مولانا انوارالحق صادق صاحب کون ہیں؟
یہ وہی مولانا انوارالحق صادق صاحب ہیں جن پہ پچھلے سال ایک عورت کے ریپ کا الزام عائد کیا گیا تھا اور ایک ویڈیو کلپ بھی سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی تھی مولانا کے ہی ایک دوست نے اپنے گھر پر دعوت کے بہانے بلایا اور کھانے میں کوئی نشہ آور چیز دیکر ویڈیو بنائی تھی. ویڈیو میں ایک عورت برہنہ چلتی پھرتی دکھائی دی ہے بس اور کچھ نہیں، مولانا کے ساتھ مارپیٹ ہوتی دکھائی دی ہے پولس میں ایف آئی آر درج ہوئی، مولانا گرفتار بھی ہوئے. بجنور کے سنگھی غیر مسلموں نے مٹھائی بانٹی اور غریب عوام نے آنسو بھی بہائے آنسو بہانے والوں میں غیر مسلم دلت بھی تھے. عید کے موقع پر جیل میں بند غریب قیدیوں کو بنا ہندو مسلم تفریق کے کپڑوں کی ایک کٹ دیا کرتے تھے. غریب عوام کے لئے ہر وقت ہر طرح کی مدد کے لئے تیار رہتے تھے. پرشاسن تک غریب آدمی پہ جلدی سے ہاتھ نہیں ڈالتا تھا تب یہ سب کچھ ہوا ہے اور یہ سب بجنور کے ہی ایک عالم کے اشارے پر ہوا. نام ہے مولانا فرقان مہربان مدنی حالانکہ دارالعلوم دیوبند سے بھی فارغ ہیں لیکن قاسمی نہیں لکھتے پتہ نہیں نسبت قاسمی سے کیا چڑ ہے، اللہ بہتر جانے لیکن دارالعلوم دیوبند کے طرز تعلیم پر انگلی ضرور اٹھاتے ہیں. دارالعلوم کے نصاب تعلیم میں شامل علم منطق کے خلاف پوری ایک کتاب لکھ دی ہے حضرت نے. خیر... چونکہ وہ ایک بہت امیر شخص ہیں، ان کا بہت بڑا مدرسہ ہے، سعودی حکومت سےاچھے تعلقات ہیں، امام حرم ماضئ قریب میں جب دارالعلوم دیوبند کےدورے پر آئے تھے تو اس وقت بنا شیڈول کے امام حرم کو اپنے مدرسہ میں یعنی بجنور لاچکے ہیں. سعودی حکومت جب بھی کوئی ایسا کام کرتی ہے جس سے علماء حق بے چینی ہوتی ہے، تب یہی عالم صاحب سعودی حکومت کی تمام اچھی بری پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں، اخبارات میں لمبے لمبے مضامین لکھ کر پیسہ پانی کی بہاتے ہیں کیونکہ پیسے کی کمی نہیں ہے...
مولانا انوارالحق صاحب مولانا سلمان ندوی صاحب کی جمعیت شباب الاسلام مغربی یوپی کے سکریٹری تھے. ضلع بجنور اور اطراف میں کوئی بھی جلسہ وغیرہ ہو، لوگ بہت شوق سے ان کو شرکت کی دعوت دیتے اور یہ شرکت بھی کرتے تھے. نوجوان ہیں اس لئے تقریر میں انقلابی رنگ ہوتا ہے دینی. دنیاوی اور سماجی طور پر پر لوگوں میں اچھا اثر ہوتا تھا دو تین سال میں ہی مولانا انوارالحق صاحب نے لوگوں کے دلوں میں وہ جگہ بنالی تھی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے.... بس یہی چیز مولانا فرقان مدنی صاحب کو ہضم نہیں ہوئی.
دو سال پہلے بجنور کی سر زمین پر ایک بہت بڑا تبلیغی اجتماع ہوا تھا. تین روزہ اس اجتماع کی دیکھ بھال بھی مولانا انوارالحق صاحب ہی کررہے تھے دوران اجتماع مولانا انوارالحق کو خبر ملی کہ مولانا فرقان مدنی کے مدرسے کے لڑکے مفت میں کچھ کتابیں اور بمفلٹ اجتماع میں آئے ہوئے لوگوں کو بانٹ رہے ہیں مولانا انوارالحق نے اسٹیج سے ہی اعلان کیا کہ یہ کتابیں بمفلٹ جس نے بھی لیں ہوں وہ اسٹیج پر لاکر جمع کردیں. دراصل اس طرح کی کتابیں یہ لوگ ہر چھوٹے بڑے جلسےمیں بانٹتے تھے کوئی بھی مولانا فرقان مدنی سے الجھنا بہتر نہیں سمجھتا تھا. مولانا انوارالحق سیدھے ٹکرا گئے اور ہر جلسہ میں اپنی تقریروں میں لوگوں کو بتایا کہ ان کتابوں کے ذریعہ یہ لوگ سلفی مسلک کی جڑیں بجنور شہر میں جمانا چاہتے ہیں، بس اجتماع والی بات مولانا فرقان مدنی کو ہضم نہیں ہوئی اور انھوں نے مولانا انوارالحق کو راستے سے ہٹانے کی ٹھان لی ایک سال کے اندر اندر مولانا انوارالحق پر ریپ کا الزام لگوادیا. ویڈیو کلپ بھی عام کروادی لیکن ویڈیو کو جس نے بھی دیکھا اس نے یہی کہا کہ مولانا انوارالحق کو شازش کے تحت پھنسانے کی کوشش کی گئی ہے. مولانا فرقان مدنی نے میڈیا کو پیسہ پانی کی طرح بہاکر ہندی اخبارات میں روز نئے نئے فتنے پیدا کروائے پھر یہ کہا گیا کہ بجنور کے تمام علماء مولانا انوارالحق کی غلطی بتارہے ہیں.
جیل سے آنے کے بعد مولانا انوارالحق صاحب نے جامع مسجد چاہ شیریں کی امامت سے بھی استعفی دیدیا کیونکہ چند دنیاوی تعلیم سے آراستہ لوگوں نے اس بات کی مخالفت کی تھی کہ مولانا اب ہماری مسجد میں امامت نہ کریں لیکن عوام یہ چاہتے تھے کہ مولانا انوارالحق اسی مسجد میں امامت کروائیں، چاہے کچھ ہوجائے اس پہلے کہ کچھ گڑبڑ ہو، مولانا نے خود ہی لوگوں کو سمجھاکر اور تسلی دیکر خود استعفی دیدیا.
جیل سے آنے کے بعد مولانا انوارالحق صاحب نے جامع مسجد چاہ شیریں کی امامت سے بھی استعفی دیدیا کیونکہ چند دنیاوی تعلیم سے آراستہ لوگوں نے اس بات کی مخالفت کی تھی کہ مولانا اب ہماری مسجد میں امامت نہ کریں لیکن عوام یہ چاہتے تھے کہ مولانا انوارالحق اسی مسجد میں امامت کروائیں، چاہے کچھ ہوجائے اس پہلے کہ کچھ گڑبڑ ہو، مولانا نے خود ہی لوگوں کو سمجھاکر اور تسلی دیکر خود استعفی دیدیا.
دنیا کے اندر مسلمانوں پر ہونے والی کسی کسی بھی ظلم وزیادتی ناانصافی اور اہانت رسول کے خلاف بجنور سے کوئی آواز اٹھتی تھی تو وہ مولانا انوارالحق کی قیادت میں اٹھتی تھی پورے وجود کے ساتھ اٹھتی تھی.
اس اشتہار کے اندر ان لوگوں کے نام بھی ہیں جو عالم نہیں ہیں لیکن قوم کی ایک بااثر شخصیت ضرور ہیں اور مولانا انوارالحق کے ساتھ ہر طرح کی مدد کے لئے تیار رہتے ہیں کچھ ایسے علماء کے نام بھی اس اشتہار میں شامل ہیں جو ریپ کی شازش سے پہلے مولانا انوارالحق صاحب کے خلاف ہوا کرتے تھے اللہ کرے کہ دیوبند کہ ان جیالوں میں آئندہ کوئی اختلاف نہ ہو اور باطل کو پتہ چلے کہ حق متحد ہے
سب لوگوں کو ساتھ لانے کی وجہ سے شاید اشتہار طویل ہوگیا ہو،
سب لوگوں کو ساتھ لانے کی وجہ سے شاید اشتہار طویل ہوگیا ہو،
حضرات لکھنا نہیں آتا اس لیے کوئی غلطی نظر آئے تو طالب علم سمجھ کر نظر انداز کردینا!
حافظ شاہ عالم
صدوپورہ، ضلع بجنور، یو پی
.......................
https://youtu.be/NO0_XXnXY2M
علما کی بستی کے نام سے مشہور
ضلع بجنور کا مشہور و معروف گاؤں تھے پور
جس نے حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رحمہ اللہ علیہ جیسے ولی اور حضرت مولانا شیخ نسیم غازی رحمہ اللہ علیہ جیسے محدث و مصنف پیدا کئے اسی مبارک اور خوش نصیب بستی میں جب شریک حلقہ شیر بجنور حضرت مولانا انوار الحق صادق صاحب رہائی کے بعد کسی کام سے گئے تو تھے پور کے نوجوان علما نے پرزور استقبال کیا. پورا تھے پور تکبیر کے نعروں سے جھوم اٹھا. بچے بوڑھے جوان سب سڑک پر اتر آئے حتی کہ مولانا کو کاندھوں پر اٹھالیا ، ان یادگار لمحات کا آپ بھی بذریعہ یوٹیوب ملاحظہ فرمائیے
ضلع بجنور کا مشہور و معروف گاؤں تھے پور
جس نے حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رحمہ اللہ علیہ جیسے ولی اور حضرت مولانا شیخ نسیم غازی رحمہ اللہ علیہ جیسے محدث و مصنف پیدا کئے اسی مبارک اور خوش نصیب بستی میں جب شریک حلقہ شیر بجنور حضرت مولانا انوار الحق صادق صاحب رہائی کے بعد کسی کام سے گئے تو تھے پور کے نوجوان علما نے پرزور استقبال کیا. پورا تھے پور تکبیر کے نعروں سے جھوم اٹھا. بچے بوڑھے جوان سب سڑک پر اتر آئے حتی کہ مولانا کو کاندھوں پر اٹھالیا ، ان یادگار لمحات کا آپ بھی بذریعہ یوٹیوب ملاحظہ فرمائیے
پیشکش : بے باک آوازbebaak aawaaz یوٹیوب چینل
..........................
http://saagartimes.blogspot.in/2018/04/blog-post_25.html?m=1
No comments:
Post a Comment