Thursday, 26 April 2018

انکار رسالت صریح کفر ہے

انکار رسالت صریح کفر ہے
------------------
سلسلہ نمبر (1785)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتےہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
اگر کوئی مسلمہ عورت غصہ میں یوں کہے کہ پیغمبر رسالت ﷺ کو میں نہیں مانتی
تو اس جملہ کےادا کرنے سے نکاح باقی رہا یا نہیں؟
المستفتی: حافظ مسعود اعجازی

-------------------
الجواب وباللہٰ التوفیق:
ایمان کے صحیح یا بقاء کے لئے اللہ اور اس کے رسول دونوں کو ماننا ضروری ہے۔
فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَلَا تَقُولُوا‏:‏ ثَلَاثَةٌ انتَهُوا خَيْرًا لَكُمْ‏.‏ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَهٌ وَاحِدٌ سُبْحَانَهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ۔
ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور یہ نہ کہو کہ "خدا تین ہیں" باز آ جاؤ، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے۔ وہ بالاتر ہے اس سے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔ (النساء 4:171)
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ ۔
مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانیں اور جب وہ کسی اجتماعی کام کے سلسلے میں رسول کے ساتھ ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر نہ جائیں۔ (النور 24:62)
اس طریقے سے اللہ تعالی نے یہ ایمان کامل، جس کے سوا کسی اور چیز کی پیروی نہیں ہو سکتی، اس ایمان کو قرار دیا گیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول دونوں پر لایا جائے۔ اگر کوئی شخص اللہ پر ایمان تو لے آئے لیکن اس کے رسول کو نہ مانے تو اس کے ایمان کو اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول دونوں پر ایمان نہ لائے۔ اپنی حدیث میں اسی چیز کا امتحان رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے لیا ہے۔
ملاحظہ ہو:
حَدَّثَنِي مَالِك عَنْ هِلَالِ بْنِ أُسَامَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ أَنَّهُ قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ جَارِيَةً لِي كَانَتْ تَرْعَى غَنَمًا لِي فَجِئْتُهَا وَقَدْ فُقِدَتْ شَاةٌ مِنْ الْغَنَمِ فَسَأَلْتُهَا عَنْهَا فَقَالَتْ أَكَلَهَا الذِّئْبُ فَأَسِفْتُ عَلَيْهَا وَكُنْتُ مِنْ بَنِي آدَمَ فَلَطَمْتُ وَجْهَهَا وَعَلَيَّ رَقَبَةٌ أَفَأُعْتِقُهَا فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ اللَّهُ فَقَالَتْ فِي السَّمَاءِ فَقَالَ مَنْ أَنَا فَقَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْتِقْهَا
موطأ مالك.باب مَا يَجُوزُ مِنْ الْعِتْقِ فِي الرِّقَابِ الْوَاجِبَةِ

رقم الحديث : 1511
مالک بن انس نے ہلال بن اسامہ سے اور انہوں نے عطا بن یسار سے اور انہوں نے عمر بن الحکم سے روایت کی۔ وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس ایک لونڈی کو لے کر گیا۔ میں نے عرض کی، "یا رسول اللہ! مجھ پر لازم ہے کہ میں ایک غلام آزاد کرو۔ کیا میں اسے آزاد کر دوں؟" رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس سے پوچھا، "اللہ کہاں ہے؟" وہ بولی، "آسمان پر۔" آپ نے پوچھا، "میں کون ہوں؟"  بولی، "آپ اس کے رسول ہیں۔" آپ نے فرمایا، "اسے آزاد کر دو۔" (موطا، مسند احمد، نسائی)
صورت مسئولہ میں جبکہ عورت نے رسول علیہ الصلوة والسلام کے ماننے سے انکار کردیا ہے صریح  کفر وارتداد کا ارتکاب کیا ہے۔ اس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگئی۔ اگر منکوحہ تھی تو تجدید اسلام کے بعد تجدید نکاح بھی ضروری ہے۔ شامی میں ہے:
وارتداد احدھما ای الزوجین فسخ عاجل بلا قضاء (در مختار) وقال فی الرد (قولہ بلا قضاء ( ای بلا توقف علی قضاء القاضی وکذا بلا توقف علی مضی عدۃ فی المدخول بھا کما فی البحر (ہامش رد المحتار مع
الدر المختار ‘ کتاب النکاح باب نکاح الکافر ۳/ ۱۹۳ ط سعید کراتشی)

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
9 شعبان 1439 ہجری

No comments:

Post a Comment