Thursday, 5 April 2018

ولی کے بغیر عاقلہ بالغہ کا نکاح؟ (سلسلہ 1756)

ولی کے بغیر عاقلہ بالغہ کا نکاح؟ (سلسلہ 1756)

-------------------------------

نکاح کرنے اور نہ کرنے کا حق عاقلہ بالغہ لڑکی کی اپنی مرضی واپنا اختیار ہے۔ وہ مالی حقوق میں حق تصرف کی طرح اپنی جان میں بھی تصرف کی خود مالکہ ہے۔ چنانچہ ہر عاقلہ بالغہ لڑکی اپنے نکاح کا ایجاب وقبول شرعی گواہوں کی موجودگی میں خود سے اور دوسرے لڑکے یا لڑکی کے نکاح کا ایجاب وقبول وکیل کی حیثیت سے کرسکتی ہے اور بغیر ولی کے اس کا کیا ہوا نکاح درست اور صحیح ہے۔ بشرطیکہ جس لڑکے سے نکاح کرے وہ خاندانی، نسبی اور دینی اعتبار سے اس کے مساوی وہم پلہ (کفو) ہو۔ صحت نکاح کے لئے اولیاء یعنی باپ دادا بھائی وغیرہ سے اجازت لینا سماجی ومعاشرتی ضرورت ہے۔ شرعی وقانونی ضرورت نہیں کہ صحت نکاح کے لئے ایسا کرنا ضروری ہوجائے۔ قرآن کریم نے اس بابت اسے حق خود مختاری دیا ہے:

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ.
اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں سو اس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو ﷲ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔
البقره، 2: 234. 
لڑکی کے اختیارِ نکاح کو بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا:

فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّى تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ.
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے۔ البقره، 2: 230: 
اور فرمایا:

فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ.
جب وہ (طلاق یافتہ عورتیں) شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہو جائیں تو انہیں اپنے (پرانے یا نئے) شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو. البقره، 2: 232. 
ان آیتوں میں نکاح کرنے کا اختیار لڑکی کو دیا گیا ہے نہ کہ اس کے ولی کو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرفوع حدیث میں یہ حق واختیار عاقلہ بالغہ لڑکی کو دیا ہے۔ اس کے ولی کو نہیں! حضرت عبد اللہ بن عباس حدیث مرفوع نقل کرتے ہیں:

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَا حَدَّثَنَا مَالِكٌ ح وَحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَ قُلْتُ لِمَالِكٍ حَدَّثَكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْفَضْلِ عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا وَإِذْنُهَا صُمَاتُهَا قَالَ نَعَمْ۔ صحيح مسلم.1421۔كتاب النكاح

’’بیوہ عورت اپنے ولی سے زیادہ خود اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی حقدار ہے، اور کنواری کا مشورہ لیا جانا چاہیے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ شوہر دیدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنے نکاح کے معاملے میں حقدار ہے۔‘‘

’’غیر شادی شدہ لڑکی کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔ صحابہ کرام نے کہا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وہ شرماتی ہے تو) اس کی اجازت کیسے ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اجازت ہے.‘‘ ہاں لڑکی کو اپنے اولیاء کو اپنے نکاح کی بابت راضی کرلینا بہتر اور نکاح کے دیر پا رہنے میں ممد ومعاون ضرور ہے۔ یہ بڑی شقاوت وبدبختی ہے کہ زندگی بھر پوسنے پالنے اور پرورش کرنے والے والدین کی رضامندی اور ان کے اعتماد کو شادی ونکاح کے معاملے میں اہمیت نہ دی جائے اور ان کے جذبات وامنگوں کا احساس نہ کیا جائے ۔اور اپنی پسند سے اس طور شادی کرلی جائے کہ والدین کو پتہ تک نہ چلے۔ اسی حقیقت کو اور اولیاء سے استصواب ومشورے کی اہمیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

ایما امراة نکحت نفسها بغیر اذن ولیها فنکاحها باطل فنکاحها باطل فنکاحها باطل. فان دخل بها فلها المهر لما استحل من فرجها فان اشتجر وا فالسلطان ولی من لاولی له. أخرجه أبو داود (2083)، والترمذي (1125)، وابن ماجه (1789)،
’’جو عورت اپنے ولی(سرپرست) کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ اب اگر اس نے اس سے صحبت کرلی تو اس عورت کو مہر ملے گا کیونکہ اس نے اس کی شرمگاہ حلال کی ہے۔ پھر اگر (سرپرست) اختلاف کریں تو حاکم ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں۔‘‘ حدیث مذکور میں بغیر ولی کی اجازت کے نکاح کو باطل‘ زجر و توبیخ کے طور پر فرمایا گیا ہے، مگر نکاح ولی کی اجازت کے بغیر بھی صحیح ہوجاتا ہے۔ اسی لیے فرمایا: اگر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر کے قربت کرلی تو مہر پورا دینا ہوگا۔ اگر نکاح حقیقتاً باطل ہوتا یعنی منعقد ہی نہ ہوتا تو نہ عورت حلال ہوتی نہ نکاح ہوتا نہ حق مہر لازم ہوتا۔ 
حضرت امام مالک، امام شافعی اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ نے حدیث کے ظاہری الفاظ پر عمل کیا ہے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ نکاح اسی وقت صحیح ہوتا ہے جب کہ ولی عقد کرے۔  عورتوں کی عبارت کے ساتھ نکاح منعقد نہیں ہوتا عورت خواہ اصیلہ ہو یا وکیلہ ہو۔ جبکہ حنفیہ کے نزدیک اس حدیث کا تعلق یا تو زجر وتوبیخ سے ہے یا نابالغہ اور غیر عاقلہ سے ہے یعنی کمسن لڑکی اور دیوانی کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا ۔ اس ذیل میں خوب اچھی طرح یاد رکھنے کے قابل یہ بات ہے کہ بچند وجوہ حضرت عائشہ کی یہ حدیث اس درجہ کی نہیں ہے  کہ اسے اوپر ذکر کردہ قرآنی آیات یا مسلم شریف کی حدیث  کے خلاف بطور دلیل اختیار کیا جا سکے کیونکہ: 

1 ۔۔۔۔ فنی اعتبار سے اس حدیث کے صحیح ہونے میں محدثین نے کلام کیا ہے۔ اس لئے یہ حدیث ناقابل احتجاج ہے۔
حديث عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فإن دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها، فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له".
الحديث ضعيف لا يصح الاستدلال به لوجود راو ضعيف وهو سليمان بن موسى، ولإنكار الزهري له مع أنه أحد رواة الحديث. شرح معاني الآثار (3/7 – 8)، وحاشية ابن عابدين (2/296)، والاختيار للموصلي (2/123)

2 ۔۔ حضرت عائشہ کا عمل اور فتوی ان کی بیان کردہ روایت کے خلاف ہے ۔کیونکہ انہوں نے اپنی بھتیجی حفصہ بنت عبد الرحمن کا نکاح اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں کردیا حالانکہ لڑکی کا ولی موجود نہیں تھا۔۔۔یہاں راویہ کا عمل مرویہ کے خلاف ہورہا ہے جو روایت کے کمزور ہونے یا منسوخ ومرجوح ہونے کی بین دلیل ہے ۔

(ان عائشة رضي الله تعالى عنها زوجت ابنة أخيها حفصة بنت عبد الرحمن من المنذر بن الزبير وهو غائب فلما رجع قال أو مثلى بفتات عليه في بناته فقالت عائشة رضي الله تعالى عنها أو ترغب عن المنذر والله لتملكنه أمرها وبهذا تبين أن مارووا من حديث عائشة رضي الله تعالى عنها غير صحيح فإن فتوي الراوي بخلاف الحديث دليل وهن الحديث. المبسوط للسرخسي ج 5 ص 11)

و فی الھندیۃ، کتاب النکاح، ج :۲، ص:۳۱۳ (طبع شرکۃ علمیۃ) وینعقد نکاح الحرۃ العاقلۃ البالغۃ برضائھا وان لم یعقد علیھا ولی بکرا کانت أو ثیبا۔وفی البحر الرائق ، کتاب النکاح ، باب الأولیاء ،ج:۳،ص:۱۱۷ (طبع بیروت وفی مکتبۃ رشیدیۃ کوئٹہ ،ج:۳،ص:۱۰۹) نفذ نکاح حرۃ مکلفۃ بلاولی لأنھا تصرفت فی خالص حقھا وھی من اھلہ کونھا عاقلۃ بالغۃ ۔۔۔ وانما یطالب الولی بالتزویج کیلا تنسب الی الوقاحۃ ۔۔۔۔الخ ۔ وکذا فی الھندیۃ ، کتاب النکاح ، الباب الأول ،ج:۱، ص: ۲۶۹ (طبع ماجدیۃ)

خلاصہ یہ کہ عاقلہ بالغہ اپنے کفو میں شرعی گواہان کی موجودگی میں ازخود نکاح کرسکتی ہے۔ والدین کی اجازت و رضامندی قانونا ضروری نہیں،  ہاں سماجی ومعاشرتی  اعتبار سے یہ ضروری ہے۔ ولی کی اجازت کے بغیر کیا گیا نکاح کے باطل ہونے کی روایت فنی اعتبار سے مرجوح ہے اور اس قابل نہیں ہے کہ صحیح اور مرفوع روایت جس میں عاقلہ بالغہ کو اپنے نفس کے بارے میں مکمل اختیار دیا گیا ہے کے معارض بن سکے۔

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
18 رجب 1439 ہجری

http://saagartimes.blogspot.com/2018/04/blog-post_5.html?m=1


No comments:

Post a Comment