Monday 30 April 2018

فضیل جعفری؛ اردو نے ایک مستند ادیب شاعر اور صحافی کھودیا

ایس اے ساگر
اردو کے نامور صحافی روز نامہ انقلاب، ہفت روزہ بلٹز کے سابق ایڈیٹر، نقاد، شاعر، فضیل جعفری نہیں رہے، گزشتہ شام شمال مغربی ممبئی کے کاندیولی علاقہ میں اپنی رہائش گاہ پر 81 سال کی عمر میں آپ دنیا فانی سے کوچ کرگئے. حضرت مولانا محمود دریابادی صاحب کے بقول: نام سے شیعہ ہونے کا گمان ہوتا ہے مگر صحیح العقیدہ تھے، میرا رابطہ رہتا تھا، کئی برس قبل بھی ایک مرتبہ تین طلاق کا تنازع اٹھا تھا، اس وقت وہ انقلاب کے ایڈیٹر تھے تب مجھ سے فون پر طلاق ثلاثہ کی مکمل تفصیلات انھوں نے معلوم کی تھی، دراصل ان کو یہ غلط فہمی تھی کہ بیک وقت تین طلاقیں صرف احناف کے یہاں نافذ ہوتی ہیں مگر جب میں نے ان بتایا کہ اس میں ائمہ اربعہ متفق ہیں تو انھیں بہت تعجب ہوا تھاـ
اردو کے صاحب طرز ادیب ومستند شاعر ہونے کے اور درجنوں صحافیوں کے مربّی  ہونے کے باوجود اپنے چھوٹوں سے سیکھنے کا حوصلہ بھی ان میں تھا،
ایک مرتبہ دواخانے تشریف لائے کچھ گفتگو کے بعد چلتے چلتے اچانک سوال کیا کہ اردو میں 'کاروباری مندی' کے لئے کون سا لفظ ہے؟
میں نے کہا: قرآن میں 'کساد' آیا ہے. اسی سے کساد بازاری اردو میں استعمال کیا جاتا ہے، فورا جیب سے کاغذ نکالا اور اس کو نوٹ کرلیاـ
میں نے ذاکر نائیک کے خلاف یزید پر ایک مضمون لکھا تھا وہ ان کی نظر سے گذرا ہوگا، مبارکباد دینے کے لئے تشریف لائے بہت حوصلہ افزائی فرمائی، اس مضمون میں صواعق محرقہ سے کئی حوالے دئے گئے تھے، پوچھا: صواعق محرقہ کس کی کتاب ہے؟
میں کہا ابن حجر مکی، 
فورا کاغذ پر اس کو بھی نوٹ کرلیاـ
جن دنوں حضرت ہردوئی بغرض علاج ممبئی میں مقیم تھے، فضیل صاحب نے مجھے فون کیا کہ: سنا ہے مولانا تھانوی صاحب کے خلیفہ ممبئی میں ہیں؟ ان سے ملاقات کی کیا شکل ہوگی؟ 
میں نے حضرت کی قیام گاہ پر حاضر ہوکر وقت لیا پھر وقت مقررہ پر میرے ساتھ فضیل صاحب حضرت کی خدمت میں عقیدت کے ساتھ حاضر ہوئے، حضرت نے دعائیں دیں، ایک رسالہ بھی عطا فرمایا..... وہ رسالہ قسط وار انقلاب میں شائع ہواـ"
موصولہ اطلاع کے مطابق فضیل جعفری نے پیر کو بوقت مغرب آخری سانس لی اور بتایا جاتا ہے کہ تقریباً ڈیڑھ دومہینے سے کافی علیل رہے۔ وہ کینسر کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ مرحوم نے تنقید نگاری کے لئے ہند، پاک میں شہرت حاصل کی تھی لیکن روزنامہ انقلاب سے دو مرتبہ مدیر رہے، پہلے 1990 تا 1995 اور پھر سابق مدیر ہارون رشید کے انتقال کے بعد انہیں دوبارہ 2000 میں انقلاب کے مدیر کے عہدہ پر فائز کیا گیا لیکن نامساعد حالات اور اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے فضیل جعفری نے 2003 کے آخرمیں عین عیدالفطر کے دن اپنے عہدے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ انقلاب میں دوبارہ مدیر بننے سے قبل تقریباً ڈیڑھ سال مرحوم مشہور زمانہ اردو بلٹز کے مدیر اعلیٰ رہے اور اس سے پہلے خواجہ احمد عباس کے انتقال کے بعد بلٹز کا فضیل جعفری کا تعلق اترپردیش کے مردم خیز الہ آباد کے قصبہ کریلی سے تھا، 22 جولائی 1936 کو پیدا ہوئے اور تعلیم مکمل کرکے ممبئی کا رُخ کیا تھا اور بالآخر یہیں اپنے خالق حقیقی سے جاملے. پسماندگان میں اہلیہ عطیہ جعفری ،صاحبزادے ارشد جعفری اور دوبٹیاں ہیں۔ اللہ مغفرت فرمائے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائےـ

No comments:

Post a Comment