Thursday, 19 April 2018

امیر اور امارت؛ تعریف، اہلیت وقسمیں

امیر اور امارت؛ تعریف ،اہلیت وقسمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سلسلہ نمبر 1767 )

سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک امامِ محتہد کے خلاف دوسرے امامِ محتہد کی رائے حجت نہیں ہوتی۔ ایک بادشاہ کے خلاف دوسرے بادشاہ کا حکم حجت نہیں ہوتا۔ ایک امیرِ جماعت کے خلاف دوسرے امیرِ جماعت (یا مہتممِ مدرسہ) کا فتوی بھی حجت نہیں ہوتا۔

شیخِ تاریخ ومغازی اور حسن درجے کے معتبر راوی محمد بن اسحاق کے خلاف امامِ فقہ وحدیث اور سنہری سندِ روایت کے راوی مالک بن انس کا فتوی (محمد بن اسحاق دجالوں میں سے ایک دجال ہے) معتبر نہیں۔

شاگرد محمد بن اسماعیل بخاری کے خلاف شیخ واستاذ محمد بن یحی ذہلی کا فتوی (بخاری سے حدیثیں نہ لی جائیں) معتبر نہیں۔

امام جرح وتعدیل محمد بن اسماعیل  بخاری کا فیصلہ کہ نعمان بن ثابت ضعیف ہے، ہم نہیں مانتے۔ ہم نعمان بن ثابت ابو حنیفہ کو اپنا امام مانتے ہیں۔

گمراہ یا خائف وساکت اور عاملِ رخصت وقت کے جمہور سے کٹ کر الگ راہ راہِ عزیمت اختیار کرنے والے احمد بن حنبل کے خلاف مفتیانِ خلافتِ عباسیہ کا فتوی کہ احمد گمراہ ہے، قابلِ سزا ہے، اس کو کوڑے مارے جائیں، وغیرہ، ہم نہیں مانتے۔

غلطی سے، بے اختیاری میں حسین بن منصور حلّاج کی زبان پر «أنا الحق» (میں خدا ہوں) جاری ہوا۔ مفتیانِ وقت نے کفر وارتدار اور قتل کا فتوی دیا۔ حضرت اشرف علی تھانوی نے نہیں مانا۔ دفاعِ منصور میں کتاب لکھنے کا ظفر عثمانی کو حکم دیا۔ (رحمہم اللہ وارزقنا اتباعہم)۔

مفتی ابو القاسم نعمانی نے مولانا سعد کاندھلوی کے خلاف چار صفحوں میں کچھ باتیں لکھیں۔ اپنے ماتجتوں کا دستخط لیا۔ حضرت مولانا سلمان مظاہری نے ٢٨ صفحات میں بیسیوں کتبِ تفسیر وحدیث اور صحابہ وتابغی مفسرین کے اقوال کے ذریعے مولانا سعد صاحب کے خلاف شبہات کا تشفی بخش جواب دیا اور زلَات (بھول چوک) سے رجوع کا اعلان کیا۔ مفتی ابو القاسم نے مولانا سعد صاحب کا رجوع نامہ قبول کرنے سے، نظام الدین کے مہمان سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت سعد کاندھلوی کے سابقہ رجوع نامے میں بے وجہ اتہامات کے خلاف «دلیل» کا لفظ بعض لوگوں کو بہت کڑوا لگا۔

ہم نے مولانا ابو القاسم نعمانی کی جرحِ مُبہم کے مقابلے مولانا سلمان مظاہری اور ان کے تاریخی مدرسہ مظاہر العلوم کے اساتذہ کی تعدیلِ مفسّر ومفصّل کو قبول کیا۔ استاذِ حدیث، شیخِ طریقت اور عالمی امیرِ دعوت حضرت مولانا سعد کاندھلوی کو ہم نے اپنا امیر سمجھا۔ باغیوں سے اعراض کیا۔ ارشادِ خدا اور ارشادِ رسول پر عمل کیا یا حتی الامکان خود کو ان ارشادات سے قریب لانے کی کوشش کی۔

ارشادِ خدا:
فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي۔ (الحجرات: ٩)
اگر ایک گروہ دوسرے کے خلاف بغاوت (زیادتی) کرے، تو باغی گروہ سے لڑو۔ (قرآن)

ارشادِ رسول:
وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ، وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ إِنِ اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ آخَرُ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا عُنُقَ الْآخَرِ۔ (مسلم ١٨٤٤)
جس نے امام سے بیغت کی، اپنے ہاتھ کی قوت اور دل کی عقیدت کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا، تو حتی الامکان اس امام کی اطاعت کرے۔ اب اگر کوئی دوسری جماعت اس سے امامت چھیننے آجائے، تو دوسرے کی گردن اُڑا دو۔ (حدیث)

فائدہ: ادارے کی امارت کا معاملہ بعینہ امامت اور خلافتِ مسلمین جیسا نہیں ہے مگر خلافت کے مسئلے سے اس میں رہنمائی ضرور حاصل کی جائے گی۔ باغیوں سے ترکِ تعاوُن یقینا ضروری ہوگا۔
عبد العلیم اسعدی کاندہلوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق

لغوی اعتبار سے ہر ذمہ دار شخص کو "امیر " کہا جاتا ہے ۔
جس کی جمع "امراء " ہے

(انظر :المصباح المنير 1/ 22، وانظر مختار الصحاح 1/ 10، وانظر: أنيس الفقهاء للقونوي 1/ 263، وانظر: القاموس المحيط للفيروزآبادي ص: 439، وانظر: معجم لغة الفقهاء 1/ 90.

التعريفات للجرجاني 1/ 90.

لسان العرب 9/ 82. النهاية في غريب الأثر 5/ 510.)

امارت کی دو قسمیں ہیں :
1۔۔امارت عامہ
جسے خلافت بھی کہتے ہیں ۔اس ذیل میں خلفاء رسول ،اس کے بعد امراء وسلاطین ،قضاة اور صوبائی اور ریاستی گورنر شامل ہیں ۔
امارت عامہ  علامہ ماوردی کی وضاحت کے بقول یہ ہے کہ دینی تحفظ وبقاء کی خاطر مہنج نبوت پہ حکومت وخلافت قائم کی جائے ۔ایسا کرنے والے کو امیر کہتے ہیں ۔(الأحكام السلطانية الماوردي ص : 5 )

جبکہ امام  جوینی کے بقول :
دین کی بنیادی باتوں کا تحفظ، رعایا کے بنیادی حقوق کا تحفظ،  تلوار  وقلم ،براہین وحجج  سے دین اسلام کا احقاق وابطال باطل ، استحصال شدہ اور مظلوم طبقہ کے غصب کردہ حقوق کی عیش کوشوں اور حکمرانوں سے بازیافت اور مستحقین تک ان کی مساویانہ ومنصفانہ  تقسیم کو "امارت عامہ " اور ان صفات سے متصف شخص کو "امیر " کہتے ہیں ۔ دیکھئے غیاث الامم للجوینی ص : 55 )

امیر خواہ ریاست وسلطنت کا ہو یا نظم وضبط کی بحالی ودرستی کی خاطر  ادارے وجماعات وتحریکات کا بنایا گیا امیر ، اس میں بنیادی اہلیت یہ ہے کہ نہ وہ امارت کا خود امیدوار ہو اور نہ اس سے کوئی ایسی بات ظہور میں آئی ہوجو یہ پتہ دیتی ہو کہ وہ امارت کاخود خواہشمند یا اس کے لیے کوشاں ہے۔
لوگ  اس کے تقویٰ، علم کتاب و سنت، امانت و دیانت، دینی بصیرت،  فہم، اصابتِ رائے، تدبر، قوتِ فیصلہ، راہِ خدا میں ثبات  و استقامت اور نظمِ جماعت کوچلانے کی اہلیت پراعتماد رکھتے ہوں۔

جس شخص کے اندر حب جاہ ومنصب  وعہدہ طلبی ہو وہ امارت خاصہ یا عامہ کا اہل نہیں ۔
صحیحین کی روایت میں بالتصریح اس کی حرمت وممانعت موجود ہے ۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ بْنِ فَارِسٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسْأَلْ الْإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا فَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ وَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ تَابَعَهُ أَشْهَلُ بْنُ حَاتِمٍ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ وَتَابَعَهُ يُونُسُ وَسِمَاكُ بْنُ عَطِيَّةَ وَسِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ وَحُمَيْدٌ وَقَتَادَةُ وَمَنْصُورٌ وَهِشَامٌ وَالرَّبِيعُ
صحيح البخاري. رقم الحديث 6343.

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّكُمْ سَتَحْرِصُونَ عَلَى الْإِمَارَةِ وَسَتَكُونُ نَدَامَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ [ص: 2614] فَنِعْمَ الْمُرْضِعَةُ وَبِئْسَتْ الْفَاطِمَةُ وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُمْرَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَوْلَهُ
صحيح البخاري رقم الحديث 6729.
بَاب مَا يُكْرَهُ مِنْ الْحِرْصِ عَلَى الْإِمَارَةِ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ قَوْمِي فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَيْنِ أَمِّرْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَقَالَ الْآخَرُ مِثْلَهُ فَقَالَ إِنَّا لَا نُوَلِّي هَذَا مَنْ سَأَلَهُ وَلَا مَنْ حَرَصَ عَلَيْهِ
صحيح البخاري : 6730

مسند احمد میں ہے کہ امارت کے خواہش مند لوگوں کی امارت طلبی ثریا سے گرکر مر جانے کے برابر  ہے  :
10359 حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَرِيكٍ أَنَّ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ أَرْسَلَ مَعَهُ إِلَى مَرْوَانَ بِكِسْوَةٍ فَقَالَ مَرْوَانُ انْظُرُوا مَنْ تَرَوْنَ بِالْبَابِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَأَذِنَ لَهُ فَقَالَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ حَدِّثْنَا بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ لَيَتَمَنَّيَنَّ أَقْوَامٌ وُلُّوا هَذَا الْأَمْرَ أَنَّهُمْ خَرُّوا مِنْ الثُّرَيَّا وَأَنَّهُمْ لَمْ يَلُوا شَيْئًا
مسند أحمد

بخاری کی اوپر ذکر کردہ حدیث نمبر 6729  میں واضح لفظوں میں مذکور ہے کہ ایسے عہدہ طلبوں کی دنیا تو سنور جاتی ہے "نعم المرضعة " لیکن موت کے بعد کے احوال آخرت برباد وقابل ندامت وافسوس ہوتے ہیں "بئست الفاطمة "

مولانا محمد سعد صاحب کی امارت ، امارت خاصہ سے متعلق ہے۔۔۔۔اس امارت کی تولیت و تفویض کے معیار واوصاف بھی وہی ہیں جو امارت عامہ کے ہیں ۔۔۔مولانا سعد صاحب کے بارے میں قابل وثوق و معتبر ذرائع سے یہ خبریں موصول ہوئی ہیں کہ وہ خود کو بزعم خویش  پوری دنیا کے امیر گردانتے ہیں۔انہیں عالمی امیر تسلیم نہ کرنے والے کو جہنم میں جانے کی وعید سناتے ہیں ۔ظاہر ہے اس سے بڑا حب جاہ اور کیا ہوسکتا ہے ؟
امیر کوئی موروثی چیز نہیں ہے ۔ بلکہ مطلوبہ صفات واہلیت کے پیش نظر ارباب حل وعقد وجماعت مسلمین کسی کو یہ ذمہ داری سونپتے ہیں تب وہ ادارتی یا جماعتی امیر کہلاتا ہے۔۔۔عالمی امیر بننے کا دعوی تو امارت عامہ کا دعوی ہے جو بڑی جسارت کی بات ہے اور بجائے خود بدیہی البطلان ہے۔
ان کا معاملہ بالکل امارت عامہ سے بالکل منفرد وجداگانہ ہے
امام وقت کی بیعت اور ان کی مخالفت پہ ان کے معاملے کو منطبق کرنا اور زبردستی  من مانی نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہے ۔

محمد بن اسحاق صاحب المغازی مشہور مدلس ہیں ، دوسروں  کی حدیث میں اپنی حدیث ملاکر بیان کردینے میں متہم ہونے کے ساتھ انکار تقدیر میں بھی مشہور ہیں ۔اس لئے امام مالک بن انس امام دار الہجرہ اور ہشام بن عروہ ،یحی قطان ،سلیمان التیمی نے ان پہ سخت جرح کی ہے اور انہیں کذاب کہا ہے۔ فریابی نے انہیں زندیق کہا ہے ۔
قال مالك : وذكره ، فقال: دجال من الدجاجلة سير أعلام النبلاء 7 \ 38، تاريخ بغداد 1 \ 223، ميزان الاعتدال 3 \ 469

تھذیب التھذیب: ۹/۳۶-۳۹، الکامل لابن عدي: ۶/۱۰۳، ضعفاء العقیلي:۴/۲۴
  احادیث احکام وغیرہ میں جبکہ دوسرے ثقات سے ان کی روایت  متعارض ومخالف ہو معتبر نہیں مانا گیا  ہے۔
ہاں مغازی وسیر میں محمد بن اسحاق کی روایتیں معتبر ہیں ۔
اگرچہ ان کے حق میں کذاب کہنا ہمارے نزدیک زیادتی ہے اورہم محمدبن اسحاق رحمہ اللہ تعالی کے بارے میں یہ بات درست نہیں سمجھتے؛ لیکن محمدبن اسحاق رحمہ اللہ تعالی  کے بارے میں ہمارے یہاں یہ تصریح ہےکہ جس میں یہ متفرد ہوں ، وہ قابل ِاحتجاج نہیں ۔ علامہ نیموی رحمہ اللہ تعالی نے لکھا ہے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ تعالی نے ’’میزان‘‘ میں کہا ،کہ جس میں یہ متفرد ہوتے ہیں ، اس میں نکارت ہوتی ہے؛ کیوں کہ ان کے حافظے میں کچھ نقصان تھااورحافظ نے ’’الدرایۃ‘‘ کی ’’کتاب الحج‘‘ میں کہا، کہ ابن اسحاق’’ باب الأحکام‘‘ میں متفرد ہوں ، توقابل ِ احتجاج نہیں ( التعلیق الحسن:۱/۷۷)

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
2 شعبان 1439 ہجری

No comments:

Post a Comment