Monday, 23 April 2018

ج ہ ا د کی تعریف فقہاء نے کیا فرمائی ہے

ج ہ ا د کی تعریف فقہاء نے کیا فرمائی ہے

(۱)۔۔علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
بَذْلُ الْجُہْدِ فِیْ قِتَالِ الْکُفَّارَ (فتح الباری ج ۶ص ۴)
تر جمہ:اپنی پوری طاقت کفار کو قتل کرنے میں خرچ کرنا۔
 
(۲)۔۔ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
‘‘اَلْجِہَادُ شَرْعاً بَذْلُ الْمَجْھُوْدِ فِیْ قِتَالِ الْکُفَّارِ’’ (مرقاۃ، شرح مشکوٰۃ)
تر جمہ: پوری توانائی کو کفار سے لڑنے میں صرف کرنے کانام ج ہ اد ہے ۔
(۳)۔۔شیخ التفسیر و الحدیث مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں
ابن عباس اور ابوہریرہ اور عائشہ صدیقہ اور ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہم زہری سعید بن جبیر مجاہد، عروہ بن زبیر، زید بن اسلم، قتادہ، مقاتل بن حیان اور دیگر سلف رحمۃ اﷲ علیہم سے منقول ہے کہ ج ہ اد کی اجازت میں جو آیت سب سے پہلے نازل ہوئی وہ یہ ہے
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا(الایۃ)۔
ایسے لوگوں کو ج ہ اد و قتال کی اجازت دی گئی کہ جن سے کافر لڑتے ہیں یہ اجازت اس لئے دی گئی کہ یہ لوگ بڑے مظلوم ہیں
(اب ظاہر ہے کہ ج ہ ا دکی اجازت دینا اور آیت قتال کا نازل فرمانا دلیل ہے کہ، ج ہ اد کا معنی قتال ہی ہے ۔راقم الحروف)
آگے چل کر فرماتے ہیں
خلاصہ
                ‘‘یہ کہ خدا تعالیٰ کے وفاداروں کا، خدا تعالیٰ کے باغیوں سے محض خدا کا باغی ہونے کی وجہ سے لڑنا اور اس کی راہ میں انتہائی جانبازی اور سرفروشی کا نام ج ہ اد ہے’’
مزید آگے چل کر فرماتے ہیں
خلاصہ کلام
                یہ کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کیلئے، جو جنگ کی جائے اس کانام ج ہ اد ہے۔
(اب حضرت کے ارشادات کے بعد مزید کوئی گنجائش رہ جاتی ہے؟مزید گزارش ہے کہ کوئی ایک بھی ایسا فقیہ نہیں گزراہے، جس نے ج ہ اد کی اصطلاحی اور شرعی تعریف قتال سے نہ کی ہو۔راقم الحروف)
دلیل نمبر۵:
                محدثین و فقہا رحمۃ اﷲ علیہم میں سے ،جس نے بھی کتاب الجہاد کے نام سے اپنی کسی کتاب میں باب باندھا ،تو وہ اس باب کے تحت صرف وہی احادیث ذکر کرتا ہے ،جس میں غزوات وسرایا اور کفار سے جنگ کرنے کا ذکر ہو یا ایسے مسائل ذکر کئے، جن کا تعلق قتال کے ساتھ ہو ،جیسے جزیہ، غلامی،صلح۔
کوئی ایک بھی ایسا محدث و فقیہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ، جس نے اپنی کسی کتاب میں ج ہ اد کا باب باندھا ہو ،مگر اس کے تحت مجاہدات نفس، اصلاح نفس اور دعوت تبلیغ اور دیگر ایسے امور کو ذکر کیا ہو ،جن کو آج ج ہ اد سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
ا سلئے کہ محدثین و فقہا ء کے نزدیک ج ہ ا دکا معنی صرف اور صرف قتال ہے۔
دلیل نمبر ۶:
                میں سب سے آخر میں اس دلیل کا ذکر کرتا ہوں ،جس کو اگرچہ مجھے پہلے ذکر کرنا چاہئے تھا، مگر یہ خود صاحب ِشریعت اور نبی ِآخر الزماں حضرت پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے، ج ہ اد کی تشریح ہوئی ہے اور حضرت پاک ﷺ کی تشریح کے بعد مزید کسی قسم کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی۔ اس لئے اس کو اس موضوع کے بارے میں حرف آخر سمجھ کر تحریر کر رہا ہوں۔
حضرت عمرو بن عبسہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت پاکﷺ کی خدمت میں عرض کیا گیا
وَمَا الْجِہَادُ؟
یارسول اللہ ﷺ ج ہ اد کا کیا معنیٰ ہے؟ تو حضرت پاکﷺ نے ارشاد فرمایا
اَنْ تُقَاتِلَ الْکُفَّارَ اِذَا لَقِیْتَھُمْ
میدان جنگ میں کفار سے لڑنا۔
پھر کسی نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ
فَاَیُّ الْجِہَادِ اَفْضَلُ؟
سب سے افضل اور بہتر ج ہ اد کونسا ہے؟ تو حضرت پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عُقِرَ جَوَادُہٗ وَاُھْرِیْقَ دَمُہٗ
جس میں مجاہد کے گھوڑے کے پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور مجاہد کا اپنا خون بھی بہا دیا جائے۔
(کنز العمال ج۱،ص ۲۹)
آپ ہی غور فرمائیں کہ اس کے بعد بھی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے کہ، ہم ج ہ اد کا معنی قتال نہ کریں ،بلکہ ج ہ اد کے معنی میں وسعت دے کر، دیگر اعمال ِخیر کو اپنی طرف سے ج ہ ادقرار دیں، کیا یہ حضور اکرم ﷺ کی طرف سے ج ہ اد فی سبیل اﷲ کے بیان کردہ معنی کے ساتھ زیادتی نہیں ؟
اے اﷲ تو ہمیں فہم سلیم عطا فرما ۔آمین۔یَا رَبَّ الٰعَلٰمِیْن

No comments:

Post a Comment