Sunday, 15 September 2019

امرأة، زوجة اور صاحبة میں کیا فرق ہے؟ کی وضاحت مطلوب ہے

امرأة، زوجة اور صاحبة میں کیا فرق ہے؟ کی وضاحت مطلوب ہے
سوشل میڈیا پر 'امرأة، زوجة اور صاحبة میں کیا فرق ہے؟' عنوان سے ایک پوسٹ نظر سے گذری ہے۔ "قرآن مجيد اللہ تعالى کی ايسی كتاب ہے جس کے ہر لفظ میں كوئی نہ كوئی حكمت پنہاں ہوتی ہے اس ایک مثال: اردو ميں ہم جسے بيوی wife بولتے ہيں قرآن مجيد ميں اس کے لئے تین لفظ استعمال ہوئے ہیں:
1- امرأة
2- زوجة
3- صاحبة
امرأة: سے امرأة سے مراد ايسی بيوی جس سے جسمانی تعلق تو ہو مگر ذہنی تعلق نہ ہو
زوجہ: ایسی بيوی جس سے ذہنی اور جسمانی دونوں تعلقات ہوں يعنی ذہنی اور جسمانی دونوں طرح ہم آہنگی ہو
صاحبة: ایسی بيوی جس سے نہ جسمانی تعلق ہو نہ ذہنی تعلق ہو
اب ذرا قرآن مجيد كی آيات پر غور كيجئے:
1- امرأة
حضرت نوح اور حضرت لوط عليهما السلام کی بيوياں مسلمان نہيں ہوئی تھيں تو قرآن مجيد ميں ان كو "امرأة نوح" اور "امرأة لوط"  کہہ كر پكارا ہے، اسی طرح فرعون کی بيوی مسلمان ہوگئی تھيں تو قرآن نے اس كو بھی "وامرأة فرعون" کہہ كر پكارا ہے (ملاحظہ فرمائيں سورة التحريم كے آخرى آيات ميں)
يہاں پر جسمانی تعلق تو تھا اس لئے کہ بيوياں تھيں ليكن ذہنی ہم آہنگی نہيں تھی اس لئے کہ مذہب مختلف تھا
2- زوجة:
زوجة جہاں جسمانی طور اور ذہنی طور پوری طرح ہو وہاں بولا گيا جيسے
(ﻭﻗﻠﻨﺎ ﻳﺎ آﺩﻡ ﺍﺳﻜﻦ ﺃﻧﺖ ﻭﺯﻭﺟﻚ ﺍﻟﺠﻨﺔ) سورة بقرة
اور نبی صلى اللہ عليہ وسلم كے بارے فرمايا (يأيها النبي قل لأزواجك ....) الأحزاب
شايد اللہ تعالى بتانا چاہتا ہے کہ ان نبيوں كا اپني بيويوں كے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا
ایک عجيب بات ہے کہ حضرت زكريا عليہ السلام كے بارے کہ جب اولاد نہيں تھی تو بولا (و امراتي عاقرا ....) اور جب أولاد مل گئی تو بولا (ووهبنا له يحي و أصلحنا له زوجه ....) 
اس نکتہ كو اہل عقل سمجھ سكتے هيں اسی طرح ابولہب كو رسوا كيا یہ بول کہ امرأة حمالة الحطب) کہ اس بيوی كے ساتھ بھی کوئی اچھا تعلق نہيں تھا
3- صاحبة 
صاحبة جہاں پركوئی جسمانی يا ذہنی کوئی تعلق نہ ہو
اللہ تعالى نے اپنی ذات كو جب بيوی سے پاک كيا تو لفظ "صاحبة" بولا  شايد اس لئے کہ يہاں كوئی جسمانی يا ذہنی كوئی تعلق نہيں ہے (ﺃﻧﻰ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﻪ ﻭﻟﺪ ﻭﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﻟﻪ ﺻﺎﺣﺒﺔ) 
اسی طرح ميدان حشر ميں بيوی سے كوئی جسمانی يا ذہنی کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہوگا تو فرمايا (ﻳﻮﻡ ﻳﻔﺮ ﺍﻟﻤﺮﺀ ﻣﻦ ﺃﺧﻴﻪ ﻭﺃﻣﻪ وﺃﺑﻴﻪ ﻭﺻﺎﺣﺒﺘﻪ ﻭﺑﻨﻴﻪ) کيونکہ وہاں صرف اپنی فكر لگی ہوگی اس لئے "صاحبته" بولا
اردو ميں: امراتی، زوجتی، صاحبتی سب كا ترجمہ "بيوی" ہی کرنا پڑے گا ليکن ميرے رب كے كلام پر قربان جائيں جس كے ہر لفظ كے استمال ميں كوئی نہ کوئی حكمت پنہاں ہے
اور رب تعالى نے جب دعا سکھلائی تو ان الفاظ ميں فرمايا ‎(رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاما) "وأزواجنا" زوجہ سے استعمال فرمايا اس لئے کہ انکھوں کی ٹھنڈک تبھی ہوسکتی ہے جب جسمانی كے ساتھ ذہنی ہم آہنگی بھی ہو." 
براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں

ایس اے ساگر
الجواب وباللہ التوفیق:
فرعون کی نیک اورصالحہ بیوی آسیہ بنت مزاحم رحمہااللہ کے بارہ میں ہمارے پاس زيادہ معلومات تو نہیں، اس کے بارہ میں جتنی بھی فضيلت آئی ہے وہ اسرائيلی روایا ت ہیں جن کا نص صحیح سے ثبوت نہیں ملتا۔
لیکن ظاہر تو یہ ہی ہوتا _ واللہ اعلم – کہ وہ فرعون سے اپنا ایمان مخفی رکھتی تھی اور بعد میں اس کے متعلق علم ہوگیا، اس کے بارہ میں بعض نصوص اور ان کی شروحات واتفسیر پیش خدمت ہے:
1 - فرمان باری تعالی ہے:
 اللہ تعالی نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی ہے کہ جب اس نے کہا اے میرے رب میرے لیے اپنے پاس جنت میں گھر بنا، اورفرعون اور اس کے عمل سے نجات نصیب فرما اورمجھے ظالموں کی قوم سے بھی نجات عطا فرما التحریم (11)
2 - ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مردوں میں سے توبہت سے درجہ کمال تک پہنچے لیکن عورتوں میں سے سواۓ فرعون کی بیوی آسیہ اورمریم بنت عمران کے کوئی اورعورت درجہ کمال تک نہیں پہنچی، اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی باقی سب عورتوں پرفضيلت اسی طرح ہے کہ جس طرح ثرید باقی سب کھانوں پرافضل ہے۔ صحیح بخاری حدیث نمبر (3230) صحیح مسلم حدیث نمبر (2431) ۔
3 – ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زيمن پر چار لکیریں لگائيں اورفرمانے لگے:
کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوزيادہ علم ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جنتی عورتوں میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم، اورمریم بنت عمران رضي اللہ تعالی عنہن اجمعین ہیں۔ مسند احمد حديث نمبر (2663) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نےصحیح الجام (1135) میں اسے صحیح قراردیا ہے۔
4 - انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
آپ کو (کمال کے اعتبارسے) دنیا کی سب عورتوں سے مریم بنت عمران، اورخدیجہ بنت خویلد، اورفاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اورفرعون کی بیوی آسیہ (رضي اللہ تعالی عنہن) کافی ہیں۔ سنن ترمذي حدیث نمبر (3878) امام ترمذي رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح قراردیا ہے۔
5 - حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہ کہنا ہے:
فرعون کی بیوی آسیہ رضي اللہ تعالی عنہا کے فضائل میں سے ہے کہ انہون نے دنیا کی ان نعمتوں کے بدلے میں جس میں وہ تھی دنیا کے عذاب وتکالیف اوربادشاہی کے بدلے میں قتل ہونا اختیارکرلیا، اوران کی موسی علیہ وسلم کے متعلق فراست سچی تھی جب انہوں نے موسی علیہ السلام کے بارہ میں (ان کودریا سے نکالتے ہوۓ) یہ کہا یہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ فتح الباری (6 / 448) ۔
واللہ اعلم .
--------------------------------------------------------------
اس مضمون میں صاب تحریر نے یہ واضح کیا ہے ہے کہ امرأة سے مراد ایسی بیوی جس سے جسمانی تعلق ہو مگر ذھنی نہ ہو اور زوجہ سے مراد ایسی بیوی جس سے جسمانی اور ذہنی دونوں تعلق ہو جبکہ صاحبۃ ایسی بیوی کو کہیں گے جس سے نہ جسمانی تعلق ہو اور نہ ہی ذہنی. 
لیکن قرآن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اوپر بیان کردہ تشریح صحیح نہیں ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوۓ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وامرأته قائمۃ فبشرناھا باسحاق ومن وراء اسحاق یعقوب) اس آیت میں حضرت سارہ کے متعلق اللہ نے امراءۃ کا لفظ استعمال کیا جبکہ سب کو معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعلق حضرت سارہ سے جسمانی اور ذہنی دونوں طور پر تھا۔
اسی طرح زوجہ کے متعلق قرآن مجید کی یہ آیت بھی صاحب تحریر کی تشریح کے خلاف ہے آیت یہ ہے (واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ امسک علیک زوجک) کیونکہ یہ آیت حضرت زید بن حارثہ کے متعلق نازل ہوئی جن کا نکاح زینب بنت جحش کے ساتھ کروا دیا تھا جن کا آپس میں ذہنی اعتبار سے بہت شدید اختلاف کی وجہ سے ہی طلاق ہوا تھا اگر زوجہ کا مطلب ذہنی اور جسمانی دونوں اعتبار سے تعلق مراد ہوتا تو اس آیت میں زوجہ کا لفظ استعمال نہ ہوتا۔
اسی طرح صاحبۃ کی یہ تشریح کہ جس سے جسمانی اور ذہنی دونوں تعلق نہ ہو یہ لغوی اور معنوی دونوں لحاظ سے غلط ہے کیونکہ لغوی اعتبار سے صاحبۃ کا ساتھی، ایک ساتھ رہنے اور زندگی گزارنے والے (لغت میں صَاحَبَ کا معنی عَاشَرَ دیا ہوا ہے) اور معنوی اعتبار سے ساتھ اور ایک ساتھ زندگی گزارنے والا وہی ہو سکتا ہے جو ذہنی اور جسمانی دونوں اعتبار سے ایک ساتھ رہ سکتا ہو۔
اگر غور سے ان تینوں الفاظ پر نظر ڈالی جائے تو اقرب معنی مندرجہ ذیل ہوسکتا ہے
امرأة سے مراد ایسی بیویاں جن کو شوہر کے ساتھ رہنے کا لمبا تجربہ ہو اور ہر طرح کے حالات سے واقف ہو اس معنی کی تقویت لفظ مرء سے ملتی ہے جس کے معنی لغت میں ذَاقَ دیا گیا ہے اور لفظ امرأة اسی سے مشتق ہے۔
زوجہ سی ایسی بیویاں مراد ہیں جنہوں نے ابھی زوجیت میں مختصر مدت ہی گزاری ہے اور ان کی شوہر کے ساتھ گزارے والی زندگی ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے
صاحبة ایسے بیویاں مراد ہیں جو ابھی نکاح اور شادی کے مرحلے سے نہیں گزری ہیں لیکن انکی نسبت کسی سے ہوچکی ہے اور کسی کو اپنا شریک حیات مان چکی ہیں اور دیکھ بھال اور سلام کلام کا مرحلہ گزر چکا ہے۔
پورے قرآن مجید میں اللہ نے صاحبۃ کا لفظ صرف اپنے لیے استعمال کیا ہے گویا اللہ نے صاحبۃ کی نفی کرکے امرأة اور زوجہ دونوں کی نفی کردی اور بتادیا کہ اللہ کی ذات تو ایسی ہے کہ اس سے کسی عورت کی نسبت ہی نہیں ہوسکتی تو اس کی بیوی کہاں سے ہوسکتی ہے-
واللہ اعلم بالصواب
جنید احمد عبدالرحیم محمدی
http://saagartimes.blogspot.com/2019/09/blog-post_39.html
-----------------------------------------------------------
​زوجة وصاحبة وامرأة.. إعجازٌ لغوي في القرآن
من أوجه الإعجاز المتعددة في القرآن الكريم الإعجاز اللغوي، ومن أشكال هذا الإعجاز الاختلاف في الألفاظ ومعانيها، والأمثلة على ذلك الحديث عن الزوجة، فهي في القرآن إما "امرأة" أو "صاحبة" أو "زوجة"، واختلاف المعنى بين كل منها يعود إلى طبيعة العلاقة بين الطرفين.
حسب العلاقة
قال أستاذ الفقه وأصوله المشارك في قسم الدراسات الإسلامية بجامعة الأقصى الدكتور محمد العمور: "إن من سنن الله في الكون التزاوج بين الرجل والمرأة، وقد يكون زواجًا مفعمًا بالانسجام والمحبة، أو يكون اقترانًا جبريًّا مثل حال فرعون وامرأته".
وأضاف لـ"فلسطين": "إن لفظ امرأة، وزوجة، وصاحبة كلها تدل على العلاقة بين الرجل والمرأة، ولكن كيفية هذه العلاقة هي التي تحدد المسمى".
وتابع: "في حال انعدم التوافق العقدي والانسجام الفكري بين الشريكين كأن يكون أحدهما مؤمنًا والآخر كافرًا يطلق على الأنثى هنا لفظ (امرأة)، ففي القرآن ‏(امرأة نوح)، و(امرأة لوط)، ولم يقُل عنهما الله (عزّ وجل): (زوجة نوح) و(زوجة لوط)، بسبب الخلاف الإيماني بين كل منهما وزوجها، فهما غير مؤمنتين، أما زوجاهما فنبيان مؤمنان، وكذلك الحال مع ‏(امرأة فرعون‏)، لأنها آمنت بالله، أما هو فلم يؤمن".
وواصل: "إذا كانت هناك علاقة جسدية مع توافق وانسجام فكري ومحبة تسمى الأنثى هنا (زوجة)، إذ قال (تعالى) في شأن آدم وزوجه: (ﻭقلنا يا آدم اسكن أنت وزوجك الجنة)، وذكر الله (تعالى) في موضع قرآني آخر لفظ الزوجة في شأن النبي محمد (صلى الله عليه وسلم): (يا أيها النبي قل لأزاوجك..)، وذلك ليدلل (عز وجل) على التوافق الفكري والانسجام التام بين النبي (عليه الصلاة والسلام) وزوجاته".
وفي موضع قرآني استخدم الله (عز وجل) لفظ "امرأة" على لسان سيدنا زكريا، مع أن هناك توافقًا فكريًّا وانسجامًا بينه وبين زوجته، إذ قال (تعالى): "وكانت امرأتي عاقرًا"، "والسبب في ذلك أنه من المحتمل أن يكون هناك خلل ما في علاقة سيدنا زكريا مع زوجته بسبب تعثر الإنجاب، فيشكو همه إلى الله (تعالى)، واصفًا من معه بأنها امرأته لا زوجته، ولكن بعد أن رزقه الله ولدًا _وهو سيدنا يحيى_ اختلف التعبير القرآني، فقال الله (تعالى): "فاستجبنا له ووهبنا له يحيى وأصلحنا له زوجه"، بحسب ما ذكر العمور.
أما عن لفظ "صاحبة" فقال: "يُستخدم هذا اللفظ عند انقطاع العلاقة الفكرية والجسدية بين الزوجين، لذلك معظم مشاهد يوم القيامة استخدم فيها القرآن لفظ (صاحبة)، كما في قوله (تعالى): (يوم يفر المرء من أخيه وأمه وأبيه وصاحبته وبنيه)، وذلك لأن العلاقة الجسدية والفكرية انقطعت بين الطرفين بسبب أهوال يوم القيامة، وتأكيدًا لذلك قال (تعالى): (ﺃنى يكون له ولد ولم تكن له صاحبة)".
وأضاف العمور: "قد يتبادر إلى الذهن أن الألفاظ المختلفة تحمل معنى واحدًا، لكن الأمر ليس كذلك، وهذا من أمارات أن معجزات وعجائب هذا الكتاب لا تنتهي".
غزة - مريم الشوبكي
http://saagartimes.blogspot.com/2019/09/blog-post_39.html


No comments:

Post a Comment