Monday, 30 April 2018
مزدوروں کے حقوق کا اسلامی منشور (1791)
(1791)
1886 عیسوی کے "مئی ڈے" سے ہزاروں سال قبل جبکہ محنت کش طبقہ کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھا جاتا، ان سے کام لے کر اور محنت ومزدوری کرواکے ان کے حقوق غصب وہضم کرلئے جاتے تھے۔ ایسے وقت میں اسلام نے محنت کش اور مزدور طبقہ کو سماج میں باعزت حیثیت عطا کرنے کے ساتھ ان کے سماجی حقوق کے تحفظ کا ایک جامع منشور پیش کیا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
وَلا تَبخَسُوا النّاسَ أَشياءَهُم وَلا تُفسِدوا فِي الأَرضِ بَعدَ إِصلاحِها ذلِكُم خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿85٥﴾ (سورة الأعراف)
یعنی لوگوں کے حقوق کھاکر ظلم نہ کرو اور ان میں کمی نہ کرو۔ (ولا نفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا) یعنی انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے اور انصاف کا حکم دینے سے جو اصلاح ہوئی اس کے بعد فساد نہ کرو اور جس نبی کو کسی قوم کی طرف بھیجا گیا تو وہ اس قوم کی اصلاح ہے (ذلکم خیر لکم ان کنتم مئومنین) یعنی جس کا تم کو حکم دیا یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
صحيح البخاري. كتاب الإيمان30
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اس وقت تک کسی شخص کو مزدوری پر رکھنے سے منع فرمایا ہے جب تک اس کی اجرت واضح نہ کر دی جائے، نیز بیع میں دھوکہ، ہاتھ لگانے یا پتھر پھینکنے کی شرط پر بیع کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَطِيَّةَ السَّلَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ .سنن ابن ماجة.كتاب الرهون. باب أجر الأجراء
رقم الحديث 2443.
عباس بن ولید، وہب بن سعید بن عطیہ، عبدالرحمن بن زید بن اسلم، حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دے دو۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ
صحيح البخاري. كتاب الحوالة
رقم الحديث 2166
صحيح البخاري. كتاب البيوع
رقم الحديث 2114.
بَاب إِثْمِ مَنْ بَاعَ حُرًّا
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن جھگڑوں گا، ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام اور میری سوگند کے ذریعے کوئی عہد کیا اور پھر اس کو توڑ ڈالا دوسرا وہ شخص ہے جس نے ایک آزاد شخص کو فروخت کیا اور اس کا مول کھایا اور تیسرا شخص وہ ہے جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے کام لیا (یعنی جس کام کے لئے لگایا تھا وہ پورا کام اس سے کروایا) لیکن اس کو اس کی مزدوری نہیں دی) (بخاری)
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
١٤شعبان ١٤٣٩ہجری
مطابق یکم مئی 2018 عیسوی
روزوں کا فدیہ رمضان سے پہلے دینے کا حکم
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے کافی عرصے سے شوگر ہے، مجھے ڈاکٹر نے ہر تھوڑی دیر بعد پانی پینے کا کہا ہے ہر رمضان میں مجھے کافی پریشانی ہوتی ہے، میں فدیہ نکالتا ہوں، اس سال سوچ رہا ہوں کہ اپنا فدیہ رمضان سے پہلے ہی کسی غریب کو دیدوں، اور یہ بھی خیال آرہا ہے کہ کیوں نہ دو تین سالوں کا یک بارگی دیدوں تاکہ اس غریب کا کچھ بھلا ہوجائے۔ تو کیا اس طرح رمضان سے پہلے میرا روزوں کا فدیہ دینا درست ہے؟ اگر نہیں تو پھر کیا طریقہ اپنائوں، ذرا وضاحت سے بتادیں۔
الجواب بعون الملک الوھاب
لمافی الھندیۃ (۲۰۷/۱): فالشیخ الفانی الذی لایقدر علی الصیام یفطر ویطعم لکل یوم مسکیناً کما یطعم فی الکفارۃ… ثم ان شاء اعطیٰ الفدیۃ فی اول رمضان بمرۃ وان شاء اخرھا۔
وفی الدرالمختار(۴۲۷/۲): (وللشیخ الفانی العاجز عن الصوم الفطر ویفدی وجوباً) ولو فی اوّل الشھر … ھذا اذا کان الصوم اصلاً بنفسہ وخوطب باداء ہ۔
وفی الشامیۃ تحتہ: ومثلہ مافی القھستانی عن الکرمانی المریض اذا تحقق الیأس من الصحۃ فعلیہ الفدیۃ لکل یوم من المرض
وفی الدرالمختار (۲۹۳/۲): (ولو عجل ذونصاب) زکوتہ (لسنین او لنصب صح) لوجود السبب… واختلف فیہ قبل النبات وخروج الثمرۃ والاظھر الجواز
وفی الشامیۃ تحتہ:افاد ان التعجیل قبل الزرع او قبل الغرس لایجوز اتفاقاً لانہ قبل وجود السبب کمالو عجل زکاۃ المال قبل ملک النصاب۔
....
رمضان سے پہلے صدقۂ فطرا دا کرنا:
(سوال ۲۴۹) صدقۂ فطر کی ادائیگی کا وقت کیا ہے؟ عام طور پر کتابوں میں لکھا ہے کہ عید الفطر سے پہلے رمضان میں ادا کرے تو بھی جائز ہے، سید الملت حضرت مولانا مفتی سید محمد میاں صاحب رحمہ اﷲ نے اپنے رسالہ ’دینی تعلیم کا رسالہ‘ نمبر ۱۱ کے ص ۸۱ پر اس کے متعلق حسب ذیل عبارت تحر یر فرمائی ہے:
مگر علم الفقہ جلد چہارم میں اس کے بالکل برعکس عبارت ہے، وہ تحریر فرماتے ہیں:
(۹) صدقۂ فطر کا قبل رمضان کے آنے کے ادا کر دینا بھی جائز ہے اور دوسرے شہر میں بھی بوجہ مذکورہ بالا بھیجنا درست ہے۔ (علم الفقہ ج۴ ص ۶۶)
نیز ’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ میں دیکھا تو اس میں اس کی تائید ہوتی ہے، عبارت حسب ذیل ہے:
(الجواب) اختلافی مسئلہ ہے، رمضان سے پہلے کا بھی قول ہے، اس پر عمل کرنا خلاف احتیاط ہے، ماہ رمضان میں بھی ادا کرنے میں اختلاف ہے مگر قوی یہ ہے کہ درست ہے اور صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔ بحر الرائق میں ہے:
فضیل جعفری؛ اردو نے ایک مستند ادیب شاعر اور صحافی کھودیا
ایک مرتبہ دواخانے تشریف لائے کچھ گفتگو کے بعد چلتے چلتے اچانک سوال کیا کہ اردو میں 'کاروباری مندی' کے لئے کون سا لفظ ہے؟
میں نے کہا: قرآن میں 'کساد' آیا ہے. اسی سے کساد بازاری اردو میں استعمال کیا جاتا ہے، فورا جیب سے کاغذ نکالا اور اس کو نوٹ کرلیاـ
میں نے ذاکر نائیک کے خلاف یزید پر ایک مضمون لکھا تھا وہ ان کی نظر سے گذرا ہوگا، مبارکباد دینے کے لئے تشریف لائے بہت حوصلہ افزائی فرمائی، اس مضمون میں صواعق محرقہ سے کئی حوالے دئے گئے تھے، پوچھا: صواعق محرقہ کس کی کتاب ہے؟
میں کہا ابن حجر مکی،
فورا کاغذ پر اس کو بھی نوٹ کرلیاـ
جن دنوں حضرت ہردوئی بغرض علاج ممبئی میں مقیم تھے، فضیل صاحب نے مجھے فون کیا کہ: سنا ہے مولانا تھانوی صاحب کے خلیفہ ممبئی میں ہیں؟ ان سے ملاقات کی کیا شکل ہوگی؟
میں نے حضرت کی قیام گاہ پر حاضر ہوکر وقت لیا پھر وقت مقررہ پر میرے ساتھ فضیل صاحب حضرت کی خدمت میں عقیدت کے ساتھ حاضر ہوئے، حضرت نے دعائیں دیں، ایک رسالہ بھی عطا فرمایا..... وہ رسالہ قسط وار انقلاب میں شائع ہواـ"
موصولہ اطلاع کے مطابق فضیل جعفری نے پیر کو بوقت مغرب آخری سانس لی اور بتایا جاتا ہے کہ تقریباً ڈیڑھ دومہینے سے کافی علیل رہے۔ وہ کینسر کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ مرحوم نے تنقید نگاری کے لئے ہند، پاک میں شہرت حاصل کی تھی لیکن روزنامہ انقلاب سے دو مرتبہ مدیر رہے، پہلے 1990 تا 1995 اور پھر سابق مدیر ہارون رشید کے انتقال کے بعد انہیں دوبارہ 2000 میں انقلاب کے مدیر کے عہدہ پر فائز کیا گیا لیکن نامساعد حالات اور اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے فضیل جعفری نے 2003 کے آخرمیں عین عیدالفطر کے دن اپنے عہدے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ انقلاب میں دوبارہ مدیر بننے سے قبل تقریباً ڈیڑھ سال مرحوم مشہور زمانہ اردو بلٹز کے مدیر اعلیٰ رہے اور اس سے پہلے خواجہ احمد عباس کے انتقال کے بعد بلٹز کا فضیل جعفری کا تعلق اترپردیش کے مردم خیز الہ آباد کے قصبہ کریلی سے تھا، 22 جولائی 1936 کو پیدا ہوئے اور تعلیم مکمل کرکے ممبئی کا رُخ کیا تھا اور بالآخر یہیں اپنے خالق حقیقی سے جاملے. پسماندگان میں اہلیہ عطیہ جعفری ،صاحبزادے ارشد جعفری اور دوبٹیاں ہیں۔ اللہ مغفرت فرمائے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائےـ
نیاز کا کھانے کا کیا حکم ہے؟
سوال: السلام علیکم
نیاز کا کھانے کا کیا حکم ہے؟ حوالہ کے ساتھ جواب مرحمت فرمائیں
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی👇
معدہ کے افعال اور اس کی بیماریاں اسباب، علامات اور علاج
اسباب، علامات اور علاج
انسان کے جسم میں یقین کا مرکز دل ہے جبکہ صحت کا مرکز معدہ ہوتا ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اپنی غلطی، غفلت اور مسائل کی وجہ سے ان اعضاء اور جسم کی ضروریات کے مطابق ان کا خیال نہیں رکھتا تو پریشانیاں اور بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ صحت کا مرکز ہونے کی وجہ سے معدہ انسانی جسم کا ایک اہم حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق انسانی جسم میں توانائی، حرکت اور نشو و نما کی بنیادیں اسی میں ہوتی ہیں۔ انسان جو کچھ کھاتا ہے، اسے کھا کر چبانا، ہضم کرنا اور پھر سے جسم انسانی کا حصہ بنانا یہ سب کام معدہ اور اس کے معاون اعضا ہی کرتے ہیں۔ نشاستے، لحمیات، حیاتین اور معدنیات انسان کی خوارک کا حصہ ہیں، ان اجزاء کا ایک فیصد استعمال ہوتا ہے اور باقی ناقابلِ ہضم اجزاء معدہ جسم سے خارج کرتا ہے۔ خوراک ہضم کرنے میں لعاب کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر لعاب ٹھیک نہ ہو تو نظامِ انہضام میں خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ معدہ کی تکالیف میں عمومی طور پر ورمِ معدہ، نظامِ ہضم کی خرابیاں، بھوک نہ لگنا، پیٹ میں ریاح ، گیس، تبخیر، انتڑیوں کا سکڑ جانا اور السر یعنی معدہ کے زخم وغیرہ شامل ہیں۔ معدہ کا ورم جب حادّ ہو جائے تو معدہ کا داخلی حصہ اور دیواریں سرخ اور سوجی ہوئی حالت میں تبدیل ہوجاتی ہیں، اس سے معدہ کا درد، قے، متلی، سینہ کی جلن سمیت کئی پریشان کن علامات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ معدہ کی ان بیماریوں کی وجہ سے انسان کا پورا جسم متاثر ہوتا ہے اور مزید کئی بیماریوں کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ سر کا درد، آدھے سر کا درد، نظر کی کمزوری، جگر کا تازہ خون کی پیدائش روک دینا، ہڈیوں کا درد، گردوں میں خرابیاں، وزن میں کمی، مردوں میں احتلام و جریان، خواتین میں لیکوریا اور ماہواری کی خرابیاں، نیند میں خرابی اور ذہنی انتشار و تناؤ… یہ سب وہ مسائل ہیں جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ معدہ سے لازمی تعلق ہے۔
معدہ کی بیماریوں کے اسباب
معدہ کی بیماریوں میں معدہ کا ورم اور السر نمایاں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ فاسٹ فوڈ، غیر مسلم ممالک میں خنزیر جیسے جانور کا حرام گوشت، زیادہ تیل اور گرم کھانا، بازاری اچاری کھانے، سگریٹ نوشی، شراب و الکوحل، بروقت نہ کھانا، جنسی عمل میں زیادتی، سوئے تغذیہ یعنی غذائی کمی یا لازمی غذائی اجزاء کا جذب نہ ہونا، عفونت جراثیمی، جیسے کہ ایچ پائلوری انفکشن، آنتوں کی عفونت، نمونیا، مسمومیت غذائی، اینٹی بائیوٹک ادویات کا غلط استعمال، دافع درد انگریزی ادویات؛ بشمول ڈکلوفینک سوڈئیم، ڈکلوفینک پوٹاشئیم، آئیبو پروفین، انڈو میتھاسون، فینائل بیٹازون، کوٹیزون، اسپرین اور کیمو تھراپی کے لئے استعمال ہونے والی ادویات۔ ڈاکٹر صاحبان دافع درد ادویات کے ساتھ احتیاطاً رینیٹیڈین، زینیٹیڈین اور اومپرازول استعمال کرواتے ہیں اس کا مقصد مریض کو ان ادویات کہ ممکنہ خطرات سے بچانا ہوتا ہے جو کہ معدہ کی تکایف کی صورت میں ہوتا ہے۔جنسی ہارمون اور کورٹی سون کا استعمال السر پیدا کرسکتا ہے۔
شراب نوشی‘ تمباکونوشی اور تفکرات کے علاوہ صدمات بھی السر پیدا کرتے ہیں۔ جیسے کہ خطرناک نوعیت کے حادثات‘ آپریشن‘ جل جانے اور دل کے دورہ کے بعد اکثر لوگوں کو السر ہوجاتا ہے۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ صدمات چوٹ اور دہشت کے دوران جسم میں ایک ہنگامی مرکب ہسٹامین پیدا ہوتا ہے یہ وہی عنصر ہے جو جلد پر حساسیت کا باعث ہوتا ہے۔ یقین کیا جارہا ہے کہ اس کی موجودگی یا زیادتی معدہ میں السر کا باعث ہوتی ہے۔ اسی مفروضہ پر عمل کرتے ہوئے السر کی جدید دواؤں میں سے سیمیٹیڈٰن بنیادی طور پر ہسٹامین کو بیکار کرتی ہے اور یہی اس کی افادیت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ ایسی خوراک جس میں ریشہ نہ ہو۔ جیسے کہ خوب گلا ہوا گوشت۔ چھنے ہوئے سفید آٹے کی روٹی السر کی غذائی اسباب ہیں۔
اکثر اوقات السر خاندانی بیماری کے طور پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ آپس میں خونی رشتہ رکھنے والے متعدد افراد اس میں بیک وقت مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ ان میں تکلیف وراثت میں منتقل ہوتی ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بودوباش کا اسلوب‘ کھانا پینا یا عادات ایک جیسی تھیں۔ اس لئے ان کو السر ہونے کے امکانات دوسروں سے زیادہ رہے 50 فیصدی مریضوں کو السر معدہ کے اوپر والے منہ کے قریب ہوتا ہے وہ اسباب جو معدہ میں زخم پیدا کرتے ہیں وہ بیک وقت ایک سے زیادہ السر بھی بنا سکتے ہیں لیکن 90 فیصدی مریضوں میں صرف ایک ہی السر ہوتا ہے۔ جبکہ 10-15فیصدی میں ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔
اس پر حکماء اور معالجین متفق ہیں کہ السر کے متعدد اقسام جلد یا بدیر کینسر میں تبدیل ہو جاتی ہیں کیونکہ اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ بروقت علاج نہ ہونے پر یہ پھٹ جاتا ہے، عموماً مریض کو اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب قے کے ساتھ خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے پھٹنے میں شراب نوشی، سگریٹ نوشی اور دافع درد ادویات کا اہم کردار ہوتا ہے۔
السر کی تمام پیچیدگیاں خطرناک ہوتی ہیں، ان میں سے کوئی بھی علامت یا پیچیدگی جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ السر کا مریض زندگی سے مایوس، پریشان و بے چین اور اعصابی تناؤ کا شکار رہتا ہے۔
اس مختصر مضمون میں معدہ کے امراض کے اسباب و علاج مکمل لکھنا ممکن نہیں، آگہی اور علاج میں معاونت مقصود ہے۔ جس کسی کو بھی یہ تکلیف محسوس ہو اسے چاہیئے کہ فی الفور کسی مستند طبیب سے رجوع کرے۔ آپ کے آس پاس میں بہت سارے نیم حکیم آپ کو ملیں گے، تعویذ اور دم والوں کی بھی بھرمار ہو گی مگر یاد رکھیں علاج کروانے کی ترغیب ہمیں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے دی ہے۔ اس علاج میں کچھ میڈیکل ٹیسٹ بھی کروانے پڑتے ہیں۔ اس لئیے کسی منجھے ہوئے حکیم یا ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
امراض معدہ کا آسان علاج
یہاں کچھ علامات کے ساتھ آسان علاج پیش ہیں تاہم گذارش ہے کہ اگر کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو اس وقت تک استعمال نہ کرے جب تک کسی اچھے طبیب سے مشاورت نہ کر لیں۔
نسخہ نمبر1
اگر سر میں درد رہتا ہے، پاخانہ وقتِ مقررہ یا معمول میں نہیں ہے، نیند کی زیادتی ہے تو کسی اچھے دواخانے کی بنی ہوئی اطریفل زمانی ناشتہ کے بعد ایک چھوٹا چمچ پانی کے ساتھ کھائیں۔ رات سونے سے قبل چار عدد انجیر نیم گرم دودھ کے ساتھ۔ صبح نہار منہ زیادہ سے زیادہ تازہ پانی پئیں۔
نسخہ نمبر 2
اگر سر میں درد، جسم میں تھکاوٹ کمزوری، قبض اور پاخانہ درد وجلن کے ساتھ ہو یعنی بواسیر کی علامات ظاہر ہو رہی ہوں یا پاخانہ میں خون خارج ہوتا ہو تو جوارش جالینوس ایک چھوٹا چمچ رات کے کھانے کے بعد پانی کے ساتھ، جوارش کمونی ناشتہ کے بعد ایک چھوٹا چمچ پانی کے ساتھ۔ چار عدد انجیر دوپہر کے کھانے کے بعد نیم گرم دودھ کے ساتھ۔ مدت علاج دو مہینے۔
نسخہ نمبر 3
معدہ کی تکالیف کی وجہ سے نظر اور دماغ کمزور ہو گیا ہو، قبض کا احساس ہو اور کھانا ہضم نہ ہوتا ہو، سر میں درد، چکر ، آدھے سر کا درد ہو تو ایسی علامات میں شربتِ فولاد دو چمچ صبح شام، اطریفل اسطخودوس رات میں ایک چھوٹا چمچ، مربہ ہریڑ چار عدد نیم گرم دودھ کے ساتھ رات میں۔ مدت علاج دو ماہ جاری ہے
نسخہ نمبر4
اگر سینہ میں جلن، تبخیر، قے اور معدہ میں درد کا احساس ہو تو یہ علامات بنیادی طور پر السر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں اس کی تشخیص براہِ راست مشاورت اور چیک اپ کے بغیر نا ممکن ہے۔ اس لئیے اپنے طبیب سے ضرور ملیں۔ کچھ مفید تراکیب و علاج یہ ہیں کہ ایسے مریض کو ہلدی کے زیرو سائز کیپسول بنا کر دیں، دو کیپسول صبح شام پانی کے ساتھ۔ زیادہ سے زیادہ مائع خوراک بشکل دودھ، جوس اور صاف پانی دیں۔ میٹھا اور ترش چیزوں سے پرہیز۔
پرہیز
معدہ کی بیماریوں میں مبتلا تمام مرد و عورتیں ہر قسم کی ترش کھٹی ، گھی، مرچ مسالہ، گوشت اور بازاری خوارک سے بچیں۔ فاسٹ فوڈ کو خود کے لئیے حرام سمجھیں۔ سگریٹ نوشی کسی زہرِ قاتل سے کم نہیں۔ شادی شدہ خواتین و حضرات جنسی عمل میں اعتدال برتیں۔
خوراک
نہار منہ صاف تازہ پانی، ٹھنڈا دودھ، جوس، پھل، ہرے پتے والی سبزی، ریشہ دار غذائیں، انجیر اور ہریڑ کا استعمال کریں۔
صحت آپ کے اپنے ہاتھ میں
جس طرح تندرست انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھوک پر غذا کھائے اسی طرح مریض کے لئے تو اشد ضروری ہے کہ وہ بغیر شدید بھوک کوئی غذا نہ کھائیں۔ کیونکہ بھوک کی طلب نہ ہونا اس امر کی دلالت کرتا ہے کہ یا تو جسم میں پہلے ہی غذا موجود ہے یا پھر طلب غذا کے عضو میں خرابی ہے اس لئے لازم ہے کہ بغیر بھوک غذا نہ کھائی جائے، کیونکہ بغیر شدید بھوک کھائی ہوئی غذا خمیر بن جاتی ہے جو ایک قسم کا زہر ہوتا ہے جس سے انسان بیمار ہوجاتا ہے۔
۔ شدید بھوک سے معدہ و انتڑیوں میں پڑا ہو خمیر جل جاتا ہے جس سے ہر قسم کے امراض جسم و خون سے بھاگ جاتے ہیں۔
شدید بھوک اگر تین دن بھی نہ لگے تو کسی قسم کی غذا نہ کھائیں البتہ چائے قہوہ یا کوئی پھل کھاسکتے ہیں۔
۔ شدید بھوک سے دوران خون تیز ہوکر پورے جسم سے ہر قسم کے فضلات خارج ہوجاتے ہیں۔
۔ شدید بھوک پر کھائی ہوئی غذا ہضم ہو کر خون بن جاتی ہے اس کے برعکس بغیر بھوک کھائی ہوئی غذا خمیر بن کر امراض میں اضافہ کردیتی ہے۔
۔ شدید بھوک بعض امراض سے نجات حاصل کرنے کا بہترین راستہ ہے۔
۔ ہر شخص کو اپنے مزاج کے مطابق اغذیہ ادویہ استعمال کرنی چاہیے، اگر مزاج کے مخالف استعمال کی گئیں تو نتیجہ امراض کی صورت میں ظاہر ہوگا۔
بغیر ضرورت کھائی ہوئی غذا ضعف پیدا کرتی ہے۔
دنیا میں کوئی غذا یا دوا ایسی نہیں ہے جو انسان کو بلاضرورت اور بلاوجہ طاقت بخشے مثلاً دودھ ایک مقوی غذا سمجھی جاتی ہے۔ لیکن جن لوگوں کے جسم میں بلغم و رطوبات اور ریشہ کی زیادتی ہو ان کے لئے سخت مضر ہے۔ گویا جن لوگوں کے دماغ اور اعصاب میں تحریک و تیزی اور سوزش ہو وہ اگر دودھ کو طاقت کے لئے استعمال کریں گے تو ان کا مرض روز بروز بڑھتا جائے گا اور وہ طاقتور ہونے کی بجائے کمزور ہوتے جائیں گے۔
اسی طرح دوسری مقوی اور مشہور غذا گوشت ہے ہر مزاج کے لوگ اس سے طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایک فاضل حکیم جانتا ہے کہ گوشت کا ایک خاص مزاج ہے۔ اگر کسی انسان کا وہ مزاج نہ ہو تو اسکے لئے مفید ہونے کی بجائے نقصان دہ ہوتا ہے۔ مثلاً جن لوگوں کا بلڈپریشر ہائی ہو ان کو اگر بھنا ہوا گوشت کھلادیا جائے تو شدید نقصان دے گا۔ اسی طرح جن لوگوں کے جگر و گردوں میں سوزش ہو انکو بھی گوشت طاقت دینے کی بجائے سخت نقصان دے گا۔
اسی طرح مقوی اور مشہور غذا گھی ہے۔ جو اس قدر ضروری ہے کہ تقریباً ہر قسم کی غذا تیار کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کو ضعف جگر ہو تو اگر گھی کا استعمال کریں گے تو ان کے ہاتھ پاؤں بلکہ تمام جسم پھول جائے گا، سانس کی تنگی پیدا ہوجائے گی، ایسا انسان بہت جلد مرجائے گا۔
دنیا میں کوئی ایسی دوا مفرد یا مرکب نہیں ہے جس کو بلاوجہ اور بغیر ضرورت استعمال کریں اور وہ طاقت پیدا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ فن علاج کو پیدا ہوئے ہزاروں سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسی غذا یا دوا تحقیق نہیں ہوئی جو بلا ضرورت خون پیدا کرے، یا طاقت دے۔
آج کل مارکیٹ میں طب اور ایلوپیتھی کی ہزاروں ادویات ، مقوی، سپیشل ٹانک اور جنزل ٹانک کے ناموں سے فروخت ہورہی ہیں یہ ادویات نہ صرف ہمارے ملک کے کروڑوں روپے برباد کرہی ہیں بلکہ بہت ہی خطرناک امراض پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔
ان ادویات کے بے جا استعمال سے تپ دق، سل، ذیابیطس، ہائی بلڈپریشر، فالج، عصبی امراض وغیرہ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ہر سال ہزاروں افراد ان میں گرفتار ہوکر مرجاتے ہیں۔
لیکن افسوس ہے کہ ملک کے کسی بھی طریقہ علاج کے معلاج نے ان مقوی پیٹنٹ ادویات کو فوری طور پر بند کرنے کا مشورہ نہیں دیا تاکہ ملک کی دولت اور قوم کی صحت برباد نہ ہو۔
معدہ کے علاج میں طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
بد ہضمی :۔
بد ہضمی ایک عام سی بیماری ہے۔ پیٹ میں بوجھ، کھٹے ڈکار، منہ میں کھٹا پانی آتے رہنا۔ پیٹ میں ہوا رہنا۔ یہ تمام کیفیات معدہ کی خرابی کی آئینہ دار ہیں۔ غذا ٹھیک سے ہضم نہ ہونے کی وجہ سے جسم میں کمزوری، سستی وغیرہ واقع ہو جاتی ہے۔
بدہضمی اکثر مرغن غذاؤں، مسلسل بسیار خوری، آرام طلب زندگی، پرانی قبض، کھانے کے غیر متعین اوقات یا کھانے کے بعد جلد سو جانے کی وجہ سے آنتوں میں غذا معمول سے زیادہ ٹھہرتی ہے جس کی وجہ سے بدہضمی کی علامات پیدا ہوتی ہیں۔ پیدل چلنے سے آنتوں میں موجود خوارک بھی آگے کو چلتی ہے۔ جو لوگ گھر سے سواری پر کام پر جاتے ہیں حتٰی کہ تھوڑے سے فاصلہ پر بھی سواری کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کو بدہضمی اپنی اس کوشش سے حاصل ہوتی ہے۔
مسیح الملک اجمل خان دہلوی نے ثیقل غذاؤں، ٹھنڈی اور بادی غذاؤں نیز کھانے کے درمیان زیادہ پانی پینے اور پیٹ بھر کر کھانا کھانے کو بدہضمی کا باعث قرار دیا ہے۔ مسند اور دوسری کتابوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کسی خالی برتن کو بھرنا اتنا برا نہیں ہے جتنا کہ آدمی کا خالی شکم کو بھرنا۔ انسان کے لئے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی توانائی کو باقی رکھیں۔ اگر پیٹ بھرنے کا ہی خیال ہے تو ایک تہائی کھانا، ایک تہائی پانی اور ایک تہائی سانس کے لئے خالی رکھے۔
مذکورہ بالا حدیث خوراک کی متوازن مقدار کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ معدہ میں پانی، غذا اور رطوبتوں کے عمل سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس بنتی ہے اور یہ معدہ کے اوپر والے حصے میں آ جاتی ہے۔ اگر معدہ کے اس حصے کو بھی خوارک سے بھر دیا جائے تو گیس کے لئے جگہ نہ ہوگی۔ یہ عمل معدہ میں بہت سی بیماریوں کا باعث اور سانس میں دشواری پیدا کرتا ہے۔ بدہضمی بذات خود کوئی بیماری نہیں بلکہ متعدد بیماریوں کی علامت ہے۔ ذہنی بوجھ یا ثقیل غذاؤں کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال کا علاج تو ادویات سے کیا جا سکتا ہے لیکن پتہ یا اپینڈکس کی سوزش کا دواؤں سے علاج خطرناک ہے۔
علاج نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
بدہضمی کا بنیادی علاج شہد ہے۔ حالت خواہ کچھ بھی ہو، شہد پینے سے آرام آتا ہے۔ معدہ اور آنتوں کی جلن رفع ہوتی ہے۔ شہد اگر گرم پانی میں پیا جائے تو اکثر اوقات نیند آ جاتی ہے جس کے بعد علامات کا بیشتر حصہ ختم ہو جاتا ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق شہد قدرے ملین، محلل ریاح اور دافع تعفن ہے۔
کھانے کے بعد پیٹ میں بوجھ زیادہ ہو تو 4۔ 3 دانے خشک انجیر چبا لینے سے فائدہ ہوتا ہے۔ پیٹ میں اگر السر نہ ہو تو انجیر کو کچھ عرصہ لگا تار کھانا مفید رہتا ہے۔ یہ فائدہ پتہ کی سوزش میں بھی جاری رہتا ہے۔ معدہ میں کینسر یا زخم کی صورت میں زیتون کا تیل ایک شافی علاج ہے۔ اکثر مریضوں میں جو کا دلیہ شہد ملاکر دینا مفید رہتا ہے کیونکہ جو کی لیس جلن کو سکون دیتی ہے۔ یہ قبض کشاء اور جسمانی کمزوری کا بھی علاج ہے۔ بدہضمی اور تبخیر کے سلسلہ میں یہ دوائیںانتہائی مفید ہیں۔
قسبط البحری 40 گرام
کلونجی 50 گرام
سوئے 10 گرام
تمام کو سفوف کرکے کھانے کے بعد پون چھوٹا چمچ پانی کے ہمراہ استعمال کریں۔ (طب نبوی اور جدید سائنس)
سوزش معدہ کا مرض آج بالکل عام ہے۔ اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جو ہدایت فرمائی، وہ یہ ہے کہ کھانا گرم گرم نہ کھایا جائے کیونکہ جب گرم کھانا پیٹ کے اندر جاتا ہے تو معدہ کی جھلیوں میں اپنے درجہ حرارت کی وجہ سے خون کا ٹھہراؤ پیدا ہوتا ہے۔ جب ایسا بار بار ہوتا ہے تو معدہ میں سوزش کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
معدہ کی جھلیاں متورم ہو جاتی ہیں۔ ان میں سرخی آ جاتی ہے۔ اس کے رد عمل کے طور پر نازک خلئے گھسنے یا گلنے لگتے ہیں جن کی وجہ سے اندرونی طور جریان خون وہ جاتا ہے یہ معمولی بھی ہو سکتا ہے اور شدید بھی۔
گردوں کے فیل ہونے کے نتیجے میں جب خون میں یوریا کی مقدار بڑھ جاتی ہے یا خون میں پیپ پیدا کرنے والے جراثیم کی وجہ سے زہر باد پیدا ہو جاتا ہے تو اس کے اثرات معدہ پر سوزش کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ نیز سوزش اور جلن پیدا کرنے والی دواؤں مثلاً اسپرین، شراب اور جوڑوں کے درد کی دواؤں از قسم Phenyl Butazone کھانے سے پیدا ہوتیہے۔
علاج :تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے معدہ کو بیماری کا گھر قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے معدہ کی جھلیوں کی حفاظت کے سلسلہ میں متعدد اہم ہدایات عطا فرمائی ہیں جن میں صبح کو ناشتہ جلدی کرنے کا حکم بھی ہے۔ رات بھر کے فاقہ کے بعد معدہ صبح کو خالی ہوتا ہے۔ اس وقت اگر چائے یا کافی یا لیموں کا عرق وغیرہ پیا جائے تو معدہ کی تیزابیت میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں وہاں پر سوزش اور السر کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس لئے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے علی الصبح خود ہمیشہ شہد پیا جو تیزابیت کو کم کرتا ہے اور معدہ کی جھلیوں کی حفاظت کرتا ہے۔
نہار منہ شہد، ناشتہ میں جو کا دلیا شہد ڈال کر، جس وقت پیٹ خالی ہو اس وقت زیتون کا تیل پلانے سے معدہ میں سوزش کا کوئی بھی عنصر باقی نہیں رہتا۔
اسہال
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیان کیا کہ میرے بھائی کو اسہال ہو رہے ہیں۔ تاجدار انبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شہد پلاؤ۔ وہ پھر آیا اور عرض گزار ہوا کہ دستوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اسے پھر شہد ہی کی ہدایت کی گئی اور اس طرح وہ تین مرتبہ اضافہ کی شکایت لے کر اور شہد پینے کی ہدایت لے کر چلا گیا۔ پھر وہ چوتھی مرتبہ آیا تو پھر یہی ارشاد فرمایا کہ اسے شہد پلاؤ۔ اس نے عرض کیا کہ میں نے اسے شہد پلایا ہے مگر ہر بار اس کے دست بڑھ گئے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ! اللہ عزوجل کا فرمان سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ اس شخص نے پھر شہد پلایا تو اس کا بھائی صحت مند ہوگیا۔ (بخاری۔ مسلم۔ مشکوٰۃ)
علم الادویہ اور اپنے افعال کے لحاظ سے شہد ملین بھی ہے اور زخموں کو مندمل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لئے شہد کو بار بار دینے سے پہلے تو پیٹ میں جمع جراثیم کی Toxins خارج ہو جائیں اور پھر اس نے جراثیم کو ہلاک کیا اور اس طرح مریض کے شفایاب ہونے میں اگرچہ ابتدائی طور پر کچھ وقت لگا لیکن اس وقت کا ہر حصہ مریض کی صحت کی بحالی کے لئے ضروری تھا۔ شہد جراثیم کو مارتا اور مقوی بھی ہے۔
پہلے کے اطباء اسہال کے علاج کی ابتداء کسٹرائیل سے کرتے تھے تاکہ زیریں نکل جائیں۔ اسہال کے علاج میں اہم ترین مسئلہ اور ضرورت سبب کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ مریض کے جسم سے نکل چکے نمکیات اور پانی کی کمی کو پورا کرنا ہے۔ شہد وہ عظیم اور منفرد دوائی ہے جو کمزوری کو دور کرتی ہے۔ پانی اور نمکیات کی کمی کو پورا کرتی ہے اور جراثیم کو ہلاک کرکے آنتوں اور زخموں کو مندمل کرتی ہے۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اس مریض کو بار بار شہد پلانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک خاص مقدار شہد کی پلائی جائے کیونکہ جب تک کسی بھی دوائی کی مطلوبہ مقدار استعمال نہ کی جائے۔ اس وقت تک خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب خوراک پوری ہوئی، مریض کو صحت ہو گئی۔ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ ضرورت ہی اس امر کی تھی کہ مریض کو مسہل دیا جائے تاکہ پیٹ سے فاسد مواد نکل جائے کیونکہ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ اگر پیٹ میں فاسد مواد موجود ہو تو دست بند کرنے سے مریض کو نقصان ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی کہ اللہ عزوجل سچا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ اس سے ثابت ہوا پیارے نبی کریم کے ہر فرمان میں حکمت دانائی کے موتی ہیں.
کاروباری پریشانیوں سے بچنے کے لئے بینک سے قرض لینا؟۔۔۔۔۔(1790)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1790)
سوال: ایک شخص ایک چھوٹی موٹی فیکٹری ڈالنا چاہتا ہے لیکن ہندوستان کے نئے نظام کی وجہ سے وہ مشین کو نقد رقم سے نہیں لے سکتا ہے اسے یا تو بینک سے لون لے کر ہی لینا ہوگا۔ اگر نقد لیا تو گورنمنٹ سوال طلب کرتی ہے جس کا سبھی کو معلوم ہے کہ حلال کا پیسہ ہونے کے باوجود بھی جواب نہیں دیا جاسکتا ہے ۔۔ ایسی صورت میں کام کرنے طریقہ کار کیا اختیار کرے ۔۔۔۔
شفیع اللہ اعظمی قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
صرف بینک کو دکھانے کے لئے تاکہ انکم ٹیکس یا دیگر مختلف الجہات ظالمانہ الجہنوں اور رکاوٹوں سے بچا جاسکے۔۔ بینک سے کچھ قرض لے لیں۔
باقی آپ اپنی جائز وحلال رقم سے اپنا مجوزہ کاروبار چلائیں۔ کاروبار میں بینک کی سودی رقم (قرض) صرف نہ کریں۔ تاکہ آپ کی کاروباری خیر و برکت سود کی نحوست سے متاثر وپراگندہ نہ ہو۔ اسے صرف انکم ٹیکس یا دیگر سرکاری اداروں کو دکھانے کی حد تک ہی محدود رکھیں۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
١٣شعبان ١٤٣٩ہجری
حیات شہداء کی حقیقت مٹی کی طبعی تاثیر سے ان کے جسم کی سلامتی؟....... (1789)
مٹی کی طبعی تاثیر سے ان کے جسم کی سلامتی؟
۔۔۔۔۔ (1789)
اللہ تعالیٰ کے خاص حکم سے تمام انبیاء ورسل علیہم الصلوۃ والسلام کے اجسام ان کی وفات کے بعد قبروں میں جوں کے توں محفوظ رہتے ہیں، زمین ان پر اپنا عام طبعی عمل نہیں کرسکتی، ان کے اجسام متغیر نہیں ہوتے۔ اللہ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے جسموں کو کھائے یا ان میں کچھ فساد وبگاڑ پیدا کرے۔ جس طرح دنیا میں خاص تدبیروں اور دواؤں سے موت کے بعد بھی اجسام کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص قدرت اور خاص حکم سے پیغمبروں کی وفات کے بعد ان کے جسموں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قبروں میں محفوظ کردیا ہے اور وہاں ان کو ایک خاص قسم کی حیات حاصل رہے گی (جو اس عام کے قوانین کے مطابق ہو گی) اس لئے درود کے پہنچنے اور پیش کئے جانے کا سلسلہ ان پر جاری رہتا ہے طرح جاری رہے گا۔
ترجمہ: حضرت اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
جمعہ کا دن افضل ترین دنوں میں سے ہے، اسی میں آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی میں ان کی وفات ہوئی، اسی میں قیامت کا صور پھونکا جائے گا اور اسی میں موت اور فنا کی بیہوشی اور بے حسی ساری مخلوقات پر طاری ہو گی۔ لہذا تم لوگ جمعہ کے دن مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے اور پیش ہوتا رہے گا.“
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:
یا رسول اللہ! ( آپ کے وفات فرما جانے کے بعد) ہمارا درود آپ پر کیسے پیش ہوگا؟ آپ کا جسد اطہر تو قبر میں ریزہ ریزہ ہوچکا ہوگا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کے جسموں کو زمین پر حرام کر دیا ہے۔ (یعنی موت کے بعد بھی ان کے اجسام قبروں میں بالکل صحیح سالم رہتے ہیں، زمین ان میں کوئی تغیر پیدا نہیں کرسکتی)۔ (سنن ابی داؤد /1531، 1047 ۔سنن نسائی 91/3۔ سنن ابن ماجہ :1085،1636۔ ابن خزیمہ 1733،1734۔ابن حبان 910 )
الراوي:أوس بن أبي أوس وقيل أوس بن أوس والد عمرو المحدث:الدارقطني المصدر:تفسير القرآن الجزء أو الصفحة:6/463 حكم المحدث: [صحيح]
إنَّ مِن أفضلِ أيَّامِكُمُ الجمعةَ، فيهِ خُلِقَ آدمُ، وفيهِ قُبِضَ، وفيهِ نَفخةُ الصُّورِ، وفيهِ الصَّعقةُ، فأَكْثروا عليَّ منَ الصَّلاةِ فيهِ، فإنَّ صَلاتَكُم معروضةٌ عليَّ. قالوا: وَكَيفَ تُعرَضُ صلاتُنا عليكَ وقد أرِمتَ، فقالَ: إنَّ اللَّهَ تعالى حرَّمَ علَى الأرضِ أن تأكُلَ أَجسادَ الأنبياءِ
الراوي:أوس بن أبي أوس المحدث:الحاكم المصدر:المستدرك الجزء أو الصفحة:5/776 حكم المحدث:صحيح على شرط الشيخين
إنَّ من أفضلِ أيامِكم يومَ الجمعةِ فيه خلِقَ آدمُ، وفيه قبِضَ ، وفيه النفخةُ وفيه الصعقةُ ، فأكثروا عليَّ من الصلاةِ فيه فإنَّ صلاتَكم معروضةٌ عليَّ قالوا : وكيف تعرَضُ صلاتُنا عليك وقد أرِمْتَ ؟ يقولونَ بليتَ فقال : إنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ حرَّم على الأرضِ أجسادَ الأنبياءِ
الراوي:أوس بن أبي أوس وقيل أوس بن أوس والد عمرو المحدث:ابن العربي المصدر:التذكرة للقرطبي الجزء أو الصفحة:164 حكم المحدث:حديث حسن
الراوي:أوس بن أبي أوس وقيل أوس بن أوس والد عمرو المحدث:ابن خزيمة المصدر:تفسير القرآن الجزء أو الصفحة:6/463 حكم المحدث: [صحيح]
من أفضَلِ أيامِكم يومُ الجمُعةِ فيه خُلِقَ آدمُ وفيه قُبِضَ وفيه النَّفخةُ وفيه الصَّعقةُ فأكثِروا عليَّ من الصَّلاةِ فيه فإنَّ صلاتَكم مَعروضةٌ عليَّ قالوا يا رسولَ اللَّهِ وكيفَ تُعرَضُ عليك صلاتُنا وقد أرمتَ يعني وقد بليتَ قال إنَ اللَّهَ حرَّمَ على الأرضِ أن تأكُلَ أجسادَ الأنبياءِ
الراوي:أوس بن أبي أوس وقيل أوس بن أوس والد عمرو المحدث:ابن حبان المصدر:تفسير القرآن الجزء أو الصفحة:6/463 حكم المحدث:[صحيح]
عام مسلمان کا جسم مرنے کے بعد مٹی کی طبعی اثرات سے محفوظ نہیں رہتا۔ یعنی سڑگل کر ختم ہوجاتا ہے، کیڑے لگ جاتے ہیں۔ قبر خود روزانہ پکارتی ہے کہ میں تنہائی، اجنبیت ، مٹی اور کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں:
(دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَلَّاهُ ، فَرَأَى نَاسًا كَأَنَّهُمْ يَكْتَشِرُونَ – يعني : يضحكون - قَالَ : أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَى ، فَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ ، فَإِنَّهُ لَمْ يَأْتِ عَلَى الْقَبْرِ يَوْمٌ إِلَّا تَكَلَّمَ فِيهِ فَيَقُولُ : أَنَا بَيْتُ الْغُرْبَةِ ، وَأَنَا بَيْتُ الْوَحْدَةِ ، وَأَنَا بَيْتُ التُّرَابِ ، وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ .
فَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا ، أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَحَبَّ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ ، فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ . قَالَ : فَيَتَّسِعُ لَهُ مَدَّ بَصَرِهِ ، وَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ .
وَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْفَاجِرُ أَوْ الْكَافِرُ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ: لَا مَرْحَبًا وَلَا أَهْلًا ، أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَبْغَضَ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ، فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ . قَالَ : فَيَلْتَئِمُ عَلَيْهِ حَتَّى يَلْتَقِيَ عَلَيْهِ وَتَخْتَلِفَ أَضْلَاعُهُ . قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصَابِعِهِ فَأَدْخَلَ بَعْضَهَا فِي جَوْفِ بَعْضٍ . قَالَ : وَيُقَيِّضُ اللَّهُ لَهُ سَبْعِينَ تِنِّينًا ، لَوْ أَنْ وَاحِدًا مِنْهَا نَفَخَ فِي الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَيْئًا مَا بَقِيَتْ الدُّنْيَا ، فَيَنْهَشْنَهُ وَيَخْدِشْنَهُ حَتَّى يُفْضَى بِهِ إِلَى الْحِسَابِ .
قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ، أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ)
رواه الترمذي في سننه (2460) والبيهقى فى شعب الإيمان (1/498) من طريق القاسم بن الحكم العرني عن عبيد الله بن الوليد الوصافي عن عطية عن أبي سعيد الخدري به.
وقال الترمذي: حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.
وهذا سند ضعيف جدا ، فيه عبيد الله بن الوليد الوصافي، جاء في ترجمته في "تهذيب التهذيب" (7/55): عن أحمد بن حنبل: ليس بمحكم الحديث ، يكتب حديثه للمعرفة .
و قال يحيى بن معين وأبو زرعة وأبو حاتم : ضعيف الحديث . وقال النسائى : متروك الحديث . وقال ابن عدي : ضعيف جدا ، يتبين ضعفه على حديثه . وقال ابن حبان : يروي عن الثقات ما لا يشبه الأثبات ، حتى يسبق إلى القلب أنه المُتَعَمِّد لها ، فاستحق الترك .
وقال الحاكم: روى عن محارب أحاديث موضوعة. وقال أبو نعيم الأصبهانى : يحدث عن محارب بالمناكير ، لا شيء " انتهى .
لذلك قال الحافظ العراقي عن هذا الحديث ـ "تخريج الإحياء" (1/400) ـ : " فيه عبيد الله بن الوليد الصافي ضعيف " ، وضعفه السخاوي في "المقاصد الحسنة" (359) والشوكاني في "الفوائد المجموعة" (269)
وقال الشيخ الألباني في "السلسلة الضعيفة" (10/749) : " عطية ضعيف مدلس والوصافي ضعيف جدا " انتهى .
وقال في "ضعيف الترمذي" : "ضعيف جدا، ولكن جملة (هاذم اللذات) صحيحة " انتهى)
003:169
اور تو نہ سمجھ ان لوگوں کو جو مارے گئے اللہ کی راہ میں مردے بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے ہیں۔
قرآن کریم کی اسی آیت نے یہ بتلایا ہے کہ شہداء کو اللہ کی طرف سے جنت کا رزق ملتا ہے اور رزق زندہ آدمی کو ملا کرتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اس دنیا سے منتقل ہوتے ہی شہید کے لئے رزق جنت جاری ہوجاتا ہے اور ایک خاص قسم کی زندگی اسی وقت سے اس کو مل جاتی ہے، جو عام مردوں سے ممتاز حیثیت کی ہے (قرطبی) اب رہا کہ وہ امتیاز کیا ہے؟ اور وہ زندگی کیسی ہے؟ اس کی حقیت سوائے خالق کائنات کے نہ کوئی جان سکتا ہے نہ جاننے کی ضرورت ہے، البتہ بسا اوقات ان کی حیات خاص کا اثر اس دنیا میں بھی ان کے ابدان پر ظاہر ہوتا ہے کہ زمین ان کو نہیں کھاتی وہ صحیح سالم باقی رہتے ہیں (قرطبی) جس کے بہت سے واقعات دور نبوی سے آج تک مشاہدہ کئے جارہے ہیں۔
4. چوتھی فضیلت یہ ہے ویستبشرون بالذین لم یلحقوابھم، یعنی وہ اپنے جن متعلقین کو دنیا میں چھوڑ گئے تھے ان کے متعلق بھی ان کو یہ خوشی ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں رہ کر نیک عمل اور جہاد میں مصروف رہیں تو ان کو بھی یہاں آ کر یہی نعمتیں اور درجات عالیہ ملیں گے۔
اور سدی نے بیان فرمایا کہ شہید کا جو کوئی عزیز دوست مرنے والا ہوتا ہے شہید کو پہلے سے اس کی اطلاع کردی جاتی ہے کہ فلاں شخص اب تمہارے پاس آ رہا ہے وہ اس سے ایسا خوش ہوتا ہے جیسے دنیا میں کسی دور افتادہ دوست سے بعد مدت ملاقات کی خوشی ہوتی ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے:
جب جنگ احد کا وقت قریب آگیا تو مجھے میرے والد حضرت عبداللہ نے رات کو بلاکر کہا کہ مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اصحاب میں سب سے پہلا مقتول میں ہی ہوں گا اور دیکھو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے سوا دوسرا کوئی مجھے (اپنے عزیزوں اور وارثوں میں) تم سے زیادہ عزیز نہیں ہے، میں مقروض ہوں اس لیے تم میرا قرض ادا کردینا اور اپنی (نو) بہنوں سے اچھا سلوک کرنا۔
چنانچہ جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے میرے والد ہی شہید ہوئے۔ قبر میں آپ کے ساتھ میں نے ایک دوسرے شخص کو بھی دفن کیا تھا، لیکن میرا دل نہیں مانا کہ انہیں دوسرے صاحب کے ساتھ یوں ہی قبر میں رہنے دوں، چنانچہ چھ مہینے کے بعد میں نے ان کی لاش کو قبر سے نکالا دیکھا تو صرف کان تھوڑا سا گلنے کے سوا باقی سارا جسم اسی طرح تھا جیسے دفن کیا گیا تھا۔
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَ أُحُدٌ دَعَانِي أَبِي مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ: مَا أُرَانِي إِلَّا مَقْتُولًا فِي أَوَّلِ مَنْ يُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنِّي لاَ أَتْرُكُ بَعْدِي أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْكَ، غَيْرَ نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ عَلَيَّ دَيْنًا فَاقْضِ، وَاسْتَوْصِ بِأَخَوَاتِكَ خَيْرًا، «فَأَصْبَحْنَا، فَكَانَ أَوَّلَ قَتِيلٍ وَدُفِنَ مَعَهُ آخَرُ فِي قَبْرٍ، ثُمَّ لَمْ تَطِبْ نَفْسِي أَنْ أَتْرُكَهُ مَعَ الآخَرِ، فَاسْتَخْرَجْتُهُ بَعْدَ سِتَّةِ أَشْهُرٍ، فَإِذَا هُوَ كَيَوْمِ وَضَعْتُهُ هُنَيَّةً غَيْرَ أُذُنِهِ»۔(بخاری:1351)
تم لوگوں نے مجھے ایسی جگہ دفن کردیا ہے جہاں پانی مجھے تکلیف پہنچاتا ہے میری جگہ یہاں سے تبدیل کرو ، رشتے داروں نے قبر کھو دی تو ان کا جسم نرم و نازک چمڑے کی طرح تھا اور داڑھی کے چند بالوں کے علاوہ جسم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: رَأَى بَعْضُ أَهْلِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّهُ رَآهُ فِي النَّوْمِ فَقَالَ:«إِنَّكُمْ قَدْ دَفَنْتُمُونِي فِي مَكَانٍ قَدْ أَتَانِي فِيهِ الْمَاءُ فَحَوِّلُونِي مِنْهُ فَحَوَّلُوهُ، فَأَخْرَجُوهُ كَأَنَّهُ سِلْقَةٌ لَمْ يَتَغَيَّرْ مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا شَعَرَاتٌ مِنْ لِحْيَتِهِ»۔(مصنّف عبد الرزاق:6657)
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نہر کظامہ جاری کرنے کا اردہ فرمایا تو یہ اعلان کروایا کہ جس کا کوئی شہید ہوتو وہ پہنچ جائے.
پھر ان شہداء کے اجسام نکالے گئے تو وہ بالکل تر و تازہ تھے یہاں تک کہ کھودنے کے دوران ایک شہید کے پاؤں پر کدال لگ گئی تو خون جاری ہوگیا۔
لَمَّا أَرَادَ مُعَاوِيَةُ أَنْ يُجْرِيَ الْكِظَامَةَ قَالَ:مَنْ كَانَ لَهُ قَتِيلٌ فَلْيَأْتِ قَتِيلَهُ يَعْنِي قَتْلَى أُحُدٍ قَالَ:فَأَخْرَجَهُمْ رِطَابًا يَتَثَنَّوْنَ قَالَ:فَأَصَابَتِ الْمِسْحَاةُ رِجْلَ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَانْفَطَرَتْ دَمًا،فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ:لَا يُنْكِرْ بَعْدَ هَذَا مُنْكِرٌ أَبَدًا۔(مصنّف عبد الرزاق:6656)
ان دونوں حدیثوں سے واضح ہے کہ شہداء کے ساتھ خاص اعزاز وامتیاز ان کے اجسام طبعیہ کی سلامتی کی طرف بھی متعدی ہوتا ہے اور بطریق لزوم ودوام نہیں! بلکہ بعض اوقات ان کے اجسام بھی زمینی اثرات؛ سڑنے گلنے سے محفوظ رہتے ہیں۔
لیکن یہ امتیاز صرف اس شہید حقیقی کو حاصل ہے جس کی شہادت عند اللہ مقبول بھی ہوگئی ہو۔ ورنہ فساد نیت اور دیگر خرابیوں کی وجہ سے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے مارے جانے والے کو بھی منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اللہم احفظنا منہ۔
بعض حدیث وآثار سے بھی پتہ چلتا ہے کہ شہید حقیقی کا جسم بھی سڑنے گلنے اور کیڑے لگنے سے محفوظ رہتا ہے ۔یعنی مٹی اس کے جسم پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
اس ذیل کی بعض حدیث اسنادی حیثیت سے اگرچہ ضعیف ہے لیکن تعدد طرق سے حسن کے درجے کو پہنچ سکتی ہے۔
المؤذِّنُ كالشَّهيدِ المتشحَّطِ في دمِهِ وإذا ماتَ لم يدوَّدْ في قبرِهِ
الراوي:ابن عمرو المحدث:ابن الجوزي المصدر:العلل المتناهية الجزء أو الصفحة:1/389 حكم المحدث:لا يصح
الراوي:ابن عمر المحدث:ابن الجوزي المصدر:العلل المتناهية الجزء أو الصفحة:1/390 حكم المحدث:لا يصح
الراوي:عبدالله بن عمر المحدث:المنذري المصدر:الترغيب والترهيب الجزء أو الصفحة:1/147 حكم المحدث:[إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
الراوي:عبدالله بن عمر المحدث:الذهبي المصدر:تلخيص العلل المتناهية الجزء أو الصفحة:133 حكم المحدث:باطل [وروي من قول ابن عمر بسند فيه متهم وبسند فيه متروك]
الراوي:عبدالله بن عمر المحدث:ابن حجر العسقلاني المصدر:لسان الميزان الجزء أو الصفحة:1/280 حكم المحدث:[فيه إبراهيم بن رستم ، ذكر من جرحه]
الراوي:ابن عمرو المحدث:السيوطي المصدر:الجامع الصغير الجزء أو الصفحة:9115 حكم المحدث:ضعيف
الراوي:عبدالله بن عمرو المحدث:الألباني المصدر:ضعيف الترغيب الجزء أو الصفحة:164 حكم المحدث:ضعيف
الراوي:عبدالله بن عمرو المحدث:الألباني المصدر:ضعيف الجامع الجزء أو الصفحة:5900 حكم المحدث:ضعيف
الراوي:عبدالله بن عمر المحدث:الألباني المصدر:السلسلة الضعيفة الجزء أو الصفحة:853 حكم المحدث:ضعيف جداً
واضح رہے کہ ان حدیثوں میں شہید کے جسم کو مٹی نہ کھانے کی بات آئی ہے۔ اگر مٹی کے علاوہ دوسرے عناصر مثلا پانی کی نمی وغیرہ کے اثرات سے شہید کے اجسام گل جائیں تو یہ امر آخر ہے ایسا بسا ممکن ہے۔
پانی وغیرہ کی تاثیر کی وجہ سے جسم شہید کی سلامتی کی کوئی بات کسی بھی حدیث میں نہیں آئی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
١٣شعبان ١٤٣٩ہجری
Sunday, 29 April 2018
شب براءت؛ مدلل فضائل و احکام
کچھ عرصہ بعد رمضان المبارک کی آمد ہوگی، چشمِ تصور میں ایک بار پھر آنکھیں ان مناظر سے ٹھنڈی ہونے کو بے تاب ہیں کہ پانچوں نمازوں کے وقت موٴذن کی پکار پر لبیک کہنے والے جوق درجوق خانہ خدا کی طرف لپکے چلے آتے ہیں، جہاں ایک طرف ہر نماز سے پہلے اور نماز کے بعد مساجد میں خلق خدا کی ایک بہت بڑی تعداد قرآن حکیم کی تلاوت سے لطف اندوز ہوتی نظر آتی ہے، تو دوسری طرف بہت سے افراد نوافل کی ادائیگی میں مشغول نظر آتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ ذکر واذکار سے اپنے سینوں کو منور کرنے والے اور اپنے ربِّ عزَّوجلَّ کے حضور الحاح وزاری کے ساتھ سسکتے ہوئے مناجات میں مشغول افراد کی تعداد بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔
(ما رأیتہ في شھرٍ أکثر صیاماً منہ في شعبان)
کہ: ”میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں کثرت سے (نفلی) روزے رکھتے نہیں دیکھا.“
(صحیح مسلم، رقم الحدیث: ۲۷۷۷)،
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ”شعبان المعظم“ میں بکثرت روزہ رکھنے کی وجہ سے اس مہینے میں روزہ رکھنے کو علامہ نووی رحمہ اللہ نے مسنون قرار دیا ہے، فرماتے ہیں:
”ومن المسنون صوم شعبان.“
(المجموع شرح المہذب:۶/۳۸۶)۔
”اب خاص اس روزہ کی حکمت بھی سمجھئے، میرے نزدیک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سے پہلے نصف شعبان کا روزہ رمضان کے نمونہ کے لیے مسنون فرمایا ہے؛ تاکہ رمضان سے وحشت وہیبت نہ ہو کہ نہ معلوم روزہ کیسا ہوگا؟ اور کیا حال ہوگا؟ اس لیے آپ نے پندرہ شعبان کا روزہ مقرر فرمادیا کہ اس دن کا روزہ رکھ کر دیکھ لو؛ چونکہ یہ ایک ہی روزہ ہے اس لیے اس کی ہمت آسانی سے ہوجاتی ہے، جب وہ پورا ہوگیا تو معلوم ہوجاتا ہے کہ بس رمضان کے روزے بھی ایسے ہی ہوں گے اور اس تاریخ میں رات کی عبادت بھی تراویح کا نمونہ ہے، اس سے تراویح کے لئے حوصلہ بڑھتا ہے کہ جب زیادہ رات تک جاگنا کچھ بھی معلوم نہ ہوا تو تراویح کے لئے ایک گھنٹہ زیادہ جاگنا کیا معلوم ہوگا! بس یہ تو اعانت بالمثل علی المثل ہوئی۔
(وعظ ”الیسر مع العسر“ بعنوان نظامِ شریعت:۶/۵۲۴، مکتبہ اشرف المعارف ملتان)“۔
(شعب الإیمان للبیہقي، رقم الحدیث ”۳۵۴۶“:۵/۳۵۷، مکتبة الرشد)
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) نزول ِاجلال فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض ہو“۔
(شعب الإیمان للبیہقي، رقم الحدیث ”۳۵۵۴“:۵/۳۶۱، مکتبة الرشد)․
میں نے عرض کیا کہ: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں،
فرمایا: یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے، اللہ عزوجل اس رات اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں، اور بخشش چاہنے والوں کی مغفرت فرماتے ہیں، رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں، اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کو ان کی حالت پر ہی چھوڑ دیتے ہیں“۔
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات رحمت کی نظر فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کے“۔
خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ کا حکم
خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ کا حکم
سوال: حضرت مفتی صاحب !کیا خودکشی کرنے والے پر جنازہ ادا کرنا جائز ہے اور ایصال ثواب و دعا مغفرت کرنا صحیح ہے؟
الجواب باسم ملھم الصواب
خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جائے، اور اسی پر فتوی ہے – نیز اس کے لیے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کرنا بھی جائز ہے- تاہم مقتدر شخصیات اور اہل علم اس کے جنازے میں شرکت نہ کریں.
من قتل نفسہ ولو عمدا یغسل ویصلی علیہ بہ یفتی
الدر المختار: (3-108)
واللہ اعلم بالصواب.
اہلیہ محمود الحسن
دارالافتاء صفہ آن لائن کورسز.
5 جمادی الاولی 1438 ھ. 3-2-2017ء
http://www.suffahpk.com/khud-kushi-karny-waly-ki-namaz-janaza-ka-hukum/
.....
http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/22043