Friday 20 July 2018

سوال: قرآن وحدث کی روشنی میں بتائیے کہ دار القضاء کی کیا اہمیت ہے؟

سوال: قرآن وحدث کی روشنی میں بتائیے کہ دار القضاء کی کیا اہمیت ہے؟
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوۡكَ فِيۡمَا شَجَرَ بَيۡنَهُمۡ ثُمَّ لَا يَجِدُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا
سو قسم ہے تیرے رب کی وہ مومن نہ ہوں گے یہاں تک کہ تجھ کو ہی منصف جانیں اس جھگڑے میں جو ان میں اٹھے پھر نہ پاویں اپنے جی میں تنگی تیرے فیصلہ سے اور قبول کریں خوشی سے۔
خلاصہ تفسیر
پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ (جو صرف زبانی ایمان ظاہر کرتے پھرتے ہیں عند اللہ) ایمان دار نہ ہوں گے جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جھگڑا واقع ہو، اس میں یہ لوگ آپ سے (اور آپ نہ ہوں تو آپ کی شریعت سے) فیصلہ کرا دیں پھر (جب آپ تصفیہ کردیں تو) اس آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں (انکار کی) تنگی نہ پاویں اور (اس فیصلہ کو) پورا پورا (ظاہری سے باطن سے) تسلیم کرلیں۔
معارف و مسائل
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرنا کفر ہے۔
اس آیت میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت اور علو مرتبت کے اظہار کے ساتھ آپ کی اطاعت جو بیشمار آیات قرآنیہ سے ثابت ہے اس کی واضح تشریح بیان فرمائی ہے اس آیت میں قسم کھا کر حق تعالیٰ شانہ نے فرمایا کہ کوئی آدمی اس وقت تک مومن یا مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ٹھنڈے دل سے پوری طرح تسلیم نہ کرے کہ اس کے دل میں بھی اس فیصلہ سے کوئی تنگی نہ پائی جائے۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت رسول خود امت کے حاکم اور ہر پیش آنے والے جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے ذمہ دار ہیں، آپ کی حکومت اور آپ کا فیصلہ کسی کے حکم بنانے پر موقوف نہیں پھر اس آیت میں مسلمانوں کو حکم بنانے کی تلقین اس لئے فرمائی گئی ہے کہ حکومت کے مقرر کردہ حاکم اور اس کے فیصلہ پر تو بہت سے لوگوں کو اطمینان نہیں ہوا کرتا، جیسا اپنے مقررہ کردہ ثالث یا حکم پر ہوتا ہے، مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف حاکم نہیں بلکہ رسول معصوم بھی ہیں رحمتہ للعالمین بھی ہیں، امت کے شفیق و مہربان باپ بھی ہیں، اس لئے تعلیم یہ دی گئی کہ جب بھی کسی معاملہ میں یا کسی مسئلہ میں باہم اختلاف کی نوبت آئے تو فریقین کا فرض ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم بنا کر اس کا فیصلہ کرائیں اور پھر آپ کے فیصلہ کو دل و جان سے تسلیم کرکے عمل کریں۔
اختلافات میں آپ کو حکم بنانا آپ کے عہد مبارک کے ساتھ مخصوص نہیں۔
حضرات مفسرین نے فرمایا کہ ارشاد قرآنی پر عمل آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک کے ساتھ مخصوص نہیں، آپ کے بعد آپ کی شریعت مطہرہ کا فیصلہ خود آپ ہی کا فیصلہ ہے، اس لئے یہ حکم قیامت تک اس طرح جاری ہے کہ آپ کے زمانہ مبارک میں خود بلاواسطہ آپ سے رجوع کیا جائے اور آپ کے بعد آپ کی شریعت کی طرف رجوع کیا جائے جو درحقیقت آپ ہی کی طرف رجوع ہے۔
چند اہم مسائل۔
اول یہ کہ وہ شخص مسلمان نہیں جو اپنے ہر جھگڑے اور ہر مقدمہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر مطمئن نہ ہوا، یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم نے اس شخص کو قتل کر ڈالا جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا اور پھر اس معاملہ کو حضرت عمر پر دعویٰ کردیا کہ انہوں نے ایک مسلمان کو بلاوجہ قتل کردیا جب یہ استغاثہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ہوا تو بےساختہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلا، ماکنت الظن ان عمر یجتوء علی قتل رجل مومن“ (یعنی مجھے یہ گمان نہ تھا کہ عمر کسی مرد مومن کے قتل کی جرأت کریں گے) اس سے ثابت ہوا کہ حاکم اعلی کے پاس اگر کسی ماتحت حاکم کے فیصلہ کی اپیل کی جائے تو اس کو اپنے حاکم ماتحت کی جانب داری کے بجائے انصاف کا فیصلہ کرنا چاہئے، جیسا اس واقعہ میں آیت نازل ہونے سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کے فیصلہ پر اظہار ناراضی فرمایا پھر جب یہاں یہ آیت نازل ہوئی تو حقیقت کھل گئ کہ اس آیت کی رو سے وہ شخص مومن ہی نہیں تھا۔
دوسرا مسئلہ اس آیت سے یہ نکلا کہ لفظ فیما شجر صرف معاملات اور حقوق کے ساتھ متعلق نہیں، عقائد اور نظریات اور دوسرے نظری مسائل کو بھی حاوی ہے۔ (بحر محیط) اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب بھی کسی مسئلہ میں باہم اختلاف کی نوبت آئے تو باہم جھگڑتے رہنے کے بجائے دونوں فریق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اور آپ کے بعد آپ کی شریعت کی طرف رجوع کرکے مسئلہ کا حل تلاش کریں۔
تیسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ جو کام آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قولاً یا عملاً ثابت ہو، اس کے کرنے سے دل میں تنگی محسس کرنا بھی ضعف ایمان کی علامت ہے، مثلاً جہاں شریعت نے تمیم کر کے نماز پڑھنے کی اجازت دی وہاں تمیم کرنے پر جس شخص کا دل راضی نہ ہو وہ اس کو تقوی نہ سمجھے بلکہ اپنے دل کا روگ سمجھے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ کوئی متقی نہیں ہوسکتا جس صورت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت دی اور خود بیٹھ کر ادا فرمائی، اگر کسی شخص کا دل اس پر راضی نہ ہو اور ناقابل براشت محنت و مشقت اٹھا کر کھڑے ہی ہو کر نماز ادا کرے، تو وہ سمجھ لے کہ اس کے دل میں روگ ہے ہاں معمولی ضرورت یا تکلیف کے وقت اگر رخصت کو چھوڑ کر عزیمت پر عمل کرے تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی تعلیم کے مطابق درست ہے، مگر مطلقاً شرعی رخصتوں سے تنگدلی محسوس کرنا کوئی تقوی نہیں، اس لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
”یعنی اللہ تعالیٰ جس طرح عزیمتوں پر عمل کرنے سے خوش ہوتے ہیں اسی طرح رخصتوں پر عمل کرنے کو بھی پسند فرماتے ہیں۔“
عام عبادات و اذکار و اوراد، درود و تسبیح میں سب سے بہتر طریقہ وہی ہے جو خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا معمول رہا اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام کا جس پر عمل رہا، مسلمانوں کا فرض ہے کہ حدیث کی مستند روایات سے اس کو معلوم کر کے اسی کو اپنا لائحہ عمل بنائیں۔
ایک اہم فائدہ۔ گزشتہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کے صرف مصلح اور اخلاقی رہبر ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک عادل حاکم بھی تھے، پھر حاکم بھی اس شان کے کہ آپ کے فیصلہ کو ایمان و کفر کا معیار قرار دیا گیا، جیسا کہ بشر منافق کے واقعہ سے ظاہر ہے، اس چیز کی وضاحت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں متعدد مقامات پر اپنی اطاعت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو بھی لازمی قرار دیا ہے، ارشاد ہوتا ہے؛ اطیعواللہ واطیعوا الرسول، ”یعنی تم اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو۔“
ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا، من یطح الرسول فقد اطاع اللہ، یعنی ”جو رسول“ کی اطاعت کرے اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت کی۔“
ان آیات میں غور کرنے سے آپ کی شان حاکمیت بھی نکھر کر سامنے آجاتی ہے جس کی عملی صورت ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس اپنا قانون بھیجا، تاکہ آپ مقدمات کے فیصلے اسی کے مطابق کرسکیں، چناچہ ارشاد ہوتا ہےانا انزلنا الیک الکتب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ، یعنی ”ہم نے آپ پر کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان میں اس طرح فیصلہ کریں جس طرح اللہ آپ کو دکھلائے اور سمجھائے۔“
تفسیر معارف القرآن - سورۃ 4 - النساء - آیت 65
آسان تفسیر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
پس، آپ کے پروردگار کی قسم! وہ تو مومن ہوہی نہیں سکتے، جب تک اپنے آپسی جھگڑوں میں آپ کو حَکَم نہ بنائیں ، نیز آپ کے فیصلہ سے اپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور پوری طرح سرتسلیم خم کردیں (۱)
(۱) گویا شریعت کے حکم کو جبراً قہراً مان لینا کافی نہیں ؛ بلکہ دل بھی اس کے قبول کرنے پر آمادہ و تیار ہو، یہ مومن ہونے کے لئے ضروری ہے ، اب رہا کسی حکم شریعت کا اپنے خلاف ہونے کی وجہ سے نفس پر اس کا شاق گذرنا تو چوں کہ اس میں ارادۂ و اختیار کو دخل نہیں؛ بلکہ یہ ایک اضطراری شیٔ ہے ؛ اس لئے انشاء اﷲ اس پر پکڑ نہیں --- اس ارشاد ربانی سے معلوم ہوا کہ جس بات کا حدیث نبوی سے ثابت ہونا یقینی طورپر معلوم ہو، اس کا انکار بھی موجب ِکفر ہے اور انسان کو دائرہ ایمان سے باہر نکال دیتا ہے، اس لئے کہ رسول کے حکم کو بھی ماننا ضروری ہے، جیساکہ قادیانی حضرات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ختم نبوت اور حضرت مسیح علیہ السلام کی قیامت کے قریب دوبارہ آسمان سے زمین پر تشریف آوری سے انکار کرتے ہیں ؛ اس لئے وہ کافر ہیں ، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان خواہ کسی علاقہ میں آباد ہوں، ان پر یہ بات واجب ہے کہ قضاء شرعی کا نظام قائم کریں، کہ اس کے بغیر اپنے نزاعی معاملات میں اللہ اور رسول کے فیصلہ کی طرف رجوع کرنا ممکن نہیں، مختلف فقہاء نے خاص کر فقہاء احناف نے اس کی صراحت کی ہے۔
(فتح القدیر: ۶؍۳۶۵ ، بزازیہ علی ہامش الہندیہ: ۶؍۳۱۱)

No comments:

Post a Comment