سوال: مفتی صاحب فرمائیے گا کہ وسیلے کی کیا حقیقت ہے اور حضور صلی الله علیه وسلم کی ذات کا وسیله دے کر یا کسی اور نیک هستی کی ذات کے توسل سے دعا مانگنا یا اپنی کسی نیکی کے توسل سے دعا مانگنا کیسا هے؟
كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ
ہم تیرے پاس وسیلہ لاتے تھے
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب کبھی عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعاء کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ (انس رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ پھر بارش خوب برسی
صحیح بخاری: 1010
اللہ کے اسماء و صفات کا وسیلہ (جس کی وضاحت پہلے گزر چکی ہے) کے بعد۔۔۔ نیک و صالح زندہ انسان کی دعاء کا وسیلہ، یہ بھی دعاء کے شرعی وسائل* میں سے ایک ہے
فوت شدہ کی قبر کے پاس جا کر یا دور سے اس کو دعاء کیلئے وسیلہ بنانا حرام ہے۔ کیونکہ اگر ایسا جائز ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر آپ کے چچا کا دعاء کیلئے وسیلہ کیونکر پکڑتے
مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ اس مسئلہ میں واضح ہیں کہ آج جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ خاکی اپنی قبر میں موجود ہے، ہم آپ کے وسیلہ سے دعاء نہیں کرسکتے۔ لیکن کسی بھی زندہ انسان سے دعاء کی درخواست کر سکتے ہیں
واللہ تعالیٰ اعلم
.................................................
توسل بالنبي صلى الله عليه وسلم بعد وفاته
...................................................
از : شکیل منصور القاسمی
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیوی اعتبار سے وفات پاچکے ہیں؛ لیکن اپنی قبرِ اطہر میں اعلیٰ درجہ کی برزخی حیات کے ساتھ تشریف فرما ہیں، اور قبر میں اس خاص برزخی حیات کا ثبوت اس سے ہوتا ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’جو شخص دور سے مجھ پر درود بھیجتا ہے تو فرشتے مجھ تک پہنچاتے ہیں، اور جو میری قبر پر آکر درود پڑھتا ہے تو میں خود اسے سن کر جواب دیتا ہوں‘‘۔ اگر آپ کو برزخی حیات حاصل نہ ہوتی تو آپ سن کر کیسے جواب دیتے؟ الغرض آپ کی وفات عنصری ہے، اور حیات برزخی؛ لہٰذا دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں:
عن أوس بن أوس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: فأکثروا علي من الصلوٰۃ فیہ فإن صلاتکم معروضۃ عليّ، فقال رجل یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم! وکیف تعرض صلاتنا علیک وقد أرمت؟ قال: یقولون بلیت، قال: إن اللّٰہ عزوجل قد حرّم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء علیہم السلام۔ (سنن ابن ماجۃ ۷۶، سنن أبي داؤد ۱؍۱۵۰، سنن النسائي ۱؍۲۰۳)
عن أبي الدرداء رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: اکثروا الصلوٰۃ عليّ فإنہ شہود وتشہدہ الملائکۃ وإن أحداً لن یصلي علي إلا عرضت علي صلاتہ حتی یفرغ منہا، قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: وبعد الموت إن اللّٰہ تعالیٰ حرّم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء فنبي اللّٰہ حیي یرزق۔ (سنن ابن ماجۃ ۱۱۸)
حضرات صحابہ کابعدوصال نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام الیٰ یوم القیام کے حضرت عباس ؓ سے استسقاء میں توسل کرناہرگز اس امرپردال نہیں کہ بعد وصال کے حضور ﷺسے توسل فی الدعاء ممنوع ہوگیا تھا اگر کسی کودعویٰ ہے تو دلالۃ النص وعبارۃ النص یا اشارۃ النص واقتضاٗ النص کے طریق سے کسی طریقہ سے ثابت کرے کہ یہ حدیث اس امرپرکیونکردال ہے، بلکہ اگرغورکیاجائے توخوداس واقعہ میں بھی توسل بسیدالرسل تھا، کیونکہ حضرت عمرؓ کے الفاظ یہ ہیں اللھم انانتوسل الیک بعم نبیک وصنوابیہ، یہاں بھی درحقیقت حضور ہی سے توسل تھا، حضرت عباسؓ کواس توسل بالنبی کی تقویت کیلئے آگے کیاتھا،
دوسرے حدیث توسل آدم علیہ السلام بسیدنا النبی محمد صحیح سند سے ثابت ہے جو مرفوع ہے، قال القسطلانی ؒ فی المواھب اللدنیۃ وقدصح ان رسول اللہ ا قال لمااقترف اٰ دم الخطیئۃ قال یارب اسئلک بحق محمد ا لماغفرت لی الخ (ص ۵۱۵ج۲) اور بیہقی نے بھی دلائل النبوۃ میں بسندصحیح اس کوروایت کیاہے، صرح بہٰ السید احمدد حلان فی الدررالسنیۃ (ص ۷) وقال الشیخ تقی الدین السبکی ؒ بعد روایۃ ہذاالحدیث اخرجہ الحاکم وقال ھذا احدیث حسن صحیح الاسنادولم یخرجاھ کذافی العجالۃ الجمیلۃ ببعض مصنفی العصر (ص۳۳) والمستدرک موجود عندنا فلعلنانظفرفیہ بعدالتتبع ، پس انبیاء واولیاء کے ساتھ توسل جائز ہے، ہاں استعانۃ جائز نہیں اور جن لوگوں نے توسل بالانبیاء والاولیاء کو ممنوع کہا ہے، انہوں نے توسل واستعانۃ میں فرق نہیں سمجھا،
وفی روح ا لمعانی (۲۳۰/۱): ’’وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا‘‘ نزلت فی بنی قریظۃ والنضیرکانوا یستفتحون علی الاوس والخزرج برسول اﷲﷺ قبل مبعثہ۔قالہ ابن عباس رضی اﷲ عنھما وقتادۃ والمعنی یطلبون من اﷲ تعالی أن ینصرھم بہ علی المشرکین ، کما روی
السدی انھم کانوا اذا اشتد الحرب بینھم وبین المشرکین اخرجوا التوراۃ ووضعوا بین ایدیھم علی موضع ذکر النبیﷺ وقالوا اللھم انا نسألک بحق نبیک الذی وعدتنا ان تبعثہ فی آخر الزمان ان تنصرنا الیوم علی عدونا فینصرون۔
وفی الصحیح لمسلم (۳۵۳/۲): عن عبد الله بن عمرؓ عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنه قال بينما ثلاثة نفر يتمشون أخذهم المطر فأووا إلى غار فى جبل فانحطت على فم غارهم صخرة من الجبل فانطبقت عليهم فقال بعضهم لبعض انظروا أعمالا عملتموها صالحة لله فادعوا الله تعالى بها لعل الله يفرجها عنكم. فقال أحدهم اللهم إنه كان لى والدان شيخان كبيران وامرأتى ولى صبية صغار أرعى عليهم فإذا أرحت عليهم حلبت فبدأت بوالدى فسقيتهما قبل بنى وأنه نأى بى ذات يوم الشجر فلم آت حتى أمسيت فوجدتهما قد ناما فحلبت كما كنت أحلب فجئت بالحلاب فقمت عند رءوسهما أكره أن أوقظهما من نومهما وأكره أن أسقى الصبية قبلهما والصبية يتضاغون عند قدمى فلم يزل ذلك دأبى ودأبهم حتى طلع الفجر فإن كنت تعلم أنى فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا منها فرجة نرى منها السماء. ففرج الله منها فرجة فرأوا منها السماء. وقال الآخر اللهم إنه كانت لى ابنة عم أحببتها كأشد ما يحب الرجال النساء وطلبت إليها نفسها فأبت حتى آتيها بمائة دينار فتعبت حتى جمعت مائة دينار فجئتها بها فلما وقعت بين رجليها قالت يا عبد الله اتق الله ولا تفتح الخاتم إلا بحقه. فقمت عنها فإن كنت تعلم أنى فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا منها فرجة. ففرج لهم. وقال الآخر اللهم إنى كنت استأجرت أجيرا بفرق أرز فلما قضى عمله قال أعطنى حقى. فعرضت عليه فرقه فرغب عنه فلم أزل أزرعه حتى جمعت منه بقرا ورعاءها فجاءنى فقال اتق الله ولا تظلمنى حقى. قلت اذهب إلى تلك البقر ورعائها فخذها. فقال اتق الله ولا تستهزئ بى . فقلت إنى لا أستهزئ بك خذ ذلك البقر ورعاءها. فأخذه فذهب به فإن كنت تعلم أنى فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا ما بقى ففرج الله ما بقى.
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
١٢/ربيع الثاني ١٤٣٨هجري
No comments:
Post a Comment