Wednesday, 18 April 2018

مَوتُ العالِم مَوتُ العالَم

مَوتُ العالِم مَوتُ العالَم
علوم نبوت کے آفتاب اور قاسمیت کے آخری ترجمان عظیم محدث خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی کا انتقال
علمی دنیا میں غم کی لہر، ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مزارقاسمی میں سپرد خاک، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلما، جمعیۃ علمائے ہند، امارت شرعیہ پٹنہ ،ابنائے ندوہ ممبئی ،دہلی اقلیتی کمیشن ودیگر ملی ،سیاسی وسماجی تنظیموں سمیت ملک وبیرون ملک سے تعزیت
دیوبند۔ ۱۴؍اپریل: (رضوان سلمانی؍ایس چودھری)علمائے دیوبند کے سرخیل، خانوادہ قاسمی کے عظیم چشم وچراغ عظیم محدث دارالعلوم وقف دیوبند کے صدر مہتمم و نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی آج دوپہر سوا دو بجے طویل علالت کے باعث تقریباً 94؍ برس کی عمر میں آستانہ قاسمی میں آخری سانس لی اور دارفانی سے عالم باقی کی طرف کوچ کرگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ خبر سوشل میڈیا کے ذریعہ بہت تیزی سے وائرل ہوئی جو عالم اسلام سمیت ہندوستان بھر کے مدارس اسلامیہ ، ملی تنظیموں و ملت اسلامیہ کے لئے گہرے صدمہ کاباعث بنی، بڑی تعداد میں اطراف و دور دراز سے علماء،طلباء اور عوام نماز جنازہ میں شرکت کے لئے دیوبند پہنچے ۔ مولانا مرحوم کے رخصت ہوجانے کے بعد ان کی قیمتی اور گرانقدر دینی،ملی ،تعلیمی،اصلاحی اور تربیتی خدمات کے اعتراف میںمتعدد مدارس و مکاتب میں قرآن خوانی اور دعاء و ایصال ثواب کا اہتمام کیاگیا،مولانا کے انتقال پر ملک و بیرون کی نامور شخصیات بشمول متکلم اسلام مولانا الیاس گھمن، مہتمم دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور، ندوۃ العلماء لکھنؤ،جمعیۃ علماء ہند وغیرہ دینی و ملی اداروںکے ذمہ داران نے گہرے رنج و الم کااظہا رکیا اور حضرت مرحو م کے انتقال کو عظیم علمی وملی خسارہ قرار دیا۔آپ کی نماز جنازہ بعد نماز عشاء احاطہ مولسری میں دارالعلوم وقف کے مہتمم اور مولانا سالم کے صاحبزادے مولانا سفیان قاسمی نے پڑھائی اور قبرستان قاسمی میںتدفین عمل میں آئی ، نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں علما وطلبا کے علاوہ ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی صدر مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند سیکڑوں مدارس دینیہ اور جامعات کے سرپرستوں میں تھے۔ حضرت مرحوم طویل عرصہ تک آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر رہے، ان کے انتقال سے ملت اسلامیہ نے اپنے ایک ایسے سرپرست کو کھو دیا ہے جو ہمیشہ کی تعمیر و ترقی کے لئے سرگرداں رہے۔ واضح رہے کہ مولانا محمد سالم قاسمی حجۃ الاسلام حضرت محمد قاسم نانوتویؒ کے حفید،حضرت مولانا محمد احمد قاسمی کے نبیرہ ،حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند اور سابق صدر آل نڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بڑے صاحبزادے تھے۔ خیال رہے کہ مولانا محمد سالم قاسمی گزشتہ تقریباً دو سال سے بستر علالت پر تھے جن کا ممبئی ،دہلی سمیت ملک کے بڑے اسپتالوںاور ڈاکٹروںکے یہاں علاج چل رہاتھا۔خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی خانواد قاسمی کے گل سر سبد اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب کے خلف اکبر و جانشین اور دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم اور اس کے صدر مہتمم رہے ۔نیز حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی کے صحبت یافتہ:رابع حسنی ندوی کا بھی ہے، جو ہدایہ کے سبق میں ان کے ساتھ تھے، ان کے معاصرین اور رفقاء تعلیم میں حضرت مولانا اسعد مدنی اور مولانا عتیق الرحمن بن مولانا محمد منظور نعمانی وغیرہ شامل ہیں۔آپ کی ولادت بروز جمعہ بتاریخ ۲۲ جمادی الثانی۱۳۴۴ھ مطابق ۸ جنوری ۱۹۲۶ ء کو دیوبند میں ہوئی۔مولانا سالم قاسمی کی بسم اللہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے فرمائی، اس طرح آپنے تعلیمی مراحل کے تحت 1948ء میں فراغت حاصل کی، آپ کے دورہ حدیث شریف کے اساتذہ میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، جامع المعقول و المنقول حضرت مولانا ابراہیم صاحب بلیاوی اور حضرت مولانا سید فخر الحسن صاحب  وغیرہ ہیں۔تعلیمی مراحل سے فراغت کے فوراً بعد ہی دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس مقر ر ہوئے اور ابتداء ً نورالایضاح اور ترجمہ قرآن کریم کا درس آپ سے متعلق رہا، پھر بعد میں بخاری شریف، ابوداؤد شریف، مشکوٰۃ شریف، ہدایہ، شرح عقائد وغیرہ کتابیں آپ سے متعلق رہیں،۳۰۴۱ھ مطابق  1982ء  میں دار العلوم میں پیدا ہونے والے اختلاف کے بعد آپ نے اپنے رفقاء کے تعاون سے دار العلوم وقف کے نام سے دوسرا دار العلوم قائم کر لیا، جس کے شروع سے مہتمم اور اب صدر مہتمم تھے، ساتھ ہی بخاری شریف کی تدریسی خدمات کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں۔ مولانا محمد سالم نے بیعت و ارادت کا تعلق حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری سے قائم کیا، لیکن اصلاح و تربیت اپنے والد ماجد حضرت مولانا قاری طیب صاحبؒ سے لی، اور ان کے مجازِ بیعت و ارشاد ہو کر ان کے متوسلین اور خلفاء کی تربیت فرمائی۔مولانا کے سلوک و ارشاد میں تربیت و اجازت پانے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، اجازت یافتہ حضرات کی تعداد ۰۰۱ سے متجاوز ہے۔آپ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ماضی میں رکن مجلس عاملہ اور اب نائب صدر،سرپرست دار العلوم وقف دیوبند، صدر مجلس مشاورت،رکن مجلس انتظامیہ و شوریٰ ندوۃ العلماء لکھنؤ،رکن مجلسِ شوریٰ مظاہر العلوم وقف، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کورٹ کے رکن، سرپرست کل ہند رابط مساجد، سرپرست اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا سمیت دیگر ہزاروں دینی ادروں کے سرپرست تھے۔ آپ کو مصری حکومت کی طرف سے برِّصغیر کے ممتاز عالم کا نشانِ امتیاز کے علاوہ مولانا قاسم نانوتوی ایوارڈ۔ حضرت شاہ ولی اللہ ایوارڈ۔اور بہت سے انعامات و اعزازات سے آپ کو نوازا جاچکا ہے۔مولانامحمد سالم قاسمی جماعت قاسمی کی عظیم شخصیت تھیں ۔انہوںنے پوری زندگی دین اور انسانیت کی خدمت میںگذاری ،وہ دارالعلوم وقف کے مہتمم اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے طویل عرصہ سے نائب صدر تھے۔ان کی شخصیت بہت اونچی تھی،جہاں جہاں بھی قاسمی افراد موجود ہیں وہاں وہاں ان کانام مشہور تھا اور عام لوگوںکے درمیان بھی ان کی خدمات کا اعتراف کرنے والے لاکھوں لوگ موجودرہیں۔مولانا سالم قاسمی نے تقریباً 94؍ سال کی عمر پائی ،پوری دنیامیں وہ قاسمی تاریخ ،قاسمی مزاج،قاسمی فکر اور قاسمی خدمات کے بڑے ترجمان تھے۔ بلکہ کہناچاہئے کہ آخری ترجمان تھے۔ ساٹھ سال سے زائد انہوں نے دارالعلومدیوبند اور دارالعلوم وقف میں بحیثیت استاذ حدیث و تفسیر شہرت حاصل کی اور پوری علمی دنیا میں ان کا نام گونجا،آج جہاں جہاں بھی اورجس جگہ بھی قاسمیت کے چراغ روشن ہیں وہ انہیں کے خاندان کے اور ان کے ہی بڑوں کا فیض ہے۔ لاکھوں مدارس ان کی یادگار ہیں ،جو نقصان انکے جانے سے ہوا ہے وہ ہمیشہ رہے گا اسلئے اب ان جیسا دوسرا انسان پیدانہیں ہوگا۔آپ کے چار صاحب زادے ہیں، محمد سلمان قاسمی مقیم پاکستان، مولانا محمد سفیان قاسمی مہتمم دار العلوم وقف دیوبند، محمد عدنان قاسمی، حافظ محمد عاصم قاسمی چیرمین طیب ٹرسٹ دیوبند اور دو صاحب زادیاں، اسماء اعجاز اور محترمہ عظمی ناہیدکے علاوہ  نبیرہ میں مولاناشکیب قاسمی اور بڑا کنبہ ہے۔  حضرت مولانا محمد سالم صاحبؒ کے مریدین ومتوسلین کی تعداد بھی لاکھوں سے متجاوز ہے، تقریباً سو اصحاب علم کو خلافت سے نوازا، حضرت مولانا سالم قاسمیؒ اپنے جد امجد حضرت نانوتویؒ کے علوم ومعارف کے امین وترجمان تھے، ان کی ہر مجلس ان کے ذکر سے معمور رہتی تھی، درسی تقریروں میں اور علمی مجالس میں حضرت کی زبان گہر بار سے فیوض قاسمیہ کی اشاعت کا سلسلہ لگ بھگ ستر برس تک جاری رہا، افسوس ۱۴/ اپریل ۲۰۱۸ء بروز شنبہ دن کے ۲ بج کر ۱۵ منٹ پر حضرت اپنے لاکھوں شاگردوں اور مریدوں کو بہ طور خاص دونوں دار العلوم کے ہزاروں طلبہ اور اہل دیوبند کو غمزدہ چھوڑ کر رخصت ہوگئے ۔ پاکستان میں فکر دیوبند کے ترجمان متکلم اسلام مولانا الیاس گھمن نے اپنے تعزیتی بیان میں کہاکہ اللہ مولانا مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے ، ان کے جامعہ دارالعلوم وقف کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ انہوں نے دارالعلوم کے طلبہ و اساتذہ اہل خانہ سے اظہارتعزیت کی اور اپیل کی کہ وہ مولانا محترم کے لیے ایصال ثواب کے عمل کو مسلسل جاری رکھیں۔

No comments:

Post a Comment