ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا ولیمہ
............
حضرت جی کی بات پر مختصر سا خطاب علمانہ تبصرہ
⬇⬇⬇⬇⬇
انس بن مالک: رسول اللہ نے زینب بنت جحش کا ولیمہ خلافِ معمول بکری سے کیا
اعتراض:
( حضرت مولانا سعد صاحب حفیظہ اللہ کاندھلوی) «نے انتہائی جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ صل اللہ علیہ و سلم نے تمام ازواج مطہرات سے شادی کی تو ولیمہ میں کھجور پنیر یا اس جیسی چیزوں پر اکتفا کیا سوائے ایک بیوی یعنی حضرت زینب کے کہ انکے ولیمہ میں گوشت روٹی کھلائ اور آپ صل اللہ علیہ و سلم معمول سے ہٹ گئے
اس جرات کا مظاہرہ مولانا سعد نے نہیں بل کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حضرت انس کا ارشاد ہے: میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اللہ کے رسول نے کسی بیوی کے ولیمہ میں ایسا اہتمام کیا ہو جیسا حضرت زینب کے لیے کیا۔ اللہ کے رسول نے ان کے لیے بکری ذبح کر کے ولیمہ کیا۔
امام بخاری نے یہ روایت اپنی صحیح میں شامل کی ہے۔ آپ کی صحیح کو خود آپ کی زبانِ مبارک سے نوّے ہزار محدثین نے سنا ہے۔ سب نے دیگر احادیثِ بخاری کی طرح اس حدیثِ انس کو بھی محفوظ کیا: کسی نے سینے میں، کسی نے کاغذ پر۔
امام بخاری نے اس روایت پر عنوان لگایا ہے:
بَابُ مَنْ أَوْلَمَ عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ أَكثر من بعض (بخاری ٧/٢٤)
ایک بیوی کے لیے دوسری بیویوں سے بہتر ولیمہ کرنے کا بیان۔
«جب ہادی معمول سے ہٹ سکتا ہے»
ہادی کے لیے معمول سے ہٹنا ہی ممکن نہیں ہے یہ قابل تعجب بات ہے
بلکہ بعض واقعات کے ذریعے تو پتہ چلتا ہے کہ آزمائش اور امتحان بھی ممکن ہے۔
اور آیت کریمہ... وما ینطق عن الہوا... کا یہ مفہوم لینا کہ نبی کا ہر عمل حکم الہی سے ہی ہوتا ہے گویا نبی کے لئے امتحان جیسی کوئ بات ہوتی ہی نہیں تو پھر واقعہ مذکورہ ذیل کو کیا سمجھا جائے....
اگر فدیہ بھی حکم الہی اور پسند ربی ہوتا تو عتاب کے کیا معنی؟
واقعہ ملاحظہ ہو.....
جب بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں آپ نے حضرت عمر کے مشورۂ قتل کو رد کیا اور حضرت ابو بکر کے مشورۂ فدیہ کو قبول کیا تو اگلے دن عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دیکھا وہ اور ان کے پاس بیٹھے ابو بکر دونوں رو رہے ہیں۔ پوچھنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فدیہ قبول کرنے کی رائے پر عمل کی وجہ سے تمہارے ساتھیوں پر عذاب آرہا تھا۔ آتے آتے اس قریبی درخت تک پہنچ گیا تھا۔ مگر پھر اللہ نے معاف کر دیا کیوں کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رہتے ہوئے امت کو عذاب نہ دینے کا فیصلہ بہت پہلے ہی ہو چکا تھا۔
اگر اللہ کا عذاب آتا تو شاید حضرت عمر کے سوا کوئی نہ بچ پاتے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہیں: یہ حضرت مولانا سعد صاحب حفیظہ اللہ کا نہیں بل کہ خود رسول اللہ کا ارشاد ہے۔ ابنِ منذر نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔
—----------------
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ: ذُكِرَ تَزْوِيجُ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ عِنْدَ أَنَسٍ، فَقَالَ: «مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْلَمَ عَلَى أَحَدٍ مِنْ نِسَائِهِ مَا أَوْلَمَ عَلَيْهَا، أَوْلَمَ بِشَاةٍ» (بخاری ٥١٧١)
عَنْ مُحَمَّدِ بنِ يُوْسُفَ الفِرَبْرِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يَقُوْلُ: سَمِعَ كِتَابَ (الصَّحِيْحِ) لِمُحَمَّدِ بنِ إِسْمَاعِيْلَ تِسْعُوْنَ (1) أَلفَ رَجُلٍ، فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ يَرْوِيْهِ غَيْرِي۔ (سیر أعلام النبلاء ١٢/٣٩٨)
فقال النبي صلّى الله عليه وآله وسلم: أبكي للذي عرض على أصحابك من الفداء، لقد عرض علي عذابكم أدنى من هذه الشجرة، لشجرة قريبة، وأنزل الله عز وجل: ما كانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ إلى قوله: كِتابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيما أَخَذْتُمْ عَذابٌ عَظِيمٌ (التفسیر المنیر ١٠/٧٠)
فقال رسول الله: إن كاد ليمسّنا في خلاف ابن الخطاب عذاب عظيم، ولو نزل العذاب ما أفلت إلا عمر (التفسیر المنیر ١٠/٦٨)
No comments:
Post a Comment