Wednesday 4 September 2019

عاشوراء کے دن کی طرف منسوب انبیاء علیہم السلام کے واقعات کی حقیقت

عاشوراء کے دن کی طرف منسوب انبیاء علیہم السلام کے واقعات کی حقیقت

ذخیرہ احادیث میں ۵ حضرات صحابہ کی روایات اس سلسلہ میں ملتی ہے:
۱۔ حضرت ابن عباس 
۲۔ حضرت ابوہریرہ 
۳۔ حضرت سعید الشامی 
۴۔ حضرت انس  
۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہم اجمعین ۔
اور تابعین میں سے: 
۶۔ حضرت قتادہ  
۷۔ حضرت وہب بن منبہ 
۸۔ حضرت زید العمی رحمہم اللہ سے مرسل روایات منقول ہیں۔
۞ ان روایات میں وقائع دو طرح کے ہیں:
۱۔ ایک وہ جن کا تعلق خداکی تخلیق سے ہے، یعنی اللہ تعالی نے فلانی فلانی چیز عاشوراء کے دن پیدا کی ، جیسے زمین آسمان عرش کرسی لوح وقلم وغیرہ وغیرہ، ان امور سے ابھی یہاں تعرض نہیں کیا جائے گا، اگرچہ یہ امور ثابت نہیں ہیں ۔
۲۔دوسرے وہ واقعات جو انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف منسوب ہیں، وہ مختلف روایات جمع کرنے سے تقریبا ۱۴ انبیاء علیہم السلام کی طرف منسوب کئے گئے ہیں، بعض انبیاء کی طرف متعدد باتیں منسوب کی گئیں، جن کی یہ فہرست ہے:
۱۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش، اور اس دن ان کی توبہ قبول ہونا۔
۲۔ حضرت نوح علیہ السلام کی نجات، اور کشتی کا جودی پہاڑ پر جاکرٹھیرنا۔
۳۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش، اور آگ سے نجات۔
۴۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دنبہ کے ذریعہ فداء۔
۵۔ حضرت موسی علیہ السلام کی پیدائش ،تورات کا نزول، بنی اسرائیل کی نجات ، دریا پار کرنا، اور فرعون کا غرق۔
۶۔ حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ سے نکلنا، اور ان کی قوم کی توبہ قبول ہونا ۔
۷۔ حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالینا۔
۸۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا شفایاب ہونا۔
۹۔ حضرت داود علیہ السلام کی فیصلہ والی غلطی معاف ہونا۔
۱۰۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کاحکومت وسلطنت پر فائز ہونا۔
۱۱۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا قید خانہ سے نکلنا۔
۱۲۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس لوٹنا۔
۱۳۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش، اور آسمان پر اٹھالینا۔
۱۴۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش، اور اگلے پچھلے گناہوں کی مغفرت کی بشارت ۔
۞ ان واقعات میں سے پایۂ ثبوت تک پہنچنے والا صرف حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون سے نجات کا واقعہ ہے، جوبروایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، کتب احادیث میں صحیح سند سے مروی ہے۔
۞  اس کے علاوہ چار واقعات اسانید ضعیفہ سے وارد ہوئے ہیں، ضعف سند کے ساتھ ان کا کچھ اعتبا ر کرسکتے ہیں، وہ ہیں:
۱۔ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہونا
۲۔  حضرت نوح علیہ السلام کی طوفان سے نجات۔
۳۔ فرعون کے جادوگروں کی توبہ قبول ہونا۔
۴۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش۔
بقیہ جتنے بھی واقعات ہیں جو عاشوراء کی طرف منسوب کئے گئے، اسی طرح عاشوراء کے فضائل، وہ سب غیرمستند، جھوٹے اور من گھڑت ہیں۔
۞ اب اسانید ومرویات کا حال معلوم کرتے ہیں:
۱۔ حضرت ابن عباس کی روایت: ان سے مختصر روایت جس میں حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی فرعون سے نجات کا واقعہ جو مروی ہے ، وہ صحیح ہے ۔ دیکھئے : صحیح البخاری رقم (2004) ( 3397)، مسلم (1130)۔
جب کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مطول روایت جس میں مختلف انبیاء علیہم السلام کے واقعات مذکور ہیں، وہ روایت من گھڑت ہے، اس کی سند میں  حبیب بن ابی حبیب جھوٹا راوی ہے۔
اس روایت کوبیہقی نے فضائل الاوقات (ص: 430,440) میں ذکر کرنے کے بعد کہا:
هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ بِمَرَّةٍ ،وَأَنَا أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ مِنْ عُهْدَتِهِ، وَفِي مَتْنِهِ مَا لَا يَسْتَقِيمُ وَهُوَ مَا رُوِيَ فِيهِ مِنْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرَضِينَ وَالْجِبَالِ كُلِّهَا فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ ،وَاللَّهُ تَعَالَى يَقُولُ: {اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ} وَمِنَ الْمُحَالِ أَنْ تَكُونَ السَّنَةُ كُلُّهَا فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَدَلَّ ذَلک عَلَى ضَعْفِ هَذَا الْخَبَرِ۔
ابن الجوزی الموضوعات (2/199) میں لکھتے ہیں: 
هَذَا حَدِيث مَوْضُوع بِلَا شكّ.
قَالَ أَحْمَد بْن حَنْبَل: كَانَ حَبِيب بْن أَبِي حَبِيب يكذب.وَقَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: كَانَ يَضَعُ الْحَدِيثَ.وَقَالَ أَبُو حَاتِم ابن حِبَّانَ: هَذَا حَدِيثٌ بَاطِلٌ لَا أَصْلَ لَهُ.قَالَ : وَكَانَ حَبِيبٌ مِنْ أَهْلِ مرو يضع الحَدِيث على الثقات، لَا يَحِلُّ كَتْبُ حَدِيثِهِ إِلا على سَبِيل الْقدح فِيهِ.
وانظر:اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة(2/92)،وتنزيه الشريعة(2/149) ،والفوائد المجموعة (ص: 96)۔
۲۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت: ان سے مختصر روایت مسند احمد (14/335) وغیرہ میں مروی ہے، جس کا خلاصہ ہےکہ :
اس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو غرق ہونے سے بچایا تھا، اور فرعون کو غرق فرمایا تھا، اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر جاکر رکی تھی۔ تو حضرت نوح اور موسیٰ علیہم السلام نے اللہ کا شکرادا کرنے کے لئے روزہ رکھا تھا۔
احمد کی سند میں عبد الصمد بن حبيب ضعیف ہے، اور اس کے والد مجہول الحال ہیں ۔لیکن اخبار کے باب میں اس قسم کا ضعف چل سکتا ہے، تو کشتی کا واقعہ قابل قبول ہوسکتا ہے، حضرت قتادہ کی مرسل روایت میں بھی یہ مذکور ہے۔
البتہ حضرت ابوہریرہ کی طویل روایت تو موضوعات میں شمار کی گئی، ابن الجوزی نے الموضوعات (2/199) میں ذکر کرکے کہا:
هَذَا حَدِيث لَا يشك عَاقل فِي وَضعه وَلَقَد أبدع من وَضعه وكشف القناع وَلم يستحي وأتى فِيهِ بالمستحيل وَهُوَ قَوْله: وَأول يَوْم خَلَقَ اللَّهُ يَوْم عَاشُورَاءَ، وَهَذَا تغفيل من وَاضعه لِأَنَّهُ إِنَّمَا يُسمى يَوْم عَاشُورَاءَ إِذَا سبقه تِسْعَة.
شوکانی الفوائد المجموعہ (ص: 96) میں لکھتے ہیں:
ساقه في "اللآلىء" (2/92) مُطَوَّلا وَفِيهِ مِنَ الْكَذِبِ عَلَى الله وعلى رسوله ، ما يَقشَعِر لَهُ الْجِلْدُ ، فَلَعَنَ اللَّهُ الْكَذَّابِينَ ، وهو موضوع بلا شك.
۳۔ حضرت سعید شامی کی روایت: یہ روایت کتابوں میں عبد الغفور بن عبد العزیز بن سعیدالواسطی، عن ابیہ عبد العزیز، عن ابیہ سعید ، کی سند سے منقول ہوتی ہے، جس سے عثمان بن مطر شیبانی روایت کرتا ہے، عبد الغفور پر وضع حدیث کا حکم لگایا گیا ہے، اور عثمان بن مطر متروک الروایت ہے، اس لئے اس روایت کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
عبد الغفور کی روایت طبرانی کی المعجم الكبير (6/69) تفسير طبری (15/355) اور ترتيب الأمالی الخميسیہ (2/127) میں ہے۔کتابوں میں اس راوی کا نام مقلوب آتا ہے: عبد العزیز بن عبد الغفور، جو غلط ہے۔
دیکھئے: عبد الغفور کے لئے: میزان الاعتدال (2/641) لسان المیزان (5/229) السلسلہ الضعیفہ (11/691)۔ عثمان بن مطر کے لئے: میزان (3/53) تہذیب الکمال (19/494)۔
۴۔ حضرت انس کی روایت: ابویعلی نے مسند (7/133) میں مختصرا روایت کی ہے، اس میں بنی اسرائیل کے لئے دریا کا پھٹنا مذکور ہے، سند میں ضعف ہے لیکن شواہد صحیحہ کی وجہ سے تحسین کے قابل ہے۔
۵۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت فضیلت صوم عاشوراء کے سلسلہ میں ترمذی (741) میں وارد ہے کہ: محرم کے روزے رکھا کرو کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی، اور اس دن دوسری قوم کی بھی توبہ قبول کرے گا۔
سند عبدالرحمن بن اسحاق واسطی کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اس میں ایک قوم کی توبہ قبول ہونے کا مبہم تذکرہ ہے ، بعض شراح اس سے قوم یونس کی توبہ مراد لیتے ہیں [التنوير شرح الجامع الصغير (4/ 246)] اور بعض فرعون کے جادوگروں کی توبہ، کیونکہ تفسیر کی بعض کتابوں میں (یوم الزینہ) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے نقل کیا گیا کہ وہ عاشوراء کا دن تھا [تفسير ابن كثير (5/ 289)]۔
۶۔ حضرت قتادہ کی مرسل روایت میں صرف حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا جودی پہاڑ پر رکنا مذکور ہے [تفسير الطبري (15/ 336)] اس کی تقویت حضرت ابوہریرہ کی روایت سے ممکن ہے [مسند احمد (14/335)]۔
۷۔ حضرت وہب بن منبہ کی روایت طویل ہے، اور مختلف وقائع اور فضائل عاشوراء پر مشتمل ہے [ترتيب الأمالی الخميسيہ للشجری (1/245)]لیکن سند میں عبد المنعم بن ادریس کذاب ہے [میزان الاعتدال 2/668]۔
۸۔ حضرت زید بن الحواری العمی کی مرسل روایت: مستدرک حاکم میں (2/638)) وارد ہے، اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی عاشوراء کے دن پیدائش کی بات ہے۔ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں کہا: سند واہ۔
۞ علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ [الآثار المرفوعہ في الأخبار الموضوعہ (ص: 95)] میں مذکورہ بالا واقعات کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قلت: الَّذِي ثَبت بالأحاديث الصَّحِيحَة المروية فِي الصِّحَاح السِّتَّة وَغَيرهَا أَن الله تَعَالَى نجى مُوسَى على نَبينَا وَعَلِيهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام من يَد فِرْعَوْن وَجُنُوده وغرَّق فِرْعَوْن وَمن مَعَه يَوْمَ عَاشُورَاء .وَمِن ثَمَّ كَانَت الْيَهُودُ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاء ويتَّخذونه عيدا . وَقد صَامَ النَّبِي حِين دَخل الْمَدِينَة وَرَأى الْيَهُود يصومونه وَأمر أَصْحَابه بصيامه وَقَالَ : نَحن أَحَق بمُوسَى مِنْكُم، وَنهى عَن اتِّخَاذه عيدا وَأمر بِصَوْم يَوْم قبله أَو بعده حذرا من مُوَافقَة الْيَهُود والتشبه بهم فِي إِفْرَاد صَوْم عَاشُورَاء.
وَثَبت بروايات أخر فِي "لطائف المعارف" لِابْنِ رَجَب وَغَيره :أَن الله قبل تَوْبَة آدم على نَبينَا وَعَلِيهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام . وَثَبت بِرِوَايَة أُخْرَى أَن نوحًا على نَبينَا وَعَلِيهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام اسْتَوَت سفينتُه على الجُودي يَوْم عَاشُورَاء كَمَا فِي "الدّرّ المنثور" وَغَيره معزوّا إِلَى أَحْمد وَأبي الشَّيْخ وَابْن مرْدَوَيْه وَابْن جرير والأصبهاني وَغَيرهم .وَفِي رِوَايَة للأصبهاني فِي كتاب "التَّرْغِيب والترهيب" أَن يَوْم ولادَة عِيسَى يَوْم عَاشُورَاء كَمَا فِي "الدّرّ المنثو" أَيْضا.
وَأما هَذِه الْأَحَادِيث الطوَال الَّتِي ذُكر فِيهَا كثير من الوقائع الْعَظِيمَة الْمَاضِيَة والمستقبَلة أَنَّهَا فِي يَوْم عَاشُورَاء فَلَا أصل لَهَا، وَإِن ذكرهَا كثير من أَرْبَاب السلوك والتاريخ فِي تواليفهم، وَمِنْهُم الْفَقِيه أَبُو اللَّيْث ذكر فِي" تَنْبِيه الغافلين" حَدِيثا طَويلا فِي ذَلِكَ، وَكَذَا ذكر فِي "بستانه" فَلَا تغتر بِذكر هَؤُلَاءِ، فَإِن الْعبْرَة فِي هَذَا الْبَاب لنقد الرِّجَال لَا لمُجَرّد ذكر الرِّجَال.
رتبه ملخصا العبد المذنب: محمد طلحه بلال أحمد منيار عفي عنه

No comments:

Post a Comment