Tuesday 17 September 2019

فتح سمرقند

فتح سمرقند

یہ واقعہ خلیفۃالمسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کے دور حکومت کا ہے۔ آپ کو حضرت عمر (بن خطاب رضی اللہ عنہ) ثانی سمجھا جاتا ہے۔ آپ بہت امیر تھے اور شاہانہ طریقہ رہائش تھا مگر جب آپ کو خلیفہ چنا گیا تو آپ نے تمام دولت غرباء میں تقسیم کردی اور ایک نہایت معمولی سے شخص کی طرح زندگی گزاری۔ آپ نے بمشکل ڈھائی سال حکومت کی مگر یہ دور سنہرا دور مانا جاتا ہے اور انداز حکومت ضرب المثل بن گیا ہے۔ واقعہ مُسلم سپہ سالار قطان قتیبہ ابن ابی صالح مسلم ابن عمر البہیلی کا ہے جن کو ہم قتیبہ بن مسلم کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کا انتقال 715 سن عیسوی میں ہوا تھا۔ یہ تاریخ اسلام کا سنہرا دور تھا۔
عرب سپہ سالار قتیبہ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سمرقند فتح کرلیا تھا، اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے۔ اور یہ بے اصولی ہوئی بھی تو ایسے دور میں جب زمانہ بھی عمر بن عبدالعزیز کا تھا۔ سمرقند کے پادری نے مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبہ کے خلاف شکایت دمشق میں بیٹھے مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیامبر کے ذریعے خط لکھ کر بھجوائی۔ پیامبر نے دمشق پہنچ کر ایک عالیشان عمارت دیکھی جس میں لوگ رکوع و سجود کر رہے تھے۔ اُس نے لوگوں سے پوچھا:
کیا یہ حاکم شہر کی رہائش ہے؟ 
لوگوں نے کہا یہ تو مسجد ہے، تو نماز نہیں پڑھتا کیا؟ 
پیامبر نے کہا: نہیں، میں اہل سمرقند کے دین کا پیروکار ہوں۔ 
لوگوں نے اُسے حاکم کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔ پیامبر لوگوں کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے حاکم کے گھر جاپہنچا، کیا دیکھتا ہے کہ ایک عورت گارا اُٹھاکر اُسے دے رہی ہے۔ پیامبر جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جاپہنچا جنہوں نے اُسے یہ راستہ بتایا تھا۔ اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے حاکم کے گھر کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ 
لوگوں نے کہا: ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم کا گھر ہے۔ 
پیامبر نے بے دلی سے دوبارہ اُسی گھر پر جاکر دستک دی۔ جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کررہا تھا وہی اندر سے نمودار ہوا۔ 
میں سمرقند کے پادری کی طرف سے بھیجا گیا پیامبر ہوں کہہ کر اُس نے اپنا تعارف کروایا اور خط حاکم کو دیدیا۔ اُس شخص نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر ہی لکھا:
عمربن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام: ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔ 
مہر لگاکر خط واپس پیامبر کو دیدیا۔ پیامبر وہاں سے چل تو دیا مگر اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے، کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا؟ 
سمرقند لوٹ کر پیامبر نے خط پادری کو تھمایا، جسے پڑھ کر پادری کو بھی اپنی دنیا اندھیر ہوتی دکھائی دی، خط تو اُسی کے نام لکھا ہوا تھا جس سے اُنہیں شکایت تھی، اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکے گا۔ مگر پھر بھی خط لیکر مجبوراً اُس حاکم سمرقند کے پاس پہنچے جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہوچکے تھے۔ حاکم نے خط پڑھتے ہی فوراً ایک قاضی (جَمیع نامی ایک شخص) کا تعین کردیا جو سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔ موقع پر عدالت لگ گئی، ایک چوبدار نے قتیبہ کا نام بغیر کسی لقب و منصب کے پکارا، قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے روبرو اور پادری کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔ 
قاضی نے سمرقندی سے پوچھا: کیا دعویٰ ہے تمہارا؟ 
پادری نے کہا: قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔
قاضی نے قتیبہ کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں؟ قتیبہ نے کہا: قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے، سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔ سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سرسبز وشاداب اور زورآور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کرلیا۔ 
قاضی نے قتیبہ کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا: قتیبہ میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی؟ 
قتیبہ نے کہا: نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کردیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔ 
قاضی نے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کررہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔ قتیبہ! اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل وانصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔ میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور ان کے عہدہ داران مع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک، گھر اور دکانیں چھوڑکر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمرقند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔ اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع ودعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔ 
پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین بلکہ ایک مذاق اور تمثیل نظر آرہا تھا۔ چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت۔ اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کرکے قتیبہ کے ساتھ ہی اُٹھ کر جارہا تھا۔ اور چند گھنٹوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد وغبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے جو شہر کو ویران کرکے جارہے تھے۔ لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتارہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہورہی تھی۔ اور اُس دن جب سورج ڈوبا تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کے گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اُن کو ایسے لوگ چھوڑکر جارہے تھے جن کے اخلاق، معاشرت، برتائو، معاملات اور پیار ومحبت نے اُن کو اور اُن کے رہن سہن کو مہذب بنا دیا تھا۔
تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کرپائے، اپنے پادری کی قیادت میں لاالہٰ الا الّلہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور اُن کو واپس لے آئے۔ اور یہ سب کیوں نہ ہوتا، کہیں بھی تو ایسا نہیں ہوا تھا کہ فاتح لشکر اپنے ہی قاضی کی کہی دو باتوں پر عمل کرے اور شہر کو خالی کردے۔ دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصے تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔
مندرجہ بالا واقعہ شیخ علی طنطاوی رحمت للہ علیہ کی کتاب (قصص من التاریخ) کے صفحہ نمبر 411 (مصر میں 1932 میں چھپی ہوئی) سے لے کر اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔
واللہ عالم بالصواب۔
ایس اے ساگر

من كتاب قصص من التاريخ للشيخ الأديب علي الطنطاوي رحمه الله،
وأصلها التاريخي في الصفحة 411 من فتوح البلدان للبلاذري، طبعة مصر سنة 1932 م.
في عهد الخليفة الصالح "عمر بن عبد العزيز"، أرسل أهل سمرقند رسولهم إليه بعد دخول الجيش الإسلامي لأراضيهم دون إنذار أو دعوة، فكتب مع رسولهم للقاضي أن احكم بينهم، فكانت هذه القصة التي تعتبر من الأساطير.
وعند حضور اطراف الدعوى لدى القاضى، كانت هذه الصورة للمحكمة:
صاح الغلام: يا قتيبة بلا لقب
فجاء قتيبة، وجلس هو وكبير الكهنة السمرقندي أمام القاضي جميعا
ثم قال القاضي: ما دعواك يا سمرقندي؟
قال السمرقندي: اجتاحنا قتيبة بجيشه، ولم يدعُـنا إلى الإسلام ويمهلنا حتى ننظر في أمرنا..
التفت القاضي إلى قتيبة وقال: وما تقول في هذا يا قتيبة ؟
قال قتيبة: الحرب خدعة، وهذا بلد عظيم، وكل البلدان من حوله كانوا يقاومون ولم يدخلوا الإسلام، ولم يقبلوا بالجزية ..
قال القاضي: يا قتيبة، هل دعوتهم للإسلام أو الجزية أو الحرب؟
قال قتيبة: لا، إنما باغتناهم لما ذكرت لك ..
قال القاضي: أراك قد أقررت، وإذا أقر المدعي عليه انتهت المحاكمة؛
يا قتيبة ما نـَصَرَ الله هذه الأمة إلا بالدين واجتناب الغدر وإقامة العدل.
ثم قال القاضي: قضينا بإخراج جميع المسلمين من أرض سمرقند من حكام وجيوش ورجال وأطفال ونساء، وأن تترك الدكاكين والدور، وأنْ لا يبقى في سمرقند أحد، على أنْ ينذرهم المسلمون بعد ذلك
لم يصدق الكهنة ما شاهدوه وسمعوه ، فلا شهود ولا أدلة، ولم تدم المحاكمة إلا دقائقَ معدودة،
ولم يشعروا إلا والقاضي والغلام وقتيبة ينصرفون أمامهم.
وبعد ساعات قليلة، سمع أهل سمرقند بجلبة تعلو، وأصوات ترتفع ، وغبار يعم الجنبات، ورايات تلوح خلال الغبار، فسألوا، فقيل لهم: إنَّ الحكم قد نُفِذَ وأنَّ الجيش قد انسحب، في مشهدٍ تقشعر منه جلود الذين شاهدوه أو سمعوا به.
وما إنْ غرُبت شمس ذلك اليوم، إلا والكلاب تتجول بطرق سمرقند الخالية، وصوت بكاءٍ يُسمع في كل بيتٍ على خروج تلك الأمة العادلة الرحيمة من بلدهم ، ولم يتمالك الكهنة وأهل سمرقند أنفسهم لساعات أكثر، حتى خرجوا أفواجاً وكبير الكهنة أمامهم باتجاه معسكر المسلمين وهم يرددون شهادة أن لا إله إلا الله محمد رسول الله.
فيا الله ما أعظمها من قصة، وما أنصعها من صفحة من صفحات تاريخنا المشرق،
أرأيتم جيشاً يفتح مدينة، ثم يشتكي أهل المدينة للدولة المنتصرة ، فيحكم قضاؤها على الجيش الظافر بالخروج؟

والله لا نعلم شبها لهذا الموقف لأمة من الأمم.
من كتاب قصص من التاريخ للشيخ الأديب علي الطنطاوي رحمه الله
---------------------------------------------------------
فتح سمرقند ...
"وذلك أن قتيبة لما فرغ من هذا كله وعزم على الرجوع إلى بلاده، قال له بعض الأمراء: إن أهل الصغد قد أمنوك عامك هذا، فإن رأيت أن تعدل إليهم وهم لا يشعرون، فإنك متى فعلت ذلك أخذتها إن كنت تريدها يوما من الدهر، فقال قتيبة لذلك الأمير: هل قلت هذا لأحد؟ قال: لا، قال: فلأن يسمعه منك أحدٌ أضرب عنقك. ثم بعث قتيبة أخاه عبد الرحمن بن مسلم بين يديه في عشرين ألفا فسبقه إلى سمرقند، ولحقه قتيبة في بقية الجيش، فلما سمعت الأتراك بقدومهم إليهم انتخبوا من ينهم كل شديد السطوة من أبناء الملوك والأمراء، وأمروهم أن يسيروا إلى قتيبة في الليل فيكبسوا جيش المسلمين، وجاءت الأخبار إلى قتيبة بذلك فجرد أخاه صالح في ستمائة فارس من الأبطال الذين لا يطاقون، وقال: خذوا عليهم الطريق فساروا فوقفوا لهم في أثناء الطريق وتفرقوا ثلاث فرق، فلما اجتازوا بهم بالليل - وهم لا يشعرون بهم - نادوا عليهم فاقتتل المسلمون هم وإياهم، فلم يفلت من أولئك الأتراك إلا النفر اليسير واحتزوا رؤوسهم وغنموا ما كان معهم من الأسلحة المحلاة بالذهب، والأمتعة، وقال لهم بعض أولئك: تعلمون أنكم لم تقتلوا في مقامكم هذا إلا ابن ملك أو بطل من الأبطال المعدودين بمائة فارس أو بألف فارس، فنفلهم قتيبة جميع ما غنموه منهم من ذهب وسلاح، واقترب من المدينة العظمى التي بالصغد - وهي سمرقند - فنصب عليها المجانيق فرماها بها وهو مع ذلك يقاتلهم لا يقلع عنهم، وناصحه من معه عليها من بخارى وخوارزم، فقاتلوا أهل الصغد قتالا شديدا، فأرسل إليه غورك ملك الصغد: إنما تقاتلني بإخواني وأهل بيتي، فأخرج إليَّ في العرب. فغضب عند ذلك قتيبة وميز العرب من العجم وأمر العجم باعتزالهم، وقدم الشجعان من العرب وأعطاهم جيد السلاح، وانتزعه من أيدي الجبناء، وزحف بالأبطال على المدينة ورماها بالمجانيق، فثلم فيها ثلمة فسدها الترك بغرار الدخن، وقام رجل منهم فوقها فجعل يشتم قتيبة فرماه رجل من المسلمين بسهم فقلع عينه حتى خرجت من قفاه. فلم يلبث أن مات قبحه الله فأعطى قتيبة الذي رماه عشرة آلاف، ثم دخل الليل، فلما أصبحوا رماهم بالمجانيق فثلم أيضا ثلمة وصعد المسلمون فوقها، وتراموا هم وأهل البلد بالنشاب، فقالت الترك لقتيبة: ارجع عنا يومك هذا ونحن نصالحك غدا، فرجع عنهم وصالحوه من الغد على ألفي ألفٍ ومائة ألفٍ يحملونها إليه في كل عام، وعلى أن يعطوه في هذه السنة ثلاثين ألف رأس من الرقيق ليس فيهم صغيرٌ ولا شيخٌ ولا عيبٌ، وفي روايةٍ مائة ألفٍ من رقيقٍ، وعلى أن يأخذ حلية الأصنام وما في بيوت النيران، وعلى أن يخلوا المدينة من المقاتلة حتى يبني فيها قتيبة مسجدا، ويوضع له فيه منبر يخطب عليه، ويتغدى ويخرج. فأجابوه إلى ذلك، فلما دخلها قتيبة دخلها ومعه أربعة آلاف من الأبطال - وذلك بعد أن بنى المسجد ووضع فيه المنبر - فصلى في المسجد وخطب وتغدى وأتى بالأصنام التي لهم فسلبت بين يديه، وألقيت بعضها فوق بعضٍ، حتى صارت كالقصر العظيم، ثم أمر بتحريقها فتصارخوا وتباكوا، وقال المجوس: إن فيها أصناما قديمةً من أحرقها هلك، وجاء الملك غورك فنهى عن ذلك، وقال لقتيبة: إني لك ناصح، فقام قتيبة وأخذ في يده شعلة نار، وقال: أنا أحرقها بيدي فكيدوني جميعا ثم لا تنظرون، ثم قام إليها وهو يكبر الله عز وجل، وألقى فيها النار فاحترقت، فوجد من بقايا ما كان فيها من الذهب خمسون ألف مثقال من ذهبٍ. وكان من جملة ما أصاب قتيبة في السبي جارية من ولد يزدجرد، فأهداها إلى الوليد، فولدت له يزيد بن الوليد، ثم استدعى قتيبة بأهل سمرقند، فقال لهم: إني لا أريد منكم أكثر مما صالحتكم عليه، ولكن لا بد من جند يقيمون عندكم من جهتنا. فانتقل عنها ملكها غورك خان فتلا قتيبة: { وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادا الْأُولَى * وَثَمُودَ فَمَا أَبْقَى } الآيات [النجم: 50-51] ثم ارتحل عنها قتيبة إلى بلاد مرو، واستخلف على سمرقند أخاه عبد الله بن مسلم، وقال له: لا تدع مشركا يدخل باب سمرقند إلا مختوم اليد، ثم لا تدعه بها إلا مقدار ما تجف طينة ختمه، فإن جفت وهو بها فاقتله، ومن رأيت منهم ومعه حديدة أو سكينة فاقتله بها، وإذا أغلقت الباب فوجدت بها أحدا فاقتله، فقال في ذلك كعب الأشقري - ويقال هي لرجل من جعفي -:
كل يوم يحوي قتيبة نهبا * ويزيد الأموال مالا جديدا
باهليٌّ قد ألبس التاج حتى * شاب منه مفارق كن سودا
دوخ الصغد بالكتائب حتى * ترك الصغد بالعراء قعودا
فوليد يبكي لفقد أبيه * وأب موجع يبكي الوليدا
كلما حل بلدة أو أتاها * تركت خيله بها أخدودا
وفي هذه السنة عزل موسى بن نصير نائب بلاد ...." :)

فتح سمرقند



No comments:

Post a Comment