Sunday 15 July 2018

موت کے وقت کلمہ زبان پر جاری نہ ہونا روایت کی تحقیق؟


موت کے وقت کلمہ زبان پر جاری نہ ہونا روایت کی تحقیق؟

ایک واقعہ ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک صحابی علقمہ نامی کی موت کے وقت ان کی زبان پر کلمہ جاری نہیں ہورہا تھا،  تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ماں کو بلوایا، تو معلوم ہوا کہ ماں کا نافرمان ہے، اور ماں معاف کرنے پر راضی نہیں تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جلانے کا کہا، یہ معاملہ دیکھ کر ماں نے معاف کردیا، تو ان کی زبان پر کلمہ جاری ہوا، اور سوء خاتمہ سے نجات ہوئی۔
کیا واقعہ درست ہے؟
الجواب: نہیں یہ واقعہ من گھڑت ہے۔
حضرت امام احمد رحمہ اللہ نے جب اپنی کتاب "مسند احمد" مرتب فرمائی تو شروع میں اس واقعہ کو بھی کتاب میں شامل کیا تھا، پھر بعد میں انہوں نے کتاب کی مراجعت وتنقیح کی تو بہت ساری ناقابل اعتبار روایات کو حذف کردیا، ان میں یہ واقعہ بھی ہے، جیساکہ موجودہ "مسند احمد" (32/155‏) میں اس کی وضاحت ہے، حذف کی وجہ یہ ہے کہ اس واقعہ کے راوی فائد بن عبد الرحمن ہیں ، جو حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ، مگر فائد نقاد حدیث کے نزدیک بہت سخت مجروح ہیں ، اور ان کی حضرت عبد اللہ بن اوفی سے نقل کردہ روایات کو بالخصوص باطل اور من گھڑت قرار دیا گیا ہے ، اور یہ روایت بھی اسی سند سے منقول ہے۔
یہ واقعہ دیگر حدیث کی کتابوں میں بھی فائد بن عبد الرحمن کے واسطے سے منقول ہے، جیسے:
"ﺍﻟﻀﻌﻔﺎﺀ ﺍﻟﻜﺒﻴﺮ" للعقيلي ‏(3/461)
"ﺍﻟﻤﻮﺿﻮﻋﺎﺕ" ‏لابن الجوزي (3/87)
"ﻣﺴﺎﻭﺉ ﺍﻷﺧﻼﻕ" ‏للخرائطي (ﺭﻗﻢ 251/)
"ﺷﻌﺐ ﺍﻹﻳﻤﺎﻥ" (6/205‏) و "ﺩﻻﺋﻞ ﺍﻟﻨﺒﻮﺓ" ‏للبيهقي (6/197 ‏"ﺍﻟﺘﺪﻭﻳﻦ ﻓﻲ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﻗﺰﻭﻳﻦ" ‏للقزويني ( 2/369)

دھیان رہے کہ تعدد مصادر سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، اس لئے کہ ان سب کتابوں میں مذکورہ واقعہ کی سند ﻓﺎﺋﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰ ہے.
فائد پر جرح کرنے والوں میں امام ابن معین، امام احمد، امام بخاری، ابو حاتم رازی، ابن حبان، حاکم نیسابوری وغیرہم ہیں،
اور اس پر وضع حدیث کی تہمت ابو حاتم، ابن حبان، اور حاکم نے لگائی ہے۔
اس لئے یہ واقعہ من گھڑت ٹھیرے گا، اور اس کا بیان کرنا بھی درست نہیں ہے، اس سے احتراز کرنا چاہئے۔
مقتبس ومترجم مما افادہ المفتی عبد الباقی اخونزادہ فی (التنبیہات رقم 3)
لخصہ العاجز: محمد ابو معاذ المکی 
(شیخ محمد طلحہ بلال احمد منیار حفظہ اللہ)
=======================
▪احادیث مشہورہ تحقیق و تخریج بلاگ لنک:-
الترغیب والترهيب
الأجوبة المستحسنة في تحقيق الأحاديث المشتهرة على الألسنه
[اهل السنت والجماعت ديوبندي]
ٹیلیگرام چینل لنک

حدیث کے مختصر مضامین /69
موت کے وقت کلمہ زبان پر جاری نہ ہونا
------------------------------------------------------------------------------------
سوال # 152959
کیا جو مسلمان اس دنیا سے جاتے وقت کلمہ نہیں پڑھ سکتے تو کیا وہ مسلمان نہیں مرتے اور کیا واقعی بہت سے مسلمان مرتے وقت شیاطین کی باتوں میں آکر کافر ہوجاتے ہیں؟ یا جو مسلمان پیدا ہو وہ اگر اپنی زندگی میں کوئی کفریہ جملہ نہ بولے تو چاہے کتنا ہی گناہ گار ہو وہ مسلمان ہی مرے گا- 
بسم الله الرحمن الرحيم
ایمان پر خاتمہ کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ مرتے وقت کلمہ پڑھا گیا ہو، باقی انتقال کے وقت کے احوال سے صرف اللہ تعالی ہی واقف ہوتا ہے، ہم کو اس سلسلے میں غور و فکر نہیں کرنا چاہیے، کسی کی موت کے وقت شریعت کی جو تعلیمات ہیں، اُس کا پابند رہنا چاہیے، فقہائے کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ موت کے وقت اگر کسی کی زبان پر کفریہ کلمہ بھی جاری ہوجائے، تو اُس کا خیال نہیں کرنا چاہیے اور نہ اس کا چرچہ کرنا چاہیے؛ بلکہ یہ سمجھنا چاہیے کہ موت کی سختی کی وجہ سے ایسا ہوا اور عقل جاتے رہنے کے وقت جو کچھ ہوتا ہے، سب معاف ہوتا ہے (بہشتی زیور)
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
----------------------------------------------------------------------------------------
س… اگر کوئی مسلمان مرتے وقت کلمہ طیبہ نہ پڑھ سکے اور بغیر پڑھے انتقال کرجائے تو کیا وہ مسلمان مرا یا اس کی حیثیت کچھ اور ہوگی؟
ج… اگر وہ زندگی بھر مسلمان رہا ہے تو اسے مسلمان ہی سمجھا جائے گا اور مسلمانوں کا برتاوٴ اس کے ساتھ کیا جائے گا۔
---------------------------------------------------
---------------------------------------------------------
السؤال: هناك حديث عن رجل صالح يسمى علقمة والذي كان على فراش الموت ولم ينطق الكلمة، ثم أرسل النبي لأمه التي قالت إنها كانت غاضبة منه؛ لأنه كان يفضل زوجته عليها ، ثم جمع النبي صلى الله عليه وسلم بعد ذلك الحطب وأخبر أمه بأنه سوف يحرق ابنها أمام عينها، فقالت: يا رسول الله! إنه ابني، ولا يطيق قلبي رؤيتك تحرقه أمامي! فقال النبي: يا أم علقمة: عقاب الله أشد وأبقى، فإذا أردت أن يسامحه الله فسامحيه، والذي نفسي بيده لا تنفعه صلاته وصيامه وزكاته ما دمت غاضبة عليه ، فسامحت المرأة ابنها، وبعد بعض الوقت مات بعد أن نطق الشهادتين. ويقول الحديث إن النبي صلى الله عليه وسلم بعد ذلك نادي في المهاجرين والأنصار وقال: (إذا قدم أحدكم زوجته على أمه لعنه الله والملائكة والناس أجمعين، فل يقبل الله صدقته أو صالح عمله إلا أن يتوب لله تعالى، وأن يطلب عفو أمه ورضاها، وإن الله يظل غاضبا لغضبها) وقد قيل إن الحديث في "مسند أحمد" ولكنني لا أستطيع أن أجده. فإن كان صحيحا فأرجوا أن تحددوا لي مكانه.
الجواب :الحمد لله
هذه الحكاية كان الإمام أحمد رحمه الله قد أثبتها في مسنده في بداية جمعه لأحاديث الكتاب، وقد كان الجمع الأول يشتمل على كثير من الأحاديث الضعيفة والمتروكة، ثم بدأ الإمام رحمه الله بتنقية كتابه من هذه الأحاديث، فحذف هذه القصة فيما حذفه.
جاء في "مسند الإمام أحمد" (32/155) من طبعة مؤسسة الرسالة ما يلي:
"قال أبو عبد الرحمن: وكان في كتاب أبي: حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا فائد بن عبد الرحمن قال : سمعت عبد الله بن أبي أوفى يقول:
(جاء رجل إلى النبي صلي الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! إن هاهنا غلاماً قد احتضر؛ يقال له: قل لا إله إلا الله، فلا يستطيع أن يقولها. قال: أليس قد كان يقولها في حياته ؟ قال: بلى، قال: فما منعه منها عند موته؟ فذكر الحديث بطوله)
لم يحدث أبي بهذين الحديثين - حديثين من طريق فائد عن ابن أبي أوفى - ضرب عليهما من كتابه؛ لأنه لم يرض حديث فائد بن عبد الرحمن، وكان عنده متروك الحديث" انتهى النقل من "المسند"
وأما بقية الحديث، كما جاءت في المصادر الأخرى التي ذكرته، فهي كالتالي:
قال: (فنهض رسول الله صلي الله عليه وسلم ونهضنا معه حتى أتى الغلام فقال: يا غلام! قل لا إله إلا الله . قال: لا أستطيع أن أقولها ، قال: ولم؟ قال: لعقوق والدتي، قال: أحية هي؟ قال: نعم، قال: أرسلوا إليها، فأرسلوا إليها؛ فجاءت، فقال لها صلي الله عليه وسلم: ابنك هو؟ قالت: نعم. قال: أرأيت لو أن ناراً أججت؛ فقيل لك: إن لم تشفعي له قذفناه في هذه النار. قالت: إذن كنت أشفع له، قال: فأشهدي الله، وأشهدينا معك بأنك قد رضيت . قالت: قد رضيت عن ابني، قال: يا غلام! قل لا إله إلا الله . فقال: لا إله إلا الله. فقال صلي الله عليه وسلم: الحمد لله الذي أنقذه من النار)
أخرجه العقيلي في "الضعفاء الكبير" (3/461)، ومن طريقه ابن الجوزي في "الموضوعات" (3/87) ، وعزاه غير واحد للطبراني ، ورواه الخرائطي في "مساوئ الأخلاق" (رقم/251)، والبيهقي في "شعب الإيمان" (6/197) وفي "دلائل النبوة" (6/205)، والقزويني في "التدوين في تاريخ قزوين" (2/369)
جميعهم من طريق فائد بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن أبي أوفى.
وهذا إسناد ضعيف جدا بسبب فائد بن عبد الرحمن، قال فيه الإمام أحمد: متروك الحديث. وقال ابن معين: ليس بشيء. وقال ابن أبي حاتم: سمعت أبى يقول: فائد ذاهب الحديث، لا يكتب حديثه، وأحاديثه عن ابن أبى أوفى بواطيل لا تكاد ترى لها أصلا، كأنه لا يشبه حديث ابن أبى أوفى، ولو أن رجلا حلف أن عامة حديثه كذب لم يحنث. وقال البخاري: منكر الحديث. انظر: "تهذيب التهذيب" (8/256)
وقال ابن حبان:
"كان ممن يروى المناكير عن المشاهير ، ويأتي عن ابن أبي أوفى بالمعضلات، لا يجوز الاحتجاج به" انتهى.
"المجروحين" (2/203)
وقال أبو عبد الله الحاكم رحمه الله:
"يروي عن ابن أبي أوفى أحاديث موضوعة" انتهى.
"المدخل إلى الصحيح" (155) 
http://saagartimes.blogspot.com/2018/07/blog-post_87.html


No comments:

Post a Comment