Tuesday 17 April 2018

علماء حق وعلماء سوء

علماء حق وعلماء سوء
(سلسلہ نمبر1766)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس علم وعرفاں اور رشد وہدایت کے لئے آفتاب عالمتاب تھی۔ اس آفتاب رسالت کے غروب ہوجانے کے بعد آپ کے سرچشمہ ہدایت سے فیض یافتہ ’مصابیح الہدی‘ ہدایت کے چراغ (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وتابعین عظام وعلماء دین رحمہم اللہ) نے امت کی دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ۔مولائے روم نے بڑی چشم کشا بات لکھی ہے:
چونکہ شد خورشید وما را کردہ داغ
چارہ نبود در مقامش جز چراغ
یعنی جب سو رج غروب ہوگیا اور ہم کو اپنی جدائی کا داغ دے گیا، تو اب اس کی جگہ چراغ کے استعمال کے سوا چارہ ہی کیا ہے، رحمت ِعالم صلی اللہ علیہ و سلم تو علم کے آفتاب وماہتاب ہیں، تو علمائے حق اس آفتابِ علم کے روشن چراغ ہیں، آفتاب اور چراغ کی روشنی میں اگرچہ ظاہری طور پر زمین آسمان کا فرق ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام معصوم ہوتے ہیں اور علماء معصوم نہیں، انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام عالمِ وحی ہوتے ہیں جب کہ علماء عالمِ شریعت ہو تے ہیں، انبیاِ کرام اللہ تعالیٰ کے براہِ راست شاگرد ہو تے ہیں جب کہ علماء اللہ تعالیٰ کے شاگرد نہیں بلکہ انبیاء کے وارث ہوتے ہیں ، اسی لیے نبوی علوم کے انوار ایک ایسے روحانی تار کے ذریعہ ان کے قلوب تک پہنچتے ہیں جس کا ایک سرا حضو ر صلی اللہ علیہ و سلم کے قلب ِاطہر میں ہے،تو دوسرا سرا ان علمائِ کرام کے دلوں میں ہے، لہٰذا آفتابِ نبوت کے بعد اب یہی علمائِ حق اس کے نائب اور علم نبوت کے ضامن اور محافظ ہیں ،جن سے نورِ ہدایت اور علم شریعت حاصل کیا جاسکتا ہے۔ (گلدستہ حدیث)

علماء کی دو قسمیں ہیں؛
1۔۔۔علماء اہل حق
2۔۔۔علماء سوء
علماء حق کی بنیادی شناخت اور وصف کو قرآن کریم نے خود بیان کرتے ہوئے ذکر کیا ہے:
{إِنَّمَا یَخْشیٰ اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا}
(فاطر: ۲۸)
علمائے حق کی خاص پہچان یہی ہے کہ وہ خشیت ِباری کی صفت سے بطورِ خاص متصف ہوتے ہیں ۔مجدد وقت مرشد تھانوی کی یہ بات بھی کس قدر چشم کشا اور مبنی برحقیقت ہے:
”مولوی اُسی کو کہتے ہیں جو متقی بھی ہو، اور جو متقی نہیں ، جس میں خشیت باری نہیں وہ مولوی کیسا ؟مولانا جلال الدین رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
خشیت اللہ را نشان علم داں آیت یخشی اللہ در قرآن بخواں اللہ تعالیٰ کے خوف کو علم کا نشان اور اس کی خاص پہچان اور شان سمجھو !کیوں کہ خودقرآنِ کریم نے آیت کریمہ:
{إِنَّمَا یَخْشیٰ اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا}
میں اس کی گواہی دی ہے۔ جو شخص جتنا بڑا عالم ہوگا وہ اتنا ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑا کوئی عالم نہیں ، تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا بھی کوئی نہیں ،جیساکہ حدیث ِ پاک میں وارد ہے:
’’ وَاللّٰہِ! إِنِّیْ لَأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَ أَتْقَاکُمْ لَہٗ۔‘‘
(متفق علیہ، مشکوٰۃ ۲۷)
خدا کی قسم! میں اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ خوف کرتا ہوں ۔ علماء حق کی پہچان امام غزالی نے احیاء علوم الدین میں’’علمائے آخرت ‘‘کے عنوان کے ذیل میں درج ذیل پہچان بتائی ہے:
(۱) وہ اپنے علم سے دنیا نہ کماتے ہوں ، کیوں کہ علم کا کم ازکم درجہ یہ ہے کہ دنیا کی فنائیت وحقارت کا احساس ہو، اور آخرت کی عظمت اور اس کا استحضار ہو۔
(۲) ان کے قول وعمل میں تعارض وٹکراؤ نہ ہو، ایسانہ ہو کہ دوسروں کو نیکی کا حکم دیں اور خود ہی اس پر عمل نہ کریں، ارشادِ باری ہے:
{أَتَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ وَ أَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ أَ فَلاَ تَعْقِلُوْنَ}
(البقرۃ : ۴۴)
یہ کیا غضب ہے کہ اوروں کو تو نیک کاموں کا حکم کرتے ہو اور خود اپنی ہی خبر نہیں لیتے، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔
حضرت سفیان ثوری ؒ کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓنے حضرت کعبؓسے پوچھا کہ ’’مَنْ ھُمْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ؟‘‘
اہل علم اور علمائے حق کون ہیں؟
تو فرمایا:
’’اَلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ بِمَا یَعْلَمُوْنَ‘‘
جو اپنے علم پر عمل کرتے ہیں،
(یعنی جن کے قول وعمل میں تعارض نہ ہو)
پھر سوال فرمایا کہ:
’’فَمَا أَخْرَجَ العِلْمَ مِنْ قُلُوْبِ العُلَمَائِ؟‘‘
علماء کے دلوں سے علم کو کونسی چیز نکال دیتی ہے؟
’’قالَ: الطَّمَعُ‘‘(رواہ الترمذی، مشکوٰۃ:۳۷)
فرمایا: دنیا کا لالچ علم کو دلوں سے نکال دیتا ہے۔
(۳) ایسے علوم وامور میں اخلاص کے ساتھ مشغول ہوں جوآخرت میں کارآمد اور نفع بخش ہوں، اور ایسے علوم وامور سے اجتناب واحتراز کریں جو آخرت کے اعتبار سے نفع بخش نہ ہوں بلکہ نقصان دہ ہوں۔
(۴) کھانے، پینے اور لباس کی نزاکتوں اور عمدگیوں کی طرف متوجہ نہ ہوں بلکہ ان چیزوں میں میانہ روی اختیارکریں اور بزرگوں کے سادہ طرزِ عمل کو اختیار کریں ۔
(۵) امراء وحکام سے حتی الامکان دور رہتے ہوں ، اگران کے ساتھ کسی صحیح غرض سے تعلق ہو تو تملق نہ ہو، ان کی چاپلوسی ہرگز نہ کریں ،ورنہ فتنہ میں مبتلا ہو نے کا شدید اندیشہ ہے۔
(۶) اصلاحِ قلب اور اصلاحِ باطن کی بہت فکر اور اہتمام کریں ، اس کے بغیر نہ علم میں بصیر ت پیداہو سکتی ہے نہ برکت۔
(۷) خرافات،رسومات،بدعات اور معاصی سے بہت ہی زیادہ احتیاط اور اہتمام سے بچتے رہیں ، اور اگر کبھی بشریت کے تقاضے سے کوئی غلطی بھی ہو جائے تو فورا توبہ کی طرف متوجہ ہوں، اور ظاہر بات ہے کہ مذکو رہ تمام اوصاف وعلامات خوفِ الٰہی کے بغیر مشکل ہیں ، اس لیے قرآنِ کریم نے علمائِ حق کا وہ بنیادی وصف بیان فرمایا جو دیگر اوصاف وعلامات کو شامل ہے۔ (احیاء علوم الدین ۔کتاب العلم)
ایسے علماِ حق کے بڑے فضائل آئے ہیں:
عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ البَاھِلِيِؓ قَالَ: ’’ ذُکِرَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِﷺ رَجُلاَنِ، أَحَدُھُمَا عَابِدٌ وَ الآخَرُ عَالِمٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ : ’’ فَضْلُ العَالِمِ عَلٰی العَابِدِ کَفَضْلِیْ عَلٰی أَدْنَاکُمْ‘‘ ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ : ’’إِنَّ اللّٰہَ وَ مَلاَئِکَتَہٗ وَ أَھْلَ السَّمَاوَاتِ وَ الأَرْضِ حَتّٰی النَّمْلَۃِ فِیْ جُحْرِھَا، وَ حَتّٰی الحُوْتِ لَیُصَلُّوْنَ عَلٰی مُعَلِّمِ النَّاسِ الخَیْرَ۔‘‘ (رواہ الترمذی، مشکوٰۃ/ص :۳۴/کتاب العلم/ الفصل الثانی )
ترجمہ: حضرت ابوامامہ باہلی رحمہ اللہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، جن میں سے ایک عابد (عبادت گزار) اور دوسراعالم تھا۔ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ ان دونوں میں سے کون افضل ہے ؟)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ:
’’عالم کو عابد پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے کہ میر ی فضیلت تم میں سے اس شخص پر جو تم میں سب سے ادنیٰ درجہ کا ہو.‘‘ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: ’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اور آسمان وزمین کی تمام مخلوق حتیٰ کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے دعاء خیر کرتی ہیں جو لوگوں کو خیر (علم دین) کی تعلیم دیتا ہے۔
وعن أبي حفص حدثہ أنہ سمع أنس بن مالک یقول: قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: إن مثل العلماء في الأرض کمثل النجوم في السماء یہتدی بہا في ظلمات البر والبحر، فإذا انطمست النجوم أوشک أن تضل الہداۃ۔ (مسند أحمد ۳/ ۱۵۷، رقم: ۱۲۶۲۷)
یعنی علماء آسمان کے ستارے کے مانند ہیں جن سے خشکی وتری میں راہ گیر روشنی حاصل کرتے ہیں اگر ستارے نہ یوں تو مسافرین گم گشتہ راہ ہوجائیں گے (یہی حال علماء کا ہے کہ اگر وہ نہ ہوں تو لوگ گمراہ ہوجائیں گے)

علماء حق کے چند نمونے
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا جنازہ جیل سے نکلا مگر حاکم وقت کے سامنے جھکے نہیں، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو سرعام کوڑے لگائے گئے مگر آپ نے وقت کے شہنشاہ مامون کے مؤقف کو تسلیم نہ کیا اور اپنے فتوی پر قائم رہے۔ بنو عباس کا وہ دور حکومت تھا کہ جس میں سورج طلوع ہوتا ہے تو سلطنت بنو عباس ہوتی ہے اور جہاں غروب ہوتا ہے تو وہاں بھی انھی کی حکومت ہوتی ہے۔ اسی سلطنت کے شہنشاہ ہارون الرشید نے مدینہ منورہ میں امام مالک رحمہ اللہ سے کہا کہ آپ بغداد تشریف لائیں اور میرے محل میں رہیں کیونکہ آپ سے میں حدیث پڑھنا چاہتا ہوں۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اے ہارون تو مجھے غلام و اپنا درباری بنانا چاہتے ہو ، میں نے محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی غلامی اختیار کر رکھی ہے اور انکی غلامی میں ہوتے ہوے مجھے کسی اور کی غلامی اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ شریعت کے عالم حق تھے. آپ گوالیار کی جیل میں دو سال رہے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر سلطان الہند جہانگیر کے سامنے گردن نہیں جھکائی۔

علماء سو کی پہچان
علمائے سو کی مختلف پہچان احادیث میں بیان کی گئی ہیں، مثلاُ ایک حدیث میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من طلب العلم لیماري بہ السفہاء أو یصرف بہ وجوہ الناس إلیہ أدخلہ النار رواہ الترمذي (مشکاۃ: ۳۴) جس شخص نے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم علم لوگوں سے جھگڑا کرے یا لوگوں کو علم کے ذریعہ اپنی طرف مائل کرے، اللہ تعالی ایسے شخص کو جہنم میں داخل کریں گے۔ دوسری روایت میں ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من تعلم علما مما یبتغی بہ وجہ اللہ لا یتعلمہ إلا لیصیب بہ عرَضًا من الدنیا لم یجد عرف الجنة یوم القیامة یعنی ریحہا رواہ احمد (مشکاۃ: ۳۵)
جس شخص نے اس علم کو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیکھا جاتا ہے اس لیے سیکھا تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کمائے ایسا شخص جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔ تیسری حدیث میں ہے:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اتقوا الحدیث عني إلا ما علمتم فمن کذب علي متعمدًا فلیتبوأ مقعدہ من النار رواہ الترمذي (مشکاۃ: ۳۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری جو حدیث تمھیں معلوم ہو وہی بیان کرو، اس لیے کہ جس نے جھوٹ بات میری طرف منسوب کرکے نقل کیا، اسے اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھنا چاہئے۔ چوتھی حدیث میں ہے: قال سأل رجل النبيَ صلی اللہ علیہ وسلم عن الشر فقال لا تسألوني عن الشر وسلوني عن الخیر یقول ثلاثا ثم قال ألا إن شر الشر شرار العلماء وإن خیر الخیر خیار العلماء رواہ الدارمي۔ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
مجھ سے شر کے بارے میں سوال مت کرو بلکہ خیر کے بارے میں سوال کرو.
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: شر میں بدتر شر علمائے سو کا شر ہے اور تمام بھلائیوں میں اعلی درجہ کی بھلائی علماء کا خیر ہے۔ علماء اہل حق کی توہین کفر ہے عالم دین کو عالم دین ہونے کی حیثیت سے بلا وجہ شرعی توہین وتنقیص کرنا یا سب وشتم کرنا گویا اس کے سینے میں محفوظ علوم قرآن وحدیث کی توہین واستخفاف ہے۔ اس لیے اس حرکت پہ اندیشہ کفر ظاہر کیا گیا ہے۔ فتاوی ہندیہ میں ہے:
ویخاف علیہ الکفر إذا شتم عالماً أو فقیہا من غیر سبب۔
(فتاوی عالمگیری، کتاب السیر، الباب التاسع، مطلب موجبات الکفر أنواع …، زکریا قدیم ۲/ ۲۷۰، جدید ۲/ ۲۸۲)
اللہ ہمیں علماء اہل حق میں سے بنائے، ان کا قدر داں بنائے اور ان کی معیت وصحبت خاصہ عطا فرمائے۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے
حال مقیم جنوب امریکہ
یکم شعبان 1439 ہجری

No comments:

Post a Comment