Friday, 20 April 2018

شب برات کے فضائل

سوال:
1- پندرہ شعبان کی رات کو خصوصی طور پر غسل کرنا ،
2- پندرہ شعبان کی رات کو چراغاں کرنا ،
3- پندرہ شعبان کی مناسبت سے قبروں کی صفائی و ستھرائی کرنا ،
4- پندرہ شعبان کی رات کو حلوہ خوری ،
5- پندرہ شعبان کی رات کو بیوہ خاتون کا اپنے مرے ہوئے خاوند کے لئے بن سنورکر بیٹھنا،
6- گھر کے اندر کسی حصہ میں بستر لگانا اس نیت سے کہ مردہ کی روح آکر آرام کرے گی،
7- مرے ہوئے شخص کی خاطر اس کی پسند کے مطابق دستر خوان گھر کے ایک حصہ میں چننا اس نیت سے کہ روح آکر کھائے گی ،
8- قبروں پر رات میں جاکر نعرہ تکبیر بلند کرنا ،
9- پندرہ شعبان کی رات کو خصوصی طور پر قبر کی زیارت کو جانا ،
10- پندرہ شعبان کی رات کو الفیہ ( ہزاری)صلاة ادا کرنا ،
11- پندرہ شعبان کی رات کی مناسبت سے قرآن کی تلاوت کرنا ،
12- پندرہ شعبان کی رات کو مسجد میں اکٹھا ہوکر اجتماعی عبادت کرنا ،
13- محلہ کے امام کو ہر گھر سے اپنے مرے ہوئے کسی عزیز کے نام پر روپئے پیسے اور عمدہ پکوان کے ساتھ الودع کرنا ،
14- پندرہ شعبان کے دن کو خصوصی روزہ رکھنا ،
15- پندرہ شعبان کی رات کو شب قدر نام دینا جس کا ثبوت کتاب وسنت میں کہیں نہیں ،
16- پندرہ شعبان کی رات کو شب برائت نام دینا جسے کتاب و سنت نے نہیں بلکہ اہل بدعت نے دی ہے ،
17- پندرہ شعبان کی رات کو کسی خصوصی دینی مجلس کا اہتما م کرنا ،
18- پندرہ شعبان کے دن کو خصوصی روزہ رکھنا اور پورے ماہ کسی اور دن روزہ نہ رکھنا ،
19- پندرہ شعبان کی مناسبت سے آپس میں ہدیہ اور تحفے کا بدلاؤ ،
20- آتش بازی کرنا ،
21- بجلی اور قمقمہ کا خوب اہتمام کرنا،
22- پٹاخہ پھوڑنا ،
23- صدقات اور خیرات کا اہتمام کرنا،
24- پندرہ شعبان کو دعاء کرنا اس نیت سے کہ آج رات کو دعاء رد نہیں کی جاتی ہے.
25- سورہ دخان میں موجود " لیلة مبارکة ،، سے مراد پندرہ شعبان کی رات کو لینا ،
26- یہ عقیدہ رکھنا کہ سنوی تقدیر پندرہ شعبان کو متعین ہوتی ہے ، اور اہم امور کا فیصلہ ہوتا ہے،
27- پندرہ شعبان کی رات کو ابوبکر صدیق اور عمر فاروق - رضی اللہ عنہما - سے بیزاری اور دشمنی کا اظہار ،
28- پندرہ شعبان کی رات کو نعوذ باللہ عمر- رضی اللہ عنہ - کا پتلا جلانا ، (روافض کا عمل )
29- ماہ شعبان میں بندوں کے اعمال اللہ کو پیش ہوتے ہیں لیکن پندرہ تاریخ ہی کو اسے تصور کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ،
30- پندرہ شعبان کی رات کی مناسبت سے علمائے کرام کی دعوت کرنا اور کھانے سے فارغ ہوکر اجتماعی شکل میں میزبان کے لیئے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا،
براہ مہربانی ان تمام اعمال کا حوالہ احادیث سے درکار ہے . خیرا

Published on: Jul 17, 2017
جواب # 151545
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1032-1036/H=10/1438
(۱) تا (۳۰) تین امور تو ثابت اور موجبِ ثواب وبرکات ہیں۔
(الف) پندرہویں شعبان کی رات میں اپنے اپنے گھروں میں عبادت کا اہتمام کرنا۔
(ب) کسی وقت قبرستان جاکر زیارتِ قبور کرنا، اصحابِ قبور کے لیے دعائے استغفار، ایصالِ ثواب کردینا۔
(ج) پندرہ شعبان کے دن میں روزہ رکھ لینا، ان کے علاوہ جو امور استفتاء میں لکھے ہیں وہ بدعات وخرافات کے قبیل سے ہیں اور بعض میں تو کفر کا سخت اندیشہ ہے جیسے حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کا پتلا جلانا اور ان سے اظہارِ بیزاری کرنا یہ اور ان جیسی ملعون حرکات مسلمانوں سے بلکہ ادنی درجہ کے اہل اسلام سے مستبعد ہیں اس شب کا نام شب قدر نہیں بلکہ لیلة البراء ت یا شب براء ت ہے سنوی تقدیر کے متعلق اتنا عرض ہے کہ اس کی کچھ اصل احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، آپ تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مدظلہ العالی کی کتاب ”احکامِ شعبان“ اس کتاب کو مطالعہ کرلینے کے بعد اگر کچھ خلجان رہے تو اس کو صاف لکھ کر معلوم فرمالیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.........
نصف شعبان كا روزہ ركھ لے چاہے حديث ضعيف ہى كيوں نہ ہو ؟
كيا حديث كے ضعف كا علم ہونے كے باوجود اس پر عمل كرنا جائز ہے يعنى فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل كرنا صحيح ہے ؟ 
نصف شعبان كى رات كا قيام كرنا اور پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا، يہ علم ميں رہے كہ نفلى روزہ اللہ تعالى كى عبادت ہے، اور اسى طرح رات كا قيام بھى ؟
الحمد للہ: 
اول: 
نصف شعبان كے وقت نماز روزہ كے فضائل كے متعلق جو احاديث بھى وارد ہيں وہ ضعيف قسم ميں سے نہيں، بلكہ وہ احاديث تو باطل اور موضوع و من گھڑت ہيں، اور اس پر عمل كرنا حلال نہيں نہ تو فضائل اعمال ميں اور نہ ہى كسى دوسرے ميں. 

ان روايات كے باطل ہونے كا حكم اكثر اہل علم نے لگايا ہے، جن ميں ابن جوزى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب " الموضوعات " ( 2 / 440 - 445 ) اور ابن قيم الجوزيۃ رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " المنار المنيف حديث نمبر ( 174 - 177 ) اور ابو شامۃ الشافعى نے " الباعث على انكار البدع والحوادث ( 124 - 137 ) اور العراقى نے " تخريج احياء علوم الدين حديث نمبر ( 582 ) اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى نے ان احاديث كے باطل ہونے كا " مجموع الفتاوى ( 28 / 138 ) ميں نقل كيا ہے. 

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى نصف شعبان كا جشن منانے كے حكم ميں كہتے ہيں: 

" اكثر اہل علم كے ہاں نصف شعبان كو نماز وغيرہ ادا كر جشن منانا اور اس دن كے روزہ كى تخصيص كرنا منكر قسم كى بدعت ہے، اور شريعت مطہرہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى" 

اور ايك مقام پر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: 

" نصف شعبان كى رات كے متعلق كوئى بھى صحيح حديث وارد نہيں ہے بلكہ اس كے متعلق سب احاديث موضوع اور ضعيف ہيں جن كى كوئى اصل نہيں، اور اس رات كو كوئى خصوصيت حاصل نہيں، نہ تو اس ميں تلاوت قرآن كى فضيلت اور خصوصيت ہے، اور نہ ہى نماز اور جماعت كى. 

اور بعض علماء كرام نے اس كے متعلق جو خصوصيت بيان كى ہے وہ ضعيف قول ہے، لہذا ہمارے ليے جائز نہيں كہ ہم كسى چيز كے ساتھ اسے خاص كريں، صحيح يہى ہے" 

اللہ تعالى ہى توفيق دينےوالا ہے. 

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 511 ). 

دوم: 

اور اگر ہم تسليم بھى كر ليں كہ يہ موضوع نہيں: تو اہل علم كا صحيح قول يہى ہے كہ مطلقا ضعيف حديث كو نہيں ليا جا سكتا، چاہے وہ فضائل اعمال يا ترغيب و ترھيب ميں ہى كيوں نہ ہو. 

اور صحيح حديث كو لينے اور اس پر عمل كرنے ميں مسلمان شخص كے ليے ضعيف حديث سے كفايت ہے، اور اس رات كى كوئى تخصيص ثابت نہيں اور نہ ہى اس دن كى كوئى فضيلت شريعت مطہرہ ميں ملتى ہے، نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام سے. 

علامہ احمد شاكر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: 

احكام اور فضائل اعمال وغيرہ ميں ضعيف حديث نہ لينے ميں كوئى فرق نہيں، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ صحيح يا حسن حديث كے علاوہ كسى چيز ميں كسى كے ليے حجت نہيں. 

ديكھيں: الباعث الحثيث ( 1 / 278 ). 

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ " القول المنيف فى حكم العمل بالحديث الضعيف " كا مطالعہ كريں
(kya ye sahee hay is ke aqwal drusst hay)

Published on: Sep 30, 2010
جواب # 24925
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 1502=438-10/1431
شعبان کی پندرہویں رات کے فضائل احادیث میں مذکور ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات میں اپنی تمام مخلوق کی طرف ایک خاص توجہ فرماتے ہیں اور مشرک اور کینہ ور آدمی کے سوا سب کی مغفرت فرمادیتے ہیں (رواہ الطبرانی وابن حبان فی صحیحہ عن معاذ بن جبل، الترغیب والترہیب) دوسری حدیث میں ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا تو میں تلاش کے لیے نکلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور کہا کہ آج نصف شعبان کی رات ہے اس میں اللہ تعالیٰ اتنے لوگوں کو جہنم سے نجات دے گا جتنے قبیلہ کلب کی بکریوں کے بال ہیں، مگر چند بدنصیب شخصوں کی طرف اس رات بھی نظر عنایت نہ ہوگی، یعنی مشرک، کینہ ور اور قطع رحمی کرنے والا اور پاجامہ تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا اور شراب نوش (رواہ البیہقی کذا فی الترہیب) یہ اور اس طرح کی روایات سے پتہ چلا کہ شب براء ت کی فضیلت ثابت ہے نیز اس رات میں باری تعالیٰ کا بندوں کی طرف خصوصی توجہ فرماکر چند محروم القسمت لوگوں کے علاوہ باقی ساری مخلوق کی مغفرت فرمانا بھی ثابت ہے، یہ حدیث متعدد طرق سے ثابت ہے جن میں بعض حدیثیں حسن درجے کی ہیں اور بعض ضعیف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے علاوہ دوسری بعض روایات میں شعف، ضعف شدید نہیں جو فضائل اعمال میں معتبر نہ ہو اور جمہور محدثین کا اتفاق ہے کہ حدیث ضعیف سے فضائل اعمال میں استدلال کیا جاسکتا ہے، مشہور سلفی عالم ناصر الدین البانی سلسلة الاحادیث الصحیحة میں خلاصہ کے طور پر لکھتے ہیں: وجملة القول أن الحدیث بمجموع ہذہ الطرق صحیح بلا ریب إلخ حاصل کلام یہ ہے کہ یہ ان مجموعہ طرق کی وجہ سے بلاشبہ صحیح اور حدیث کی صحت تو اس سے کم عدد سے بھی ثابت ہوجاتی ہے اور جو لوگ اس حدیث کی تضعیف کے قائل ہیں انھوں نے حدیث کے طرق کی تتبع وتلاش نہیں کی (سلسلة الاحادیث الصحیحة) البتہ اس رات میں جشن منانا، آتش بازی کرنا، حلوہ بنانا وغیرہ امور لائق ترک ہیں۔ 
سوال میں درج جواب سے من اولہ الی آخرہ اتفاق نہیں ہے اس رات کی فضیلت کا انکار نہیں کیا جاسکتا، البتہ اس رات میں بدعات وخرافات کرنا جن کا ذکر اوپر آچکا جائز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.........
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن، وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن ۔۔۔۔۔۔ اَمَّابَعد
نوٹ: پندرہ شعبان کے سلسلے میں چار باتیں صحیح ہیں؛
(پہلی بات) اس رات میں اللہ سبحانہ تعالى جتنی توفيق دیں، اتنی گھر میں انفرادی عبادتیں کرنا، مگر ہم نے اس رات کو ہنگاموں کی رات بنا دیا ہے، مسجدوں اور قبرستانوں میں جمع ہوتے ہیں، کھاتے پیتے اور شور کرتے ہیں، یہ سب غلط ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں، اس رات میں نفلیں پڑھنی چاہئیں، اور پوری رات پڑھنی ضروری نہیں، جتنی اللہ تعالیٰ توفيق دیں گھر میں پڑھے، یہ انفرادی عمل ہے، اجتماعی عمل نہیں.
(دوسری بات) اگلے دن روزہ رکھے یہ روزہ مستحب ہے.
(تیسری بات) اس رات میں اپنے لئے، آپنے مرحومین کے لئے، اور پوری امت کے لئے مغفرت کی دعا کرے، اس کے لئے قبرستان جانا ضروری نہیں، اس رات میں حضور اکرم ﷺ قبرستان ضرور گئے ہیں، مگر چپکے سے گئے ہیں، حضرت عائشہؓ کو اتفاقاً پتہ چل گیا تھا، نیز حضور اکرم ﷺ نے اس رات میں قبرستان جانے کا کوئی حکم بھی نہیں دیا، اس لئے ہمارے یہاں جو تماشے ہوتے ہیں، وہ سب غلط ہیں!
(چوتھی بات) جن دو شخصوں کے درمیان لڑائی جھگڑا اور اختلاف ہو، وہ اس رات میں صلح صفائی کر لیں، اگر صلح صفائی نہیں کریں گے، تو بخشش نہیں ہوگی،
️یہ چار کام اس رات میں ضعیف حدیث سے ثابت ہیں اور ضعیف کا لحاظ اس وقت نہیں ہوتا جب سامنے صحیح حدیث ہو، صحیح حدیث کے مقابلے میں ضعیف حدیث کو نہیں لیا جاتا، لیکن اگر کسی مسئلہ میں ضعیف حدیث ہی ہو، اس کے مقابلے میں صحیح حدیث نہ ہو، تو ضعیف حدیث لی جاتی ہے، اور ایسا یہی ایک مسئلہ نہیں ہے، بہت سے مسائل ہیں، جن میں ضعیف حدیثیں ہیں اور ضعیف احادیث سے مسائل ثابت ہوئے ہیں، جیسے صلوۃ التسبیح کی گیارہ روایتیں ہیں اور سب ضعیف ہیں، مگر سلف کے زمانے سے صلوۃ التسبیح کا رواج ہے!
️البتہ ضعیف حدیث سے واجب اور سنت کے درجہ کا عمل ثابت نہیں ہوگا، استحباب کے درجے کا حکم ثابت ہوگا، پس صلوۃ التسبیح پڑھنا مستحب ہے، ایسے ہی پندرہ شعبان کے بارے میں جو روایات ہیں وہ بھی ضعیف ہیں، مگر ان سے استحباب کے درجہ کا عمل ثابت ہوسکتا ہے، پس احادیث میں بیان کئے گئے چاروں کام مستحب ہوں گے، شب برأت اس کے اعمال اور اس کے اعمال کو بالکل بے اصل کہنا درست نہیں، البتہ سورہ دخان کی تیسری آیت انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ کا مصداق شب برأت نہیں، اس کا مصداق شب قدر ہے، کیونکہ قرآن کریم شب قدر میں نازل ہوا ہے. (بحوالہ: علمی خطبات جلد 2 صفحہ 247)
از قلم: حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم العالیہ
{پندرہ شعبان کی عبادت}
مقرر : حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتہم العالیہ، شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند
ناقل: عادل سعیدی دیوبندی

No comments:

Post a Comment