نافرمان بیٹے کو جائیداد سے محروم کرنا
-----------------------------
سلسلہ نمبر
-----------------------------
سلسلہ نمبر
(1784)
سوال:
کیا باپ اپنی اولاد میں سے کسی کو وراثت سے محروم کرسکتا ہے؟
اگر کرسکتاہے تو وجوہ کیا ہونگے؟
-----------------------
کیا باپ اپنی اولاد میں سے کسی کو وراثت سے محروم کرسکتا ہے؟
اگر کرسکتاہے تو وجوہ کیا ہونگے؟
-----------------------
الجواب وباللہٰ التوفیق:
بلاوجہ اولاد کو یا کسی بھی وارث کو بعد موت اپنے مال ومتاع یا جائیداد وزمین سے محروم کردینے کی زبانی یا تحریری وصیت کرنا حرام وناجائز ہے۔ اور شرعا اس محرومی کا (جسے عرف عام میں عاق کرنا کہا جاتا ہے) کوئی اعتبار نہیں ہے۔ عاق کیا جانے والا شخص بدستور اپنے حصہ شرعی کے مطابق وارث ہوگا۔
بلاوجہ اولاد کو یا کسی بھی وارث کو بعد موت اپنے مال ومتاع یا جائیداد وزمین سے محروم کردینے کی زبانی یا تحریری وصیت کرنا حرام وناجائز ہے۔ اور شرعا اس محرومی کا (جسے عرف عام میں عاق کرنا کہا جاتا ہے) کوئی اعتبار نہیں ہے۔ عاق کیا جانے والا شخص بدستور اپنے حصہ شرعی کے مطابق وارث ہوگا۔
حدیث میں ایسے شخص پہ وعید آئی ہے:
عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: من قطع میراث وارثہ، قطع اللّٰہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ۔ (مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع / باب الوصایا، الفصل الثالث ۲۶۶، وکذا في سنن ابن ماجۃ، کتاب الوصایا / باب الحیف في الوصیۃ ۱۹۴ رقم: ۲۷۰۳ دار الفکر بیروت)
’’جو شخص اپنے وارث کی میراث قطع کرے گا تو اللہ تعالیٰ جنت میں اُس کی وراثت میں سے قطع کرے گا‘‘۔
لیکن اگر لڑکا والدین کا فرمان وگستاخ ہو، فسق وفجور اور امور معصیت کا عادی ہو تو اگر مورث اپنی زندگی ہی میں اپنی تمام جائیداد ورثاء، رشتہ داروں یا دیگر میں تقسیم کرکے مالکانہ قبضہ دلادے اور نافرمان بیٹے کو بوجہ عقوق حصہ سے محروم کردے تو امید ہے کہ اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ کیونکہ وراثت بعد موت جاری ہوتی ہے۔یہاں اس نے حین حیات اپنے مالکانہ اختیارات استعمال کئے ہیں جو بالکل جائز ودرست ہے۔
ولو کان ولدہ فاسقًا فأراد أن یصرف مالہ إلی وجوہ الخیر ویحرمہ عن المیراث ہٰذا خیر من ترکہ؛ لأن فیہ إعانۃ علی المعصیۃ ولو کان ولدہ فاسقًا لا یعطی لہ أکثر من قوتہ۔ (البحر الرائق ۷؍۲۸۸ زکریا، کذا في فتاویٰ قاضي خان علی الفتاویٰ الہندیۃ / فصل في ہبۃ الوالد لولدہ ۳؍۲۷۹ زکریا)
(مستفاد: امداد الفتاویٰ ۴؍۳۱۷۔
امداد المفتین صفحہ 848)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
8 شعبان 1439 ہجری
............
http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/9976
’’جو شخص اپنے وارث کی میراث قطع کرے گا تو اللہ تعالیٰ جنت میں اُس کی وراثت میں سے قطع کرے گا‘‘۔
لیکن اگر لڑکا والدین کا فرمان وگستاخ ہو، فسق وفجور اور امور معصیت کا عادی ہو تو اگر مورث اپنی زندگی ہی میں اپنی تمام جائیداد ورثاء، رشتہ داروں یا دیگر میں تقسیم کرکے مالکانہ قبضہ دلادے اور نافرمان بیٹے کو بوجہ عقوق حصہ سے محروم کردے تو امید ہے کہ اس سے کوئی مواخذہ نہ ہوگا۔ کیونکہ وراثت بعد موت جاری ہوتی ہے۔یہاں اس نے حین حیات اپنے مالکانہ اختیارات استعمال کئے ہیں جو بالکل جائز ودرست ہے۔
ولو کان ولدہ فاسقًا فأراد أن یصرف مالہ إلی وجوہ الخیر ویحرمہ عن المیراث ہٰذا خیر من ترکہ؛ لأن فیہ إعانۃ علی المعصیۃ ولو کان ولدہ فاسقًا لا یعطی لہ أکثر من قوتہ۔ (البحر الرائق ۷؍۲۸۸ زکریا، کذا في فتاویٰ قاضي خان علی الفتاویٰ الہندیۃ / فصل في ہبۃ الوالد لولدہ ۳؍۲۷۹ زکریا)
(مستفاد: امداد الفتاویٰ ۴؍۳۱۷۔
امداد المفتین صفحہ 848)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
8 شعبان 1439 ہجری
............
http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/9976
No comments:
Post a Comment