غزوہ ہند کی مکمل تفصیلات بتائیں؟
براہ کرم، حدیث غزوہ ہند کی مکمل تفصیلات بتائیں۔ یہ غزوہ کہاں سے شروع ہوگا؟ کیا پاکستان اس غزوہ کا ایک حصہ ہوگا؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اس سلسلے میں جو احادیث آئی ہیں ان میں صرف غزوة الہند کا ذکر ہے کسی زمانہ کی تخصیص نہیں ہے، کہ کس زمانہ میں پیش آئے گا، اسی طرح اس قسم کی بھی کوئی صراحت نہیں ہے کہ غزوہ کہاں سے شروع ہوگا۔
ان روایات میں وارد غزوہ کا مصداق کونسا غزوہ ہے اس بارے میں تین آراء پائی جاتی ہیں:
(۱) اسلام کے ابتدائی اور وسطی دور میں جو غزوات پائے گئے جن کی بنا پر ہندوستان ایک عرصہ تک دارالاسلام بنا رہا اور وہاں اسلامی حکومت قائم رہی، یہ غزوات الہند کا مصداق ہیں جن میں بالخصوص محمد بن قاسم اور سلطان محمود غزنوی کی معرکہ آرائی قابل ذکر ہے۔
(۲) بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ حدیث میں جو ہند کا ذکر آیا ہے اس سے خاص ہندوستان مراد نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی طرف کے علاقے مراد ہیں جس میں خاص طور پر بصرہ اور اس کے اطراف کا علاقہ ہے اس کی تائید بعض آثار صحابہ سے ہوتی ہے جو یہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگ ہند سے بصرہ مراد لیتے ہیں اس تاویل کے اعتبار سے غزوہ ہند کے سلسلہ کی روایات کا تعلق ابتدائی زمانہ میں جو فارس سے جنگیں ہوئیں ان سے ہے۔
(۳) تیسری رائے یہ ہے کہ ابھی ان روایات کا مصداق پیش نہیں آیا بلکہ حضرت امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اس معرکہ آرائی کا تحقق ہوگا اس رائے کے قائلین ان روایتوں کو پیش کرتے ہیں جو علامہ بن نعیم بن حماد نے اپنی کتاب ”الفتن“ میں پیش کی ہیں، جن میں یہ ذکر ہے کہ ”ایک جماعت ہندوستان میں جہاد کرے گی اور اس کو فتح نصیب ہوگی اور جب وہ مال غنیمت لے کر واپس لوٹیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ملک شام میں نزول ہوچکا ہوگا“۔ (الفتن، ص ۴۰۸)
---------------------------------------------------------------------------------
سوال: غزوہ ہند کی حقیقت کیا ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
غزوہ ہند کے بارے میں مروی احادیث میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
’’عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: وَعَدَنَا رَسُولُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةِ الْهِنْدِ، فَإِنْ اسْتُشْهِدْتُ کُنْتُ مِنْ خَيْرِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ‘‘.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا تھا، سو اگر میں (ابوہریرہ) شہید ہوگیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا۔ اگر واپس آگیا تو میں آزاد ابوہریرہ ہوں گا‘‘۔
أحمد بن حنبل، المسند، 2: 228، رقم: 7128، مؤسسة قرطبة، مصر. حاکم، المستدرک علی الصحیحین، 3: 588، رقم: 6177، دار الکتب العلمیة، بیروت
’’عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ: وَعَدْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَزْوَةَ الْهِنْدِ، فَاِنْ اَدْرَکْتُهَا أُنْفِق فِيْهَا نَفْسِي وَمَالِي فَاِنْ اُقْتَل کُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَآءِ وَاِنْ أَرْجِع فَأَنَا اَبُوْهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ.‘‘
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں جہاد کریں گے، اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو میں اپنی جان اور مال اللہ تعالی کی راہ میں قربان کروں گا۔ اگر میں شہید ہوجاؤں تو میں افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا اور اگر میں زندہ رہا تو میں وہ ابوہریرہ ہوں گا جو عذاب جہنم سے آزاد کردیا گیا ہے‘‘۔
سنن النسائي، 3: 28، رقم: 4382، دار الکتب العلمیة بیروت
’’عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اﷲُ مِنْ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَکُونُ مَعَ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام‘‘.
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جوکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام تھے، سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا: ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا‘‘۔
أحمد بن حنبل، المسند، 5: 278، رقم: 22449 سنن النسائي، 3: 28، رقم: 4384 البیهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18381 الطبراني، المعجم الأوسط، 7: 2423، رقم: 6741، دار الحرمين القاهرة
اس غزوے کے حقیقی مصداق کے بارے میں کوئی صریح نص نہیں ہے کہ یہ کب ہوگا، اور اسے یقینی طور پر متعین بھی نہیں کیا جاسکتا، تاہم حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت سے اشارہ ملتاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نزول فرمانے کے زمانے کے قریب ’’ہند‘‘ میں غزوہ ہوگا، اس میں شریک مسلمانوں کی جماعت کی خاص فضیلت بیان کی گئی ہے۔ لیکن اسے قطعی طور پر ’’غزوہ ہند‘‘ کا واحد مصداق نہیں کہا جاسکتا۔ در اصل ان احادیث میں اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے حتی الوسع اپنی کوشش صرف کرنے کی ترغیب ہے۔ اور اس کا وقوع کب ہوگا یہ بات دین کے مقاصد میں سے نہیں۔ نہ اس پر دین کا کوئی حکم موقوف ہے۔
No comments:
Post a Comment