحابی (حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ) کو اذان کا الہام کیا گیا ہے انہیں سے الصلوٰۃ خیر من النوم کے اضافے سے متعلق ایک حدیث مروی ہے جس میں انہوں نے اذان کی مشروعیت کا واقعہ یوں بیان کیا ہے فرماتے ہیں کہ جب میں نے اپنا خواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سچا خواب ہے پھر اذان کہنے کا حکم دیا چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان کہا کرتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کیلئے بلانے آیا کرتے تھے ایک دفعہ صبح کی نماز کیلئے بلانے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بآوازِ بلند الصلوٰۃ خیر من النوم کہا۔ اس حدیث کے راوی حضرت سعید بن مسیبؒ فرماتے ہیں کہ یہ کلمات اس وقت سے صبح کی اذان میں داخل کئے گئے ہیں۔ پس حدیث مذکور سے معلوم ہوا کہ الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ اذان کی مشروعیت کے کچھ ہی دنوں بعد ہوا ہے جبکہ اذان کی مشروعیت ہجرت کے پہلے سال ہوئی ہے۔ لما فی المسند الجامع (۳۰۳/۸): عن سعید بن المسیب عن عبداﷲ بن زید بن عبدربہ قال لما اجمع رسول اﷲ ﷺ ان یضرب بالناقوس یجمع للصلاۃ الناس وھو لہ کارہ لموافقتہ النصاری طاف بی من اللیل طائف وانا نائم رجل علیہ ثوبان اخضران وفی یدہ ناقوس یحملہ قال فقلت لہ یا عبداللہ اتبیع الناقوس؟ قال وما تصنع بہ؟ قلت ندعوبہ الی الصلوٰۃ قال افلا ادلک علی خیر من ذالک؟ قال قلت بلی قال تقول اﷲ اکبر اللہ اکبر… (الی ان قال) فاخبرتہ بما رأیت قال فقال رسول اﷲ ﷺ ان ھذہ لرؤیاحق ان شاء اﷲ ثم امر بالتاذین فکان بلال ’’رضی اللہ عنہ‘‘ مولیٰ ابی بکر یوذن بذالک ویدعو رسول اﷲ ﷺ الی الصلوٰۃ قال فجاء ہ فدعاہ ذات غد الی الفجر فقیل لہ ان رسول اﷲ ﷺ نائم قال فصرخ بلال باعلیٰ صوتہ الصلاۃ خیر من النوم قال سعید بن المسیب فادخلت ھذہ الکلمۃ فی التاذین الی صلاۃ الفجر‘‘ وفی الدر المختار(۳۸۳/۱): (سببہ ابتداء اذان جبرئیل) لیلۃ الاسراء وإقامتہ حین امامتہ علیہ الصلوۃ والسلام ثم رؤیا عبداﷲ بن زیدؓ اذان الملک النازل من السماء فی السنۃ الاولیٰ من الھجرۃ۔ ۲) فجر کی اذان میں ’’الصلوۃ خیر من النوم‘‘ کہنا مستحب ہے۔ لہٰذا اگر ’’الصلوۃ خیر من النوم‘‘ چھوٹ جائے تو اذان کو دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ لمافی الدرالمختار (۳۸۷/۱): (ویقول) ندبا (بعد فلاح اذان الفجر الصلوۃ خیر من النوم مرتین) لانہ وقت نوم وفی الشامیۃ تحتہ : (قولہ بعد فلاح الخ) فیہ رد علی من یقول ان محلہ بعد الاذان بتمامہ۔ وفی الفقہ علی المذاھب الاربعۃ(۳۱۲/۱): ثم یختم بقول لا الہ الا اﷲ الا فی صلوۃ الصبح فانہ یندب ان یقول بعد حی علی الفلاح’’الصلوۃ خیر من النوم‘‘ مرتین واذا ترکہما صح الاذان مع الکراھۃ۔ از نجم الفتاوی واللہ تعالی اعلم العبد محمد اسلام پوری
https://saagartimes.blogspot.com/2019/09/blog-post_98.html


No comments:

Post a Comment