صرف عاشورہ کا ایک روزہ رکھنے کا حکم
سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ عاشورہ یعنی محرم کا روزہ ایک دن رکھنا چاہئے یا دو دن، اگر کوئی شخص عاشورہ کا روزہ صرف ایک دن رکھے یعنی دسویں محرم کو روزہ رکھے تو شرعا اس کا کیا حکم ہے، کیا اس طرح صرف ایک روزہ رکھنا درست ہے ؟
مدلل، مفصل جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
فقط والسلام المستفتی: محمد افتخار احمد جمشید پوری
...............................................................
بسم الله الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب:
محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے، رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا بہتر نہیں ہے.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عاشورہ کے دن قریش جاہلیت کے زمانے میں روزہ رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بھی عاشورہ کے روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض کردیے گئے تو اب وہی فرض ہیں، اور عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی ، اب جو چاہے رکھے اور جو چاہے چھوڑ دے یہ اختیار ہے
(سنن الترمذی : ۳ / ۱۵۸ ، کتاب الصوم / باب ماجاء فی الرخصة فی ترک صوم یوم عاشوراء)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہواکہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے (سنہ ۲ ھجری) سے پہلے مکی دور میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام سے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بھی بہت اہتمام سے اس کا حکم دیا، بہت سے فقہاء کے قول کے مطابق اس وقت عاشورہ کا روزہ فرض تھا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزے کی حیثیت استحباب کی رہ گئی۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور اس دن ہمیں نصیحت کرنے کا اہتمام فرماتے تھے، پھر جب رمضان فرض کردیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ تو عاشورہ کے روزے کا حکم دیا نہ اس سے روکا اور نہ اس دن نصیحت کا اہتمام فرمایا.
(مسلم، بحوالہ مشکاۃ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مدنی دور کے آغاز سے ہی عاشورہ کا روزہ رکھا، اور ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر عمل میں اہلِ کتاب کی مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ ابتداءِ اسلام میں بہت سے اعمال میں تالیفِ قلوب کے لیے نرمی کی گئی، مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس مقرر کیا گیا وغیرہ ، مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تو اسلام کے حکم کے مطابق عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق ان سے دریافت کیا: چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ کیسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ یہود نے کہا: یہ بڑا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی تھی، اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا، اس کے شکر میں موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا، ہم بھی اسی لئے روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہم موسی علیہ السلام کے طریقے کی پیروی اور اتباع کے زیادہ حق دار اور ان سے قریب ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی عاشورہ کے روزہ رکھنے کا حکم دیا .
(بخاری ومسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت اور اتباع کا ذکر فرمایا نہ کہ یہود کی موافقت کا، یعنی ہم یہ روزہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت میں رکھیں گے اور ہم انبیاء کرام علیہم السلام کے طریقے کی پیروی کے زیادہ حق دار ہیں ، بعد میں جب یہود کی مکاریوں اور ضد وعناد کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی مخالفت کا حکم دیا تو اس وقت لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشورہ کے روزے کے حوالے سے بھی دریافت کیا، چنانچہ ''حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے دن روزہ رکھا اور صحابہ کوبھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ ایسا دن ہے کہ یہودونصارٰی اِس کی بہت تعظیم کرتے ہیں (اور روزہ رکھ کر ہم اس دِن کی تعظیم کرنے میں یہودونصارٰی کی موافقت کرنے لگتے ہیں جب کہ ہمارے اور ان کے دین میں بڑا فرق ہے )۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آئندہ سال اِن شاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن ِعباس فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا''۔
"سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه، قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع»، قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم" .
(صحيح مسلم : ۲ / ۷۹۷ )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تم نویں اَوردسویں تاریخ کا روزہ رکھواوریہود کی مخالفت کرو''۔
"وروي عن ابن عباس أنه قال: «صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود»".
(سنن الترمذي : ۳ / ۱۲۰ )
لہذا ماہِ محرم کی دسویں تاریخ یعنی عاشورہ کے روزہ کا سنت ہونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور عمل سے ثابت ہے، اور تشبہ سے بچنے کے لیے نویں تاریخ کے روزے کا رکھنا بھی ثابت ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان بھی ثابت ہے کہ نویں اور دسویں کو روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو، یہودیوں میں عاشورہ کے روزے کا رواج نہیں ہے، یہ ثابت کرنا مشکل ہے، ان میں سے بعض پرانے لوگ جو مکمل اپنے مذہب کے پابند ہیں روزہ رکھتے ہوں گے ؛ بلکہ بعض اہلِ علم نے بیان کیا ہے کہ یہود کے علماء اور مقتداء آج بھی اس روزے کا اہتمام کرتے ہیں؛ اس لیے کہ شریعتِ موسوی میں عاشورہ کا روزہ بطورِ شکر لازم تھا، جیساکہ سابقہ سطور میں بحوالہ گزر چکا ہے .
لہذا عاشورہ (یعنی دسویں محرم) کے روزے کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ بھی رکھنا ہوگا، اگر نویں محرم کا روزہ نہ رکھ سکے تو دسویں محرم کے ساتھ گیارہویں محرم کا بھی روزہ رکھ لے.
(فتاوی رحیمیه : ۷ / ۲۷۳)
تاہم اگر کسی بنا پر دو روزے نہ رکھ سکے تو کم سے کم دسویں تاریخ کا ایک روزہ رکھنے کی کوشش کرلے، اس روزے کا اجروثواب ضرور ملے گا ؛ بلکہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عاشورہ کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:
(۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں دن روزہ رکھا جائے
(۲) نویں ، دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے
(۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے
ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے .
والدلیل علی ماقلنا:
"سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه، قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع»، قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم"
(صحي مسلم : ۲ / ۷۹۷)
"وحاصل الشريعة: أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه .
(العرف الشذی شرح سنن الترمذی : ۲ / ۱۷۷)
والله أعلم بالصواب
محمد اشتیاق احمد قاسمی جمشید پوری
جھارکھنڈ خادم التدریس جامعہ اشاعت العلوم ہلدر پور، شکرپاڑہ، کٹک، اڈیشا رابطہ نمبر: 7906859774 ۹ / ۱ / ۱۴۴۱ ھجری بروز پیر دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے سوال وجواب مسئلہ نمبر: ۲۳
جھارکھنڈ خادم التدریس جامعہ اشاعت العلوم ہلدر پور، شکرپاڑہ، کٹک، اڈیشا رابطہ نمبر: 7906859774 ۹ / ۱ / ۱۴۴۱ ھجری بروز پیر دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے سوال وجواب مسئلہ نمبر: ۲۳
----------------------------------------------------------------
سوال: کیا میں صرف دس محرم کا روزہ رکھ سکتاہوں یعنی اس سے ایک دن قبل یا ایک دن بعد میں روزہ نہ رکھوں ؟
جواب:
الحمدللہ: شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے: یوم عاشوراء کا روزہ ایک برس کے گناہوں کا کفارہ ہے، اکیلا دس محرم کا روزہ رکھنا مکروہ نہيں ۔ دیکھیں الفتاوی الکبری جلد نمبر (5) ۔
ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں: صرف اکیلا عاشوراء کا روزہ رکھنے میں کوئي حرج نہيں۔ دیکھیں کتاب: تحفۃ المحتاج باب صوم التطوع جلد نمبر (3) ۔
یہی سوال لجنۃ الدائمۃ سے کیا گيا تواس کا جواب تھا:
یوم عاشوراء کا اکیلا روزہ رکھنا جائز ہے، لیکن افضل اوربہتر یہ ہے کہ اس سے دن قبل یا بعد میں بھی روزہ رکھا جائے، کیونکہ یہ سنت طریقہ ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر میں اگلے برس تک باقی رہا تو نومحرم کا روزہ رکھوں گا) صحیح مسلم حدیث نمبر (1134)۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ: دس کے ساتھ نومحرم کا بھی۔
اللہ تعالی کی توفیق بخشنے والا ہے۔
دیکھیں: اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ الافتاء (11 / 401) ۔
واللہ اعلم.
---------------------------------------------------------
سوال: صرف عاشورہ کا روزہ رکھنا کیسا ہے؟ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جس کا مفہوم ہے کہ آئندہ سال زندہ رہا تو دو روزے رکھوں گا؟ اب تو یہود روزہ نہیں رکھتے؟ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں!
جواب: محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے، رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عاشوراء کے دن قریش جاہلیت کے زمانے میں روزہ رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بھی عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض کردیے گئے تو اب وہی فرض ہیں، اور عاشوراء کے روزے کی فرضیت چھوڑ دی گئی، اب جو چاہے رکھے اور جو چاہے چھوڑدے۔ (حدیث صحیح، جامع الترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی الرخصۃ فی ترک صوم یوم عاشوراء، (1/158) ط: قدیمی)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہواکہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے (سنہ 2 ہجری) سے پہلے مکی دور میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام سے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بھی بہت اہتمام سے اس کا حکم دیا، بہت سے فقہاء کے مطابق اس وقت عاشوراء کا روزہ فرض تھا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کے روزے کی حیثیت استحباب کی رہ گئی۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور اس دن ہمیں نصیحت کرنے کا اہتمام فرماتے تھے، پھر جب رمضان فرض کردیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ تو عاشوراء کے روزے کا حکم دیا نہ اس سے روکا اور نہ اس دن نصیحت کا اہتمام فرمایا۔ (مسلم، بحوالہ مشکاۃ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مدنی دور کے آغاز سے ہی عاشوراء کا روزہ رکھا، اور ابتدا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر عمل میں اہلِ کتاب کی مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ ابتداءِ اسلام میں بہت سے اعمال میں تالیفِ قلوب کے لیے نرمی کی گئی، مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس مقرر کیا گیا وغیرہ۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تو اسلام کے حکم کے مطابق عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق ان سے دریافت کیا، چناں چہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ کیسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ یہود نے کہا: یہ بڑا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی تھی، اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا، اس کے شکر میں موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا، ہم بھی اسی لیے روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہم موسی علیہ السلام کے طریقے کی پیروی اور اتباع کے زیادہ حق دار اور ان سے قریب ہیں، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی عاشوراء کے روزے کا حکم دیا۔ (بخاری ومسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت اور اتباع کا ذکر فرمایا نہ کہ یہود کی موافقت کا، یعنی ہم یہ روزہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت میں رکھیں گے اور ہم انبیاء کرام علیہم السلام کے طریقے کی پیروی کے زیادہ حق دار ہیں۔ بعد میں جب یہود کی مکاریوں اور ضد وعناد کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی مخالفت کا حکم دیا تو اس وقت لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزے کے حوالے سے بھی دریافت کیا، چناں چہ ''حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے دِن روزہ رکھا اَور صحابہ کوبھی اِس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ ایسا دن ہے کہ یہودونصارٰی اِس کی بہت تعظیم کرتے ہیں (اَورروزہ رکھ کر ہم اِس دِن کی تعظیم کرنے میں یہودونصارٰی کی موافقت کرنے لگتے ہیں جب کہ ہمارے اَوراُن کے دین میں بڑا فرق ہے )۔ آپ نے فرمایا: آئندہ سال اِن شاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن ِعباس فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا''۔
"سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه، قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع»، قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم" . (صحيح مسلم، (2/ 797)
حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تم نویں اَوردسویں تاریخ کا روزہ رکھواَوریہود کی مخالفت کرو''۔
"وروي عن ابن عباس أنه قال: «صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود»". (سنن الترمذي، (3/ 120)
لہذا ماہِ محرم کی دسویں تاریخ یعنی عاشوراء کے روزہ کا سنت ہونا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور قول سے ثابت ہے، اور تشبہ سے بچنے کے لیے نویں تاریخ کے روزے کا قصد بھی ثابت ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان بھی ثابت ہے کہ نویں اور دسویں کو روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ یہودیوں میں عاشوراء کے روزے کا رواج نہیں ہے، یہ ثابت کرنا مشکل ہے، ان میں سے بعض پرانے لوگ جو بزعمِ خود اپنے مذہب کے پابند ہیں روزہ رکھتے ہوں گے، بلکہ بعض اہلِ علم نے بیان کیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم اور ربی آج بھی اس روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس لیے کہ شریعتِ موسوی میں عاشوراء کا روزہ بطورِ شکر لازم تھا، جیساکہ سابقہ سطور میں بحوالہ گزر چکا ہے۔
لہذا علتِ تشبہ قائم ہے، اور اس سے بھی انکار نہیں کہ چودہ سو سال سے امت کا اس پر عمل چلا آرہا ہے، اور امت کے اہلِ علم کا توارث اور مسلسل عمل بھی بجائے خود دلیل ہے، تراویح کی بیس رکعت کے بعد اجتماعی دعا منقول نہیں، لیکن امت اور اکابر کے عمل کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اور دعا مانگی جاتی ہے ، علی ہذا عید الاضحی کی نماز کے بعد تکبیر ثابت نہیں ہے، فقہاء نے ۲۳ نمازیں شما رکی ہیں جن کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں اور یہ چوبیسویں نماز ہوجاتی ہے، مگر توارث کی بناپر تکبیر کہنے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور بعض نے واجب تک فرما دیا ہے،"ولا بأ س به عقب العید؛ لان المسلمین توارثوه، فوجب اتباعهم، وعلیه البلخیون". (درمختار مع الشامی ج۱ ص ۷۸۶ مطلب فی تکبیر التشریق)
لہذا عاشوراء (یعنی دسویں محرم ) کے روزے کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ بھی رکھنا ہوگا، اگر نویں کا نہ رکھ سکے تو دسویں کے ساتھ گیارہویں کا بھی روزہ رکھ لے۔ ( فتاوی رحیمیہ 7/273)
تاہم اگر کسی بنا پر دو روزے نہ رکھ سکے تو کم سے کم دسویں تاریخ کا ایک روزہ رکھنے کی کوشش کرلے، اس روزہ کا ثواب ملے گا۔ بلکہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:
(۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے (۲) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے (۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔
ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔
العرف الشذي شرح سنن الترمذي (2/ 177)
"وحاصل الشريعة: أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200054 دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
https://saagartimes.blogspot.com/2019/09/blog-post_66.html
سوال: کیا میں صرف دس محرم کا روزہ رکھ سکتاہوں یعنی اس سے ایک دن قبل یا ایک دن بعد میں روزہ نہ رکھوں ؟
جواب:
الحمدللہ: شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے: یوم عاشوراء کا روزہ ایک برس کے گناہوں کا کفارہ ہے، اکیلا دس محرم کا روزہ رکھنا مکروہ نہيں ۔ دیکھیں الفتاوی الکبری جلد نمبر (5) ۔
ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں: صرف اکیلا عاشوراء کا روزہ رکھنے میں کوئي حرج نہيں۔ دیکھیں کتاب: تحفۃ المحتاج باب صوم التطوع جلد نمبر (3) ۔
یہی سوال لجنۃ الدائمۃ سے کیا گيا تواس کا جواب تھا:
یوم عاشوراء کا اکیلا روزہ رکھنا جائز ہے، لیکن افضل اوربہتر یہ ہے کہ اس سے دن قبل یا بعد میں بھی روزہ رکھا جائے، کیونکہ یہ سنت طریقہ ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر میں اگلے برس تک باقی رہا تو نومحرم کا روزہ رکھوں گا) صحیح مسلم حدیث نمبر (1134)۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں کہ: دس کے ساتھ نومحرم کا بھی۔
اللہ تعالی کی توفیق بخشنے والا ہے۔
دیکھیں: اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ الافتاء (11 / 401) ۔
واللہ اعلم.
---------------------------------------------------------
سوال: صرف عاشورہ کا روزہ رکھنا کیسا ہے؟ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جس کا مفہوم ہے کہ آئندہ سال زندہ رہا تو دو روزے رکھوں گا؟ اب تو یہود روزہ نہیں رکھتے؟ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں!
جواب: محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا مستحب ہے، رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عاشوراء کے دن قریش جاہلیت کے زمانے میں روزہ رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بھی عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض کردیے گئے تو اب وہی فرض ہیں، اور عاشوراء کے روزے کی فرضیت چھوڑ دی گئی، اب جو چاہے رکھے اور جو چاہے چھوڑدے۔ (حدیث صحیح، جامع الترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی الرخصۃ فی ترک صوم یوم عاشوراء، (1/158) ط: قدیمی)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہواکہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے (سنہ 2 ہجری) سے پہلے مکی دور میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام سے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بھی بہت اہتمام سے اس کا حکم دیا، بہت سے فقہاء کے مطابق اس وقت عاشوراء کا روزہ فرض تھا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کے روزے کی حیثیت استحباب کی رہ گئی۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور اس دن ہمیں نصیحت کرنے کا اہتمام فرماتے تھے، پھر جب رمضان فرض کردیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ تو عاشوراء کے روزے کا حکم دیا نہ اس سے روکا اور نہ اس دن نصیحت کا اہتمام فرمایا۔ (مسلم، بحوالہ مشکاۃ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مدنی دور کے آغاز سے ہی عاشوراء کا روزہ رکھا، اور ابتدا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر عمل میں اہلِ کتاب کی مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ ابتداءِ اسلام میں بہت سے اعمال میں تالیفِ قلوب کے لیے نرمی کی گئی، مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس مقرر کیا گیا وغیرہ۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام تو اسلام کے حکم کے مطابق عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق ان سے دریافت کیا، چناں چہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ کیسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ یہود نے کہا: یہ بڑا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی تھی، اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا، اس کے شکر میں موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا، ہم بھی اسی لیے روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہم موسی علیہ السلام کے طریقے کی پیروی اور اتباع کے زیادہ حق دار اور ان سے قریب ہیں، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی عاشوراء کے روزے کا حکم دیا۔ (بخاری ومسلم)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت اور اتباع کا ذکر فرمایا نہ کہ یہود کی موافقت کا، یعنی ہم یہ روزہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت میں رکھیں گے اور ہم انبیاء کرام علیہم السلام کے طریقے کی پیروی کے زیادہ حق دار ہیں۔ بعد میں جب یہود کی مکاریوں اور ضد وعناد کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی مخالفت کا حکم دیا تو اس وقت لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزے کے حوالے سے بھی دریافت کیا، چناں چہ ''حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے دِن روزہ رکھا اَور صحابہ کوبھی اِس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ ایسا دن ہے کہ یہودونصارٰی اِس کی بہت تعظیم کرتے ہیں (اَورروزہ رکھ کر ہم اِس دِن کی تعظیم کرنے میں یہودونصارٰی کی موافقت کرنے لگتے ہیں جب کہ ہمارے اَوراُن کے دین میں بڑا فرق ہے )۔ آپ نے فرمایا: آئندہ سال اِن شاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن ِعباس فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا''۔
"سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه، قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع»، قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم" . (صحيح مسلم، (2/ 797)
حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تم نویں اَوردسویں تاریخ کا روزہ رکھواَوریہود کی مخالفت کرو''۔
"وروي عن ابن عباس أنه قال: «صوموا التاسع والعاشر وخالفوا اليهود»". (سنن الترمذي، (3/ 120)
لہذا ماہِ محرم کی دسویں تاریخ یعنی عاشوراء کے روزہ کا سنت ہونا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور قول سے ثابت ہے، اور تشبہ سے بچنے کے لیے نویں تاریخ کے روزے کا قصد بھی ثابت ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان بھی ثابت ہے کہ نویں اور دسویں کو روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ یہودیوں میں عاشوراء کے روزے کا رواج نہیں ہے، یہ ثابت کرنا مشکل ہے، ان میں سے بعض پرانے لوگ جو بزعمِ خود اپنے مذہب کے پابند ہیں روزہ رکھتے ہوں گے، بلکہ بعض اہلِ علم نے بیان کیا ہے کہ یہود کے اہلِ علم اور ربی آج بھی اس روزے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس لیے کہ شریعتِ موسوی میں عاشوراء کا روزہ بطورِ شکر لازم تھا، جیساکہ سابقہ سطور میں بحوالہ گزر چکا ہے۔
لہذا علتِ تشبہ قائم ہے، اور اس سے بھی انکار نہیں کہ چودہ سو سال سے امت کا اس پر عمل چلا آرہا ہے، اور امت کے اہلِ علم کا توارث اور مسلسل عمل بھی بجائے خود دلیل ہے، تراویح کی بیس رکعت کے بعد اجتماعی دعا منقول نہیں، لیکن امت اور اکابر کے عمل کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اور دعا مانگی جاتی ہے ، علی ہذا عید الاضحی کی نماز کے بعد تکبیر ثابت نہیں ہے، فقہاء نے ۲۳ نمازیں شما رکی ہیں جن کے بعد تکبیرات تشریق کہی جاتی ہیں اور یہ چوبیسویں نماز ہوجاتی ہے، مگر توارث کی بناپر تکبیر کہنے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور بعض نے واجب تک فرما دیا ہے،"ولا بأ س به عقب العید؛ لان المسلمین توارثوه، فوجب اتباعهم، وعلیه البلخیون". (درمختار مع الشامی ج۱ ص ۷۸۶ مطلب فی تکبیر التشریق)
لہذا عاشوراء (یعنی دسویں محرم ) کے روزے کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ بھی رکھنا ہوگا، اگر نویں کا نہ رکھ سکے تو دسویں کے ساتھ گیارہویں کا بھی روزہ رکھ لے۔ ( فتاوی رحیمیہ 7/273)
تاہم اگر کسی بنا پر دو روزے نہ رکھ سکے تو کم سے کم دسویں تاریخ کا ایک روزہ رکھنے کی کوشش کرلے، اس روزہ کا ثواب ملے گا۔ بلکہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:
(۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے (۲) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے (۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔
ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاء نے کراہتِ تنزیہی سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔
العرف الشذي شرح سنن الترمذي (2/ 177)
"وحاصل الشريعة: أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200054 دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
https://saagartimes.blogspot.com/2019/09/blog-post_66.html
No comments:
Post a Comment