Monday 30 April 2018

روزوں کا فدیہ رمضان سے پہلے دینے کا حکم

(۱۰۷) روزوں کا فدیہ رمضان سے پہلے دینے کا حکم
سؤال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے کافی عرصے سے شوگر ہے، مجھے ڈاکٹر نے ہر تھوڑی دیر بعد پانی پینے کا کہا ہے ہر رمضان میں مجھے کافی پریشانی ہوتی ہے، میں فدیہ نکالتا ہوں، اس سال سوچ رہا ہوں کہ اپنا فدیہ رمضان سے پہلے ہی کسی غریب کو دیدوں، اور یہ بھی خیال آرہا ہے کہ کیوں نہ دو تین سالوں کا یک بارگی دیدوں تاکہ اس غریب کا کچھ بھلا ہوجائے۔ تو کیا اس طرح رمضان سے پہلے میرا روزوں کا فدیہ دینا درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا طریقہ اپنائوں، ذرا وضاحت سے بتادیں۔


الجواب بعون الملک الوھاب
 نجم الفتاوی جلد 3 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع
اگر کسی شخص کوایسامرض لاحق ہوجائے جس سے صحت یابی کی کوئی امید نہ ہواورکسی ماہرڈاکٹرنے بھی اس مرض کی تشخیص کردی ہواوروہ شخص روزہ رکھنے سے بالکل لاچاربھی ہو تواسے ہرروزہ کے بدلہ فدیہ ادا کرنا پڑیگا (فدیہ کی مقدار صدقہ فطرکی طرح ہے)۔ لہٰذاصورت مسئولہ میں اگریہ شخص جسکوشوگرکا مرض لاحق ہے، مذکورہ بالاصفات کا حامل ہے تو اس کے لئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہوگی ورنہ نہیں۔ ایسے شخص کیلئے جسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہورمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے اس سال کے روزوں کا فدیہ دینا یا رمضان ہی میں یا رمضان سے پہلے آئندہ دو تین سالوں کے روزوں کا فدیہ جائز نہیں۔ البتہ یہ صورت اختیار کرلی جائے کہ اول رمضان میں اس سال کے تمام روزوں کا فدیہ یکبارگی دے دیں۔
لمافی الھندیۃ (۲۰۷/۱): فالشیخ الفانی الذی لایقدر علی الصیام یفطر ویطعم لکل یوم مسکیناً کما یطعم فی الکفارۃ… ثم ان شاء اعطیٰ الفدیۃ فی اول رمضان بمرۃ وان شاء اخرھا۔
وفی الدرالمختار(۴۲۷/۲): (وللشیخ الفانی العاجز عن الصوم الفطر ویفدی وجوباً) ولو فی اوّل الشھر … ھذا اذا کان الصوم اصلاً بنفسہ وخوطب باداء ہ۔
وفی الشامیۃ تحتہ: ومثلہ مافی القھستانی عن الکرمانی المریض اذا تحقق الیأس من الصحۃ فعلیہ الفدیۃ لکل یوم من المرض
وفی الدرالمختار (۲۹۳/۲): (ولو عجل ذونصاب) زکوتہ (لسنین او لنصب صح) لوجود السبب… واختلف فیہ قبل النبات وخروج الثمرۃ والاظھر الجواز
وفی الشامیۃ تحتہ:افاد ان التعجیل قبل الزرع او قبل الغرس لایجوز اتفاقاً لانہ قبل وجود السبب کمالو عجل زکاۃ المال قبل ملک النصاب۔
نجم الفتاوی
....
رمضان سے پہلے صدقۂ فطرا دا کرنا:

(سوال ۲۴۹) صدقۂ فطر کی ادائیگی کا وقت کیا ہے؟ عام طور پر کتابوں میں لکھا ہے کہ عید الفطر سے پہلے رمضان میں ادا کرے تو بھی جائز ہے، سید الملت حضرت مولانا مفتی سید محمد میاں صاحب رحمہ اﷲ نے اپنے رسالہ ’دینی تعلیم کا رسالہ‘ نمبر ۱۱ کے ص ۸۱ پر اس کے متعلق حسب ذیل عبارت تحر یر فرمائی ہے:
’’اگر کوئی شخص عید سے پہلے رمضان شریف میں صدقۂ فطرادا کردے تو یہ بھی جائز ہے لیکن اگر رمضان سے بھی پہلے مثلاً شعبان میں یارجب میں ادا کرے تو جائز نہیں ۔‘‘ 
اور حاشیہ میں ہے: 
’’جیسے زکوٰۃ کے بارے میں گذر چکا ہے کہ مالک نصاب ہونے کے بعد سال پورا ہونے سے پہلے کوئی شخص اس سال کی زکوٰۃ ادا کرے تو وہ جائز ہے، لیکن ابھی نصاب کا مالک نہیں ہوا تھا کہ زکوٰۃ ادا کر دی تو وہ زکوٰۃ نہیں مانی جائے گی بلکہ اس کی طرف سے نفلی خیرات ہوگی۔
مگر علم الفقہ جلد چہارم میں اس کے بالکل برعکس عبارت ہے، وہ تحریر فرماتے ہیں:
(۹) صدقۂ فطر کا قبل رمضان کے آنے کے ادا کر دینا بھی جائز ہے اور دوسرے شہر میں بھی بوجہ مذکورہ بالا بھیجنا درست ہے۔ (علم الفقہ ج۴ ص ۶۶)
نیز ’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ میں دیکھا تو اس میں اس کی تائید ہوتی ہے، عبارت حسب ذیل ہے: 
ویصح اداء ھا مقدما ومؤخراً لا ن وقت ادائھا العمر فلو اخر جھا فی ای وقت شاء کان مؤدیاً لا قاضیاً کما فی سائر الواجبات الموسعۃ (الفقہ علی المذاہب الا ربعۃ ص ۶۲۷ جلد اول )۔ 
اسی طرح عالمگیری سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، اگر یوم عید الفطر سے پہلے صدقۂ فطر دے دیں تو جائز ہے اور مدت کے مقدار کی کچھ تفصیل نہیں ہے، یہی صحیح ہے (عالمگیری ج۱ ص۳۰۰) آپ مفتی بہ قول تحریر فرمائیں کہ تشویش دور ہو۔ 
فقط بینوا توجروا۔السائل۔(مولانا) موسیٰ کرما ڈی۔ انگلینڈ۔

(الجواب) اختلافی مسئلہ ہے، رمضان سے پہلے کا بھی قول ہے، اس پر عمل کرنا خلاف احتیاط ہے، ماہ رمضان میں بھی ادا کرنے میں اختلاف ہے مگر قوی یہ ہے کہ درست ہے اور صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔ بحر الرائق میں ہے: 
وصح اداؤھا لو قدم او اخر) ای صح اداؤھا اذا قدمہ علیٰ یوم الفطر او اخرہ۔الی قولہ ۔ فصار کتقدیم الزکوٰۃ علی الحول بعد ملک النصاب بمعنی انہ لا فارق لاانہ قیاس فاندفع ابہ مافی فتح القدیر من ان حکم الا صل علیٰ خلاف القیاس لکنہ وجد فیہ دلیل وھو حدیث البخاری وکانوا یعطون قبل الفطر بیوم اوبیو مین واطلق فی التقدیم فشمل مااذا دخل رمضان وقبلہ وصححہ المصنف فی الکا فی وفی الہدایۃ والتبیین وشروح الھدایۃ وفی فتاویٰ قاضی خاں ۔ وقال خلف بن ایوب یجوز التعجیل اذا دخل رمضان وھکذا ذکرہ الا مام محمد بن الفضل وھو الصحیح وفی فتاویٰ الظھیریۃ والصحیح انہ یجوز تعجیلھا اذا دخل شھر رمضان وھو اختیار الشیخ الا مام أ بی بکر محمد بن الفضل وعلیہ الفتویٰ الخ۔ فقد إ ختلف التصحیح کما تریٰ لکن تأ ید التقییدبد خول رمضان بان الفتویٰ علیہ فلیکن العمل علیہ الخ (البحرالرائق ج۲ ص ۲۵۵ باب صدقۃ الفطر) فقط ۔واﷲ اعلم بالصواب ۔۱۸ رمضان المبارک ۱۳۹۷؁ھ۔
فتاویٰ رحیمیہ

No comments:

Post a Comment