Thursday, 12 April 2018

کیا مٹھی سے کم مقدار میں داڑھی چھوڑنے سے ثواب ملتا ہے؟

سوال: مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ کیا مٹھی سے کم مقدار میں داڑھی چھوڑنے سے ثواب ملتا ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق صورت مسئولہ میں اگر داڑھی ایک مٹھی سے کم کرے تو بھی گنہگار ہوگا البتہ ایک مٹھی کے بعد کاٹنے کی اجازت ہے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے (بخاری شریف) واللہ اعلم بالصواب
        ابو حنیفہ
محمد توحید سالم القاسمی
    ریاض سعودی عرب

______________________________________
۔ واضح رہے کہ مردوں کے لئے داڑھی رکھنا واجب ‘ اس کی شرعی مقدار ایک قبضہ یعنی ایک مشت اور داڑھی رکھنا اسلامی اور مذہبی شعار ‘ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی متفقہ سنت اور قومی شعار، اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے اسی سے مردانہ شکل وصورت کی تکمیل اور صورت نورانی ہوتی وتی ہے‘ آنحضرت صلی اللہ کا دائمی عمل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہذا داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کترانا حرام اور گناہ ہے۔
حدیث شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک نقل فرماتی ہیں:
”عشر من الفطرة قص الشارب واعفاء اللحیة․․․ الخ“۔(مسلم ج:۱‘ص:۱۲۹)
یعنی دس چیزیں فطرت میں سے ہیں:
۱:․․․ مونچھوں کا کتروانا۔
۲:․․․ داڑھی بڑھانا۔
۳:․․․ مسواک کرنا۔
۴:․․․ ناک میں پانی ڈال کرناک صاف کرنا۔
۵:․․․ ناخن تراشنا۔
۶:․․․ بدن کے جوڑوں کو دھونا۔
۷:․․․بغل کے بال اکھاڑنا۔
۸:․․․ زیر ناف بال صاف کرنا۔
۹:․․․پانی سے استنجاء کرنا‘
راوی کو دسویں چیز یاد نہ رہی‘ فرماتے ہیں : ممکن ہے کہ وہ کلی کرنا ہو۔ اس حدیث میں جوکہ سنداً نہایت قوی حدیث ہے‘ دس چیزوں کو جن میں سے داڑھی کا بڑھانا اور مونچھوں کا کترانا بھی فطرت بتلایاگیا ہے اور فطرت عرف شرع میں ان امور کو کہا جاتاہے جوکہ تمام انبیاء اور رسل کی معمول بہ اور متفق علیہ سنت ہو اور امت کو ان پر عمل کرنے کا حکم ہو ۔ (فتاویٰ رحیمیہ جدید‘ ج:۱۰‘ ص:۱۰۶)
صاحب مجمع البحار اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
”عشر من ”الفطرة“ ای من السنة ای سنن الانبیاء علیہم السلام التی بالاقتداء بہم فیہا ای من السنة القدیمة التی اختارہا الانبیاء علیہم السلام‘ واتفقت علیہا الشرائع فکأنہا امر جبلی فطروا علیہ“۔ (مجمع البحار‘ ج:۴‘ ص:۱۵۵)
یعنی دس چیزیں فطرت (سنت) میں سے ہیں یعنی انبیاء کرام علیہم الصلاة والسلام کی ان سنتوں میں سے ہیں جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیا گیا یعنی اس سنت قدیم میں سے ہے جس کو انبیاء کرام علیہم السلام نے اختیار فرمایا اور اس پر تمام شرائع متفق ہیں‘ گویا کہ وہ امر جبلی ہے جس پر تمام انبیاء علیہم السلام کو پیدا کیا گیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں:
”قالوا: ومعناہ انہا من سنن الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہم“۔ (نووی شرح مسلم‘ ج:۱‘ ص:۱۲۸)
یعنی فطرت کے معنی یہ ہے کہ وہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں میں سے ہے۔
اس حدیث شریف سے صاف ظاہر ہوگیا کہ داڑھی بڑھانے کا حکم تمام شریعتوں میں تھا اور یہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی سنت رہی ہے۔
دوسری جگہ ارشاد نبوی ہے:
”عن ابن عمر  قال: قال النبی ا خالفوا المشرکین اوفروا اللحی واحفوا الشوارب‘ وفی روایة: انہکوا الشوارب واعفوا اللحی متفق علیہ“۔ (مشکوٰة‘ ص:۳۸۰)
یعنی مشرکین کی مخالفت کرو مونچھیں پست کرو (چھوٹی کرو) اور داڑھی کو معاف رکھو (یعنی اسے نہ کاٹو)
ایک اور حدیث میں ”وارخوا اللحی“ کے الفاظ مذکور ہیں۔ یعنی داڑھی لمبی کرو۔

(۲) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 
مونچھوں کو کٹواو اور داڑھی کو بڑھاو (صحیح مسلم ج۱) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھوں کوکٹوانے اور داڈھی بڑھانے کا حکم فرمایا۔۔
(۳)حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مشرکوں کی مخالفت کرو ،داڑھیاں بڑھاو اور مونچھیں کٹواو (مشکوۃ شریف )
(۴) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مونچھیں کٹواو اور داڑھی بڑھاو، اور مجوسیوں کی مخالفت کرو (صحیح مسلم ج۱)
(۵)حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مونچھیں نہ کٹوائے وہ ہم میں سے نہیں (رواہ احمد والترمزی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ر وایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: 
اللہ کی لعنت ہو ان مردوں پرجو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں ،اور اللہ کی لعنت ہو ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں (رواہ البخاری ،مشکوۃ
۱: پہلی حدیث سے معلوم ہوا کہ مونچھیں کٹانا اور داڑھی بڑھانا انسان کی فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے ،اور مونچھیں بڑھانا اور داڈھی کٹانا خلاف فطرت ہی،اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ فطرۃ اللہ کو بگاڑتے ہیں۔قرآن مجید میں ہے کہ شیطان نے اللہ سے کہا تھا کہ میں اولاد آدم گمراہکروں گا ،اور انہیںحکم دوں گا کہ وہ اللہ کی تخلیق کو بگاڑا کریں ۔تفسیر حقانی اور بیان القرآن میں ہے داڈھی منڈوانا بھی تخلیق خداوندی کوبگاڑنے میں داخل ہے ۔کیونکہ اللہ نے مردانہ چہرے کو فطرتا داڑھی کی ز ینت و وجاہت عطا فرمائی ہے 
۲: دوسری حدیث میں مونچھیں کٹوانے اور داڑھی بڑھانے کا حکم دیا گیا ہے اور حکم نبوی کی تکمیل ہر مسلمان پر واجب اور اسکی مخالفت حرام ہے ۔پس اس وجہ سے بھی داڑھی رکھنا واجب اور اسکا منڈانا حرام ہوا ۔
۴: اور تیسری اور چوتھی حدیث میں فرمایا گیا ہے مونچھیں کٹوانا اور داڑھی رکھنا مسلمانوں کا شعار ہے اس کے بر عکس مونچھیں بڑھانا اور داڑھی منڈانا مجوسیوں اور مشرکوں کا شعار ہے ا ور۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مسلمانوں کا شعار اپنانے اور مجوسیوں کے شعار کی مخالفت کرنے کی تاکید فرمائی ہے ۔
کسی کی مشابہت
چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : من تشبہ بقوم فھومنھم ۔
جو شخص جس قوم کی مشابہت کرے وہ انہی میں سے ہو گا۔ (جامع صغیر ج۲)
:․․․”عن ابن عباس رضی اللہ عن النبی ا انہ ”لعن المتشبہات من النساء بالرجال والمتشبہین من الرجال بالنساء“۔ (ابوداود: ج:۲‘ص:۲۱۲)
ترجمہ:․․․”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں میں سے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور مردوں میں سے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت کرتے ہیں‘ لعنت فرمائی ہے“۔
۲:․․․”عن ابن عمررضی اللہ عنہما قال: قال رسول اللہ ا ”من تشبہ بقوم فہو منہم“۔ (ابوداود‘ ج:۲‘ص:۲۰۳)
ترجمہ:․․․”حضرت ابن عمر رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا:” جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا شمار اسی قوم میں ہوگا“۔
۳:․․․”عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: لعن رسول اللہ ا الرجل یلبس لبسة المرأة‘ والمرأة تلبس لبسہ الرجل“۔ (ابوداؤد‘ ج:۲‘ ص: ۲۱۲)
ترجمہ:․․․”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ا نے اس مرد پر لعنت فرمائی ہے جو زنانہ لباس پہنے‘ اسی طرح اس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مردانہ لباس پہنے“۔
”عن ابن عباس ڑضی اللہ عنہ قال: لعن رسول اللہ ا المخنثین من الرجال والمترجلات من النساء وقال اخرجوہم من بیوتکم“۔ (مشکوٰة:۳۸۰)
ترجمہ:․․․”حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : رسول اللہ لعنت کرتے ہیں ان مردوں پر (جوداڑھی منڈاکر یا زنانہ لباس پہن کر) عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں اور فرمایا کہ انہیں اپنے گھروں سے نکال دو“۔ 
داڑھی کا ایک مٹھی سے پہلے کٹانا یہ بھی یہود ونصاریٰ اور ایرانی‘ پارسیوں کے ساتھ مشابہت ہے‘ چنانچہ علمأ متاخرین میں عمدة الفقہاء حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ بذل المجہود میں تحریر فرماتے ہیں:
۱
”وقص اللحیة من سنن الاعاجم وہو الیوم شعار کثیر من المشرکین والافرنج والہنود ومن لاخلاق لہم فی الدین ممن یتبعونہم ویحبون ان یتزیوا بزیہم“۔ (بذل المجہود‘ ج:۱‘ ص:۳۳)
ترجمہ:․․․”داڑھی کتروانا عجمیوں کا طریقہ ہے‘ موجودہ زمانہ میں اکثر وبیشتر مشرک‘ فرنگی اور ہندؤں کا اوران لوگوں کا شعار بن گیا ہے جن کو دین سے کوئی سروکار نہیں اور انگریزوں کے قدم بقدم چلنے اور ان کی سی شکل ووضع اختیار کرنے کو پسند کرنے لگے ہیں“۔
آگے تحریر فرماتے ہیں:
”ثم قال: وکذا یحرم علی الرجل قطع لحیتہ فعلم ان ما یفعلہ بعض من لاخلاق لہ فی الدین من المسلمین فی الہند والاتراک حرام“۔
امام محمد فرماتے ہیں:․․․ اور کتروانے ہی کی طرح مرد کو داڑھی کٹانا بھی حرام ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ وہ ہندی مسلمان جن کو دین کا کوئی لحاظ نہیں اور نیز ترک جو ایسے کرنے لگے ہیں وہ حرام ہے۔
(بحوالہ جمال مسلم ص:۳۷‘۳۸)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
”حلق کردن لحیہ حرام است وروش افرنج وہنود است وگذاشتن آں بقدر قبضہ واجب است واورا سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک در دین است یا بہ جہت آنکہ ثبوت آں بہ سنت است“۔ (اشعة اللمعات ج:۱‘ ص:۲۱۲)
یعنی داڑھی منڈانا حرام ہے اور اہل مغرب اور ہندؤں کا طریقہ ہے‘ داڑھی ایک مشت رکھنا واجب ہے اور اس کو سنت اس اعتبار سے کہا جاتاہے کہ یہ دین میں طریقہ مسلوکہ ہے یا اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ سنت سے ثابت ہے‘ چنانچہ نماز عید کو (اسی معنیٰ کے اعتبار سے) سنت کہا جاتا ہے‘ حالانکہ وہ واجب ہے“۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
”واما الاخذ منہا وہی دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم یبحہ احد “۔(کتاب الصوم مطلب فی الاخذ من اللحیة ج:۲‘ ص:۱۵۵)
حکیم الامت حضرت مولانامحمد اشرف علی تھانوی مذکورہ عبارت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ صاحب درمختار کا یہ قول:
”لم یبحہہ احد“ نص فی الاجماع“۔(البوادر والنوادر ج:۲‘ ص:۴۴۳) 
یعنی داڑھی منڈانے اور کٹوانے کی حرمت پر اجماع کی تصریح ہے۔ 
اور تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ میں ہے:
”وقال العلائی فی کتاب الصوم قبیل فصل العوارض ان الاخذ من اللحیة دون القبضة کما یفعلہ المغاربة ومخنثة الرجال لم یبحہ احد واخذ کلہا فعل یہود الہندومجوس الاعاجم فحیث اد من علی فعل ہذا المحرم یفسق وان لم یکن ممن یستبیحونہ ولایعدونہ فارقا للعدالة والمروة“۔ (ج:۱‘ص:۳۵۱)
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے: کہ ایک مشت سے کم داڑھی رکھنے کو کسی نے مباح قرار نہیں دیا۔
اسی طرح فیض الباری شرح بخاری میں ہے:
”واما قطع دون ذلک فحرام اجماعا بین الائمة رحمہم اللہ“۔ (ج:۴‘ ص:۳۸۰) 
یعنی تمام ائمہ کرام کا اس پر اجماع ہے کہ داڑھی اس طرح کاٹنا کہ ایک قبضہ سے کم رہ جائے حرام ہے۔
اور حدیث شریف میں ہے:
”عن رویفع بن ثابت قال: قال لی رسول اللہ ا یارویفع! لعل الحیوٰة ستطول بک بعد فاخبر الناس ان من عقد لحیتہ او تقلد وترا او استنجی برجیع دابة او عظم فان محمدا منہ برئ“۔ (مشکوٰة‘ ص:۴۳)
ترجمہ:․․․”حضرت رویفع بن ثابت  سے مروی ہے کہ حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ: میرے بعد قریب ہے کہ تیری زندگی دراز ہو‘ لوگوں کو خبر دینا کہ جو شخص اپنی داڑھی میں گرہ لگائے یا داڑھی چڑھائے یا تانت کا قلادہ ڈالے یا گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرے تو محمد ا اس سے بری ہیں“۔
حضرت مولانا عبد الرحیم لاجپوری صاحب اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں کہ: 
”جب داڑھی لٹکانے کے بجائے چڑھانے پر یہ وعید ہے تو منڈانے اور شرعی مقدار (قبضہ) سے کم کرنے پر کیا وعید ہوگی“۔(فتاویٰ رحیمیہ ج:۱۰‘ ص:۱۰۷)
الاختیار شرح المختار میں ہے:
”اعفاء اللحی قال: محمد  : عن ابی حنفیة ترکہا حتی تکث وتکثر والتقصیر فیہا سنة‘ وہو ان یقبض رجل لحیتہ فما زاد علی قبضہ قطعہ‘ لان اللحیة زینة وکثرتہا من کمال الزینة وطولہا الفاحش خلاف السنة“۔
ترجمہ:․․․”اعفاء اللحی یعنی داڑھی بڑھانا امام محمد  کی روایت ہے کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا داڑھی کو چھوڑے رکھنا چاہئے‘ یہاں تک کہ گھنی ہوجائے اور بڑھ جائے اور داڑھی میں قصر سنت ہے اور قصر یہ ہے کہ داڑھی کو مٹھی سے پکڑے جو مٹھی سے بڑھ جائے اس کو کاٹ دیں۔ داڑھی سنت ہے اور اس کا بھر پور ہونا (گھنی ہونا) کمال زینت ہے اور داڑھی کی غیر معمولی درازی خلاف سنت ہے“۔ (الاختیار شرح المختار ج:۴‘ ص:۲۳۵)
حضرت امام غزالی  تحریر فرماتے ہیں:
”وقد اختلفوا فیما طال منہا فقیل: ان یقبض الرجل علی لحیتہ واخذ ما فضل عن القبضة فلا باس‘ فقد فعلہ ابن عمر وجماعة من التابعین‘ واستحسنہ الشعبی وابن سیرین‘ وکرہہ الحسن وقتادة وقالا: ترکہا عافیة احب لقولہ ا اعفوا اللحی“۔ (احیاء العلوم‘ ج:۱‘ ص:۱۴۸)
ترجمہ:․․․”لوگوں نے اس باب میں اختلاف کیا ہے کہ اگر داڑھی لمبی ہوجائے تو کیا کرنا چاہئے؟ بعض کا قول ہے کہ مقدار مشت چھوڑ کر باقی کاٹ ڈالے تو کچھ مضائقہ نہیں اس لئے کہ حضرت ابن عمر  اور بہت سے تابعین نے ایسا کیا ہے اور امام شعبی اور ابن سیرین نے اس کو اچھا سمجھا ہے‘ حسن اور قتادہ نے اس کو مکروہ فرمایاہے اور کہا ہے کہ: اس کو لٹکی رہنے دینا مستحب ہے‘ کیونکہ آنحضرت انے فرمایا کہ: ”اعفوا اللحی“ داڑھی بڑھاؤ“۔ (بحوالہ مذاق العارفین ترجمہ احیاء العلوم‘ ص:۱۵۹‘۱۶۰)
اور نصاب الاحتساب میں ہے:
”قال علیہ السلام: احفوا لشوارب واعفوا اللحی ای قصوا الشوارب واترکوا اللحی کما ہی ولاتقطعوہا ولاتحلقوہا ولاتنقصوہا من القدر المسنون وہو القبضة“۔(بحوالہ داڑھی کا وجوب حضرت شیخ زکریا ص:۸۱)
ترجمہ:․․․”حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مونچھیں کٹاؤ اور داڑھی بڑھاؤ یعنی مونچھیں کترواؤ اور داڑھی کو اپنی حالت پر بڑھاؤ اور جب تک وہ ایک قبضہ بھر نہ ہوجاوے اس کو نہ کٹاؤ‘ نہ منڈواؤ‘ نہ گھٹاؤ اور صحیح مقدار ایک مٹھی ہے“۔
بہرحال یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ داڑھی ایک مشت رکھنا ہی واجب ہے اورداڑھی منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کتروانا حرام ہے اور اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔ جیساکہ حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ کی کتاب الآثار میں ہے:
”محمد قال اخبرنا ابوحنیفة رحمہ اللہ عن الہیثم عن ابن عمر  انہ کان یقبض علی اللحیة ثم یقص ما تحت القبضة قال محمد: وبہ ناخذ وہو قول ابی حنیفة رحمہ اللہ“۔
ترجمہ:․․․”امام محمد امام اعظم ابوحنیفہ سے وہ حضرت ہیثم  سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر  داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کرمٹھی سے زائد حصہ کو کاٹ دیا کرتے تھے‘ امام محمد فرماتے ہیں کہ: ہمارا عمل اسی حدیث پر ہے اور حضرت امام اعظم نے بھی یہی فرمایا ہے“۔
فقہ مالکی کے مشہور فقیہہ علامہ محمد بن محمد غیثنی مالکی ”المنح الوفیہ شرح مقدمہ العزیة“ میں فرماتے ہیں:
”ان ترک الاخذ من اللحیة من الفطرة‘ وامر فی الارسال بان تعفی ای تترک ولاحرج علی من طالت لحیتہ بان یأخذ منہا اذا زادت علی القبضة“۔
ترجمہ:․․․”داڑھی رکھنا فطرت میں سے ہے اور چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے کہ بڑھائی جائے‘ لیکن جس شخص کی داڑھی ایک قبضہ سے لمبی ہوجائے تو ایسے شخص کو قبضہ سے زائد حصہ کو کتروا ڈالنے میں کوئی حرج نہیں“۔
مشہور شافعی فقیہ اور محدث امام نووی رحمہ اللہ علیہ ”حدیث خصال فطرت“ کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:
”المختار ترکہا علی حالہا وان لایتعرض لہا بتقصیر ولاغیرہ“
ترجمہ:․․․”مذہب مختاریہ ہے کہ داڑھی کو بالکل چھوڑدیا جائے اور اس کے ساتھ کترنے اور منڈوانے کا تعرض بالکل نہ کیا جائے“۔
فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ”کشاف القناع شرح متن الاقناع“ ج:۱‘ ص:۶۰ میں ہے:
”واعفاء اللحیة) بان لایاخذ منہا شیأ مالم یستہجن طولہا ویحرم حلقہا ولایکرہ اخذ ما زاد علی القبضة“ 
”اور حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی سنت داڑھی کو چھوڑ دینا ہے اس طرح کہ اس میں سے کچھ بھی نہ تراشے جب تک کہ وہ لمبی ہوکر بڑی نہ لگنے لگے اور اس کا منڈانا تو بالکل حرام ہے‘ البتہ قبضہ سے زیادہ حصہ کا تراشنا مکروہ نہیں“۔ (بحوالہ داڑھی کا وجوب ص:۷۵تا۷۶ حضرت شیخ محمد زکریا)
بہرحال مذکورہ تمام احادیث اور فقہاء کرام کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ داڑھی رکھنا واجب ہے اور ایک مشت یعنی قبضہ سے کم کرنا مکروہ تحریمی یعنی ناجائز اور حرام ہے اور اتنی داڑھی رکھنا کہ لوگوں کی نگاہیں اس پر اٹھیں یعنی صرف یہ معلوم ہو کہ داڑھی رکھی ہوئی ہے‘ یہ بات قرآن وسنت اور فقہاء کرام کے اقوال کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہے اور اسلام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے جوکہ انتہائی خطرناک ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں جو لوگ اس قبیح فعل کے مرتکب ہیں یا دوسروں کے لئے اس فعل قبیح کا سبب بنے ہیں‘ سب پر ضروری ہے کہ داڑھی ایک مٹھی رکھیں اور اب تک جو گناہ ہوا ہے اس سے صدق دل سے توبہ واستغفار کریں۔ورنہ آئندہ جو بھی ان کی وجہ سے داڑھی ایک مشت سے پہلے کتروا ئے گا تو ان کا وبال بھی ان ہی پر ہوگا۔حدیث شریف میں ہے:
”من سن فی الاسلام سنة حسنة فعمل بہا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل ولاینقص من اجورہم شیئ‘ ومن سن فی الاسلام سنة سیئة فعل بہا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بہا ولاینقص من اوزار ہم شیئ“۔ (صحیح مسلم‘ ج:۲‘ ص:۳۴۱)
ترجمہ:․․․”جس نے اسلام میں کسی نیکی کی بنیاد ڈالی اور اس نیکی پر بعد میں بھی عمل ہوتا رہا تو بعد میں عمل کرنے والوں کی نیکیوں کے بقدر بنیاد ڈالنے والے کو ثواب ملے گا‘ لیکن اس سے عمل کرنے والوں کی نیکیوں میں کچھ کمی نہیں آئے گی اور جس نے اسلام میں کسی بدی کی بنیاد ڈالی اور اس بدی پر بعد میں عمل ہوتا رہا تو آئندہ عمل کرنے والوں کے گناہ کے بقدر بنیاد ڈالنے والے کو گناہ ملتا رہے گا اور اس کے سبب برائی کرنے والوں کے گناہ میں سے کچھ کمی واقع نہ ہوگی“۔
۳:․․․ جو امام داڑھی منڈاتے ہیں یا ایک مٹھی سے پہلے کتراتے ہیں تو وہ کبیرہ گناہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے فاسق ہیں اور فاسق کی اقتداء میں نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے اور ایسے شخص کو امام بنانا جائز نہیں‘ بلکہ نمازیوں پر ضروری ہے کہ متقی پر ہیزگار عالم دین کو امام بنائیں جو شریعت اور سنت کا پابند ہو‘ البتہ ایسے امام کی اقتداء میں جو نمازیں ادا کی گئی ہیں ان کا اعادہ کرنا ضروری نہیں‘ وہ نمازیں ہوگئیں باقی ثواب پورا نہیں ملے گا‘ جیساکہ ”البوادر النوادر“ میں کہ درمختار میں واجبات صلوٰة میں یہ قاعدہ لکھا ہے::
”کل صلوٰة ادیت مع کراہة التحریم تجب اعادتہا“ 
اور رد المحتار میں اس کے عموم پر ایک قوی اعتراض کرکے تصحیح کے لئے یہ توجیہ کی ہے:
”الا ان یدعی تخصیصہا بان مرادہم بالواجب والسنة التی تعاد بترکہ ماکان من ماہیة الصلوٰة وجزائہا“۔
تو بھا ئیوں
جو لوگ داڈھی منڈواتے ہیں وہ مسلمانوں کا شعار ترک کر کے اہل کفر کاشعار اپناتے ہیں ۔ جس کی مخالفت کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ۔ اس لیے ان کو وعید نبوی سے ڈرنا چا ہیی۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو داڈھی منڈوانے کے گناہ سے اس قدر نفرت تھی کہ جب شاہ ایران کے قاصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی داڈھیاں منڈی ہوی اور مونچھیں بڑی ہوئی تھیں پسنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف نظر کرنا پسند نہ کیا اور فرمایا تمہاری ہلاکت ہو تمیں یہ شکل بگاڑنے کا کس نے حکم دیا ہر ۔ وہ بولے یہ ہمارے رب یعنی شاہ ایران کا حکم ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میرے رب نے تو مجھے داڈھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم فرمایا ہی۔پس جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کے حکم کی خلاف ورزی کر کے مجوسیوں کے خدا کے حکم کی پیروی کرتے ہیں ان کو سو بار سوچنا چاہیے کہ قیامت کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں کیا منہ دکھائینںگئے ۔اور اگرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں کہ تم اپنی شکل بگاڑنے کی وجہ سے ہماری جماعت سے خارج ہو تو شفاعت کی امید کس سے رکھیں گئے ۔
داڈھی رکھنا واجب ہے 
داڈھی رکھنا واجب ہے مگر اس کا ثبوت سنت یعنی حدیث سے ہے ۔اسی لیے بعض لوگ سنت کہ دیتے ہیں ۔چناچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ تحریر فر ماتے ہیں ۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ داڈھی سنت ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ یہ اسلامی طریقہ ہے یا اس کا واجب ہونا حدیث سے ثابت ہوا ہی۔بلکہ ہر واجب سنت ہی سے ثابت ہوتا ہی۔جیسے کہ در مختار باب وتر میں ہے یعنی نماز وتر کے واجب ہونے کا ثبوت سنت سے ثابت ہوا ہے نہ کہ قرآن سی(لمعات شرح مشکوۃ)
داڈھی کو سنت کہنا ایسا ہے جیسے کہ قربانی کوسنت ابراہیم علیہ اسلام کہا جاتا ہے ۔پس جب کہ قربانی کو سنت ابرہیمی کہنے سے یہ قربانی فرض ہونے سے نکل کر مستحب نہیں بن جاتی ۔اسی طرح داڈھی کو سنت رسول کہدینے سییہ واجب ہونے سے نہیں نکل جاتی بلکہ اس کا منڈوانا حرام ہی رہتا ہے ۔ خالقواالمشرکین ووفرواللحی واحفو الشوارب۔ مسلم۔ مشرکین کے طریق سے خلاف رہو اور بڑھاؤ داڑھیوں کو اور کم کرو مونچھوں کو ۔ جز الشوارب وارخو اللحی خالقوا المجوس ۔ بخاری ۔ کتراو مونچھوں کو اور بڑھاؤ داڑھیوں کو ۔خلاف کرو مجوسیوں کے ۔ من لم یا خذ من شاربہ فلیس منا ۔ترمذی۔ جو شخص مونچھیں کم نہ کرائے وہ ہم میں سے نہیں۔عشر من الفطرۃ قص الشارب واعفاء اللحیۃ ۔ابو داؤد وغیرہ ۔ دس چیزیں فطرت سے ہیں مونچھوں کا کٹوانا ،داڑھی کا بڑھانا ،مسواک کرنا وغیرہ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب حج یا عمرہ سے فارغ ہوتے تھے تو اپنی داڑھی کو مٹھی سے پکڑ لیتے تھے جو حصہ زائد ہوتا تھا اس کو کتروا دیا کرتے تھے ۔

داڑھی کے وجوب کا استنباط
اگر غور کیا جائے تو اسی سے داڑھی رکھنے کا وجوب بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مواظبت بلا ترک فر مائی ہے یعنی ہمیشگی کے ساتھ داڑھی رکھنے کے عمل کو جاری رکھا ہے جس میں کبھی تخلف نہیں ہوا جو اصولا وجوب کی علامت ہے اگر مواظبت مع الترک ہو یعنی کبھی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو ترک بھی فر مادیا ہو تو وہ عمل سنت کہلاتا ہے ۔ لیکن داڑھی کا رکھنا کبھی ایک ساعت کے لئے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ترک نہیں فر مایا اس لئے اس مواظبت بلا ترک سے ہم داڑھی رکھنے کے وجوب بھی استدلال کر سکتے ہیں ۔

داڑھی کے وجوب پر عملی ثبوت 
حضرت حسان بن بلال رضی اللہ عنہ فر ماتے ہیں کہ میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے وضو کی تو اپنی داڑھی میں خلال بھی کیا آپ سے عرض کیا گیا یہ کیا بات ہے آپ داڑھی میں خلال فر مارہے ہیں ۔حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ چکا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ریش مبارک میں خلال فر مایا کرتے تھے ،تو مجھے اپنی داڑھی میں خلال کرنے سے کون سی بات روک سکتی ہے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ریش مبارک میں خلال فر مایا کرتے تھے ۔ابو عیسیٰ ترمذی فر ماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ 
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما راویت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فر ماتے تھے تو رخسار مبارک کو کس قدرملا کرتے تھے پھر ''ریش مبارک'' میں انگلیاں نیچے کی طرف سے داخل کرکے جال سا بنا کر خلال کیا کرتے تھے ۔ابن سکن نے اس روایت کی تصحیح فر مائی ہے ۔ نوٹ یہ روایتیں متعدد صحابہ رضوان اللہ اجمعین سے ابوداؤد، ترمذی ، ابن ماجہ ، بیہقی، دار قطنی وغیرہ محدثین نے ذکر فر مائی ہیں ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر مبارک میں اکثر تیل لگایا کرتے تھے ،اور ریش مبارک میں کنگھی کیا کرتے تھے ۔ 

یزید بن فارسی جو کہ مصاحف لکھا کرتے تھے انھوں نے فر مایا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ میں نے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فر مایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فر ما یا کرتے تھے کہ ''شیطان میری صورت '' نہیں بنا سکتا اسلئے جس شخص نے بھی مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے مجھ ہی کو دیکھا ۔ کیا تم اس شخص کا جس کو خواب میں دیکھا ہے حلیہ بیان کر سکتے ہو میں نے کہا ہاں! وہ متوسط بدن اور قامت کے تھے ،گندم گو سفیدی مائل ،سر مگیں آنکھوں والے اچھا ہنسنے والے ،چہرہ کے خوبصورت دائروں والے ان کی داڑھی نے یہاں سے یہاں تک ( دائیں سے بائیں تک)کے حصے کو بھر دیا ہے اور سینہ کو بھر دیا ہوا ہے (پہلے کلام میں داڑھی کو چوڑائی اور دوسرے کلام میں لمبائی بتلائی ہے )قال عوف ولا ادری ما کان مع ھذ النعت راوی عوف نے کہا کہ اسکے علاوہ جو چیزیں حلیہ کی ذکر کی تھیں ان کو میں اس وقت بھول گیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فر مایا کہ اگر تم جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاگتے ہوئے دیکھتے تو اس سے زیادہ بیان نہ کر سکتے تھے ۔ (ترمذی فی الشمائل)
یہ روایت صاف بتلا رہی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی لانبی اور چوڑی اتنی تھی کہ سینہ مبارک کی لمبائی اور چوڑائی کو اس نے ڈھنک لیا تھا ۔ان احادیث مبارکہ سے دو باتیں مستنبط ہیں .

داڈھی منڈوانے کی تاریخ
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے یہ عمل قوم لوط علیہ اسلام سے شروع ہوا ۔اغلب یہی ہے وہ مرد پرست تھے جب ان کے مردوں کی داڈھیاں آجاتی تھیں تو امرد ہی رہنے کی غرض سے وہ داڈھی منڈوایا کرتے تھے ۔چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دس برے کاموں کی وجہ سے قوم لوط ہلاک کی گئی ہے ن میں سے ایک لواطت ہے، اور شراب پینا، اور داڈھی منڈوانا، اور مونچھیں بڑھانا بھی شامل ہے۔(در منثورج۴، روح المعانی)

No comments:

Post a Comment