Thursday, 19 April 2018

دوران وضو دعاؤں کی حیثیت وثبوت ؟

دوران وضو دعاؤں کی حیثیت وثبوت ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سلسلہ نمبر 1768 )

حضرات مفتیان کرام سے
وضو میں ہر اعضاء کے دھوتے وقت جو کتابوں میں دعائیں مکتوب ہیں وہ بدعت ہیں یا جائز یا مسنون ومستحب؟جواب فوری اور باحوالہ مطلوب ہے چوں کہ ایک صاحب مسجد میں لگانے کے لیے بدعت کا پوسٹر لئے کھڑے ہیں
سراج اکرم ہاشمی مقیم افریقہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
وضو کے بارے میں سنت یہ ہے کہ شروع میں "بسم اللہ" پڑھی جائے۔ (سنن النسائی، الطھارۃ باب التسمیہ عند الوضوء ح 78)
اور وضو کے اختتام پر نبی ﷺ سے ثابت شدہ ذکر: "أشھد أن لا إلہ إلا اللہ و حدہ لا شریک لہ، و اشھد ان محمداً عبدہ و رسولہ" پڑھیں۔ (صحیح مسلم، الطھارۃ باب الذکر المستحب عقب الوضوء ح 234)
اس کے علاوہ بعض
فقہی کتابوں میں دوران وضو ہر عضو کے دھونے کے بعد مختلف دعائیں  بھی پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے ۔مثلا شامی وکبیری وغیرہ میں ہے :
والدعاء بالوارد عند کل عضو ، فیقول بعد التسمیۃ عند المضمضۃ :اللہم اعنی علی تلاوۃ القرآن وذکرک وشکرک وحسن عبادتک ، وعند الاستنشاق :اللہم أرحنی رائحۃ الجنۃ ولا ترحنی رائحۃ النار ،وعند غسل الوجہ : اللہم بیض وجھی یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ ، وعند غسل یدہ الیمنی :
اللہم اعطنی بیمینی وحاسبنی حسابا یسیرا ، وعند الیسری : اللہم لا تعطنی کتابی بشمالی ولا من وراء ظہری ، وعند مسح رأسہ :اللہم أظلّنی تحت عرشک یوم لاظلّ الا ظلّ عرشک ، وعند مسح اذنیہ : اللہم اجعلنی من الذین یستمعون القول فیتّبعون أحسنہ ، وعند مسح عنقہ : اللہم أعتق رقبتی من النار ، وعند غسل رجلہ الیمنیٰ : اللہم ثبت قدمی علی الصراط یوم تزلّ الأقدام ، وعند غسل رجلہ الیسریٰ : اللہم اجعل ذنبی مغفورا وسعیی مشکورا وتجارتی لن تبور۔(شامی ۱/ ۱۲۷،الدرر ۱/ ۱۲،فتاوی ہندیہ ۱/ ۹ ،کبیری ص ۳۱)۔

لیکن واضح رہے کہ اس طرح کی دعائیں جن روایات سے ثابت ہیں ان کے رواة متکلم فیہ ہیں ۔علماء اصول حدیث کے نزدیک وہ رواة  حد درجہ ضعیف ہیں ۔۔۔لیکن واضع حدیث نہیں ہیں ۔
لیکن فضائل کے باب میں ضعف چونکہ قابل تحمل ہے۔اس لئے
اہتمام کے بغیر  اور مسنون سمجھے بغیر کبھی کبھار یہ دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں ۔
یہ دعائیں مسنون نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ مباح یا مستحب ہوسکتی ہیں ۔
علامہ نووی وغیرہ نے ایسی دعائوں کو بالکل ہی بے اصل کہا ہے ۔
حافظ ابن حجر نے امام ابن الصلاح سے نقل کیا کہ "اس بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں ہے" (التلخیص الحبیر:110/1)
٭امام نووی نے کہا: "اس کی کوئی اصل نہیں ہے" (المجموع شرح المھذب:489/1)
انہوں نے اپنی دوسری کتاب "الاذکار" (ص 57) میں فرمایا: "اعضائے وضو پر دعا کے بارے میں نبی ﷺ سے کوئی (ثابت و باسند) حدیث نہیں آئی ہے۔"
٭شیخ الاسلام ابن القیم نے"المنار المنیف" (ص 120) میں کہا: "اعضائے وضو پر ذکر (اور دعاؤں) والی تمام احادیث باطل ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔"
٭ امام  ابن جوزی فرماتے ہیں : "یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔ " (العلل المتانھیۃ:339/1)

کنز العمال وغیرہ میں اس سند کے رواة پہ بھی کلام کیا گیا ہے :
عن الحسن عن علیؓ قال علمنی رسول اﷲاثواب الوضوء فقال: یا علی اذا قدمت وضوء ک فقل بسم اﷲ العظیم والحمدﷲعلی الاسلام ، فاذا غسلت فرجک فقل :اللہم حصن فرجی واجعلنی من التوابین …الخ (ابو القاسم بن مندہ فی کتاب الوضوء والدیلمی، والمستغفری فی الدعوات ،وابن النجار، قال الحافظ ابن عساکرفی امالیہ:ہذا حدیث غریب ورواتہ معروفون لکن فیہ خارجہ بن مصعب ترکہ الجمہور وکذبہ ابن معین وقال حب ( ابن حبان فی صحیحہ ) کان یدلس عن الکذا بین احادیث رووہا عن الثقات الذین لقیہم فوقعت الموضوعات فی روایتہ ۔ (کنز العمال ۹/ ۴۶۶/ ۲۶۹۹۰)
کنز العمال میں ہے :
وعن أبی اسحاق السبیعی رفعہ الی علی ابن ابی طالبؓ علمنی رسول اﷲاکلمات اقولہن عند الوضوء فلم أنسہن کان رسول اﷲااذا اتی بماء فغسل یدیہ قال :بسم اﷲ العظیم والحمد ﷲعلی الاسلام …الخ۔
المستغفری فی الدعوات، واوردہ ابن دقیق فی ا لاقتراح وقال: أبو اسحاق عن علی منقطع وفی اسنادہ غیر واحد یحتاج الی معرفتہ والکشف عن حالہ، قال ابن الملقن فی تخریج احادیث الوسیط وہو کما قال فقد بحثت عن أسمائہم فی کتب الأسماء فلم أر الا أحمد بن مصعب المروزی قال فی اللسان :ہو متہم بوضع الحدیث والراوی عنہ ابو مقاتل سلیمان بن محمد بن الفضل ضعیف۔( کنز العمال ۹/ ۴۶۷ / ۲۶۹۹۱)
نیزکنز العمال میں ہے :
عن محمد ابن الحنفیۃ قال : دخلت علی والدی علی بن ابی طالبؓ واذا عن یمینہ اناء من ماء فسمی ثم سکب علی یمینہ ثم استنجی وقال : اللہم حصن فرجی واستر عورتی ولا تشمت بی الاعداء، ثم تمضمض واستنشق وقال …الخ۔ (کذا فی أمالیہ وفیہ اصرم بن حوشب کان یضع الحدیث ) (کنز العمال ۹/ ۴۶۸ / ۲۶۹۹۲)

علامہ شامی فرماتے ہیں :
وفي هذاالبحث من العلائية قال محقق الشافعية الرملي فيعمل به في فضائل الاعمال وإن انكره النوي (فائده ) شرط العمل بالحديث الضعيف عدم شدة ضعفه وإن يدخل تحت اصل عام وأن لا يعتقد سنية ذالك الحديث (رد المحتار ص119 ج 2 )

اس لئے سنت سمجھے بغیر ان دعائوں کو پڑھنے کی گنجائش ہے۔ہاں  مسنون سمجھ کے باضابطہ ان کا اہتمام کرنا درست نہیں ۔واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
2 شعبان 1439 ہجری

No comments:

Post a Comment