Friday, 13 April 2018

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور وقرن فی بیوتکن

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور وقرن فی بیوتکن

گزشتہ کئی ہفتوں سے ہندوستان میں خواتین ریلی کی ایک بدعت جاری تھی جو الحمدللہ 4 اپریل کے بعد موقوف کر دی گئی۔ اللہ کرے کہ آئندہ یہ بدعت پھر نہ دہرائی جائے۔ ملک کے لاتعداد اربابِ علم و ہنر کو بہت صدمہ تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ مرد خود گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر مستورات کو مظاہرے کے لیے کیوں نکال رہے ہیں؟ بناتِ حوا کی یہ ریلیاں شریعت کی کس اصل سے ثابت ہیں؟ متعدد علمائے کرام نے ان مظاہروں پر کھل کر تنقید کی۔ بے شمار علما و مفتیان مصالح کے پیشِ نظر ان زنانہ احتجاجوں کی کھل کر تردید تو نہ کر سکے، مگر کھل کر تائید بھی نہ کر سکے۔ راقم السطور شروع سے ہی اس طرح کی زنانہ تحریکوں کے خلاف رہا ہے۔ چناں چہ اس پر اپنا موقف رکھا اور اس عمل کو برملا "بدعت" کہا۔ جب کہ بعض اصحابِ قلم نے زنانہ تحریکوں کی حمایت میں مضامین لکھے۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کا حق تھا، جسے چھینا نہیں جا سکتا۔ خاکسار نے ان مضامین کو بغور پڑھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ انہوں نے اپنے موقف کے اثبات میں ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے عمل سے بھی استدلال کیا ہے۔ فدوی ایک ہفتے سے اپنے ایک رشتے دار حضرت مولانا سید افضل حسین قاسمی صاحب کی دعوت پر بہار کے سفر پر تھا اس لیے بروقت اس کی تردید ممکن نہ تھی۔ لاریب کہ حضرت عائشہؓ کا جنگِ جمل کی قیادت کرنا ایک تاریخی حقیقت ہے، مگر آدھا ادھورا قصہ سنا کر اس سے استدلال کرنا ایسا ہے جیسے کوئی نماز نہ پڑھنے کی تلقین آیت کے صرف اس ٹکڑے سے کرے: یایہاالذین آمنوا لا تقربوا الصلوٰۃ (اے مسلمانو! نماز کے قریب بھی نہ جاؤ) اور: "وانتم سکاریٰ" چھوڑ دے۔ حالانکہ یہی ٹکڑا اس جملے کی جان تھا۔ یقین مانیے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے قصے سے استدلال بھی ٹھیک اسی نوعیت کا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے آپ پوری تحریر پڑھیے۔

*حضرت عائشہؓ بصرہ روانہ ہو گئیں*

تیسرے خلیفۂ راشد حضرت عثمان غنیؓ شہید کر دیے گئے تو مسلمانوں میں بڑا صدمہ تھا۔ یہ حج کا زمانہ تھا۔ حضرت علیؓ کی خلافت کا اعلان بھی ہو چکا تھا۔ پیغمبرﷺ کی تمام ازواجِ مطہراتؓ سفرِ حج پر تھیں۔ شہادت کی خبر انہیں پہونچی تو حضرت عائشہؓ اور دیگر ازواجِ مطہرات نے مدینہ واپسی کا ارادہ کرلیا۔ مقصد یہ تھا کہ حضرت علیؓ کو حضرت عثمانؓ کے خون کا قصاص لینے پر آمادہ کیا جائے۔ تاہم بہت سے افراد کی رائے یہ رہی کہ پہلے اس کے لیے بصرہ جا کر راہ ہموار کی جائے۔ وہاں بلوہ پھوٹ پڑا ہے۔ حالات بہت سنگین ہیں۔ لوگوں کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھا جائے۔ حضرت عائشہؓ اس رائے سے متاثر ہوگئیں اور بصرہ کے لیے پا بہ رکاب، جب کہ دیگر ازواجِ مطہرات نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ: ہم مدینہ منورہ کے علاوہ کہیں نہیں جائیں گے۔ (دیکھیے البدایہ و النہایہ، ص 230،ج 7)

*حوأب کے کتّے*

ام المؤمنینؓ سفرِ بصرہ میں جب کافی دور چل چکیں تو ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ یہ "حوأب" تھا۔ پیغمبرﷺ نے ان کے سامنے ایک موقعے پر اس کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ رات آئی تو کتوں نے بھونکنا شروع کردیا۔ ام المؤمنین کے استفسار پر پتہ چلا کہ یہ تو "حوأب" ہے۔ سن کر چونک گئیں، کیوں کہ انہیں رسالت مآب ﷺ کی یہ پیش گوئی یاد آگئی تھی:
*کیف باحدیٰکن تنبح علیھا کلاب الحوأب* (مسند احمد، ج 6،ص، 52)
تم میں سے ایک کا اس وقت کیا حال ہوگا جب اس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے۔

*ام المؤمنینؓ کا سفرِ بصرہ جاری رکھنے سے انکار*

پیغمبرﷺ کی پیش گوئی پوری ہوتے دیکھ حضرت عائشہؓ گھبرا گئیں اور بصرہ کی طرف بڑھنے سے صاف انکار کر دیا اور اپنے ہمراہیوں سے باصرار کہنے لگیں کہ مجھے مدینہ واپس لے چلو۔ اسی کشمکش میں ایک دن ایک رات "حوأب" میں ہی نکل گیا۔ اب ان کا رخ مدینے کی طرف ہونے ہی والا تھا کہ بعض حضرات نے کہا کہ آپ کا بصرہ جانا ضروری ہے۔ مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح ہو جائے گی۔ بعض روایت میں ہے کہ کسی نے آپ کے سامنے تردید بھی کہ یہ جگہ "حوأب" نہیں ہے۔ (البدایہ و النہایہ، ج 7،ص 231)

*بالآخر بصرہ کا سفر جاری رہا*

طبیعت کے انکار اور ہمراہیوں کے شدید اصرار کے بعد حضرت عائشہؓ کو سفر جاری رکھنا پڑا۔ بصرہ پہونچیں تو کسی نے مقصدِ سفر دریافت کر لیا۔ آپؓ نے فرمایا: *ای بنیّ! الاصلاح بین الناس* "اے بیٹے! میں لوگوں کے درمیان صلح کرانے آئی ہوں"

*ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کا حضرت عائشہؓ کے نام مکتوبِ گرامی*

باوجودیکہ یہ سفر اصلاح بین الناس جیسے پاکیزہ اور بلند ترین مقصد کے لیے تھا، لیکن اس کے باوصف متعدد صحابۂ کرامؓ نے انہیں باز رہنے کے لیے خطوط لکھے۔ ام سلمہؓ نے بھی ایک تاریخی خط لکھا، جس سے اسلامی خواتین کی حقیقت و ماہیت خوب اجاگر ہوتی ہے۔ حمد و صلوٰۃ کے بعد انہوں نے لکھا:

*آپ رسولﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے درمیان ایک دروازہ ہیں۔ آپؓ وہ پردہ ہیں جو آں حضرت ﷺ کی حرمت پر ڈالا گیا ہے۔ قرآن نے آپ کے دامن کو سمیٹا ہے۔ آپ اسے نہ پھیلائیں اور اپنی حرمت کی حفاظت کریں۔ آپ اس کی ناقدری نہ کریں۔ اگر رسولﷺ کو معلوم ہوتا کہ خواتین پر جہاد کی ذمے داری عائد ہوتی ہے تو وہ آپ کو اس کی وصیت کرتے۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ رسولﷺ نے آپ کو شہروں میں آگے بڑھنے سے روکا تھا، اس لیے اگر دین کا ستون متزلزل ہونے لگے تو وہ عورتوں سے کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اور اگر اس میں شگاف پڑنے لگے تو عورتوں سے اس کا بھراؤ ممکن نہیں۔ عورتوں کا جہاد یہ ہے کہ وہ نگاہیں نیچی رکھیں۔ دامنوں کو سمیٹیں اور چھوٹے قدموں سے چلیں۔ آپ جن صحراؤں میں ایک گھاٹ سے دوسرے گھاٹ تک اپنی اونٹنی دوڑا رہی ہیں اگر وہاں رسول اللہﷺ آپ کے سامنے آ جائیں تو آپ کے پاس ان سے کہنے کو کیا ہوگا؟ کل آپ کو رسولﷺ کے پاس جانا ہے۔ اور میں قسم کھاتی ہوں کہ اگر مجھ سے کہا جائے کہ ام سلمہ جنت میں چلی جاؤ، تب بھی مجھے اس بات سے حیا آئے گی کہ میں رسولﷺ سے اس حالت میں ملوں کہ جو پردہ آپ ﷺ نے مجھ پر ڈالا تھا، اسے میں چاک کر چکی ہوں، لہذا آپ اس کو اپنا پردہ بنائیے۔ اپنے گھر کی چار دیواری کو اپنا قلعہ سمجھیے، کیوں کہ جب تک آپ اپنے گھر میں رہیں گی، اس امت کی سب سے بڑی خیرخواہ ہوں گی۔* (العقد الفرید، ص 66،ج، 5)

*حضرت عائشہؓ کا جواب*

یہ خط ایک تھرما میٹر اور کسوٹی ہے۔ نسوانی مظاہروں اور مستورات کی جماعت کے قائلین حضرت ام سلمہؓ کا یہ خط پڑھیں، بار بار پڑھیں اور سوچیں کہ کیا نسوانی مظاہرے اس خط کی کسوٹی پر کھرے اترتے ہیں؟ یہ جذباتی اور ایمان افروز مکتوب حضرت عائشہؓ تک پہونچا تو وہ بھی تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکیں اور یہ کہہ کر اس کی قدر دانی کی:

*فما اقبلنی لوعظک و اعرفنی لحق نصیحتک* "میں آپ کی نصیحت کو خوب قبول کرتی ہوں اور آپ کے حقِ نصیحت سے اچھی طرح باخبر ہوں"

*زید ابن صوحانؓ کا جھنجھوڑ دینے والا خط حضرت عائشہؓ کے نام*

مفتی رشید احمد لدھیانویؒ (احسن الفتاویٰ ج 6،ص 175 پر) رقم طراز ہیں:

حضرت ام سلمہؓ کے علاوہ اور بھی بہت سے صحابۂ کرامؓ نے انہیں گھر سے باہر کی اس محدود ذمے داری اٹھانے سے روکا، چناں چہ حضرت زید بن صوحانؓ نے حضرت عائشہؓ کو ایک خط میں لکھا:

*سلام علیک، امابعد! فانک امرت بامر وامرنا بغیرہ، امرت ان تقری فی بیتک وامرنا ان نقاتل الناس حتیٰ لاتکون فتنۃ، فترکت ما امرت بہ وکتبت تنھیننا عما امرنا بہ، والسلام*
"سلام کے بعد۔ آپ کو ایک کام کا حکم دیا گیا ہے اور ہمیں دوسرے کام کا۔ آپ کو حکم ہے کہ گھر میں قرار سے رہیں اور ہمیں حکم ہے کہ ہم لوگوں سے اس وقت تک لڑیں جب تک فتنہ باقی رہے۔ آپ نے اپنے کام کو چھوڑ دیا اور ہمیں اس کام سے روک رہی ہیں جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے (العقد الفرید، ج 5،ص 67) "

*اور جنگِ جمل ہو کر رہی*

خیر کاتبِ تقدیر نے جو لکھا تھا وہ ہو کر رہا۔ حضرت عائشہؓ اصلاح بین الناس کے اپنے موقف پر جمی رہیں۔صلح تو کیا ہوتی، دشمنوں کی سازش کے نتیجے میں جنگ ہی ہوئی۔ خطرناک اور سنگین۔ دل دہلا دینے والی۔ چوں کہ اس جنگ میں حضرت عائشہؓ اونٹ پر سوار ہو کر فوج کی قیادت کررہی تھیں۔ جمل عربی میں اونٹ کو کہتے ہیں، اس لیے اس معرکے کو "جنگِ جمل" کا نام دیا گیا۔

*سفرِ بصرہ اور مابعدِ سفر پر حضرت عائشہؓ کا اظہارِ ندامت*

پاکیزہ مقصد سے لبریز سفر بھیانک ثابت ہوا۔ جنگِ جمل جیسا تباہ کن معرکہ سامنے آیا۔ یہ جنگ حضرتِ عائشہؓ کی تحریک کے خلاف تھی، چناں چہ بعد میں جو کچھ ہوا اسے علامہ شمس الدین ذہبیؒ کی زبانی سنیے:

*ولا ریب ان عائشۃ ندمت ندامۃ کلیۃ علیٰ مسیرھا الی البصرۃ و حضورھا یوم الجمل وما ظنت ان الامر یبلغ ما بلغ*
"اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عائشہؓ اپنے بصرہ کے سفر اور جنگِ جمل میں حاضری پر کلی طور سے نادم ہوئیں۔ ان کا گمان یہ نہیں تھا کہ بات وہاں تک پہونچ جائے گی جہاں تک پہونچی۔ (سیر اعلام النبلاء ص 177،ج 2) "

*۔۔۔ تو میں سفر پر نہ نکلتی*

اس سلسلے میں ذیل کا یہ واقعہ بھی پڑھے جانے کے قابل ہے۔ علامہ جمال الدین زیلعیؒ علامہ ابن عبدالبرؒ مالکی کی یہ روایت نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

*ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے عبداللہ بن عمرؓ سے فرمایا کہ تم نے مجھے اس سفر میں جانے سے کیوں منع نہیں کیا؟ حضرت ابن عمرؓ نے جواباً کہا: میں نے دیکھا کہ ایک صاحب یعنی حضرت عبداللہ بن زبیرؓ آپ کی رائے پر غالب آگئے ہیں۔ تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا: بخدا! اگر تم مجھے روک دیتے تو میں نہ نکلتی* (نصب الرایۃ ج4،ص 70)

*وقرن فی بیوتکن پر حضرت عائشہؓ کی حالتِ زار*

سفر اور جنگِ جمل پر حضرت عائشہؓ اس قدر مغموم تھیں کہ بیان سے باہر۔ قرآن پڑھتے ہوئے تو ان کی حالت غیر ہو جاتی تھی۔ تلاوتِ قرآن کے دوران جب وہ سورتِ احزاب کی اس آیت پر پہونچتیں جس میں اللہ تعالیٰ نے خواتین کو یہ حکم دیا ہے: *وقرن فی بیوتکن* (تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو) تو اس قدر روتی تھیں کہ آپ کی اوڑھنی آنسوؤں سے تر ہو جاتی (طبقات ابن سعد، ص 80،ج 8)

*شدتِ ندامت سے روضۂ اطہر میں دفن ہونے سے انکار*

حضرت عائشہؓ اپنے اس اجتہادی عمل پر اس قدر شرمندہ تھیں کہ اپنی دیرینہ آرزو کے خلاف لوگوں کو وصیت کر ڈالی کہ مجھے روضۂ اطہر کے بجائے بقیع میں دفن کیا جائے۔ قیس بن ابو حازم کہتے ہیں کہ:

*حضرت عائشہؓ دل میں یہ سوچتی تھیں کہ انہیں ان کے گھر میں رسولﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ دفن کیا جائے، لیکن بعد میں انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسولﷺ کے بعد ایک بدعت کا ارتکاب کیا ہے، لہذا اب مجھے آپ ﷺ کی دوسری ازواجِ مطہرات کے ساتھ دفن کرنا، چناں چہ انہیں بقیع میں دفن کیا گیا* (مستدرک حاکم ج 4،ص 6)

علامہ ذہبیؒ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"بدعت سے حضرت عائشہؓ کی مراد جنگِ جمل میں ان کا جانا تھا، اس لیے کہ وہ اپنے اس عمل پر کلی طور پر نادم تھیں۔" (سیر اعلام النبلاء ج 2،ص 193)

مولانا رشید احمد لدھیانویؒ ان حقائق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
_ام المؤمنین حضرت عائشہؓ نے اپنے جس اقدام کو بالآخر خود غلط سمجھا۔ اس پر روتی رہیں اور اس پر ندامت کی وجہ سے تدفین میں آں حضرت ﷺ سے قریب ہونے سے بھی شرمائیں، اس عمل سے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے؟_ (احسن الفتاویٰ ج 6،ص 177)

فضیل احمد ناصری

No comments:

Post a Comment