مدرسہ کے مہتمم و ناظم کی حیثیت کیا ہے؟
🌹🌹فقہی سمینار 🌹🌹
آج کا سوال نمبر 213
5 محرم الحرام ھ1439
مطابق
26 ستمبر 2017ع بروز سہ شنبہ
مدرسہ کے مہتمم و ناظم کی حیثیت کیا ہے؟
کیا وہ اموالِ زکوۃ جہاں چاہے صرف کر سکتے ہیں؟
تملیک یا بلا تملیک؟
کیا کسی مدرس کو جب چاہے نکال سکتے ہیں؟
کیا وہ مدرسین و ملازمین کے ساتھ ڈاٹ ڈپٹ غصہ کر سکتے ہیں؟
کیا وہ مدرسہ کی رقوم سے گاڑی خرید کر مدرسہ کے کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے کاموں میں بھی استعمال کر سکتے ہیں؟
کیا وہ مدرسہ میں آئے ہوئے اناج وغلہ پر کلی اختیار رکھتے ہیں کہ جتنا چاہے وہ خود استعمال کریں اور جن کی چاہے دعوت کریں؟
بحوالہ مدلل سیر حاصل بحث فرمائیں
الجواب وباللہ التوفيق:
حامدا ومصلیا ومسلما:
۱۔۔ مدرسہ کے مہتمم کی حیثیت:
مدرسے کے مہتمم و ناظم کی حیثیت میں دو پہلو ہیں،
اول زکات وصول کرنے کے تعلق سے تو اس میں وہ طلبہ کے وکیل ہیں اور انکے لینے سے زکات ادا ہوجائےگی، اور من وجہ مالدار معطین کے بھی وکیل ہیں کہ جس مصرف کے لیے دیا اسی میں خرچ کرسکتےہیں،
چنانچہ حضرت مفتی سعید صاحب پالن پوری دامت برکاتہم فتاویٰ دار العلوم دیوبند کے حاشیے میں یہی تحریر فرماتےہیں اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ اور حضرت تھانوی قدس سرہ کی تائید سے مزین فرمایا ہے
ملاحظہ ہو!
مدارس کے مہتمم کی شرعی حیثیت
مدارس کے مہتمم ایک طرف تو چندہ دہندہ کے وکیل ہوتے ہیں، اس طرح کہ چندہ دینے والے اگر مصرف متعین کرکے دیں تو مہتمم صاحب اسی مصرف میں خرچ کرنے کے پابند ہیں، مثال کے طور پر چندہ (غیرزکوٰة) دینے والے نے مدرسہ کی عمارت میں خرچ کرنے کی قید لگائی تو مہتمم صاحب اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے مصرف میں خرچ نہیں کرسکتے۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱۴/۱۲۵ تلخیص)
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ”ظاہراً مہتمم وکیل مُعطِی کا ہے.“ (امداد الفتاویٰ ۳/۳۱۶)
مدارس کے مہتمم دوسری طرف طلبہ کے قَیِّم اور نائب ہوتے ہیں؛ اس لیے ان کا قبضہ طلبہ کا قبضہ کہلائے گا، چندہ دیتے ہی چندہ دہندگان کی ملکیت سے چندہ خارج ہوجاتا ہے، اوراس پر طلبہ کی ملکیت ہوجاتی ہے، مدارس بیت المال کی طرح ہیں اور مہتمم صاحب نگراں کی طرح؛ اس میں طلبہ کا معلوم و متعین ہونا بھی ضروری نہیں ہے جس طرح بیت المال کے مستحقین معلوم ومتعین نہیں ہوتے (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱۴/۱۲۵ تلخیص)
نیز دوسرے فتاویٰ میں بھی یہی مذکور ہے
مدرسہ کا مہتمم کس کا وکیل ہے؟
اصل میں مدرسہ کا مہتمم چندہ دہندگان کا وکیل ہے کہ وہ اس چندہ کی رقم کو مصارف میں خرچ کرے؛ لیکن بعض اکابر نے اسے بعض خاص مسائل میں من وجہ طلبہ مدرسہ کا بھی وکیل مانا ہے، اسی بنا پر مہتمم کے قبضہ میں آتے ہی معطیان کی زکوٰۃ کی ادائیگی کا قول کیا جاتا ہے۔ (مستفاد: تذکرۃ الرشید ۱۶۴-۱۶۵، امداد الفتاویٰ ۳؍۳۱۶، فتاویٰ محمودیہ میرٹھ ۱۴؍۲۷۵-۲۷۶، ڈابھیل ۹؍۵۱۱) مستفاد: بخلاف ما إذا ضاعت فی ید الساعی لان یدہ کید الفقراء۔ (درمختار کراچی ۲؍۲۷۰)
۔۔۔۔۔۔۔
مہتمم کی حیثیت میں دوسرا پہلو ان رقوم کے خرچ کرنے کے سلسلے میں ہے تو اس میں وہ امین ہے اور امانت داری سے خرچ کرنا ضروری ہے، اور جس نے جس مصرف کی تعیین کی ہے اسکے خلاف میں صرف کرنا جائز نہیں ہے،
اسی طرح ذاتی استعمال میں لانا قطعی جائز نہیں ہے۔۔
اور جو ایسا کرتا ہو وہ خائن اور مجرم ہے اسے اس جگہ اور عہدے سے معزول کرنا لوگوں پر ضروری ہے، اگر ذمہ دار جاننے اور قدرت کے باوجود ایسے خائن کو نہ ہٹائیں تو وہ بھی مجرم ہے،
اس لیے کہ وقف کی تولیت کے لیے صالح ہونا امین ہونا ضروری ہے۔
ذیل میں فتاویٰ ملاحظہ ہو۔۔:
خیانت کرنے والے ناظم کے ساتھ عوام کیا سلوک کرے؟
سوال (۴۹۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: عوام الناس کی عام میٹنگ سے ۲؍مرتبہ مہلت دی گئی، وقت معہود پر سکریٹری نے مدرسہ کی رقم جمع نہیں کی، اَب از روئے شرع عوام الناس کو اُس کے ساتھ کیا سلوک وبرتاؤ کرنا چاہئے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو ناظم خیانت کا مرتکب ہو، اُسے اِس ذمہ داری سے معزول کردینا چاہئے۔
عن الخصاف: أن لہ عزلہ أو إدخال غیرہ معہ ومقتضاہ إثم القاضي
بترکہ، والإثم بتولیۃ الخائن ولا شک فیہ۔ (شامي، کتاب الوقف / مطلب یأثم بتولیۃ الخائن ۶؍۵۷۸ زکریا)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۷؍۱۱؍۱۴۱۶ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
۔۔
صحیح حساب نہ دینے والے منتظم کو مدرسہ سے نکالنا؟
سوال (۴۹۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید مدرسہ میں صحیح حساب نہیں دیتا ہے، اور مدرسہ کے ذمہ داران اُس کو ہٹانا چاہتے ہیں، اور یہ شخص مدرسہ سے ہٹنا نہیں چاہتا، شرعاً اُس کا کیا حکم ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدرسہ قوم کی اَمانت ہے، اُس کا حساب زید کو دینا چاہئے؛ البتہ اگر بلا کسی وجہ شرعی کے لوگ اُس سے ناراض ہوں، تو اُس پر مدرسہ چھوڑنا لازم نہیں ہے۔
عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یطبع المؤمن علی الخلال کلہا، إلا الخیانۃ والکذب۔ (مشکاۃ المصابیح / باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم، الفصل الثالث ۲؍۴۱۴)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
۶؍۲؍۱۴۱۳ھ
رسیدیں غصب کرنے والے کو مدرسہ کا ذمہ دار بنانا کیسا ہے؟
سوال (۴۹۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: جس مدرس یا سفیر نے مدرسہ کی رسیدیں غصب کردی ہوں، پھر اُس کو مدرسہ میں رکھنا کیسا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
خائن شخص کو مدرسہ کی ذمہ داری دینے سے مہتمم گنہگار ہوگا۔
ولا یولی إلا أمین قادر بنفسہ أو بنائبہ؛ لأن الولایۃ مقیدۃ بشرط النظر، ولیس من النظر تولیۃ الخائن؛ لأنہ یخل بالمقصود۔ (شامي، کتاب الوقف / مطلب في شروط المتولي ۶؍۵۷۸ زکریا، ۳؍۳۸۰ کراچی، البحر الرائق ۵؍۳۷۸ زکریا)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱؍۱۱؍۱۴۱۶ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
۔۔۔۔
فتاوی قاسمیہ جلد 19
تعاون نہ کرو، جس کی کئی شہادتیں موجود ہیں۔ اور اب بھی اسی کوشش میں لگے ہیں کہ کسی طریقہ سے یہ پرانا مدرسہ بند ہوجائے، پرانے مدرسہ کی عمارت پختہ عمارت ہے، رقبہ ستر ستر فٹ ہے؛ لہٰذا مہتمم صاحب کی کارستانیوں کو قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں؛ کیوں کہ اس کا علاقہ والوں پر بہت برا اثر پڑا ہے، رضا خانی حضرات خوب مذاق اڑاتے ہیں اور جو لوگ رضاخانیت سے توبہ کرکے اس طرف آئے تھے وہ لوگ بہت برا اثر لے رہے ہیں، اس میں پورے مسلک کی بدنامی ہورہی ہے۔
المستفتی: محمد خان سراوستی
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
مہتمم صاحب کے لئے مدرسہ کی رقم، رسیدات، روداد اور رجسٹر وغیرہ دیگر سامان روکنا اور لے جانا اور سابقہ مدرسہ کے نام پر دوسرے مدرسہ کا نام رکھنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے؛ بلکہ تمام چیزوں کی واپسی لازم ہے؛ کیوں کہ ایک مدرسہ کی رقم یا دیگر اشیاء دوسرے مدرسہ میں صرف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاوی ۶/ ۴۰۷، فتاوی محمودیہ قدیم ۱۰/ ۲۱۱، جدید ڈابھیل ۱۵/ ۴۷۲-۴۷۳)
ومن اختلاف الجہۃ ما إذا کان الوقف منزلین أحدہما للسکنی والآخر للاستغلال، فلا یصرف أحدہما للآخر، وہي واقعۃ الفتوی۔ (شامي، الوقف، مطلب في نقل القاضي المسجد ونحوہ، زکریا ۶/ ۵۵۱، کراچی ۴/ ۳۶۱)
فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۵؍ جمادی الثانیہ ۱۴۱۹ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۳/ ۵۸۰۵)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۵؍ جمادی الثانیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۔۔ کیا اموال زکات بلا تملیک صرف کرسکتے ہیں
اس بارے میں حضرت مفتی سعید صاحب فرماتےہیں:
کہ حضرت گنگوہی رح کے فتوے میں اسکی وضاحت نہیں تھی اور مسئلہ اس طرح چلتا رہا کہ تملیک ضروری ہے حالانکہ اس میں بہت پریشانی ہے اس لیے دار العلوم نے یہ طے کیا کہ داخلہ کے وقت طالب سے ہی وکالت و اجازت لے لی جائے اس صورت میں بلا تملیک ضروریات میں خرچ کرنا درست ہوگا، اور وکیل مان لینے کی صورت میں تو بلا کسی حیلہ، تملیک کے ضروریات طلبہ میں خرچ کرسکتاہے،
لیکن اس میں ایک تفصیل ہے جو حضرت مفتی سعید صاحب نے تحریر فرمایاہے کہ جن چیزوں کا فائدہ براہ راست ان تک پہنچتا ہے جیسے کھانا یا کپڑا وغیرہ اس میں بلا تملیک خرچ کرسکتےہیں،
اور جن چیزوں میں بالواسطہ طلبہ پر خرچ ہوتاہے جیسے مدرسے کے بل، اساتذہ کی تنخواہیں یا جو چیزیں طلبہ لو مستعار دی جاتی ہیں جیسے کتابیں، پلنگ وغیرہ اس میں تملیک ضروری ہے۔۔
{حاشیہ فتاویٰ دار العلوم ۱۴/۱۲۵}
لہذاٰ طلبہ کے وکیل ہونے کی بناپر ان کی ضرورتوں میں خرچ کیا جا سکتاہے البتہ ضرورت سے زیادہ نہ ہو اور بلا ضرورت کا خرچ نہ ہو اسکی ذمہ داری مہتمم کے اوپر ہے۔
۳۔۔ جب چاہے نکال سکتےہیں،
مہتمم مدرسہ کہ طلبہ اور اساتذہ کا نگران ہے اور اساتذہ سے کوئی معین وقت تک کا معاہدہ نہیں ہوتا اس لیے بلا شرعی عذر کے ان کو نکالنے کا حق نہیں ۔ہاں شرعی وجہ ہو جیسے ان کی خیانت ہو یا صحیح سے تعلیم نہ دیتے ہوں تو نکال سکتاہے
مستفاد فتاویٰ محمودیہ ۱۵/۴۴۹
اور اگر معین وقت تک کا معاہدہ ہوا ہے تو وقت ختم ہونے پر منع کرسکتاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔۔ غصہ کرنا،
ملازمین، مدرسین سے نرمی شفقت سے پیش آنا چاہئے، اور اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ پیش نظر ہونا چاہئے کہ دس سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر وقت خدمت کرنے والے کو بھی کبھی نہ آپ نے ڈانٹا نہ مارا تو دوسروں کو کیا ڈانٹتے! اور ڈانٹ سے عموما اصلاح نہیں ہوتی بلکہ مزید قلب میں نفرت ہوتی ہے جو مضر ہے
۵۔۔ذاتی کام میں استعمال
بالکل جائز نہیں، عنداللہ پوچھ ہوگی
اوپر مدلل آچکاہے
۶۔۔ اناج پر کلی اختیار
بالکل نہیں، وہ اس معاملہ میں امین ہے اور امین کا کام ہے جو چیز جس مصرف کے لیے ہے اس میں خرچ کرنا
پس اناج بھی اسی طرح خرچ کرنا ہوگا، ۔اور اگر سب اساتذہ کو اس میں سے دیا جارہاہے تو اس میں سے اپنے لیے بھی اتنی مقدار لینا درست ہے ورنہ جائز نہیں ہوگا،
اسی طرح مدرسہ کے مال میں سے دعوت کسی ایسے کو دی جارہی ہے جس سے طلبہ مدرسہ منتفع ہورہاہے دینی طور پر تو یہ طلبہ ہی کے لیے ہونے کی بناپر جائز ہے
ورنہ اپنے ذاتی تعلقات والے کی مدرسے کی رقم سے دعوت جائز نہیں
واللہ سبحانہ اعلم
ابراہیم علیانی
۲۲/ محرم ۱۴۳۹ھ
---------------------------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2019/09/blog-post_4.html
🌹🌹فقہی سمینار 🌹🌹
آج کا سوال نمبر 213
5 محرم الحرام ھ1439
مطابق
26 ستمبر 2017ع بروز سہ شنبہ
مدرسہ کے مہتمم و ناظم کی حیثیت کیا ہے؟
کیا وہ اموالِ زکوۃ جہاں چاہے صرف کر سکتے ہیں؟
تملیک یا بلا تملیک؟
کیا کسی مدرس کو جب چاہے نکال سکتے ہیں؟
کیا وہ مدرسین و ملازمین کے ساتھ ڈاٹ ڈپٹ غصہ کر سکتے ہیں؟
کیا وہ مدرسہ کی رقوم سے گاڑی خرید کر مدرسہ کے کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے کاموں میں بھی استعمال کر سکتے ہیں؟
کیا وہ مدرسہ میں آئے ہوئے اناج وغلہ پر کلی اختیار رکھتے ہیں کہ جتنا چاہے وہ خود استعمال کریں اور جن کی چاہے دعوت کریں؟
بحوالہ مدلل سیر حاصل بحث فرمائیں
الجواب وباللہ التوفيق:
حامدا ومصلیا ومسلما:
۱۔۔ مدرسہ کے مہتمم کی حیثیت:
مدرسے کے مہتمم و ناظم کی حیثیت میں دو پہلو ہیں،
اول زکات وصول کرنے کے تعلق سے تو اس میں وہ طلبہ کے وکیل ہیں اور انکے لینے سے زکات ادا ہوجائےگی، اور من وجہ مالدار معطین کے بھی وکیل ہیں کہ جس مصرف کے لیے دیا اسی میں خرچ کرسکتےہیں،
چنانچہ حضرت مفتی سعید صاحب پالن پوری دامت برکاتہم فتاویٰ دار العلوم دیوبند کے حاشیے میں یہی تحریر فرماتےہیں اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ اور حضرت تھانوی قدس سرہ کی تائید سے مزین فرمایا ہے
ملاحظہ ہو!
مدارس کے مہتمم کی شرعی حیثیت
مدارس کے مہتمم ایک طرف تو چندہ دہندہ کے وکیل ہوتے ہیں، اس طرح کہ چندہ دینے والے اگر مصرف متعین کرکے دیں تو مہتمم صاحب اسی مصرف میں خرچ کرنے کے پابند ہیں، مثال کے طور پر چندہ (غیرزکوٰة) دینے والے نے مدرسہ کی عمارت میں خرچ کرنے کی قید لگائی تو مہتمم صاحب اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے مصرف میں خرچ نہیں کرسکتے۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱۴/۱۲۵ تلخیص)
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ ”ظاہراً مہتمم وکیل مُعطِی کا ہے.“ (امداد الفتاویٰ ۳/۳۱۶)
مدارس کے مہتمم دوسری طرف طلبہ کے قَیِّم اور نائب ہوتے ہیں؛ اس لیے ان کا قبضہ طلبہ کا قبضہ کہلائے گا، چندہ دیتے ہی چندہ دہندگان کی ملکیت سے چندہ خارج ہوجاتا ہے، اوراس پر طلبہ کی ملکیت ہوجاتی ہے، مدارس بیت المال کی طرح ہیں اور مہتمم صاحب نگراں کی طرح؛ اس میں طلبہ کا معلوم و متعین ہونا بھی ضروری نہیں ہے جس طرح بیت المال کے مستحقین معلوم ومتعین نہیں ہوتے (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۱۴/۱۲۵ تلخیص)
نیز دوسرے فتاویٰ میں بھی یہی مذکور ہے
مدرسہ کا مہتمم کس کا وکیل ہے؟
اصل میں مدرسہ کا مہتمم چندہ دہندگان کا وکیل ہے کہ وہ اس چندہ کی رقم کو مصارف میں خرچ کرے؛ لیکن بعض اکابر نے اسے بعض خاص مسائل میں من وجہ طلبہ مدرسہ کا بھی وکیل مانا ہے، اسی بنا پر مہتمم کے قبضہ میں آتے ہی معطیان کی زکوٰۃ کی ادائیگی کا قول کیا جاتا ہے۔ (مستفاد: تذکرۃ الرشید ۱۶۴-۱۶۵، امداد الفتاویٰ ۳؍۳۱۶، فتاویٰ محمودیہ میرٹھ ۱۴؍۲۷۵-۲۷۶، ڈابھیل ۹؍۵۱۱) مستفاد: بخلاف ما إذا ضاعت فی ید الساعی لان یدہ کید الفقراء۔ (درمختار کراچی ۲؍۲۷۰)
۔۔۔۔۔۔۔
مہتمم کی حیثیت میں دوسرا پہلو ان رقوم کے خرچ کرنے کے سلسلے میں ہے تو اس میں وہ امین ہے اور امانت داری سے خرچ کرنا ضروری ہے، اور جس نے جس مصرف کی تعیین کی ہے اسکے خلاف میں صرف کرنا جائز نہیں ہے،
اسی طرح ذاتی استعمال میں لانا قطعی جائز نہیں ہے۔۔
اور جو ایسا کرتا ہو وہ خائن اور مجرم ہے اسے اس جگہ اور عہدے سے معزول کرنا لوگوں پر ضروری ہے، اگر ذمہ دار جاننے اور قدرت کے باوجود ایسے خائن کو نہ ہٹائیں تو وہ بھی مجرم ہے،
اس لیے کہ وقف کی تولیت کے لیے صالح ہونا امین ہونا ضروری ہے۔
ذیل میں فتاویٰ ملاحظہ ہو۔۔:
خیانت کرنے والے ناظم کے ساتھ عوام کیا سلوک کرے؟
سوال (۴۹۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: عوام الناس کی عام میٹنگ سے ۲؍مرتبہ مہلت دی گئی، وقت معہود پر سکریٹری نے مدرسہ کی رقم جمع نہیں کی، اَب از روئے شرع عوام الناس کو اُس کے ساتھ کیا سلوک وبرتاؤ کرنا چاہئے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو ناظم خیانت کا مرتکب ہو، اُسے اِس ذمہ داری سے معزول کردینا چاہئے۔
عن الخصاف: أن لہ عزلہ أو إدخال غیرہ معہ ومقتضاہ إثم القاضي
بترکہ، والإثم بتولیۃ الخائن ولا شک فیہ۔ (شامي، کتاب الوقف / مطلب یأثم بتولیۃ الخائن ۶؍۵۷۸ زکریا)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۷؍۱۱؍۱۴۱۶ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
۔۔
صحیح حساب نہ دینے والے منتظم کو مدرسہ سے نکالنا؟
سوال (۴۹۴):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید مدرسہ میں صحیح حساب نہیں دیتا ہے، اور مدرسہ کے ذمہ داران اُس کو ہٹانا چاہتے ہیں، اور یہ شخص مدرسہ سے ہٹنا نہیں چاہتا، شرعاً اُس کا کیا حکم ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدرسہ قوم کی اَمانت ہے، اُس کا حساب زید کو دینا چاہئے؛ البتہ اگر بلا کسی وجہ شرعی کے لوگ اُس سے ناراض ہوں، تو اُس پر مدرسہ چھوڑنا لازم نہیں ہے۔
عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یطبع المؤمن علی الخلال کلہا، إلا الخیانۃ والکذب۔ (مشکاۃ المصابیح / باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم، الفصل الثالث ۲؍۴۱۴)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
۶؍۲؍۱۴۱۳ھ
رسیدیں غصب کرنے والے کو مدرسہ کا ذمہ دار بنانا کیسا ہے؟
سوال (۴۹۵):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: جس مدرس یا سفیر نے مدرسہ کی رسیدیں غصب کردی ہوں، پھر اُس کو مدرسہ میں رکھنا کیسا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
خائن شخص کو مدرسہ کی ذمہ داری دینے سے مہتمم گنہگار ہوگا۔
ولا یولی إلا أمین قادر بنفسہ أو بنائبہ؛ لأن الولایۃ مقیدۃ بشرط النظر، ولیس من النظر تولیۃ الخائن؛ لأنہ یخل بالمقصود۔ (شامي، کتاب الوقف / مطلب في شروط المتولي ۶؍۵۷۸ زکریا، ۳؍۳۸۰ کراچی، البحر الرائق ۵؍۳۷۸ زکریا)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱؍۱۱؍۱۴۱۶ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
۔۔۔۔
فتاوی قاسمیہ جلد 19
تعاون نہ کرو، جس کی کئی شہادتیں موجود ہیں۔ اور اب بھی اسی کوشش میں لگے ہیں کہ کسی طریقہ سے یہ پرانا مدرسہ بند ہوجائے، پرانے مدرسہ کی عمارت پختہ عمارت ہے، رقبہ ستر ستر فٹ ہے؛ لہٰذا مہتمم صاحب کی کارستانیوں کو قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان فرمائیں؛ کیوں کہ اس کا علاقہ والوں پر بہت برا اثر پڑا ہے، رضا خانی حضرات خوب مذاق اڑاتے ہیں اور جو لوگ رضاخانیت سے توبہ کرکے اس طرف آئے تھے وہ لوگ بہت برا اثر لے رہے ہیں، اس میں پورے مسلک کی بدنامی ہورہی ہے۔
المستفتی: محمد خان سراوستی
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
مہتمم صاحب کے لئے مدرسہ کی رقم، رسیدات، روداد اور رجسٹر وغیرہ دیگر سامان روکنا اور لے جانا اور سابقہ مدرسہ کے نام پر دوسرے مدرسہ کا نام رکھنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے؛ بلکہ تمام چیزوں کی واپسی لازم ہے؛ کیوں کہ ایک مدرسہ کی رقم یا دیگر اشیاء دوسرے مدرسہ میں صرف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاوی ۶/ ۴۰۷، فتاوی محمودیہ قدیم ۱۰/ ۲۱۱، جدید ڈابھیل ۱۵/ ۴۷۲-۴۷۳)
ومن اختلاف الجہۃ ما إذا کان الوقف منزلین أحدہما للسکنی والآخر للاستغلال، فلا یصرف أحدہما للآخر، وہي واقعۃ الفتوی۔ (شامي، الوقف، مطلب في نقل القاضي المسجد ونحوہ، زکریا ۶/ ۵۵۱، کراچی ۴/ ۳۶۱)
فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۵؍ جمادی الثانیہ ۱۴۱۹ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۳/ ۵۸۰۵)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۵؍ جمادی الثانیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۔۔ کیا اموال زکات بلا تملیک صرف کرسکتے ہیں
اس بارے میں حضرت مفتی سعید صاحب فرماتےہیں:
کہ حضرت گنگوہی رح کے فتوے میں اسکی وضاحت نہیں تھی اور مسئلہ اس طرح چلتا رہا کہ تملیک ضروری ہے حالانکہ اس میں بہت پریشانی ہے اس لیے دار العلوم نے یہ طے کیا کہ داخلہ کے وقت طالب سے ہی وکالت و اجازت لے لی جائے اس صورت میں بلا تملیک ضروریات میں خرچ کرنا درست ہوگا، اور وکیل مان لینے کی صورت میں تو بلا کسی حیلہ، تملیک کے ضروریات طلبہ میں خرچ کرسکتاہے،
لیکن اس میں ایک تفصیل ہے جو حضرت مفتی سعید صاحب نے تحریر فرمایاہے کہ جن چیزوں کا فائدہ براہ راست ان تک پہنچتا ہے جیسے کھانا یا کپڑا وغیرہ اس میں بلا تملیک خرچ کرسکتےہیں،
اور جن چیزوں میں بالواسطہ طلبہ پر خرچ ہوتاہے جیسے مدرسے کے بل، اساتذہ کی تنخواہیں یا جو چیزیں طلبہ لو مستعار دی جاتی ہیں جیسے کتابیں، پلنگ وغیرہ اس میں تملیک ضروری ہے۔۔
{حاشیہ فتاویٰ دار العلوم ۱۴/۱۲۵}
لہذاٰ طلبہ کے وکیل ہونے کی بناپر ان کی ضرورتوں میں خرچ کیا جا سکتاہے البتہ ضرورت سے زیادہ نہ ہو اور بلا ضرورت کا خرچ نہ ہو اسکی ذمہ داری مہتمم کے اوپر ہے۔
۳۔۔ جب چاہے نکال سکتےہیں،
مہتمم مدرسہ کہ طلبہ اور اساتذہ کا نگران ہے اور اساتذہ سے کوئی معین وقت تک کا معاہدہ نہیں ہوتا اس لیے بلا شرعی عذر کے ان کو نکالنے کا حق نہیں ۔ہاں شرعی وجہ ہو جیسے ان کی خیانت ہو یا صحیح سے تعلیم نہ دیتے ہوں تو نکال سکتاہے
مستفاد فتاویٰ محمودیہ ۱۵/۴۴۹
اور اگر معین وقت تک کا معاہدہ ہوا ہے تو وقت ختم ہونے پر منع کرسکتاہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۴۔۔ غصہ کرنا،
ملازمین، مدرسین سے نرمی شفقت سے پیش آنا چاہئے، اور اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ پیش نظر ہونا چاہئے کہ دس سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر وقت خدمت کرنے والے کو بھی کبھی نہ آپ نے ڈانٹا نہ مارا تو دوسروں کو کیا ڈانٹتے! اور ڈانٹ سے عموما اصلاح نہیں ہوتی بلکہ مزید قلب میں نفرت ہوتی ہے جو مضر ہے
۵۔۔ذاتی کام میں استعمال
بالکل جائز نہیں، عنداللہ پوچھ ہوگی
اوپر مدلل آچکاہے
۶۔۔ اناج پر کلی اختیار
بالکل نہیں، وہ اس معاملہ میں امین ہے اور امین کا کام ہے جو چیز جس مصرف کے لیے ہے اس میں خرچ کرنا
پس اناج بھی اسی طرح خرچ کرنا ہوگا، ۔اور اگر سب اساتذہ کو اس میں سے دیا جارہاہے تو اس میں سے اپنے لیے بھی اتنی مقدار لینا درست ہے ورنہ جائز نہیں ہوگا،
اسی طرح مدرسہ کے مال میں سے دعوت کسی ایسے کو دی جارہی ہے جس سے طلبہ مدرسہ منتفع ہورہاہے دینی طور پر تو یہ طلبہ ہی کے لیے ہونے کی بناپر جائز ہے
ورنہ اپنے ذاتی تعلقات والے کی مدرسے کی رقم سے دعوت جائز نہیں
واللہ سبحانہ اعلم
ابراہیم علیانی
۲۲/ محرم ۱۴۳۹ھ
---------------------------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2019/09/blog-post_4.html
No comments:
Post a Comment