شعائر ِدین کا مذاق ایک سنگین جرم
شعائر ِدین کا مذاق ایک سنگین جرم اور ہمارے معاشرے میں اس کی مروّجہ صورتیں!
طنز ومزاح لطافت وظرافت انسانی مزاج کا خاصہ ہے۔ ایک حد تک شریعتِ مطہّرہ نے اس کی اجازت بھی دی ہے۔ لیکن جب یہ چیز مقدّساتِ اسلام اور شعائر دین تک پہنچ جائے تو خطرناک صورت حال اختیار کرلیتی ہے۔ اور بسا اوقات انسان ایمان جیسی عظیم دولت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
دین یا دین کے کسی شعیرہ سے مذاق بہت بڑا گناہ، اللہ تعالیٰ کی حدود کی پامالی، اور کفر کی وادیوں میں سے ایک وادی ہے جس میں جاہل، ہیچ اور لاعلم لوگ گرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح کیا ہے کہ یہ کفار اور منافقین کا عمل ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے: [يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ] [التوبة/64-66]
ترجمہ: ’’منافقوں کو ہر وقت اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی سورت نہ اترے جو ان کے دلوں کی باتیں انہیں بتلا دے۔ کہہ دیجئے کہ مذاق اڑاتے رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے والا ہے جس سے تم ڈر دبک رہے ہو ۔اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ، اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں۔ تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کرلیں تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے‘‘۔
مذکورہ بالا آیت کا سبب نزول ملاحظہ فرمائیں:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ: ’’غزوہ تبوک میں ایک شخص نے ایک مجلس میں مذاق اڑاتے ہوئے کہا: ’’ہم نے اپنے ان قاریوں (اشارہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا) سے بڑھ کر پیٹ کا پجاری، زبان کا جھوٹا اور لڑائی کے میدان میں بزدل اور ڈرپوک نہیں دیکھا.‘‘
اس مجلس کے ایک دوسرے شخص نے کہا: ’’تو جھوٹا ہے، منافق ہے، میں اس کی اطلاع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور دوں گا.‘‘ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو اس بارے میں قرآن ِحکیم کی مذکورہ آیت نازل ہوئی ـ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: ’’میں نےاس منافق کو دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا پالان پکڑا ہوا ہے اور پتھروں پر سے گھسٹتا ہوا جارہا ہے اور کہہ رہا ہے: ’’اے اللہ کے رسول! ہم تو ہنسی مذاق اور تفریح کررہے تھے.‘‘ ـ
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے جا رہے تھے: ’’کیا تم اللہ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مذاق کررہے تھے‘‘۔[2]
استہزاء کا معنیٰ ومفہوم:
اللہ سبحانہ وتعالیٰ پرطعنہ زنی کرنا، اس کا تمسخر اڑانا، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر طعنہ زنی اور ان کا تمسخر اڑانا، یا دین وشعائر ِ دین پر طعنہ زنی وعیب جوئی کرنا اس کا تمسخر اڑانا استہزاء کہلاتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس رذالت سے محفوظ فرمائے۔
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’سخریہ واستہزاء سے مراد اتضحیک، استخفاف اور تحقیر ہے۔ نیزعیب ونقائص اس انداز سے بیان کرنا کہ جس سے مذاق اڑے، ہنسا جائے ،یہ تضحیک وتحقیر کبھی قول وفعل کی شکل میں ہوتی ہے۔ اور کبھی اشارہ وکنایہ کی صورت میں بھی‘‘ ۔ [3]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگر کسی نام کی لغتِ عرب میں تعریف موجود نہ ہو جیسا زمین، آسمان، بحر، شمس، قمر کے نام ہیں، اور نہ ہی اس کی تعریف شرعی اصطلاح میں موجود ہو جیسے صلوٰۃ، زکاۃ، حج، ایمان، کفر کے الفاظ ہیں تو ایسے لفظ کی تعریف متعین کرنے کیلئے عرف کو مدّ نظر رکھا جاتا ہے۔ جیسے قبض (کسی چیز کو قبضہ میں لینا، حرز، بیع، رھن، کِری (کرایہ)، وغیرہ کے الفاظ ہیں (جن کی تعریف عرف کی رو سے متعین ہوتی ہے)۔ اسی طرح تکلیف، گالم گلوچ، سب وشتم میں عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا، لہٰذا جن الفاظ وکنایات وافعال کو اہل عرف گالی، عیب جوئی، اور طعنہ زنی شمار کرتے ہیں تو وہ استہزا شمار ہوگا وگرنہ نہیں۔ لہٰذا اسی طرح اگر کوئی لفظ یا گالی غیر نبی کو دی گئی جس کی بنا پر کسی نہ کسی رو سے دینے والے پر کوئی حد یا تعزیر متعین ہوتی ہو وہ الفاظ اگر نبی کیلئے الفاظ استعمال کئے جائیں تو سب وشتم شمار ہوں گے‘‘۔ [4]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ سب وشتم استہزاء وتمسخر کی کوئی ایک جامع مانع تعریف نہایت مشکل کام ہے لہٰذا اس باب میں ضابطہ یہ ہے کہ جو قول، فعل، اور حرکت اہل عرف کے ہاں تنقیص، استہزاء اور گالی شمار ہوتی ہو وہ گالی واستہزاء ہی شمار ہوگا۔ اور عرف کی تفسیر ہی اس کی تعریف ہوگی۔
الغرض استہزا وتمسخر کا مطلو ب ومفہوم یہ ہے کہ:ـ ’اظھار كل عقيدة، أو فعل، أوقول قصدا، يدلّ على الطعن في الدين، والاستخفاف به، والاستھانة بالله تبارك وتعالى ورسله عليھم الصلاة والسلام.[5]
’’کوئی بھی ایسا عقیدہ اپنانا، یا ایسے قول وفعل کا اظہار کرنا جس میں دین پر طعنہ زنی ہو، اس کا استخفاف ہو، اور اللہ تبارک وتعالیٰ یا اس کے رسولوں علیہم الصلاۃ والتسلیم کی تحقیر کی گئی ہو استہزاء کہلاتا ہے‘‘۔
نوٹ: مذکورہ بالا تعریف میں قصداََ کا لفظ آیا ہے جس پر جمہور علماء معترض ہیں بلکہ استخفاف اور تحقیر چاہے قصداً ہو یا مذاقاً دونوں صورتوں میں کفریہ فعل ہے۔
شیخ سلیمان بن عبداللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جس شخص نے بھی اللہ، یا اس کی کتاب، یا اس کے رسول یا اس کے دین کا مذاق اڑایا چاہے اس کا یہ فعل ازراہ تفنن اور مذاق ہی ہو اور اس نے استہزاء کا قصد نہ کیا ہو تو اہل علم کا اجماع ہے کہ وہ کافر ہوجائے‘‘۔ [6]
استہزاء کی جملہ صورتیں:
شعائر اسلام کو ھدف تنقید اور تنقیص بنانا:
افسوس ناک امر یہ ہے جو کام یہودیوں اور منافقوں کا ہوا کرتا تھا اور ہے وہی کام خود کو مسلمان کہلانے والوں میں آتے جارہے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، فرشتے، جنت، حوریں ، دوزخ، اللہ کے عذاب، قرآنی آیات، احادیثِ نبویہ، دینی کتابوں ، دینی شَعائر، عمامہ، داڑھی، مسجد، مدرسے، دیندار آدمی، دینی لباس، دینی جملے، مقدس کلمات الغرض وہ کونسی مذہبی چیز ہے کہ جس کا اِس زمانے میں کھلے عام فلموں، ڈراموں، خصوصاً مزاحیہ ڈراموں، عام بول چال، دوستوں کی مجلسوں، دنیاوی تقریروں، ہنسی مذاق کی نشستوں اور باہمی گپ شپ میں مذاق نہیں اُڑایا جاتا؟۔ اور یہ مذاق اڑانے والے کوئی غیر نہیں بلکہ خود مسلمان ہیں۔خود کو مسلمان کہنے والے داڑھی، عمامہ، ٹخنوں سے اونچی شلوار رکھنے اور مذہبی حُلیے سے نفرت کرتے ہیں، اور اسےکراہت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اور کئی مقامات اور دفاتر میں تو یہاں تک مشاہدہ کیا گیا ہے کہ وہاں السلام علیکم کہنا بھی لوگوں کوانتہائی ناگوار گزرتا ہے، آذان سن کر تکلیف ہوتی ہے۔ قرآن وحدیث کی باتیں انہیں پرانی باتیں لگتی ہیں۔ یقیناً یہ انتہائی قبیح اور برا فعل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ (7) يَسْمَعُ آيَاتِ اللَّهِ تُتْلَى عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَأَنْ لَمْ يَسْمَعْهَا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ وَإِذَا عَلِمَ مِنْ آيَاتِنَا شَيْئًا اتَّخَذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ} [الجاثية: 7 - 9]
ترجمہ: ’’ویل ' اور افسوس ہے ہر ایک جھوٹے گنہگار پر۔ جو آیتیں اللہ کی اپنے سامنے پڑھی جاتی ہوئی سنے پھر بھی غرور کرتا ہوا اس طرح اڑا رہے کہ گویا سنی ہی نہیں تو ایسے لوگوں کو دردناک عذاب کی خبر (پہنچا) دیجئے۔ وہ جب ہماری آیتوں میں سے کسی آیت کی خبر پالیتا ہے تو اس کی ہنسی اڑاتا ہے یہی لوگ ہیں جن کے لئے رسوائی کی مار ہے‘‘۔
لطیفوں میں دینی شعائر کا استعمال:
موجودہ دور میں استہزا ء ومذاق کی صورتوں میں یہ صورت بھی بہت عام دیکھی گئی ہے کہ لوگ بے دریغ جنت وجہنم اور فرشتوں کے حوالے سے لطیفے بناتے، سناتے اور لوگوں میں انہیں شیئر کرتے ہیں یہ بھی دین سے استہزاء ہے۔ جس میں سے ایک لطیفہ بطور مثال یہ مقولہ سامنے رکھتے ہوئے کہ ’’نقلِکفر کفر نہ باشد‘‘ یہاں ذکر کر رہے ہیں۔ کسی احمق نے یہ عام کیا کہ جہنم میں باقی سب قوموں کے اوپر داروغہ مسلط تھے ان میں سے اگر کوئی نکلنے کی کوشش کرتا تو وہ داروغہ انہیں اندر دھکیل دیتا۔ جبکہ جہاں پاکستانی قوم تھی وہاں کوئی داروغہ نہیں تھا. کسی نے پوچھا تو جواب دیا گیا کہ پاکستانی دراصل ٹانگ کھینچنے کے ماہر ہیں اس لئے ان میں سے اگر کوئی اوپر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے دوسرے ساتھی اس کی ٹانگ کھینچ کر اسے دوبارہ جہنم میں گرادیتے ہیں اس لئے پاکستانیوں کے ٹھکانے پر داروغہ کی ضرورت نہیں‘‘۔ والعیاذ باللہ ۔
جہنم جیسے ہولناک مقام کو طنز ومزاح میں لاکر اس کی ہیبت کو کم کرنے کی پوری کوشش کی گئی حالانکہ جہنم کی صفات اگر کوئی بندہ قرآن مجید میں پڑھ لے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں: ’’مارأیت مثل النار نام ھاربھا‘‘۔
جیسا: ’’میں نے جہنم جیسی خطرناک جگہ نہیں دیکھی کہ جس سے بھاگنے والا سویا رہے‘‘۔
جہنم جیسی خطرناک جگہ سے نکلنا اللہ کی مشیئت کے بغیر محال ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جان ہے جہنم کی گہرائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے‘‘ ۔ [7]
جہنم اللہ تعالیٰ کا سخت ترین عذاب ہے۔ اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں اللہ تعالیٰ سے جہنم کے عذاب کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ اور جن جن سورتوں میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا تذکرہ ہے ان کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’مجھے سورت ہود، واقعہ، مرسلات، عَمَّ يَتَسَائَلُونَ اور إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ نے بوڑھا کردیا ہے‘‘۔ [8]
ضرب الامثال اور محاوروں میں استہزائیہ جملوں کا استعمال: اسی طرح بہت سے محاروں میں سے ایسے محاورے بھی ہیں جن میں شعائرِ اسلام کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ جیسا کہ عموما لوگ یہ مثال بیان کرتے ہیں کہ بھائی فلاں شخص تو ’’احمقوں کی جنت میں رہتاہے!‘‘ والعیاذباللہ۔
جنت جیسی عظیم نعمت جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مارأیت مثل الجنۃ نام طالبھا‘‘۔
’’میں نے جنت جیسی عظیم نعمت نہیں دیکھی جسے حاصل کرنے والا سویا رہے‘‘۔
اس نعمت کو احمقوں کی طرف منسوب کرنا کتنی بڑی جسارت ہے۔ ایسا مقام جو انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین کا ٹھکانہ ہے۔ اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ اللہ کی جنت کے علاوہ احمقوں کیلئے یا احمقوں کی بھی کوئی جنت ہے۔
ہر مسلمان کو یہ چیز بخوبی سمجھ لینی چاہئے کہ جنت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اور اس کے حقدار اللہ کے نیک بندے ہیں۔ جنت جیسی عظیم نعمت کو احمقوں سے منسوب کرنا بہت بڑی حماقت اور دین سے بہت بڑا مذاق ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
لکھے مُوسیٰ پڑھے خُدا (کہاوت)
یہ کہاوت اس موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی شخص کی لکھی ہوئی خراب تحریرصاف پڑھی نہ جا رہی ہو۔ اب پتہ نہیں نالائق لوگوں کی خراب لکھائی کا تعلّق سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جوڑنے کا مطلب اور مقصد کیا تھا؟
وضاحت: یہ کہاوت جس طرح بولی اور لکھی جاتی ہے ایسے نہیں بلکہ اصل کہاوت اس طرح ہے: ’’لکھے مُو (بال) سا، پڑھے خود آ۔‘‘یعنی جو شخص بال کی طرح باریک لکھتا ہے کہ دُوسروں کے لئے اسے پڑھنا دُشوار ہو تو اسے خود ہی آکر پڑھے، کوئی اور تو اسے پڑھنے اور سمجھنے سے رہا۔ تعجب ہے کہ اُردو کی بڑی بڑی لُغات اور قواعد کی کُتب میں یہ کہاوت عنوان کے مطابق غلط طور پر لکھی ہوئی پائی گئی ہے، جس سے آپ علم کی نشرواشاعت کے ان نام نہاد مدعیوں اور ذمہ داروں کی علمی سطح کا اندازہ بخوبی کرسکتے ہیں۔
صلوا تیں سُنانا: (محاورہ)
صلاۃ کا معنی اور مفہوم ہے: برکتیں اور رحمتیں، جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہوں۔ جس کی جمع صلوات ہے اور اس کے معانی درود، دُعا اور نماز کے بھی ہیں)
مگر اردو محاروے میں اسے گالی اور دُشنام کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے. لہٰذا ’’صلواتیں سُنانا‘‘ کا مطلب ٹھہرا ’’گالیاں دینا، بُرا بھلا کہنا‘‘۔
ایک اسلامی شعیرہ کے الفاظ کو کن گمراہ کن غلیظ معانی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ
نمازیں بخشوانے گئے اور روزے گلے پڑ ے: (کہاوت)
مفہوم ’’ایک کام سے جان چھُڑانے گئے تھے اور دوسری مصیبت گلے پڑگئی۔‘‘
اِسلام کی بُنیادی عبادات کے متعلق ایسا گُستاخانہ تصور اورطرز تکلّم بہت بڑی جسارت کے زُمرے میں آتا ہے، جو ہمارے دین کے ان دو ارکان کا مذاق اُڑانے کے مترادف ہے۔
خُدا واسطے کا بَیر: (محاورہ)
جس کا مطلب کُچھ اس طرح ہے کہ جب کوئی شخص کِسی سے خواہ مخواہ رنجیدۂ خاطر ہو، جس کی کوئی ظاہری اور معقول وجہ بھی نہ ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’فلاں کو فلاں کے ساتھ تو خُدا واسطے کا بَیر ہے۔‘‘
یعنی شریعت کی اصطلاح حب فی اللہ اور البغض فی اللہ کو کس طرح باہمی چپقلش اور عناد میں بطور محاورہ استعمال کیا گیا اور یہ احساس بھی نہ رہا کہ اللہ کیلئے بیر کون رکھتاہے اور کس لئے رکھا جاتا ہے اور اس کے فوائد وثمرات کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو دین حنیف کی سمجھ عطا فرمائے۔
مُوسیٰ بھاگا گور سے اور آگے گور کھڑی: (کہاوت)
’’یعنی موسیٰ موت سے بھاگے اور موت آگے کھڑی تھی‘‘۔
ملاحظہ کیجئے کہ سیدنا مُوسیٰ علیہ السلام کو کیسے ظاہر کیا گیا کہ وہ موت سے اتنے خوف زدہ اور لرزہ براندام تھے کہ اس فنا ہو جانے والی دُنیا میں زندہ رہنے کی خاطر موت سے چھُپتے اور بھاگتے پھرے مگر موت نے پھر بھی اُنھیں آلیا؟ [9]
اس کہاوت میں کیسے اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ رسول جن کا شمار ’اولوالعزم مِنَ الرسل‘ میں ہوتا ہے انہیں موت سے خائف اور جان بچاتے بھاگنے کا تصور دیا۔ والعیاذ باللہ۔
تمام انبیاء ورسولوں کے تقدس کا لحاظ ہر مسلمان کا فرض ہے۔
استہزاء اور مذاق کرنے کا شرعی حکم:
استہزاء ومذاق کے حکم کے حوالےسے چند بنیادی امور ملحوظ خاطر رکھنے ضروری ہیں:
اول: دین سے مذاق ایک بہت ہی بڑا جرم اور اللہ تعالیٰ کی حدود کی پامالی ہے ۔اور یہ عمل اللہ، اس کے رسول اور اہل ایمان کو ایذا دینے کے مترادف ہے۔ جس کی سزا بہت سخت متعین ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے: {إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا } [الا ٔحزاب: 57]
ترجمہ: ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لئے نہایت رسواکن عذاب ہے‘‘۔
امام ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’نصّ شرعی سے یہ امر ثابت ہے کہ جس نے بھی اللہ تعالیٰ سے، یا فرشتوں میں سے کسی فرشتے، یا انبیاء میں سے کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن کریم کی کسی آیت یا فرائضِ دین میں سے کسی فریضہ کا مذاق اڑایا استہزا اور تمسخر کیا بعد اس کے کہ حجت ودلیل اس تک پہنچ چکی تھی تو وہ شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے‘‘۔ [10]
دوم: دین سے مذاق میں ہر وہ قول وفعل اور اشارہ شامل ہے جس سے دین پر طعنہ زنی ہو، اس کا استخفاف اور تحقیر کی جائے ۔
جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’وَمَعْنَى لسُّخْرِيَةِ:الِاسْتِهَانَةُ،وَالتَّحْقِيرُ،وَالتَّنْبِيهُ عَلَى
الْعُيُوبِ وَالنَّقَائِضِ ، عَلَى وَجْهٍ يُضْحَكُ مِنْهُ ، وَقَدْ يَكُونُ ذَلِكَ بِالْمُحَاكَاةِ فِي الْقَوْلِ وَالْفِعْلِ ، وَقَدْ يَكُونُ بِالْإِشَارَةِ وَالْإِيمَاءِ ][11]
’’سخریہ واستہزاء سے مراد اتضحیک، استخفاف اور تحقیر ہے۔ نیزعیب ونقائص اس انداز سے بیان کرنا کہ جس سے مذاق اڑے، ہنسا جائے، یہ تضحیک وتحقیر کبھی قول وفعل کی شکل میں ہوتی ہے۔ اور کبھی اشارہ وکنایہ کی صورت میں بھی‘‘ ۔
سوم: اگر کوئی قول وفعل استخفاف، تحقیر اور تنقیص وتمسخر پر دلالت نہیں کرتا تو یہ استہزاء ایسا نہیں جوکہ انسان کو ملتِ اسلامیہ سے خارج کردے۔
لہٰذا اس سے یہ صورت واضح ہوئی کہ استہزاء کبھی معصیت اور گناہ کے زمرے میں آتا ہے اور کفر کے درجہ کو نہیں پہنچتا جیساکہ کوئی شخص کسی دیندار شخص کا مذاق اس کی ذاتی حیثیت سے اڑائے نہ کہ اس کی دینداری کی وجہ سے۔
چہارم: ایک مسلمان کی بحیثیت مسلمان ایک بہت بڑی واجبی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اگر کسی شخص کو دین پر طعنہ زنی کرتےاور ٹھٹھ ومذاق بناتے پائے تو اس شخص کی مذمت کی جائے اور اگر یہ چیز اس کی طاقت وسعت سے باہر ہے یا مسلسل تنبیہ اور اصلاح کے باوجود مذاق کرنے والا اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے تو اس شخص کو چاہئے کہ وہ جگہ چھوڑ دے جس جگہ وہ مذاق کرنے والا موجود ہو۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: [ وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا ، فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ، إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ،إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا] [النساء:140]
ترجمہ: ’’اور اللہ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو! جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو، یقیناً اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقین کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے‘‘۔
اور اگر آپ اس شخص کی باتوں سے محظوظ ہوئے تو گناہ میں برابر کے شریک ہوں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: [إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ ]۔ (ورنہ) تم بھی انہی جیسے ہو۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ: کیا جو شخص داڑھی یا کپڑے کے ٹخنے سے اونچا رکھنے کا مذاق اڑاتا ہے کیا یہ فعل کفر ہے؟
آپ نے جواباً فرمایا: ’’اس کا حکم نوعیت ونیت کے حساب سے مختلف ہے۔
اس کا مقصد اگر اس سے دین کا مذاق اڑانا تھا تو بلا شک وریب یہ ارتداد ہے فرمان باری تعالیٰ ہے: [قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ . لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ]
ترجمہ: ’’کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں۔
تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے‘‘۔
اور اگر اس کا مقصد محض اس شخص کا مذاق اڑانا تھا کہ وہ داڑھی رکھ کر اور سنت رسول پر عمل کرکے بھی دیگر منکرات وبرائیوں سے خود کو نہیں بچارہا، تو اس شخص کا مقصد دین کا مذاق اڑانا نہیں بلکہ دین کی چند جزءیات پر سختی سے کاربند ہونا اور چند میں انتہائی کوتاہی کرنے کی وجہ سے اس شخص کو مذاق کا نشانہ بنانا تھا تو یہ ارتداد نہیں بلکہ اس کا حکم فسق شمار ہوگا۔
پنجم: استہزا ء چاہے قصداً ہو یا ازراہ مذاق وتفنن دونوں صورتوں میں کفریہ عمل ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاق کو بطور عذر قبول نہیں کیا بلکہ ایسا شخص سزا کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔ کیا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے یہ ملاحظہ نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجبوری واکراہ کی صورت میں کلمہ کفر کہنے والے کا دل اگر ایمان پر مطمئن تھا تو اس کا عذر قبول کیا، لیکن مذاق کرنے والوں کا عذر قبول نہیں کیا بلکہ فرمایا: [وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ، لاَ تَعْتَذِرُواْ قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ﴾ [التوبہ: 66،65]
’’اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ ،اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ۔تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بےایمان ہوگئے ۔۔۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نےلاعلمی ،جہالت اور انجانے میں گناہ کرنے والے کو ناقابل مؤاخذہ قرار دیا۔ (لیکن مذاق کرنے والے کا عذر کسی صورت بھی قبول نہیں کیا)۔[12]
اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان سے مذاق کرنے کا انجام:
ذیل میں مستہزئین کے حوالے سے چند واقعات نقل کئے جاتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے فرامین کا تمسخر اڑانے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح کے عبرتناک انجام سے دوچار کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے والوں کاعبرتناک انجام:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر اور کسریٰ دونوں کی طرف اپنے خطوط بھیجے کہ وہ اسلام کو قبول کرلیں دونوں نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن ان میں سے قیصر روم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کی تکریم اور عزت کی اور خط لانے والے کی خاطر داری اور تکریم کی تو اس کی بادشاہت باقی رہی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’فيقال: إن الملك باق في ذريته إلى اليوم"، ولا يزال الملك يتوارث في بعض بلادهم‘‘.
’’کہا جاتا ہے کہ بادشاہت آج بھی قیصر کے خاندان میں باقی اور جاری ہے اور ابھی تک بعض علاقوں میں ان کی جانشینی پشت در پشت قائم ہے‘‘۔
جبکہ کسریٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کو پھاڑ ڈالا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا جس کے انجام میں اللہ تعالیٰ نے اس کی سلطنت کو پارہ پارہ کردیا۔ اور اس جہانِ فانی میں سلطنت کسروی کا کوئی وجود باقی نہ رہا۔ درحقیقت یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ {إن شانئك هو الأبتر} [الكوثر: 3]، ’’یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بے نام و نشان ہے‘‘۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے والوں کی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں، صفحہ ہستی سے ان کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ایک نصرانی اسلام لایا اور اس نے سورت بقرہ اور سورت آل عمران پڑھی پھر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کاتبِ وحی مقرر ہوگیا. اس کے بعد پھر وہ مرتد ہوکر نصرانی ہوگیا اور مشرکوں سے جاملا وہ کہا کرتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) صرف اتنا ہی جانتے ہیں جتنا میں نے ان کو لکھ دیا ہے پھر اس کو اللہ تعالیٰ نے موت دی تو لوگوں نے اس کو دفن کردیا جب صبح کو دیکھا گیا تو زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا تھا لوگوں نے کہا یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کا فعل ہے چونکہ ان کے ہاں سے بھاگ آیا تھا اس لئے انہوں نے اس کی قبر کھود ڈالی چنانچہ ان لوگوں نے اس کو دوبارہ حتی الامکان بہت گہرائی میں دفن کیا۔ دوسری صبح بھی اس کی لاش کو جب زمین نے باہر پھینک دیا تو لوگوں نے کہا یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے اصحاب کا فعل ہے کیونکہ وہ بھاگ آیا تھا پھر انہوں نے جتنا گہرا کھود سکتے تھے کھود کر اس کی لاش کو دفن کردیا لیکن تیسری صبح بھی جب زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا تب لوگوں نے سمجھا کہ یہ بات آدمیوں کی طرف سے نہیں تب انہوں نے اسےیوں ہی پڑا رہنے دیا‘‘۔ [13]
اسی طرح آپ قریش کےان سرداروں کا انجام سیرت وتاریخ کی کتابوں میں پڑھ لیں خود اندازہ ہوگا کہ مستہزئین میں اللہ تعالیٰ کی کیا سنت اور کیا طریقہ رہا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مذاق اڑانے والوں کی چند مثالیں:
پہلی مثال: سیدنا ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’أما يخشى أحدكم، أو ألا يخشى أحدكم إذا رفع رأسه قبل الإمام أن يجعل الله - عز وجل- رأسه رأس حمار، أو يجعل صورته صورة حمار‘[14]
ترجمہ: ’’آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کیا تم میں سے کوئی جو اپنا سر امام سے پہلے اٹھالیتا ہے اس بات کا خوف نہیں کرتا کہ اللہ اس کے سر کو گدھے کا سا سر بنادے یا اللہ اس کی صورت گدھے کی سی صورت بنادے‘‘۔
ایک محدث بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے دمشق کا رخت سفر باندھا تاکہ وہاں کے مشہور محدث سے علم حدیث حاصل کرسکیں۔ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ وہ شیخ حدیث بیان کررہے ہیں لیکن چہرہ ڈھانپا ہوا ہے جس وجہ سے ان چہرہ نظر نہیں آرہا تھا۔ کہتے ہیں جب میں نے ایک لمبا عرصہ اس محدث کے ساتھ گذار لیا اور انہوں نے محسوس کرلیا کہ میں حدیث کے حصول میں بہت زیادہ حریص ہوں تو اس شیخ نے اپنے چہرہ کا پردہ ہٹادیا. کہتے ہیں کیا دیکھتا ہوں کہ ان کا چہرہ گدھے کا چہرہ ہے۔ اس پر انہوں نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میرے بیٹے نماز کے دوران امام سے سبقت لے جانے سے بچ کر رہنا۔ کیونکہ میں نے جب یہ حدیث پڑھی یعنی سیدنا ابو ہریرۃ والی راوایت جو اوپر گذری ہے۔ تو میں نے کہا یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کسی انسان کا چہرہ گدھے کا بن جائے اور سوچا کہ کیوں نہ تجربہ کیا جائے! کہتے ہیں اسی تجربے کیلےمیں نے سجدہ میں امام سے پہلے سر اٹھالیا تو میرا چہرہ ایسا بن گیا جیسا تو دیکھ رہا ہے یعنی گدھے کا.‘‘ [15]
دوسری مثال: کثیر بن قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دمشق کی مسجد میں سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا اے ابا درداء میں آپ کے پاس مدینہ منورہ سے تشریف لایا ہوں ایک حدیث سننے کیلئے جس کی مجھے خبر ملی ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں میں اس کے علاوہ کسی اور مقصد کیلئے نہیں آیا تو ابو درداء فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ: ’من سلك طريقًا يطلب فيه علمًا، سلك الله به طريقًا من طرق الجنة، وإن الملائكة لتضع أجنحتها رضًا لطالب العلم‘[16]
ترجمہ: ’’میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص طلب علم کے لئے کسی راستے میں چلتا ہے اللہ اسے جنت کے راستے پر چلادیتا ہے اور فرشتے اس طالب علم کی خوشنودی کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں ۔۔۔‘‘
خطیب بغدادی سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی کے طریق سے نقل کرتے ہیں انہوں نے فرمایا: میں نے ابا یحیٰ زکریا الساجی سے سنا وہ کہہ رہے تھ کہ: ’’ہم بصرہ کی گلیوں میں کسی ایک محدث کے گھرکی طرف جارہے تھے۔ راستے میں ہم تیز تیز چل رہے تھے۔ ہمارے ساتھ ایک مسخرہ قسم کا (ماجن) شخص بھی تھا جو غیر دیندار تھا تھا وہ ازراہ مذاق کہنے لگا کہ: ’’اپنے پاؤں کو فرشتوں کے پروں سے اٹھاکر چلو کہیں انہیں توڑ نہ دو!! فرماتے ہیں یہ کہنا تھا کہ وہ شخص وہیں اکڑگیا اپنا ایک قدم آگے نہ اٹھاسکا یہاں تک کہ اس کی ٹانگیں سوکھ (فالج زدہ ہو) گئیں اور وہ زمین پر گرپڑا ‘‘۔ [17]
حافظ عبد القادر الرہاوی بیان کرتے ہیں کہ ’’اس حکایت کی سند ایسی ہے جیسا کسی نے یہ چیز اپنے ہاتھوں سے لی، یا اپنی آنکھوں سے دیکھی کیونکہ اس کے راوی اعلام ہیں اور اس کوبیان کرنے والا امام (فی علم الحدیث) ہے ‘[18]
تیسری مثال: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’من اشترى شاة مصراة فلينقلب بھا فليحلبھا، فإن رضي حلابھا أمسكھا، وإلا ردها ومعھا صاع من تمر‘[19]
ترجمہ: ’’رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جس نے دودھ روکے ہوئے بکری خریدی پھر لے جا کر اس کا دودھ نکالا پس اگر وہ اس کے دودھ سے راضی ہو تو رکھ لے ورنہ واپس کردے اور اس کے ساتھ ایک صاع کھجور بھی دے‘‘۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک واقعہ نقل کرتے ہیں جوکہ قاضی ابی الطیب الطبری سے منقول ہے فرماتے ہیں: ’’ہم بغداد کی جامع مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے پاس ایک خراسانی شخص آیا اور مصراۃ کا مسئلہ دریافت کیا ہم نے اسے جواب دیا اور مسئلہ مذکورہ میں سیدنا ابو پریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث سے استدلال کیا۔ تو اس شخص نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت پر طعن کیا. اس کا یہ طعن کرنا تھا کہ آسمان سے ایک سانپ گرا جو مجلس میں دیگر لوگوں کو پھاندتے ہوئے اس خراسانی شخص کے پاس آیا، اسے ڈسا جس سے اس کی وہیں موت واقع ہوگئی ۔ [20]
عہد رسالت کا ایک واقعہ:
عَنْ عِکْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَجُلًا أَکَلَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشِمَالِهِ فَقَالَ کُلْ بِيَمِينِکَ قَالَ لَا أَسْتَطِيعُ قَالَ لَا اسْتَطَعْتَ مَا مَنَعَهُ إِلَّا الْکِبْرُ قَالَ فَمَا رَفَعَھا إِلَی فِيهِ۔‘‘ [21]
ترجمہ: ’’عکرمہ بن عمار، جناب ایاس بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے باپ نے ان سے بیان کیا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس اپنے بائیں ہاتھ سے کھانا کھایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ تو وہ آدمی کہنے لگا کہ میں ایسا نہیں کرسکتا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا (اللہ کرے) تو اسے اٹھا ہی نہ سکے اس آدمی کو سوائے تکبر اور غرور کے اور کسی چیز نے اس طرح کرنے سے نہیں روکا راوی کہتے ہیں کہ (اس دن کے بعد سے) وہ آدمی اپنے ہاتھ کو اپنے منہ تک نہ اٹھاسکا‘‘۔ (یعنی اس کا ہاتھ وہیں شل ہوگیا)۔
یہ وہ چڑھتے سورج کی مانند واضح آثار وواقعات ہیں جو اللہ، اس کے رسول، اور اس کے دین کے ساتھ مذاق کرنے والوں سے متعلق منقول ہیں۔ جس میں ان کے بھیانک انجام کا بخوبی تذکرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو توفیق دے کہ ہم شعائرِ اسلام کی تعظیم بجالائیں ، حرمات ومقدسات اسلام کی عزت وتکریم کریں اور کسی بھی صورت ان کی تنقیص وتحقیر کرنے سے خود کو محفوظ رکھیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: [ذٰلِكَۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ](الحج:۳۲)
ترجمہ: ’’یہ سن لیا اب اور سنو! اللہ کی نشانیوں کی جو عزت و حرمت کرے یہ اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے یہ ہے ۔‘‘
وصلی اللہ علی نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلیٰ آلہٖ وصحبہ وسلم
[1] فاضل مدینہ یونیورسٹی
[2] تفسیر طبری ، أبن ابی حاتم ، حسن لشواھدہ
[3] احیاء علوم الدین ۔3؍ 131بحوالہ الاستھزاء بالدین أحکامہ وآثارہ ۔ ص 79
[4] الصارم المسلول ص ؍ 532
[5] فتح العلام بشرح مرشد الأنام للجردانی ج4 ؍ ص ،538بحوالہ الاستھزاء بالدین أحکامہ وآثارہ ۔ ص 79
[6] تسیر العزیز الحمید ص 617
[7] صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 482
[8] جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1245
[9] ان امثال کیلئے اردو پریس Cretech.netسے استفادہ کیا گیاہے۔
[10] الفصل في الملل والأهواء والنحل 3/142
[11] احیاء علوم الدین ۔3؍ 131بحوالہ الاستہزاء بالدین أحکامہ وآثارہ ۔ ص 79
[12] إعلام الموقعين(3/78)
[13] صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 868
[14] صحیح البخاري رقم: (659)، ومسلم رقم: (427)
[15] فتح الملهم شرح صحيح مسلم (2/ 64)، وتحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي(3/152)
[16] مسندأحمد (5/196) حدیث:(21763)، الترمذي،حدیث: (2682)، وأبو داود،حدیث:(3643)۔
[17] الرحلة في طلب الحديث للخطیب البغدادی(ص: 85) مجموع رسائل الحافظ ابن رجب الحنبلي(1/26).
[18] مفتاح دار السعادة ومنشور ولاية العلم والإرادة (1/ 64)
[19] صحیح مسلم : حدیث (1524)
[20] مجموع الفتاوى(4/539)
[21] صحیح المسلم: کتاب الأشربۃ ۔ باب آداب الطعام والشراب وأحکامھما
No comments:
Post a Comment