Saturday, 14 April 2018

حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی

(۱) حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی
(دامت برکاتہم)   
ولادت: ۱۳۴۴ھ/۱۹۲۶ء
نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کے لئے

مختصر سوانحی خاکہ

نام:             محمد سالم
والد کا نام:      (حکیم الاسلام قاری) محمد طیب
جائے پیدائش: دیوبند، سہارنپور، انڈیا
تاریخ پیدائش:  ۲۲  جمادی الثانی ۱۳۴۴ھ مطابق ۸ جنوری ۱۹۲۶ء
ابتدائی تعلیم:    مختلف اساتذہ سے انفرادی طور پر
ثانوی تعلیم:     دار العلوم دیوبند
تکمیل:         دار العلوم دیوبند
موجودہ اہم ذمہ داری:سرپرست دار العلوم وقف، نائب صدر مسلم پرسنل لاء
حالیہ پتہ:               دیوبند، سہارنپور، انڈیا

خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی خانوادۂ قاسمی کے گل سر سبد اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب کے خلف اکبر و جانشین اور دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتمم اور اس کے سرپرست ہیں۔
نیز حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ کے صحبت یافتہ اور شاگرد بھی ہیں، زمانۂ تعلیم کے ان کے رفقاء میں کئی ممتاز شخصیات میں سے ایک نام حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدّظلّہ العالی کا بھی ہے، جو ہدایہ کے سبق میں ان کے ساتھ تھے، ان کے معاصرین اور رفقاء تعلیم میں حضرت مولانا اسعد مدنی ابن شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عتیق الرحمن بن مولانا محمد منظور نعمانی وغیرہ شامل ہیں۔ (مولانا محمود حسن حسنی ندوی)
نام ونسب:
(حضرت مولانا) محمد سالم بن (مولانا قاری) محمد طیب بن (مولانا) محمد احمد بن (حجۃ الاسلام مولانا) محمد قاسم بن اسد علی بن غلام شاہ بن محمد بخش بن علاء الدین ابو الفتح بن محمد مفتی بن عبد السمیع بن محمد ہاشم بن شاہ محمد بن قاضی طہٰ بن مفتی امان اللہ بن قاضی جمال الدین بن قاضی میراں بن قاضی مظہر الدین، جن کا سلسلۂ نسب حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ (حیات طیب، ج:۱)
ولادت باسعادت:
اس علمی خانوادہ اور بزرگ والدین کی گود میں آپ کی ولادت بروز جمعہ بتاریخ ۲۲ جمادی الثانی ۱۳۴۴ھ مطابق ۸ جنوری ۱۹۲۶ء کو دیوبند میں ہوئی۔
خاندان و اجداد:
جیسا کہ معلوم ہوا کہ آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ ثانی سیّدنا ابو بکر صدیقؓ تک پہنچتا ہے، اس خانوادہ کی ہندوستان آمد کے متعلق الامام الأکبر کے مصنف ڈاکٹر محمد اویس صدیقی نانوتوی فرماتے ہیں:
’’سب سے پہلے اس خاندان کے جس فرد نے ہندوستان کا رُخ کیا وہ قاضی مظہر الدین ہیں، جو نویں صدی ہجری کے اواخر میں سکندر لودھی کے زمانے میں اس کی دعوت پر ہندوستان تشریف لائے، اسی زمانہ میں نانوتہ و اطراف میں جاٹوں نے سر اٹھایا، جن کی سر کوبی کے لئے سکندر لودھی نے قاضی مظہر الدین کے فرزند قاضی میراں کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا، لشکر کی کامیابی پر خوش ہو کر سکندر لودھی نے یہ علاقہ اس خاندان کے نام کر دیا، اس کے بعد سے اس خاندان نے نانوتہ میں بود و باش اختیار کی، پھر دار العلوم دیوبند کے قیام کے بعد مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے اہل خانہ دیوبند کے ہو کے رہ گئے۔ (الإمام الاکبر ص:۷۴-۷۵)
والد ماجد:
مولانا کے والد ماجد حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کی ذاتِ گرامی سے کون واقف نہیں ہو گا؟آپ علم و کمال، حکمت و بصیرت، فہم وفراست، اخلاق و عمل، پاکیزگی وتقدس کی ایک خوبصورت تصویر، مسلکِ دیوبند کے ترجمان اور ملّت کے صالحین کی سیرت و کردار کے عکسِ جمیل تھے، آپ کی بھی ولادت باسعادت دیوبند ہی میں ہوئی، سات سال کی عمر میں تعلیم کی ابتداء کی، حصولِ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دینا شروع کیا اور مختلف علوم و فنون کی اہم کتابیں پڑھائیں، ۱۳۴۱ھ تا ۱۳۴۸ھ تک آپ دار العلوم دیوبند کے نائب مہتمم کے منصب پر فائز رہے، پھر آپ کو مہتمم منتخب کیا گیا، اس عہدے پر آپ تقریباً تا حیات فائز رہے۔ (حیات طیب، ج:۱)
یوں تو حضرت قاری صاحب پر بہت کچھ لکھا گیا، اور لکھا جاتا رہے گا، جس میں حضرت قاری صاحب کی انفرادی خصوصیات، امتیازی صفات اور روشن خیالات کا اعتراف کیا گیا، جن کا احصاء مشکل ہے اور نہ ہی یہ اس وقت کا ہمارا موضوع ہے، اس موقع پر ہم اپنے استاذِ محترم، ندوۃ العلماء کے ناظم جناب مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؔ دامت برکاتہم کی ایک تحریر کا اقتباس پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
’’حکیم الاسلام کی شخصیت اپنے عہد کی بڑی مایہ ناز علمی و ادبی شخصیت تھی، علم دین اور حکمت و دانش کے بلند پایہ حامل تھے، انھوں نے اپنے عظیم مورث اور علومِ دینیہ میں مقام بلند رکھنے والے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ سے علمی گیرائی اور وسعت کی وراثت پائی تھی، اس کو ان کی تقریروں تحریروں اور دروس میں محسوس کیا جاتا رہا ہے۔
انھوں نے اس بلند علمی مقام کے ساتھ ساتھ دارا لعلوم دیوبند جیسی عظیم درسگاہ کو جو اُن کے اسلاف کی کوشش کا مرکز رہی تھی، اپنے آغاز جوانی میں سنبھالا، اور اس کی خدمت میں اپنی پوری عمر لگا دی، ان کی کوششوں کا مظہر صرف دار العلوم دیوبند کی ترقی اور مضبوطی ہی میں نمایاں اور محدود نہیں تھا، بلکہ اس کے نمائندۂ خاص ہونے کے تعلق سے ہندوستانی مسلمانوں کی دینی رہنمائی کا فریضہ بھی اثر پذیری کے ساتھ انجام دیا، مسلمانوں میں جو دینی انحراف یا عقائد کی خرابی پائی جاتی تھی اس کے ازالہ میں بھی خصوصی حصہ لیا۔
وہ ایک دلنواز اسلوب کے حامل خطیب تھے، ان کی شخصیت بھی دل نواز تھی، وہ اپنی باطنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ دل نواز طرزو انداز کے بھی مالک تھے، طبیعت میں نرم مزاجی اور خوش اخلاقی تھی، ان سے مل کر مسرّت حاصل ہوتی تھی اور طبیعت ان کی طرف مائل ہوتی تھی، گفتگو اور انداز کلام دل کو متأثر کرنے والا اور ذہنوں کو مطمئن کرنے والا تھا، اپنی بات کو علمی و تاریخی حوالوں اور مثالوں سے واضح کرتے تھے، بعض اہم ترین موقعوں پر علماء کی طرف سے ان کی نمائندگی بڑی مؤثر ثابت ہوئی، اس طریقہ سے در اصل دیوبند جو علوم دینیہ کا ایک مؤثر ترین ادارہ رہا ہے اور ہے، اس کی صحیح نمائندگی کا مولانا نے حق ادا کیا، اور اس کے مہتمم کے منصب پر فائز رہے، اور جو ذمہ داری ان پر عائد ہوتی تھی اس کو بھی ادا کیا‘‘، شوال ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۳ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ (حیات طیب ج:۱، ص:۲۲-۲۳)
والدہ ماجدہ:
آپ کی والدہ سہارنپور کے ایک قصبہ رامپور منیھارن کے ایک انصاری علمی خاندان کی چشم و چراغ، مولانا حافظ محمد صاحب کی دختر نیک اختر حنیفہ خاتون تھیں، ان کے متعلق خود مولانا کے والد حکیم الامت قاری محمد طیب صاحبؒ کے یہ تأثرات ہیں، فرماتے ہیں:
’’خود اپنی ذات سے صالحہ، پابندِ اوقات اور اپنے معمولات پر مستقیم تھیں، میں ان کے معمولات غبط کی نگاہوں سے دیکھا کرتا تھا، اور بسا اوقات ذہن میں تصور بندھ جاتا ہے کہ شاید یہی خاتون میرے لئے بھی نجات کا ذریعہ بن جائے، مرحومہ کو فرائض کی ادائیگی کا حد درجہ اہتمام تھا، گھر کے کیسے ہی کام میں مصروف ہوں، اذان کی آواز سنتے ہی ہر کام سے بیگانہ وار اُٹھ کر اوّل اوقات میں نماز ادا کئے بغیر مطمئن نہ ہوتی تھیں، ایک ہزار دانے کی تسبیح ان کے سرہانے رہا کرتی تھی، نمازِ عشاء کے بعد ایک ہزار بار کلمہ طیّبہ اور ادعیہ ماثورہ پڑھنے کا معمول تھا، جو سفر و حضر میں جاری رہتا، نمازِ صبح کے بعد تلاوتِ قرآن کریم سفر و حضر میں بغیر کسی شدید اور غیر اختیاری مجبوری کے ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ ‘‘ (جذبات الم ص:۶-۷)
۱۰ محرم ۱۳۹۴ھ کو ان کا انتقال ہوا۔
مزید لکھتے ہیں:
’’حج کا بھی ایک شوق ان کے دل میں تھا، میری معیت میں سات بار حج و زیارت روضۂ اقدس سے مشرف ہوئیں۔
حج و نماز اور اوقات کی پابندی کے ساتھ ان میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا یہ شغف تھا کہ پائی پائی کا حساب کر کے ادا کیا کرتی تھیں، شہر کے عزیزوں میں غریبوں اور بالخصوص غریب بیواؤں کی فہرست ان کے سامنے رہتی تھی، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خصوصیات و کمالات کی حامل تھیں ‘‘۔ (حوالۂ سابق)
تعلیم و تربیت:
مولانا نے اپنے والد حضرت حکیم الاسلام کی نگرانی و تربیت میں پرورش پائی، ۱۳۵۱ھ میں تعلیم کا آغاز ہوا، ناظرہ و حفظ قرآن کریم کی تکمیل جناب پیر جی شریف صاحب گنگوہی کے یہاں ہوئی۔
فارسی کا چار سالہ نصاب مکمل کیا، آپ کے فارسی کے اساتذہ میں خلیفہ عاقل صاحبؒ، مولانا ظہیر صاحبؒ، مولانا سید حسن صاحبؒ تھے۔
۱۳۶۲ھ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی زبانِ مبارک سے میزان پڑھی، یہ عظیم سعادت اس وقت پوری دنیا میں آپ کو ہی حاصل ہے، آپ کے علاوہ حکیم الامت سے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے والوں میں اب کوئی موجود نہیں ہے۔
علوم و فنون کی کتابوں میں کنز الدقائق حضرت مولانا سید اختر حسین میاں صاحبؒ سے، میبذی قاری اصغر صاحبؒ سے، مختصر المعانی و نظم العلوم حضرت مولانا عبدالسمیع صاحبؒ سے اور ہدایہ حضرت مولانا عبدالاحد صاحبؒ سے پڑھی۔
آپ نے ۱۳۶۷ھ مطابق ۱۹۴۸ء میں فراغت حاصل کی، آپ کے دورۂ حدیث شریف کے اساتذہ میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ، جامع المعقول و المنقول حضرت مولانا ابراہیم صاحب بلیاویؒ اور حضرت مولانا سید فخر الحسن صاحبؒ وغیرہ ہیں۔ (الشیخ محمد سالم القاسمی)
درس وتدریس

ذاتی صلاحیت، علمی پختگی اور خطابی قابلیت کا نتیجہ تھا کہ تعلیمی مراحل سے فراغت کے فوراً بعد ہی دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس مقر ر ہوئے اور ابتداء ً نورالایضاح اور ترجمۂ قرآن کریم کا درس آپ سے متعلق رہا، پھر بعد میں بخاری شریف، ابوداؤد شریف، مشکوٰۃ شریف، ہدایہ، شرح عقائد وغیرہ کتابیں آپ سے متعلق رہیں، اور اس وقت بخاری شریف میں آپ سے استفادہ جاری ہے۔

تدریسی زندگی کے متعلق ان کے ایک شاگردِ رشید جناب مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی (استاذ حدیث دار العلوم وقف، دیوبند) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

’’حضرت مولانا دار العلوم کے وہ استاذ ہیں، جو تدریس کے ساتھ وقت کے اتنے پابند کہ بلاشبہ طلبہ درسگاہ میں ان کی آمد پر اپنی گھڑیوں کے ٹائم سیٹ کرتے، طلبہ دیکھا کرتے تھے کہ وہ متعینہ درسگاہ (دار التفسیر) میں ایک قدم اندر رکھتے اسی وقت گھنٹہ بجتا تھا، وقت کے منٹوں اور سیکنڈوں کے لحاظ سے اتنے پابند دارالعلوم کے اساتذہ و کارکنان میں سے کوئی نہ تھا، یہ بھی ان کی خوبی تھی کہ تدریس کے لیے وہ اپنے گھر سے نکلتے اور براہ راست درسگاہ پہنچتے، اختتامی گھنٹہ بجتا اور وہ واپس صدر گیٹ کے راستے اپنے گھر کو، نہ کسی سے ملاقات، نہ کسی دفتر میں جانا‘‘۔ (ندائے دار العلوم)

امتیازی کمالات

آپ جملہ علوم و فنون میں ممتاز صلاحیتوں کے مالک، بالغ نظر، بلند فکر کے حامل ہیں، علوم قاسمی کی تشریح و تفہیم میں حکیم الاسلامؒ کے بعد شاید ہی آپ کا کوئی ہم پلّہ ہو، ہمیشہ علمی کاموں کے محرک رہے، زمانۂ تدریس میں دار العلوم دیوبند میں ایک تحقیقی شعبہ مرکز المعارف کا قیام عمل میں آیا، اور اس کے ذمہ دار بنائے گئے، ۱۹۹۶ء میں مراسلاتی طریقۂ تعلیم کی بنیاد پر اسلامی علوم و معارف کو جدید جامعات میں مصروفِ تعلیم طلباء و طالبات کے لئے آسان و قابلِ حصول بنانے کی غرض سے جامعہ دینیات دیوبند قائم فرمایا، جو کہ اُس دور کا خوبصورت ترین طریقۂ تعلیم تھا، آپ نے قرآن کریم پر ایک خاص حیثیت سے کام کا آغاز کیا، افسوس کہ یہ عظیم فاضلانہ علمی کام شورش دار العلوم کی نذر ہو گیا، آپ کے عالمانہ و حکیمانہ خطاب کا شہرہ عہدِ شباب ہی میں ملک کی سرحدوں کو پار کر چکا تھا، علم میں گہرائی، فکر میں گیرائی، مطالعہ میں وسعت، مزاج میں شرافت اور باقاعدگی، زبان سے نکلا ہوا ہر جملہ فکر و بصیرت سے منور، حکمت وفلسفہ کے رنگ میں کتاب وسنت کی بے مثال تشریح و تفہیم کا ملکہ، مدلّل اسلوبِ گفتگو و صاحب الرائے، یہ وہ امتیازی کمالات ہیں جن سے آپ کی ذات مرصع و مزین ہے۔ (حیات طیب، ج:۱)

قیام دار العلوم وقف دیوبند

۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۲ء میں دار العلوم میں پیدا ہونے والے اختلاف کے بعد آپ نے اپنے رفقاء کے تعاون سے دار العلوم وقف کے نام سے دوسرا دار العلوم قائم کر لیا، جس کے شروع سے مہتمم اور اب سرپرست ہیں، ساتھ ہی بخاری شریف کی تدریسی خدمات کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں۔

عہدے و مناصب

(۱) مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ماضی میں رکن مجلس عاملہ اور اب نائب صدر۔

(۲) سرپرست دار العلوم وقف دیوبند۔

(۳) صدر مجلس مشاورت۔

(۴) رکن مجلس انتظامیہ و شوریٰ ندوۃ العلماء۔

(۵) رکن مجلسِ شوریٰ مظاہر العلوم وقف۔

(۶) مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کورٹ کے رکن۔

(۷) سرپرست کل ہند رابطۂ مساجد۔

(۸) سرپرست اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا۔

انعامات و اعزازات

(۱) مصری حکومت کی طرف سے برِّصغیر کے ممتاز عالم کا نشانِ امتیاز۔

(۲) مولانا قاسم نانوتوی ایوارڈ۔ (۳) حضرت شاہ ولی اللہؒ ایوارڈ۔

اور بہت سے انعامات و اعزازات سے آپ کو نوازا گیا ہے ۔

انفرادی خصوصیت

اللہ تبارک  و تعالیٰ نے مولانا کو گوناگوں خصوصیات اور بے شمار امتیازی صفات سے نوازا، لیکن مولانا کی ایک اہم خصوصیت جس کا ہر ایک کو اعتراف ہے وہ امت اور ملّت کی فکر میں اپنا سب کچھ قربان کر دینا ہے، اسی کا نتیجہ ہے اب بھی جبکہ مولانا کی عمر ہجری تقویم کے اعتبار سے ۹۲ سال سے تجاوز کر چکی، کمزوری غالب آ چکی ہے، پھر بھی ہند و بیرونِ ہند کے اسفار کرتے رہتے ہیں، جلسوں میں شرکت کرتے ہیں، عوام سے مخاطب ہوتے ہیں، اداروں اور مدارس کی سرپرستی  و نگرانی فرماتے ہیں، ہر وقت امت کی فکر میں اور اس کی خیر و صلاح کے سلسلہ میں متفکر رہتے ہیں، اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ تمام کاموں کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں۔

ایک اہم کارنامہ

یوں تو مولانا نے مختلف طریقے پر دین کی خدمت انجام دی، لیکن مولانا کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ دینیات کے نصاب کا قیام اور اس کی اشاعت و ترویج ہے۔

مولانا نے جب محسوس کیا کہ بچّوں اور بچّیوں کی تعلیم کے ادارے تو بہت ہیں، اور اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لیکن بڑی عمر کے لوگوں کے لئے دینی تعلیم کا کوئی نظم نہیں ہے، اس مقصد کے پیشِ نظر ۱۹۹۶ء میں مولانا نے جامعہ دینیات کے نام سے ایک ا دارہ قائم کیا، اور اس کے ذریعہ گھر بیٹھے دینی تعلیم حاصل کرنے کا آسان طریقہ متعارف کرایا، جو آج تک آپ کی سرپرستی میں اپنا فیض جاری رکھے ہوئے ہے۔

اولاد

(۱) محمد سلمان قاسمی

شرحِ جامی تک دار العلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی میں تعلیم حاصل کی، ایم۔ اے کرنے کے بعد ۱۹۸۰ء میں بہ غرض ملازمت جدّہ چلے گئے، چار سال وہاں قیام رہا، ۱۹۸۶ء میں پاکستان منتقل ہو گئے، اور وہیں آئی۔ اے میں ملازم ہوئے۔

(۲) (مولانا) محمد سفیان قاسمی

حفظِ قرآن کریم کے بعد دار العلوم دیوبند میں تعلیم مکمل کی، ۱۹۷۵ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے، دورانِ تعلیم ہی پرائیوٹ طریقے پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ہائی۔ اسکول سے ایم۔ اے تک امتحانات دیے، ۱۹۷۶ء میں جامعۃ الازھر، قاہرہ میں کلیۃ الشریعہ سے ماجستیر (ایم۔ اے ) کیا، ۱۹۸۰ء میں واپسی ہوئی، ۱۹۸۳ء سے دار العلوم وقف سے وابستگی ہوئی، اور ابتدائی کتب زیرِ تدریس رہیں، تدریجاً انتظامی ذمہ داریاں بھی سپرد ہوئیں، ۲۰۰۷ء کے کلکتہ اجلاس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رُکن منتخب کئے گئے، اس کے علاوہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے بھی رُکن ہیں۔

(۳) محمد عدنان قاسمی

جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی سے ہائی اسکول کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم۔ کام، تک تعلیم حاصل کی، تجارتی سرگرمی کے لئے ۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۲ء ساؤتھ امریکہ کے ملک چلّی میں مقیم رہے، فی الحال دہلی میں مقیم ہیں اور تجارتی مصروفیات میں مشغول ہیں۔

(۴) حافظ محمد عاصم قاسمی

حفظِ قرآن کے بعد جامعہ ملّیہ دہلی سے ہائی اسکول پاس کیا، جیّد حافظ ہونے کے ساتھ خوش لحن انداز میں قرأت سے متأثر ہو کر بعض عرب حضرات نے بہ غرض تراویح امریکہ کی دعوت دی، بقیہ تعلیم وہیں مکمل کی، تعلیم کے بعد تجارتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کے اسلامک سینٹر سے بھی وابستہ رہے، اور اپنے حلقۂ اثر میں تبلیغ اسلام خاص موضوع رہا، چالیس سے زائد افراد نے دل نشیں انداز تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، جنھیں قرآن کی تعلیم دی، دنیا کے مختلف ممالک میں قیام پذیر ہوئے، اور امریکی شہریت اختیار کی، اب دہلی میں مقیم ہیں۔

(۵) اسماء اعجاز

سید اعجاز حسنی صاحب، جو کہ چاندپور، ضلع بجنور کے ایک معروف گھرانے کے چشم و چراغ ہیں، سے منسوب ہیں، ایم اے اُردو تک تعلیم حاصل کی، اس وقت دہلی میں مقیم ہیں۔

(۶) عظمیٰ ناہید

مولانا حامد انصاری غازی صاحب کے صاحبزادے سلمان منصور غازی صاحب کے نکاح میں ہیں، إقراء ایجوکیشنل فاؤنڈیشن شکاگو کی ہندوستانی شاخ کی چیرمین ہیں، اس کے علاوہ ملک و بیرون ملک اصلاحی تحریکات سے فعال وابستگی کی بنیاد پر ملک کی معتبر ترین خاتون کی حیثیت سے متعارف ہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں خواتین ونگ میں نہایت فعال شخصیت کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ (پس مرگ زندہ)

اخلاق  و عادات

مولانا خاندانِ قاسمی کی بہت سی خوبیوں اور خصوصیات کے وارث و امین ہیں، ہر جماعت اور ہر طبقے کے لئے محترم، باوجود یکہ ان کے خلاف باضابطہ مہم بھی چلائی گئی، ان کو مطعون کرنے کی کوشش کی گئی، مگر کبھی تقریر یا تحریر کے ذریعہ کسی کے خلاف بولنے کے روا دار نہیں ہوئے، نہ غیبت کرنا جانتے ہیں، نہ سننا پسند کرتے ہیں، سخت ترین مخالفین کے خلاف بھی لب کشائی نہیں فرماتے، مجلس میں ہوں تو با وقار، اسٹیج پر ہوں تو نمونۂ اسلاف، سفر میں ہوں تو مرنجا مرنج و خوش مزاج، مدارس کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں، مگر سفر کے تعب و مشقت کا قطعی تذکرہ نہیں، ہر طرح کے سفر اور محنت و مشقت کے خوگر۔

اساتذہ

مولانا نے اپنے زمانے کے ممتاز و مایہ ناز علماء و مشائخ سے استفادہ کیا، جن میں سے کچھ یہ ہیں :

(۱) مولانا اشرف علی تھانویؒ

(۲) علامہ ابراہیم بلیاویؒ

(۳) شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہویؒ

(۴) شیخ الحدیث مولانا فخر الحسن گنگوھیؒ

(۵) شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ

(۶) حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ

(۷) شیخ الاسلام حسین احمد مدنیؒ

خطابت واسفار

مولانا کا ایک اہم اور نمایاں وصف خطابت ہے اور وہ خطیب الاسلام، خطیب العصر اور جانشین حکیم الاسلام جیسے القاب و خطابات سے یاد کئے جاتے ہیں۔

چونکہ خطابت میں روانی تھی اور حلقہ معتقدین کا، اس لئے ملک و بیرون ملک دعوتی اسفار ہوتے رہے ہیں، بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ دیوبند میں قیام اور تدریس و اہتمام کے ایّام کے مقابلے میں اسفار اور اجلاس، کانفرنس، سیمینار وغیرہ میں شرکت کے لئے دورے زیادہ ہیں، کئی جلدوں پر مشتمل ان کے خطبات کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔

ذوقِ تحقیق و تصنیف

کثرتِ اسفار اور بے پناہ مشغولیات کے باوجود مولانا مضمون نویسی اور تالیف و تصنیف کے لئے کچھ وقت نکالتے ہیں، مختلف عنوانات پر بیش قیمت مقالے تحریر کئے ہیں، کتابوں کے لئے تمہیدی مقدمات اور بے شمار تقریظات لکھیں ہیں، چند کتابیں بھی طبع ہو چکی ہیں اور بہت سارا مواد منتظر طباعت ہے، مطبوعہ کتب میں ’’مبادی التربیۃ الاسلامیۃ‘‘ (عربی) ’’تاجدارِ ارضِ حرم کا پیغام‘‘، ’’ مردِ غازی‘‘ اور ایک ’’عظیم تاریخی خدمت ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اس سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے باضابطہ طور پر اگرچہ تصنیف و تحقیق کا میدان اختیار نہ کیا، لیکن ان کے تبحر علمی سے مستفید ہو کر اربابِ علم و فضل نے مختلف موضوعات پر کئی اہم کتابیں تصنیف کی ہیں، اور حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب کے خطبات، مقالات، ملفوظات اور رسائل کے مجموعے ان کی رہنمائی اور نگرانی میں شائع ہو چکے ہیں، ادھر قریبی عرصہ میں حجۃ الاسلام اکیڈمی کے ذریعہ بہت سے علمی کام انجام پائے ہیں، خصوصاً سوانحی موضوعات پر کتابیں شائع ہوئی ہیں۔

تعلق بیعت و ارشاد

مولانا محمد سالم صاحب نے بیعت و ارادت کا تعلق حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری سے قائم کیا، لیکن اصلاح و تربیت اپنے والد ماجد حضرت مولانا قاری طیب صاحبؒ سے لی، اور ان کے مجازِ بیعت و ارشاد ہو کر ان کے متوسلین اور خلفاء کی تربیت فرمائی۔

مولانا کے سلوک و ارشاد میں تربیت و اجازت پانے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، اجازت یافتہ حضرات کی تعداد ۱۰۰  سے متجاوز ہے۔

عظیم قاسمی علمی میراث

حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے نوازا تھا، علم و عمل کے میدان میں ایک عظیم الشان مجدد کی حیثیت سے اسلامی دنیا آپ کو ہمیشہ یاد رکھے گی، امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی کی اسلامی علمی وراثت کے محافظ ہونے کے سبب مولانا کا مقام یگانہ ہے، دار العلوم جیسے عظیم اسلامی ادارے اور اس کے علاوہ کئی اور دینی مدارس کے بانی ہونے کی حیثیت سے مولانا کی فوقیت مسلم ہے۔

اس کے ساتھ ہی اللہ نے مولانا کو ایک اور عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا ہے، اور وہ ہے آپ کے نہایت ہی لائق و فائق علمی و صلبی ورثاء۔

آپ کے بعد آپ کے مسندِ علم پر جلوہ افروز ہونے والے آپ کے لائق و فائق فرزند ارجمند مولانا محمد احمد صاحب نانوتویؒ نے اپنی لیاقت اور نسبت کے ذریعے دار العلوم دیوبند کو عالمی ادارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اور دار العلوم دیوبند کے مسندِ اہتمام پر ۴۰ سال تک جلوہ افروز رہتے ہوئے دار العلوم دیوبند کی تمام ابتدائی عمارتوں کی تکمیل فرمائی۔

ان کے بعد ان کے فرزند حجۃ الاسلام کے پوتے حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ نے علمی حلقوں میں عظیم الشان مقام حاصل کیا، امام نانوتو یؒ کے اس عظیم اور مقر ر بے مثال پوتے کو دار العلوم دیوبند کا ’’معمار ثانی‘‘ کہا جاتا ہے، امام نانوتوی کے علوم کے شارح ہونے کے ساتھ مسلکِ دیوبند کے سب سے عظیم ترجمان کی حیثیت سے حضرت حکیم الاسلام کا مقام مسلم ہے، علمائے دیوبند میں حکیم الاسلام کو عظیم الشان مقر ر تسلیم کیا جاتا ہے، ’’ خطبات حکیم الاسلام‘‘ جو کہ آپ کی تقاریر کا مجموعہ ہے، اس کے علاوہ آپ کی دیگر تصانیف، اسرار شریعت کا خزانہ ہونے کے علاوہ مسلک علمائے دیوبند کی ترجمان ہیں، حکیم الاسلام دار العلوم دیوبند کی تاریخ میں سب سے لمبی مدت یعنی ۵۳ سال تک منصب اہتمام پر فائز رہے، اور دنیا کے مختلف گوشوں میں جا کر دار العلوم دیوبند کی خدمات سے اہل علم کو متعارف کروایا۔

علاوہ ازیں امام نانوتوی کے پڑ پوتوں اور حکیم الاسلام کے دو فرزندوں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی اور آپ کے برادر محترم حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی دامت برکاتہم علومِ حدیث وتفسیر میں اپنا اہم اور اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔

فی الحال حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی بلاشبہ مکتبۂ فکر دیوبند کو امام نانوتوی اور تمام اکابر علمائے دیوبند کی فکر  و بصیرت اور علمی وراثت سے جوڑے رکھنے والی ایک اہم کڑی ہیں۔

اس طرح الحمد للہ علم کا وہ بحرِ بیکراں جو امام نانوتوی کے ہاتھوں کی انگلیوں سے جاری ہوا تھا، اور وہ تحریک جس کا مقصد ہندوستان میں اسلام کی شمع کو روشن رکھنا تھا، اسے ان کے انتہائی لائق و فائق علمی و صلبی ورثاء نے جاری و روشن رکھا، اور یہی وجہ بھی بنی کہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے خانوادۂ علمیہ قاسمیہ کو خانوادۂ والی اللٰہی کا متبادل بنا کر ہندستان کے مسلمانوں کا ناخدا بنا دیا۔ (Islamicthought.edu )

٭٭٭

مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو:

(۱) حیات طیب، شائع کردہ: حجۃ الاسلام اکیڈمی۔

(۲) پس مرگ زندہ، از: مولانا نور عالم خلیل امینی۔

(۳) خطیب الاسلام الشیخ محمد سالم القاسمی۔

(۴) ندائے دار العلوم کے مختلف شمارے۔

(۵) مولانا اسلام صاحب کا مضمون، شائع شدہ ندائے دار العلوم وقف۔

ٍ        (۶) الامام الأکبر، از: محمد اویس صدیقی نانوتوی۔

(۷) دیوبند و علمائے دیوبند سے متعلق ویب سائٹس
.......
*دارالعلوم دیوبند کے سلسلة الذھب کی آخری کڑی*
*شخصیت کے عناصر ترکیبی اور خدمات جلیلہ*

بقلم: *مفتی عبد المنان قاسمی دیناجپوری*

اللہ تبارک و تعالٰی نے کا عجیب دستور و قانون ہے کہ دنیا کی شادابی و شبابی، رعنائی و زیبائی کو برقرار رکھنے کے لیے تراش و خراش کا عمل جاری رہتا ہے، کتنی ایسی شخصیات وجود میں آئیں جنہوں نے اس دنیا کو اپنی خدمات سے روشن کردیا، دنیا نے ان کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور اپنے خون جگر سے دنیا کو سینچ کر بدعات و خرافات کا قلع قمع کیا اور سنن کے احیا کا فریضہ انجام دے کر دنیا میں رونق بپا کردیا ۔
ان ہی شخصیات میں سے ایک عبقری شخصیت، علوم ومعارف کے بحر بے کراں، عالم اسلام کی عظیم ترین ہستی، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوں نور اللہ مرقدہ کے آخری شاگرد رشید، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے جانشیں، خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ، سابق صدر مہتمم دار العلوم وقف دیوبند و نائب صدر مسلم پرسنل لا بورڈ اور سینکڑوں مدارس وجامعات اور ملی تنظیموں کے سرپرست ۔
یہ عظیم ترین ہستی آج بروز سنیچر (27 رجب المرجب 1439ھ / 14.4.2018) بعد نماز ظہر اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگئی
*انا للہ وانا الیہ راجعون *

*سوانحی خاکہ*:
نام نامی اسم گرامی: حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ  
ولادت: ۱۳۴۴ھ/ 1926ء
والد ماجد کا نام: (حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری) محمد طیب صاحب قاسمی
جائے پیدائش: طیب منزل، دیوبند، سہارنپور، انڈیا
تاریخ پیدائش:  ۲۲  جمادی الثانی ۱۳۴۴ھ مطابق ۸ جنوری ۱۹۲۶ء
ابتدائی تعلیم:  مختلف اساتذۂ کرام سے انفرادی طور پر
ثانوی تعلیم: ازہر ہند دار العلوم دیوبند
تکمیل تعلیم:  دار العلوم دیوبند
موجودہ اہم ذمہ داری: صدر مہتمم دار العلوم وقف، نائب صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ
حالیہ پتہ: آستانہ قاسمی،  دیوبند، سہارنپور، الھند

*شخصیت کے عناصر ترکیبی*:
صاحبزادہ حکیم الاسلام، خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی خانوادۂ قاسمی کے گل سر سب، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب کے خلف اکبر و حقیقی جانشین، علوم ومعارف قاسمیہ کے عظیم ترین ترجمان، سر خیل علمائے دیوبند، موجودہ دور کے عالمی اسلامی کے سب سے بڑے عالمی شہرت یافتہ عالم دین، دارالعلوم وقف دیوبند کے صدر مہتمم اور اس کے سرپرست۔
نیز حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ کے صحبت یافتہ اور شاگرد بھی ہیں، زمانۂ تعلیم کے ان کے رفقاء میں کئی ممتاز شخصیات میں سے ایک نام حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدّظلّہ العالی کا بھی ہے، جو ہدایہ کے سبق میں ان کے ساتھ تھے، ان کے معاصرین اور رفقاء تعلیم میں حضرت مولانا اسعد مدنی ابن شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عتیق الرحمن بن مولانا محمد منظور نعمانی وغیرہ شامل ہیں۔

*حسب ونسب اور خاندانی وجاہت*:
(حضرت مولانا) محمد سالم بن (مولانا قاری) محمد طیب بن (مولانا) محمد احمد بن (حجۃ الاسلام مولانا) محمد قاسم بن اسد علی بن غلام شاہ بن محمد بخش بن علاء الدین ابو الفتح بن محمد مفتی بن عبد السمیع بن محمد ہاشم بن شاہ محمد بن قاضی طہٰ بن مفتی امان اللہ بن قاضی جمال الدین بن قاضی میراں بن قاضی مظہر الدین، جن کا سلسلۂ نسب حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ (حیات طیب، ج:۱)

*ولادت باسعادت*:
اس علمی وفکری خانوادہ اور بزرگ والدین کی گود میں آپ کی ولادت بروز جمعہ بتاریخ ۲۲ جمادی الثانی ۱۳۴۴ھ مطابق ۸ جنوری 1926 کو آستانہ قاسمی (طیب منزل) دیوبند میں ہوئی۔

*خاندان و اجداد*:
جیسا کہ ابھی سابق میں معلوم ہوا کہ آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ ثانی سیّدنا ابو بکر صدیقؓ تک پہنچتا ہے، اس خانوادہ کی ہندوستان آمد کے متعلق الامام الأکبر کے مصنف ڈاکٹر محمد اویس صدیقی نانوتوی فرماتے ہیں :

’’سب سے پہلے اس خاندان کے جس فرد نے ہندوستان کا رُخ کیا وہ قاضی مظہر الدین ہیں، جو نویں صدی ہجری کے اواخر میں سکندر لودھی کے زمانے میں اس کی دعوت پر ہندوستان تشریف لائے، اسی زمانہ میں نانوتہ و اطراف میں جاٹوں نے سر اٹھایا، جن کی سر کوبی کے لئے سکندر لودھی نے قاضی مظہر الدین کے فرزند قاضی میراں کی قیادت میں ایک لشکر بھیجا، لشکر کی کامیابی پر خوش ہو کر سکندر لودھی نے یہ علاقہ اس خاندان کے نام کر دیا، اس کے بعد سے اس خاندان نے نانوتہ میں بود و باش اختیار کی، پھر دار العلوم دیوبند کے قیام کے بعد مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے اہل خانہ دیوبند کے ہو کے رہ گئے۔ (الإمام الاکبر ص:۷۴-۷۵)

*والد ماجد حضرت حکیم الاسلام*:
حصرت خطیب الاسلام نور اللہ مرقدہ کے والد ماجد حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ کی ذاتِ گرامی سے کون واقف نہیں ہو گا؟آپ علم و کمال، حکمت و بصیرت، فہم وفراست، اخلاق و عمل، پاکیزگی وتقدس کی ایک خوبصورت تصویر، مسلکِ دیوبند کے ترجمان اور ملّت کے صالحین کی سیرت و کردار کے عکسِ جمیل تھے، آپ کی بھی ولادت باسعادت دیوبند ہی میں ہوئی، سات سال کی عمر میں تعلیم کی ابتداء کی، حصولِ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دینا شروع کیا اور مختلف علوم و فنون کی اہم کتابیں پڑھائیں، ۱۳۴۱ھ تا ۱۳۴۸ھ تک آپ دار العلوم دیوبند کے نائب مہتمم کے منصب پر فائز رہے، پھر آپ کو مہتمم منتخب کیا گیا، اس عہدے پر آپ تقریباً تا حیات فائز رہے۔ (حیات طیب، ج:۱)

یوں تو حضرت قاری صاحب پر بہت کچھ لکھا گیا، اور لکھا جاتا رہے گا، جس میں حضرت قاری صاحب کی انفرادی خصوصیات، امتیازی صفات اور روشن خیالات کا اعتراف کیا گیا، جن کا احصاء مشکل ہے اور نہ ہی یہ اس وقت کا ہمارا موضوع ہے، اس موقع پر ہم اپنے استاذِ محترم، ندوۃ العلماء کے ناظم جناب مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؔ دامت برکاتہم کی ایک تحریر کا اقتباس پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں :

’’حکیم الاسلام کی شخصیت اپنے عہد کی بڑی مایہ ناز علمی و ادبی شخصیت تھی، علم دین اور حکمت و دانش کے بلند پایہ حامل تھے، انھوں نے اپنے عظیم مورث اور علومِ دینیہ میں مقام بلند رکھنے والے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ سے علمی گیرائی اور وسعت کی وراثت پائی تھی، اس کو ان کی تقریروں تحریروں اور دروس میں محسوس کیا جاتا رہا ہے۔

انھوں نے اس بلند علمی مقام کے ساتھ ساتھ دارا لعلوم دیوبند جیسی عظیم درسگاہ کو جو اُن کے اسلاف کی کوشش کا مرکز رہی تھی، اپنے آغاز جوانی میں سنبھالا، اور اس کی خدمت میں اپنی پوری عمر لگا دی، ان کی کوششوں کا مظہر صرف دار العلوم دیوبند کی ترقی اور مضبوطی ہی میں نمایاں اور محدود نہیں تھا، بلکہ اس کے نمائندۂ خاص ہونے کے تعلق سے ہندوستانی مسلمانوں کی دینی رہنمائی کا فریضہ بھی اثر پذیری کے ساتھ انجام دیا، مسلمانوں میں جو دینی انحراف یا عقائد کی خرابی پائی جاتی تھی اس کے ازالہ میں بھی خصوصی حصہ لیا۔

وہ ایک دلنواز اسلوب کے حامل خطیب تھے، ان کی شخصیت بھی دل نواز تھی، وہ اپنی باطنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ دل نواز طرزو انداز کے بھی مالک تھے، طبیعت میں نرم مزاجی اور خوش اخلاقی تھی، ان سے مل کر مسرّت حاصل ہوتی تھی اور طبیعت ان کی طرف مائل ہوتی تھی، گفتگو اور انداز کلام دل کو متأثر کرنے والا اور ذہنوں کو مطمئن کرنے والا تھا، اپنی بات کو علمی و تاریخی حوالوں اور مثالوں سے واضح کرتے تھے، بعض اہم ترین موقعوں پر علماء کی طرف سے ان کی نمائندگی بڑی مؤثر ثابت ہوئی، اس طریقہ سے در اصل دیوبند جو علوم دینیہ کا ایک مؤثر ترین ادارہ رہا ہے اور ہے، اس کی صحیح نمائندگی کا مولانا نے حق ادا کیا، اور اس کے مہتمم کے منصب پر فائز رہے، اور جو ذمہ داری ان پر عائد ہوتی تھی اس کو بھی ادا کیا‘‘، شوال ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۳ء کو آپ کی وفات ہوئی۔ (حیات طیب ج:۱، ص:۲۲-۲۳)

*والدہ ماجدہ*:
آپ کی والدہ سہارنپور کے ایک قصبہ رامپور منیھارن کے ایک انصاری علمی خاندان کی چشم و چراغ، مولانا حافظ محمد صاحب کی دختر نیک اختر حنیفہ خاتون تھیں، ان کے متعلق خود مولانا کے والد حکیم الامت قاری محمد طیب صاحبؒ کے یہ تأثرات ہیں، فرماتے ہیں :
’’خود اپنی ذات سے صالحہ، پابندِ اوقات اور اپنے معمولات پر مستقیم تھیں، میں ان کے معمولات غبط کی نگاہوں سے دیکھا کرتا تھا، اور بسا اوقات ذہن میں تصور بندھ جاتا ہے کہ شاید یہی خاتون میرے لئے بھی نجات کا ذریعہ بن جائے، مرحومہ کو فرائض کی ادائیگی کا حد درجہ اہتمام تھا، گھر کے کیسے ہی کام میں مصروف ہوں، اذان کی آواز سنتے ہی ہر کام سے بیگانہ وار اُٹھ کر اوّل اوقات میں نماز ادا کئے بغیر مطمئن نہ ہوتی تھیں، ایک ہزار دانے کی تسبیح ان کے سرہانے رہا کرتی تھی، نمازِ عشاء کے بعد ایک ہزار بار کلمہ طیّبہ اور ادعیہ ماثورہ پڑھنے کا معمول تھا، جو سفر و حضر میں جاری رہتا، نمازِ صبح کے بعد تلاوتِ قرآن کریم سفر و حضر میں بغیر کسی شدید اور غیر اختیاری مجبوری کے ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ ‘‘ (جذبات الم ص:۶-۷)

۱۰ محرم ۱۳۹۴ھ کو ان کا انتقال ہوا۔

مزید لکھتے ہیں :

’’حج کا بھی ایک شوق ان کے دل میں تھا، میری معیت میں سات بار حج و زیارت روضۂ اقدس سے مشرف ہوئیں۔

حج و نماز اور اوقات کی پابندی کے ساتھ ان میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا یہ شغف تھا کہ پائی پائی کا حساب کر کے ادا کیا کرتی تھیں، شہر کے عزیزوں میں غریبوں اور بالخصوص غریب بیواؤں کی فہرست ان کے سامنے رہتی تھی، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خصوصیات و کمالات کی حامل تھیں ‘‘۔ (حوالۂ سابق)

*تعلیم و تربیت*:
مولانا نے اپنے والد حضرت حکیم الاسلام کی نگرانی و تربیت میں پرورش پائی، ۱۳۵۱ھ میں تعلیم کا آغاز ہوا، ناظرہ و حفظ قرآن کریم کی تکمیل جناب پیر جی شریف صاحب گنگوہی کے یہاں ہوئی۔

فارسی کا چار سالہ نصاب مکمل کیا، آپ کے فارسی کے اساتذہ میں خلیفہ عاقل صاحبؒ، مولانا ظہیر صاحبؒ، مولانا سید حسن صاحبؒ تھے۔

۱۳۶۲ھ میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی زبانِ مبارک سے میزان پڑھی، یہ عظیم سعادت اس وقت پوری دنیا میں آپ کو ہی حاصل ہے، آپ کے علاوہ حکیم الامت سے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے والوں میں اب کوئی موجود نہیں ہے۔

علوم و فنون کی کتابوں میں کنز الدقائق حضرت مولانا سید اختر حسین میاں صاحبؒ سے، میبذی قاری اصغر صاحبؒ سے، مختصر المعانی و نظم العلوم حضرت مولانا عبدالسمیع صاحبؒ سے اور ہدایہ حضرت مولانا عبدالاحد صاحبؒ سے پڑھی۔

آپ نے ۱۳۶۷ھ مطابق ۱۹۴۸ء میں فراغت حاصل کی، آپ کے دورۂ حدیث شریف کے اساتذہ میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ، جامع المعقول و المنقول حضرت مولانا ابراہیم صاحب بلیاویؒ اور حضرت مولانا سید فخر الحسن صاحبؒ وغیرہ ہیں۔ (الشیخ محمد سالم القاسمی)

*درس وتدریس*:
ذاتی صلاحیت، علمی پختگی اور خطابی قابلیت کا نتیجہ تھا کہ تعلیمی مراحل سے فراغت کے فوراً بعد ہی دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس مقر ر ہوئے اور ابتداء ً نورالایضاح اور ترجمۂ قرآن کریم کا درس آپ سے متعلق رہا، پھر بعد میں بخاری شریف، ابوداؤد شریف، مشکوٰۃ شریف، ہدایہ، شرح عقائد وغیرہ کتابیں آپ سے متعلق رہیں، اور اس وقت بخاری شریف میں آپ سے استفادہ جاری ہے۔

تدریسی زندگی کے متعلق ان کے ایک شاگردِ رشید جناب مولانا محمد اسلام صاحب قاسمی (استاذ حدیث دار العلوم وقف، دیوبند) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :

’’حضرت مولانا دار العلوم کے وہ استاذ ہیں، جو تدریس کے ساتھ وقت کے اتنے پابند کہ بلاشبہ طلبہ درسگاہ میں ان کی آمد پر اپنی گھڑیوں کے ٹائم سیٹ کرتے، طلبہ دیکھا کرتے تھے کہ وہ متعینہ درسگاہ (دار التفسیر) میں ایک قدم اندر رکھتے اسی وقت گھنٹہ بجتا تھا، وقت کے منٹوں اور سیکنڈوں کے لحاظ سے اتنے پابند دارالعلوم کے اساتذہ و کارکنان میں سے کوئی نہ تھا، یہ بھی ان کی خوبی تھی کہ تدریس کے لیے وہ اپنے گھر سے نکلتے اور براہ راست درسگاہ پہنچتے، اختتامی گھنٹہ بجتا اور وہ واپس صدر گیٹ کے راستے اپنے گھر کو، نہ کسی سے ملاقات، نہ کسی دفتر میں جانا‘‘۔ (ندائے دار العلوم)

*امتیازی کمالات*:
آپ جملہ علوم و فنون میں ممتاز صلاحیتوں کے مالک، بالغ نظر، بلند فکر کے حامل ہیں، علوم قاسمی کی تشریح و تفہیم میں حکیم الاسلامؒ کے بعد شاید ہی آپ کا کوئی ہم پلّہ ہو، ہمیشہ علمی کاموں کے محرک رہے، زمانۂ تدریس میں دار العلوم دیوبند میں ایک تحقیقی شعبہ مرکز المعارف کا قیام عمل میں آیا، اور اس کے ذمہ دار بنائے گئے، ۱۹۹۶ء میں مراسلاتی طریقۂ تعلیم کی بنیاد پر اسلامی علوم و معارف کو جدید جامعات میں مصروفِ تعلیم طلباء و طالبات کے لئے آسان و قابلِ حصول بنانے کی غرض سے جامعہ دینیات دیوبند قائم فرمایا، جو کہ اُس دور کا خوبصورت ترین طریقۂ تعلیم تھا، آپ نے قرآن کریم پر ایک خاص حیثیت سے کام کا آغاز کیا، افسوس کہ یہ عظیم فاضلانہ علمی کام شورش دار العلوم کی نذر ہو گیا، آپ کے عالمانہ و حکیمانہ خطاب کا شہرہ عہدِ شباب ہی میں ملک کی سرحدوں کو پار کر چکا تھا، علم میں گہرائی، فکر میں گیرائی، مطالعہ میں وسعت، مزاج میں شرافت اور باقاعدگی، زبان سے نکلا ہوا ہر جملہ فکر و بصیرت سے منور، حکمت وفلسفہ کے رنگ میں کتاب وسنت کی بے مثال تشریح و تفہیم کا ملکہ، مدلّل اسلوبِ گفتگو و صاحب الرائے، یہ وہ امتیازی کمالات ہیں جن سے آپ کی ذات مرصع و مزین ہے۔ (حیات طیب، ج:۱)

*قیام دار العلوم وقف دیوبند*:
۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۲ء میں دار العلوم میں پیدا ہونے والے اختلاف کے بعد آپ نے اپنے رفقاء کے تعاون سے دار العلوم وقف کے نام سے دوسرا دار العلوم قائم کر لیا، جس کے شروع سے مہتمم اور اب سرپرست ہیں، ساتھ ہی بخاری شریف کی تدریسی خدمات کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں۔

*عہدے و مناصب*:
(۱) مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ماضی میں رکن مجلس عاملہ اور اب نائب صدر۔
(۲) سرپرست دار العلوم وقف دیوبند۔
(۳) صدر مجلس مشاورت۔
(۴) رکن مجلس انتظامیہ و شوریٰ ندوۃ العلماء۔
(۵) رکن مجلسِ شوریٰ مظاہر العلوم وقف۔
(۶) مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے کورٹ کے رکن۔
(۷) سرپرست کل ہند رابطۂ مساجد۔
(۸) سرپرست اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا۔

*انعامات و اعزازات*:
(۱) مصری حکومت کی طرف سے برِّصغیر کے ممتاز عالم کا نشانِ امتیاز۔
(۲) مولانا قاسم نانوتوی ایوارڈ۔ (۳) حضرت شاہ ولی اللہؒ ایوارڈ۔
اور بہت سے انعامات و اعزازات سے آپ کو نوازا گیا ہے ۔

*انفرادی خصوصیت*:
اللہ تبارک  و تعالیٰ نے مولانا کو گوناگوں خصوصیات اور بے شمار امتیازی صفات سے نوازا، لیکن مولانا کی ایک اہم خصوصیت جس کا ہر ایک کو اعتراف ہے وہ امت اور ملّت کی فکر میں اپنا سب کچھ قربان کر دینا ہے، اسی کا نتیجہ ہے اب بھی جبکہ مولانا کی عمر ہجری تقویم کے اعتبار سے ۹۲ سال سے تجاوز کر چکی، کمزوری غالب آ چکی ہے، پھر بھی ہند و بیرونِ ہند کے اسفار کرتے رہتے ہیں، جلسوں میں شرکت کرتے ہیں، عوام سے مخاطب ہوتے ہیں، اداروں اور مدارس کی سرپرستی  و نگرانی فرماتے ہیں، ہر وقت امت کی فکر میں اور اس کی خیر و صلاح کے سلسلہ میں متفکر رہتے ہیں، اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ تمام کاموں کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہیں۔

*ایک اہم کارنامہ*:
یوں تو مولانا نے مختلف طریقے پر دین کی خدمت انجام دی، لیکن مولانا کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ دینیات کے نصاب کا قیام اور اس کی اشاعت و ترویج ہے۔

مولانا نے جب محسوس کیا کہ بچّوں اور بچّیوں کی تعلیم کے ادارے تو بہت ہیں، اور اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لیکن بڑی عمر کے لوگوں کے لئے دینی تعلیم کا کوئی نظم نہیں ہے، اس مقصد کے پیشِ نظر ۱۹۹۶ء میں مولانا نے جامعہ دینیات کے نام سے ایک ا دارہ قائم کیا، اور اس کے ذریعہ گھر بیٹھے دینی تعلیم حاصل کرنے کا آسان طریقہ متعارف کرایا، جو آج تک آپ کی سرپرستی میں اپنا فیض جاری رکھے ہوئے ہے۔

*اولاد*:
(۱) محمد سلمان قاسمی

شرحِ جامی تک دار العلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی میں تعلیم حاصل کی، ایم۔ اے کرنے کے بعد ۱۹۸۰ء میں بہ غرض ملازمت جدّہ چلے گئے، چار سال وہاں قیام رہا، ۱۹۸۶ء میں پاکستان منتقل ہو گئے، اور وہیں آئی۔ اے میں ملازم ہوئے۔

(۲) (مولانا) محمد سفیان قاسمی

حفظِ قرآن کریم کے بعد دار العلوم دیوبند میں تعلیم مکمل کی، ۱۹۷۵ء میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے، دورانِ تعلیم ہی پرائیوٹ طریقے پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ہائی۔ اسکول سے ایم۔ اے تک امتحانات دیے، ۱۹۷۶ء میں جامعۃ الازھر، قاہرہ میں کلیۃ الشریعہ سے ماجستیر (ایم۔ اے ) کیا، ۱۹۸۰ء میں واپسی ہوئی، ۱۹۸۳ء سے دار العلوم وقف سے وابستگی ہوئی، اور ابتدائی کتب زیرِ تدریس رہیں، تدریجاً انتظامی ذمہ داریاں بھی سپرد ہوئیں، ۲۰۰۷ء کے کلکتہ اجلاس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رُکن منتخب کئے گئے، اس کے علاوہ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے بھی رُکن ہیں۔

(۳) محمد عدنان قاسمی

جامعہ ملّیہ اسلامیہ دہلی سے ہائی اسکول کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم۔ کام، تک تعلیم حاصل کی، تجارتی سرگرمی کے لئے ۱۹۹۰ء تا ۱۹۹۲ء ساؤتھ امریکہ کے ملک چلّی میں مقیم رہے، فی الحال دہلی میں مقیم ہیں اور تجارتی مصروفیات میں مشغول ہیں۔

(۴) حافظ محمد عاصم قاسمی

حفظِ قرآن کے بعد جامعہ ملّیہ دہلی سے ہائی اسکول پاس کیا، جیّد حافظ ہونے کے ساتھ خوش لحن انداز میں قرأت سے متأثر ہو کر بعض عرب حضرات نے بہ غرض تراویح امریکہ کی دعوت دی، بقیہ تعلیم وہیں مکمل کی، تعلیم کے بعد تجارتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کے اسلامک سینٹر سے بھی وابستہ رہے، اور اپنے حلقۂ اثر میں تبلیغ اسلام خاص موضوع رہا، چالیس سے زائد افراد نے دل نشیں انداز تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا، جنھیں قرآن کی تعلیم دی، دنیا کے مختلف ممالک میں قیام پذیر ہوئے، اور امریکی شہریت اختیار کی، اب دہلی میں مقیم ہیں۔

(۵) اسماء اعجاز

سید اعجاز حسنی صاحب، جو کہ چاندپور، ضلع بجنور کے ایک معروف گھرانے کے چشم و چراغ ہیں، سے منسوب ہیں، ایم اے اُردو تک تعلیم حاصل کی، اس وقت دہلی میں مقیم ہیں۔

(۶) عظمیٰ ناہید

مولانا حامد انصاری غازی صاحب کے صاحبزادے سلمان منصور غازی صاحب کے نکاح میں ہیں، إقراء ایجوکیشنل فاؤنڈیشن شکاگو کی ہندوستانی شاخ کی چیرمین ہیں، اس کے علاوہ ملک و بیرون ملک اصلاحی تحریکات سے فعال وابستگی کی بنیاد پر ملک کی معتبر ترین خاتون کی حیثیت سے متعارف ہیں، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں خواتین ونگ میں نہایت فعال شخصیت کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ (پس مرگ زندہ)

*اخلاق  وعادات*:
حضرت خطیب الاسلام رحمہ اللہ خاندانِ قاسمی کی بہت سی خوبیوں اور خصوصیات کے وارث و امین ہیں، ہر جماعت اور ہر طبقے کے لئے محترم، باوجود یکہ ان کے خلاف باضابطہ مہم بھی چلائی گئی، ان کو مطعون کرنے کی کوشش کی گئی، مگر کبھی تقریر یا تحریر کے ذریعہ کسی کے خلاف بولنے کے روا دار نہیں ہوئے، نہ غیبت کرنا جانتے ہیں، نہ سننا پسند کرتے ہیں، سخت ترین مخالفین کے خلاف بھی لب کشائی نہیں فرماتے، مجلس میں ہوں تو با وقار، اسٹیج پر ہوں تو نمونۂ اسلاف، سفر میں ہوں تو مرنجا مرنج و خوش مزاج، مدارس کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں، مگر سفر کے تعب و مشقت کا قطعی تذکرہ نہیں، ہر طرح کے سفر اور محنت و مشقت کے خوگر۔

*اساتذۂ علم وفن*:
مولانا نے اپنے زمانے کے ممتاز و مایہ ناز علماء و مشائخ سے استفادہ کیا، جن میں سے کچھ یہ ہیں :

(۱) مولانا اشرف علی تھانویؒ

(۲) علامہ ابراہیم بلیاویؒ

(۳) شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہویؒ

(۴) شیخ الحدیث مولانا فخر الحسن گنگوھیؒ

(۵) شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ

(۶) حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ

(۷) شیخ الاسلام حسین احمد مدنیؒ

*خطابت واسفار*:
مولانا کا ایک اہم اور نمایاں وصف خطابت ہے اور وہ خطیب الاسلام، خطیب العصر اور جانشین حکیم الاسلام جیسے القاب و خطابات سے یاد کئے جاتے ہیں۔

چونکہ خطابت میں روانی تھی اور حلقہ معتقدین کا، اس لئے ملک و بیرون ملک دعوتی اسفار ہوتے رہے ہیں، بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ دیوبند میں قیام اور تدریس و اہتمام کے ایّام کے مقابلے میں اسفار اور اجلاس، کانفرنس، سیمینار وغیرہ میں شرکت کے لئے دورے زیادہ ہیں، کئی جلدوں پر مشتمل ان کے خطبات کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔

*ذوقِ تحقیق و تصنیف*:
کثرتِ اسفار اور بے پناہ مشغولیات کے باوجود مولانا مضمون نویسی اور تالیف و تصنیف کے لئے کچھ وقت نکالتے ہیں، مختلف عنوانات پر بیش قیمت مقالے تحریر کئے ہیں، کتابوں کے لئے تمہیدی مقدمات اور بے شمار تقریظات لکھیں ہیں، چند کتابیں بھی طبع ہو چکی ہیں اور بہت سارا مواد منتظر طباعت ہے، مطبوعہ کتب میں ’’مبادی التربیۃ الاسلامیۃ‘‘ (عربی) ’’تاجدارِ ارضِ حرم کا پیغام‘‘، ’’ مردِ غازی‘‘ اور ایک ’’عظیم تاریخی خدمت ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

اس سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے باضابطہ طور پر اگرچہ تصنیف و تحقیق کا میدان اختیار نہ کیا، لیکن ان کے تبحر علمی سے مستفید ہو کر اربابِ علم و فضل نے مختلف موضوعات پر کئی اہم کتابیں تصنیف کی ہیں، اور حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب کے خطبات، مقالات، ملفوظات اور رسائل کے مجموعے ان کی رہنمائی اور نگرانی میں شائع ہو چکے ہیں، ادھر قریبی عرصہ میں حجۃ الاسلام اکیڈمی کے ذریعہ بہت سے علمی کام انجام پائے ہیں، خصوصاً سوانحی موضوعات پر کتابیں شائع ہوئی ہیں۔

*تعلق بیعت و ارشاد*:
مولانا محمد سالم صاحب نے بیعت و ارادت کا تعلق حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری سے قائم کیا، لیکن اصلاح و تربیت اپنے والد ماجد حضرت مولانا قاری طیب صاحبؒ سے لی، اور ان کے مجازِ بیعت و ارشاد ہو کر ان کے متوسلین اور خلفاء کی تربیت فرمائی۔

مولانا کے سلوک و ارشاد میں تربیت و اجازت پانے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، اجازت یافتہ حضرات کی تعداد ۱۰۰  سے متجاوز ہے۔

*عظیم قاسمی علمی میراث*:
حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل و کرم سے نوازا تھا، علم و عمل کے میدان میں ایک عظیم الشان مجدد کی حیثیت سے اسلامی دنیا آپ کو ہمیشہ یاد رکھے گی، امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی کی اسلامی علمی وراثت کے محافظ ہونے کے سبب مولانا کا مقام یگانہ ہے، دار العلوم جیسے عظیم اسلامی ادارے اور اس کے علاوہ کئی اور دینی مدارس کے بانی ہونے کی حیثیت سے مولانا کی فوقیت مسلم ہے۔

اس کے ساتھ ہی اللہ نے مولانا کو ایک اور عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا ہے، اور وہ ہے آپ کے نہایت ہی لائق و فائق علمی و صلبی ورثاء۔

آپ کے بعد آپ کے مسندِ علم پر جلوہ افروز ہونے والے آپ کے لائق و فائق فرزند ارجمند مولانا محمد احمد صاحب نانوتویؒ نے اپنی لیاقت اور نسبت کے ذریعے دار العلوم دیوبند کو عالمی ادارہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا، اور دار العلوم دیوبند کے مسندِ اہتمام پر ۴۰ سال تک جلوہ افروز رہتے ہوئے دار العلوم دیوبند کی تمام ابتدائی عمارتوں کی تکمیل فرمائی۔

ان کے بعد ان کے فرزند حجۃ الاسلام کے پوتے حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ نے علمی حلقوں میں عظیم الشان مقام حاصل کیا، امام نانوتو یؒ کے اس عظیم اور مقر ر بے مثال پوتے کو دار العلوم دیوبند کا ’’معمار ثانی‘‘ کہا جاتا ہے، امام نانوتوی کے علوم کے شارح ہونے کے ساتھ مسلکِ دیوبند کے سب سے عظیم ترجمان کی حیثیت سے حضرت حکیم الاسلام کا مقام مسلم ہے، علمائے دیوبند میں حکیم الاسلام کو عظیم الشان مقر ر تسلیم کیا جاتا ہے، ’’ خطبات حکیم الاسلام‘‘ جو کہ آپ کی تقاریر کا مجموعہ ہے، اس کے علاوہ آپ کی دیگر تصانیف، اسرار شریعت کا خزانہ ہونے کے علاوہ مسلک علمائے دیوبند کی ترجمان ہیں، حکیم الاسلام دار العلوم دیوبند کی تاریخ میں سب سے لمبی مدت یعنی ۵۳ سال تک منصب اہتمام پر فائز رہے، اور دنیا کے مختلف گوشوں میں جا کر دار العلوم دیوبند کی خدمات سے اہل علم کو متعارف کروایا۔

علاوہ ازیں امام نانوتوی کے پڑ پوتوں اور حکیم الاسلام کے دو فرزندوں خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی اور آپ کے برادر محترم حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی دامت برکاتہم علومِ حدیث وتفسیر میں اپنا اہم اور اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔

فی الحال حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی بلاشبہ مکتبۂ فکر دیوبند کو امام نانوتوی اور تمام اکابر علمائے دیوبند کی فکر  و بصیرت اور علمی وراثت سے جوڑے رکھنے والی ایک اہم کڑی ہیں۔

اس طرح الحمد للہ علم کا وہ بحرِ بیکراں جو امام نانوتوی کے ہاتھوں کی انگلیوں سے جاری ہوا تھا، اور وہ تحریک جس کا مقصد ہندوستان میں اسلام کی شمع کو روشن رکھنا تھا، اسے ان کے انتہائی لائق و فائق علمی و صلبی ورثاء نے جاری و روشن رکھا، اور یہی وجہ بھی بنی کہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے خانوادۂ علمیہ قاسمیہ کو خانوادۂ والی اللٰہی کا متبادل بنا کر ہندستان کے مسلمانوں کا ناخدا بنا دیا
اللہ تعالی حضرت خطیب الاسلام علیہ الرحمہ کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے
آخرت کی ساری راحتیں نصیب فرمائے
درجات بلند فرمائے
جنت الفردوس میں مقام کریم عطا فرمائے
پس ماندگان کو صبر جمیل اور دارالعلوم وقف دیوبند کو نعم البدل عطا فرمائے.
...

٭٭٭
اظہار تعزیت وفات خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب رحمتہ اللہ علیہ بزبان متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ ۔۔
https://youtu.be/vdDb29vTpFs

No comments:

Post a Comment