Sunday 8 April 2018

انتسابی تلبیس کی خطرناکی

انتسابی تلبیس کی خطرناکی (1761)

عمدا خلاف واقعہ چیز بیان کرنے کو جھوٹ کہا جاتا ہے۔
لیکن مطلب براری کے لئےکسی بات کو مکر، فریب، دجل، دھوکہ دہی، وتلبیس کے ساتھ اس طرح بیان کرنا بھی جھوٹ  ہی ہے جس سے دوسرے لوگ دھوکہ کھاجائیں۔
مکان، پیشہ، ادارہ اور قبائل سے انتساب کا جواز شروع سے چلا آرہا ہے۔ امت کا اس کے جواز پر اجماع ہے۔
لیکن جس طرح اپنے نسب کے غلط انتساب پہ جہنم کی وعید آئی ہے۔ اسی طرح گاؤں، قبیلہ یا ادارہ سے جھوٹے انتساب پر بھی یہی  وعید جاری ہوگی۔ جس میں "کفر اصغر" کے استحقاق کی وعید سنائی گئی ہے:

أخرج البخاري (3508) ومسلم (61) عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: (لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلا كَفَرَ، وَمَنْ ادَّعَى قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ نَسَبٌ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ).
بخاری شریف کے دونوں معاصر شارح:  علامہ عینی وعسقلانی نے اس وعید کے عموم کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک ہر تلبیسی انتساب؛خواہ نسب میں ہو یا قبائل وامکنہ میں! پر یہ وعید منطبق ہوگی۔ تحریر فرماتے ہیں :

قال ابن حجر رحمه الله: "وفي الحديث تحريم الانتفاء من النسب المعروف، والادعاء إلى غيره، وقيد في الحديث بالعلم ، ولا بد منه في الحالتين ، إثباتا ونفيا ، لأن الإثم إنما يترتب على العالم بالشيء المتعمد له" انتهى من فتح الباري (6/ 541).

وقال العيني رحمه الله: "  قَوْله: (وَمن ادّعى قوما) أَي: وَمن انتسب إِلَى قوم. قَوْله: (لَيْسَ لَهُ فيهم نسب) ، أَي: لَيْسَ لهَذَا الْمُدَّعِي فِي هَذَا الْقَوْم نسب، أَي: قرَابَة" انتهى من عمدة القاري (16/ 80).

آج کل "انتسابی تلبیس" کا جنون سر پہ سوار ہے۔ جسے دیکھو "قاسمی" مظاہری" رحمانی "مدنی" اور ازہری بنا بیٹھا ہے!
محسوس ہوتا ہے کہ غلط انتساب کی قباحت ہی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔
لوگ کسی مشہور ادارے یا گاؤں و قبیلہ سے خود کو منسوب کرتے ہیں تاکہ سامنے والوں پہ اس کا رعب قائم ہو یا اس کا علمی قد اونچا ہو۔
سو یہ "انتسابی تلبیس" ہے۔
اسناد وشیوخ میں تدلیس سے بہت زیادہ قابل نفرت عمل خاندانی وانتسابی تلبیس ہے
حقائق  خلط ملط کرکے نقائص چھپانے کو تدلیس کہتے ہیں۔
محدثین کے نزدیک اگرچہ اس کا دائرہ "تدلیس فی الاسناد" اور "تدلیس فی الشیخ" تک ہی محدود ہے۔
جبکہ تلبیس کا مفہوم تدلیس کی بہ نسبت کافی عموم لئے ہوئے ہے۔۔۔یہ ہر قسم کے دجل، فریب،  دھوکہ ، تحریف، تزییف تصحیف، اور  غلط بیانی کو شامل ہے۔
تلبیس وکذب بیانی اسلام میں منافی ایمان اور گناہ کبیرہ ہے ۔مومن سے متصور ہی نہیں  کہ وہ اس خوئے بد کا عادی ہو!

{قيل لرسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: أيكونُ المؤمِنُ جَبانًا ؟ قال: نَعَمْ ، فقيل: أيكونُ المؤمِنُ بَخيلًا ؟ قال: نَعَمْ ، فقيل له: أيكونُ المؤمِنُ كَذَّابًا ؟ قال: لا .
الراوي: صفوان بن سليم المحدث: ابن عبدالبر - المصدر: التمهيد - الصفحة أو الرقم: 16/253
خلاصة حكم المحدث: لا أحفظ هذا الحديث مسندا بهذا اللفظ من وجه ثابت وهو حديث حسن}

قرآن کریم کے نظم وترتیب سے اس کا بت پرستی کے مشابہ ہونا معلوم ہوتا ہے۔بت پرستی کے لئے کوئی مومن آمادہ نہیں ہوسکتا جبکہ کذب بیانی دھڑلے سے  لوگ کرتے ہیں !
دیکھئے ! قرآن نے بت پرستی کے ساتھ کسے جوڑا ہے !

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ
022:030
، پس تم بتوں کی ناپاکی اور جھوٹ بولنے سے بچتے رہو ۔

اس خو کے لوگ کیسے مومن ہیں ؟ وہ بھی دیکھئے :

إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ.
016:105

بیشک جھوٹ جوڑنے والے تو یہ لوگ ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں.
اللہ ہم تمام لوگوں کی اس بری خصلت سے حفاظت فرمائے۔

شکیل منصور القاسمی
٢١\٧\١٤٣٩هجري

No comments:

Post a Comment