Wednesday 18 July 2018

اللہ کے نیک بندوں کے اجسام محفوظ کیوں ہیں؟

اللہ کے نیک بندوں کے اجسام  محفوظ کیوں ہیں؟
ایس اے ساگر 
یہ ایک ایسا موضوع ہے جِس نے سائنسدانوں کو بہت عرصے سے حیران کیے رکھا ہے۔ روسیوں اور امریکیوں نے افغانستان میں دورانِ جنگ دیکھا کہ مسلم شہداء میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جِن کے اجسام ہفتوں کیا مہینوں اور سالوں بھی خراب نہیں ہوتے جبکہ اُن کے اپنے مرنے والے فوجیوں کی لاشیں بڑی جلد بُو چھوڑ جاتی تھیں۔ یہ اُن کی سائنسی حِس کے لیے نہایت حیرت انگیز بات تھی اور اب وہ ماریات کی دُنیا میں رہتے ہوئے اُن واقعات پر تحقیقات کررہے ہیں۔
میڈیکل مشاہدہ کے مطابق عام طور پر موت کے بعد میّت کا جِسم چند دِنوں میں خراب ہو جاتا ہے۔ گرمی ہو تو ایک دِن کے اندر اندر بُو چھوڑ دیتا ہے، سردیوں میں چند دِنوں کے بعد یہی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ قبر میں دفنانے کے بعد گلنے سڑنے کا عمل اور بھی تیز ہو جاتا ہے۔ چند دِنوں میں پیٹ پُھول کر پَھٹ جاتا ہے، دماغ کا مواد ناک اور کانوں کے راستے بہنا شروع ہو جاتا ہے، آنکھیں اُبل جاتی ہیں اور ہفتہ بَھر میں سارے جِسم میں کیڑے پڑجاتے ہیں اور دو مہینوں تک جِسم کا گوشت یا تو کیڑوں کے پیٹ میں چلا جاتا ہے یا مٹی کے مرکبات کے ساتھ مِل کر مٹی ہوجاتا ہے، بقیہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈروجن سلفائیڈ اور پانی کے بخارات بن کر مٹی اور ہوا میں گم ہوجاتا ہے۔ تین ماہ کے بعد اِنسانی جِسم میں سے صِرف ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہتا ہے۔ کچھ سالوں میں مٹی کے مرکبات اُسے بھی کھا جاتے ہیں۔ یوں آدمی کی مٹی زمین کی مٹی سے مِل کر غائب ہو جاتی ہے۔ غرض وہ جِسم جِس پر اِنسان اِس قدر نازاں ہے جِس کی خوبصورتی اور بناوٹ پر فخر کرتا ہے اور جِس کی بالیدگی کے لیے ساری زندگی خرچ کر دیتا ہے مرنے کے چند دِن بعد وہ اِس حالت میں ہوتا ہے کہ اگر کہیں خود وہ اپنے اِس حال کو دیکھ لے تو بُو کے مارے قریب نہ جائے اور کراہت سے بچنے کے لیے اُسے دیکھنا بھی گوارا نہ کرے۔
ان حالات کے برخلاف شہداء کے اجسام کے بارے مشاہدات بالکل مختلف ہیں۔ صدیوں بعد بھی وہ محفوظ دیکھے گئے ہیں۔ سائنس کے لیے یہ بات چیلنج ہے کہ ان کے اجسام میں وہ کون سی چیز ہے اور وہ کون سی طاقت ہے جو اُنہیں صدیوں خراب نہیں ہونے دیتی۔ مغربی سائنس اِس بات سے تو واقف ہے کہ کیمیکل دوائیوں کے ذریعہ سے جِسم کو کچھ سالوں تک محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ مِصر میں مِلنے والی ممیات کے ہنوط شدہ اجسام سے سائنس اس بات کی قائل بھی ہے کہ دوائیاں لگا کر خشک حالت میں ہزاروں سالوں تک جِسم محفوظ کیے جا سکتے ہیں لیکن شہداء کا معاملہ تو بالکل ہی جُدا ہے مثلًا جہاد افغانستان کے پہلے دور میں روسی حیران تھے کہ مجاہدین کے جِسم موت کے بعد خراب کیوں نہیں ہوتے اور دوسرے دور میں امریکی اسی طرح پریشان تھے۔ وہ بیچارے یہ نہیں جانتے کہ اسِلام کی تو پوری تاریخ گواہ ہے کہ ایسے مشاہدات لاتعداد ہیں کہ مہینے سال تو کیا سینکڑوں بلکہ ہزاروں سالوں کے بعد بھی سعید روحوں کے جِسم ترو تازہ پائے گئے ہیں غالبًا 1950ء کی بات ہے کہ اُس وقت عراق کا حکمران شاہ فیصل اوّل تھا اور وزیراعظم نوری السّعید تھا، اُنہیں خواب میں دِکھایا گیا کہ رسول اللہ 
صلی اللہ علیہ وسلم کے دو اصحاب رضی اللہ عنہم جِن کی اُس وقت قبریں دریا کے کِنارے واقع تھیں ان میں طغیانی سے پانی چلا گیا ہے۔ جِس سے صحابہ کرامؓ کو ناگواری ہوئی ہے۔ جب تین دفعہ متواتر یہی خواب آیا تو علماء کے مشورہ سے قبریں کھود کر جگہ بدلنے کا پروگرام بنایا گیا۔ طے یہ پایا کہ یہ کام حج کے سیزن کے ساتھ ہی ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جنازہ میں شامل ہو سکیں۔ پروگرام کے مطابق جب قبریں کھولی گئیں تو لوگوں نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جِسم تَروتازہ تھے جیسے سورہے ہوں۔ ریڈیو اور اخبارات میں بھی یہ سب کچھ شائع ہوا تھا۔
اللہ کے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو شہید ہوئے ان کی شہادت کے واقعات اور مشاہدات احادیث کی مختلف کِتابوں میں تفصیلًا دیئے گئے ہیں۔ انہیں میں سے غزوۂ اُحد کے چند واقعات بطور مثال دیئے جاتے ہیں۔
بہقی، ابن سعد اور ابو نعیم نے مختلف اسناد سے روایت کی ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد غزوۂ اُخد میں شہید ہوئے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں مدینہ منّورہ کو پانی پہنچانے کے لیے ایک نہر نِکالی گئی جو میدانِ اُحد میں سے گزرتی تھی جِس کی وجہ سے بعض شہداء کی قبروں کو کھولنا پڑا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد اس حالت میں پائے گئے کہ ان کا ہاتھ زخم پر رکھا ہوا تھا جب ہاتھ ہٹایا گیا تو زخم میں سے خون پھوٹ پڑا۔ پھر ہاتھ وہیں رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو قبر میں دیکھا تو ایسے تھے گویا سورہے ہوں اور وہ چادر جِس میں انہیں کفن دیا گیا تھا وہ بھی ویسی کی ویسی تھی اور وہ کھاس جو اُن کے پیروں میں تھی بحال تھی حالانکہ اُنہیں دفن ہوئے چھیالیس سال بیت گئے تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک اور صحابی رضی اللہ عنہ غالبًا وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ تھے ان کے ایک پیر پر پھاوڑا لگ گیا تو اس سے خون نِکل پڑا۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے شہیدوں کی حیات کو کوئی کیسے انکار کر سکتا ہے؟ (بحوالہ جمال الاولیاء)
ایسے ہی بہت سارے واقعات سُننے میں آتے ہیں جو جنگِ آزادی میں انگریزوں سے لڑنے والے مسلم شہداء اور کشمیر، افغانستان وغیرہ کی نِسبت مشہور ہیں۔
اور ان بیشمار ایسے مشاہدات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نہ صِرف نفوس بلکہ اللہ کے خاص بندے مرتے نہیں بلکہ گہری نیند میں چلے جاتے ہیں جہاں اُن کو سانس لینے کی ضرورت نہیں لیکن ان کے جسمانی خلیات اپنی تازگی برقرار رکھتے ہیں اور قیامت تک ویسے ہی رہیں گے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کا جواب اللہ تعالٰی ہی جانتا ہے۔ البتّہ ہم نے دیکھا ہے کہ سائنسی عملوں سے جو لاشیں محفوظ کی جاتی ہیں وہ بھی کچھ عرصہ کے بعد گل سڑ جاتی ہیں۔ انہیں میں سے ایک چین کے جیئرمین ماؤ کی مثال ہے۔ اِس تحریر کے مصنف سلطان بشیر(اٹامک انجینئر) صاحب نے 1992ء میں اُن کا جِسم کیمیکل مرکبات سے محفوظ دیکھا لیکن اگلے سال وہ وہاں نہیں تھا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ گلنے سڑنے لگا تھا اِس لیے دوبارہ سائنسی عملوں کے لیے لیبارٹری بھیج دیا گیا ہے۔
اللہ تعالٰی اپنے نیک بندوں کے اجسام کو کیوں اور کیسے محفوظ رکھتا ہے؟ یہ اسی کے راز ہیں کچھ کہنا صِرف قیاسیات ہیں۔ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ چونکہ ایسے عظیم لوگوں کے نفوس آزاد ہوتے ہیں اِس لیے کہ اپنے اجسام کو گلتا سڑتا دیکھ کر ان کی دِل شِکنی نہ ہو۔ اللہ تعالٰی ان کو محفوظ کردیتا ہے۔ 
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان روحوں کا اپنے پُرانے جِسم کے ساتھ رابطہ قائم رہتا ہے یعنی ان کا عکس ان اجسام پر پڑتا ہی رہتا ہے جِس کی وجہ سے وہ ایک خاص طرح کی زندگی سے لُطف اندوز رہتے ہیں اور گلنے سڑنے سے محفوظ رہتے ہیں اگرچہ ان کی یہ زندگی دُنیاوی حیات سے بالکل مختلف ہے لیکن شعور سے خالی نہیں ہے۔ 
حیات شہداء کی حقیقت
مٹی کی طبعی تاثیر سے ان کے جسم کی سلامتی؟
۔۔۔۔۔ (1789)
انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے حق میں موت عام ظاہری زندگی ہی کی  طرح ہوتی ہے۔ انہیں بعد موت ظاہری حقیقی زندگی عطا ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے خاص حکم سے تمام انبیاء ورسل علیہم الصلوۃ والسلام کے اجسام ان کی وفات کے بعد قبروں میں جوں کے توں محفوظ رہتے ہیں، زمین ان پر اپنا عام طبعی عمل نہیں کرسکتی، ان کے اجسام متغیر نہیں ہوتے۔ اللہ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے جسموں کو کھائے یا ان میں کچھ فساد وبگاڑ پیدا کرے۔ جس طرح دنیا میں خاص تدبیروں اور دواؤں سے موت کے بعد بھی اجسام کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص قدرت اور خاص حکم سے پیغمبروں کی وفات کے بعد ان کے جسموں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قبروں میں محفوظ کردیا ہے اور وہاں ان کو ایک خاص قسم کی حیات حاصل رہے گی (جو اس عام کے قوانین کے مطابق ہو گی) اس لئے درود کے پہنچنے اور پیش کئے جانے کا سلسلہ ان پر جاری رہتا ہے طرح جاری رہے گا۔
عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ ، وَفِيهِ قُبِضَ ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ » قَالَ : قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ قَالَ يَقُولُونَ بَلِيتَ قَالَ : « إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ » (سنن ابی داؤد /1531، 1047 ۔سنن نسائی 91/3۔ سنن ابن ماجہ :1085،1636۔ ابن خزیمہ 1733،1734۔ابن حبان 910)
ترجمہ: حضرت اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
جمعہ کا دن افضل ترین دنوں میں سے ہے، اسی میں آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی، اسی میں ان کی وفات ہوئی، اسی میں قیامت کا صور پھونکا جائے گا اور اسی میں موت اور فنا کی بیہوشی اور بے حسی ساری مخلوقات پر طاری ہو گی۔ لہذا تم لوگ جمعہ کے دن مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش ہوتا ہے اور پیش ہوتا رہے گا.“
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:
یا رسول اللہ! ( آپ کے وفات فرما جانے کے بعد) ہمارا درود آپ پر کیسے پیش ہوگا؟ آپ کا جسد اطہر تو قبر میں ریزہ ریزہ ہوچکا ہوگا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کے جسموں کو زمین پر حرام کر دیا ہے۔ (یعنی موت کے بعد بھی ان کے اجسام قبروں میں بالکل صحیح سالم رہتے ہیں، زمین ان میں کوئی تغیر پیدا نہیں کرسکتی)۔ (سنن ابی داؤد /1531، 1047 ۔سنن نسائی 91/3۔ سنن ابن ماجہ :1085،1636۔ ابن خزیمہ 1733،1734۔ابن حبان 910 )
مِن أفضلِ أيَّامِكم يومُ الجمعةِ، فيهِ خُلقَ آدمُ وفيهِ قبضَ وفيهِ النَّفخةُ وفيهِ الصَّعقةُ فأكثِروا عليَّ مِن الصَّلاةِ فيهِ فإنَّ صلاتَكم معروضةٌ عليَّ ، قالوا : يا رسولَ اللَّهِ وَكيفَ تُعرضُ علَيكَ صلاتُنا وقد أرِمتَ ؟ يعني وقد بليتَ قال: إنَّ اللَّهَ حرَّمَ علَى الأرضِ أن تأكلَ أجسادَ الأنبياءِ
الراوي:أوس بن أبي أوس وقيل أوس بن أوس والد عمرو المحدث:الدارقطني المصدر:تفسير القرآن الجزء أو الصفحة:6/463 حكم المحدث: [صحيح]
إنَّ مِن أفضلِ أيَّامِكُمُ الجمعةَ، فيهِ خُلِقَ آدمُ، وفيهِ قُبِضَ، وفيهِ نَفخةُ الصُّورِ، وفيهِ الصَّعقةُ، فأَكْثروا عليَّ منَ الصَّلاةِ فيهِ، فإنَّ صَلاتَكُم معروضةٌ عليَّ. قالوا: وَكَيفَ تُعرَضُ صلاتُنا عليكَ وقد أرِمتَ، فقالَ: إنَّ اللَّهَ تعالى حرَّمَ علَى الأرضِ أن تأكُلَ أَجسادَ الأنبياءِ
الراوي:أوس بن أبي أوس المحدث:الحاكم المصدر:المستدرك الجزء أو الصفحة:5/776 حكم المحدث:صحيح على شرط الشيخين
إنَّ من أفضلِ أيامِكم يومَ الجمعةِ فيه خلِقَ آدمُ، وفيه قبِضَ ، وفيه النفخةُ وفيه الصعقةُ ، فأكثروا عليَّ من الصلاةِ فيه فإنَّ صلاتَكم معروضةٌ عليَّ قالوا : وكيف تعرَضُ صلاتُنا عليك وقد أرِمْتَ ؟ يقولونَ بليتَ فقال : إنَّ اللهَ عزَّ وجلَّ حرَّم على الأرضِ أجسادَ الأنبياءِ
الراوي:أوس بن أبي أوس وقيل أوس بن أوس والد عمرو المحدث:ابن العربي المصدر:التذكرة للقرطبي الجزء أو الصفحة:164 حكم المحدث:حديث حسن
من أفضلِ أيامِكم يومُ الجمُعةِ ، فيه خُلِقَ آدمُ وفيه قُبضَ وفيه النَّفخةُ وفيه الصَّعقةُ فأكثِروا عليَّ من الصلاةِ فيه فإنَّ صلاتَكم معروضةٌ عليَّ ، قالوا : يا رسولَ اللهِ وكيف تُعرضُ عليك صلاتُنا وقد أَرَمْتَ ؟ يعني وقد بَلِيتَ قال : إنَ اللهَ حرَّمَ على الأرضِ أن تأكلَ أجسادَ الأنبياءِ
الراوي:أوس بن أبي أوس وقيل أوس بن أوس والد عمرو المحدث:ابن خزيمة المصدر:تفسير القرآن الجزء أو الصفحة:6/463 حكم المحدث: [صحيح]
من أفضَلِ أيامِكم يومُ الجمُعةِ فيه خُلِقَ آدمُ وفيه قُبِضَ وفيه النَّفخةُ وفيه الصَّعقةُ فأكثِروا عليَّ من الصَّلاةِ فيه فإنَّ صلاتَكم مَعروضةٌ عليَّ قالوا يا رسولَ اللَّهِ وكيفَ تُعرَضُ عليك صلاتُنا وقد أرمتَ يعني وقد بليتَ قال إنَ اللَّهَ حرَّمَ على الأرضِ أن تأكُلَ أجسادَ الأنبياءِ
الراوي:أوس بن أبي أوس وقيل أوس بن أوس والد عمرو المحدث:ابن حبان المصدر:تفسير القرآن الجزء أو الصفحة:6/463 حكم المحدث:[صحيح]

عام مسلمان کا جسم مرنے کے بعد مٹی کی طبعی اثرات سے محفوظ نہیں رہتا۔ یعنی سڑگل کر ختم ہوجاتا ہے، کیڑے لگ جاتے ہیں۔ قبر خود روزانہ پکارتی ہے کہ میں تنہائی، اجنبیت ، مٹی اور کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں:
عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال:
(دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَلَّاهُ ، فَرَأَى نَاسًا كَأَنَّهُمْ يَكْتَشِرُونَ – يعني : يضحكون - قَالَ : أَمَا إِنَّكُمْ لَوْ أَكْثَرْتُمْ ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ لَشَغَلَكُمْ عَمَّا أَرَى ، فَأَكْثِرُوا مِنْ ذِكْرِ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ الْمَوْتِ ، فَإِنَّهُ لَمْ يَأْتِ عَلَى الْقَبْرِ يَوْمٌ إِلَّا تَكَلَّمَ فِيهِ فَيَقُولُ : أَنَا بَيْتُ الْغُرْبَةِ ، وَأَنَا بَيْتُ الْوَحْدَةِ ، وَأَنَا بَيْتُ التُّرَابِ ، وَأَنَا بَيْتُ الدُّودِ .
فَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ: مَرْحَبًا وَأَهْلًا ، أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَحَبَّ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ ، فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ . قَالَ : فَيَتَّسِعُ لَهُ مَدَّ بَصَرِهِ ، وَيُفْتَحُ لَهُ بَابٌ إِلَى الْجَنَّةِ .
وَإِذَا دُفِنَ الْعَبْدُ الْفَاجِرُ أَوْ الْكَافِرُ قَالَ لَهُ الْقَبْرُ: لَا مَرْحَبًا وَلَا أَهْلًا ، أَمَا إِنْ كُنْتَ لَأَبْغَضَ مَنْ يَمْشِي عَلَى ظَهْرِي إِلَيَّ، فَإِذْ وُلِّيتُكَ الْيَوْمَ وَصِرْتَ إِلَيَّ فَسَتَرَى صَنِيعِيَ بِكَ . قَالَ : فَيَلْتَئِمُ عَلَيْهِ حَتَّى يَلْتَقِيَ عَلَيْهِ وَتَخْتَلِفَ أَضْلَاعُهُ . قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصَابِعِهِ فَأَدْخَلَ بَعْضَهَا فِي جَوْفِ بَعْضٍ . قَالَ : وَيُقَيِّضُ اللَّهُ لَهُ سَبْعِينَ تِنِّينًا ، لَوْ أَنْ وَاحِدًا مِنْهَا نَفَخَ فِي الْأَرْضِ مَا أَنْبَتَتْ شَيْئًا مَا بَقِيَتْ الدُّنْيَا ، فَيَنْهَشْنَهُ وَيَخْدِشْنَهُ حَتَّى يُفْضَى بِهِ إِلَى الْحِسَابِ .
قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ، أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ)
رواه الترمذي في سننه (2460) والبيهقى فى شعب الإيمان (1/498) من طريق القاسم بن الحكم العرني عن عبيد الله بن الوليد الوصافي عن عطية عن أبي سعيد الخدري به.
وقال الترمذي: حديث غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.
وهذا سند ضعيف جدا ، فيه عبيد الله بن الوليد الوصافي، جاء في ترجمته في "تهذيب التهذيب" (7/55): عن أحمد بن حنبل: ليس بمحكم الحديث ، يكتب حديثه للمعرفة .
و قال يحيى بن معين وأبو زرعة وأبو حاتم : ضعيف الحديث . وقال النسائى : متروك الحديث . وقال ابن عدي : ضعيف جدا ، يتبين ضعفه على حديثه . وقال ابن حبان : يروي عن الثقات ما لا يشبه الأثبات ، حتى يسبق إلى القلب أنه المُتَعَمِّد لها ، فاستحق الترك .
وقال الحاكم: روى عن محارب أحاديث موضوعة. وقال أبو نعيم الأصبهانى : يحدث عن محارب بالمناكير ، لا شيء " انتهى .
لذلك قال الحافظ العراقي عن هذا الحديث ـ "تخريج الإحياء" (1/400) ـ : " فيه عبيد الله بن الوليد الصافي ضعيف " ، وضعفه السخاوي في "المقاصد الحسنة" (359) والشوكاني في "الفوائد المجموعة" (269)
وقال الشيخ الألباني في "السلسلة الضعيفة" (10/749) : " عطية ضعيف مدلس والوصافي ضعيف جدا " انتهى .
وقال في "ضعيف الترمذي" : "ضعيف جدا، ولكن جملة (هاذم اللذات) صحيحة " انتهى)
لیکن عام مسلمانوں کی برزخی زندگی کے برعکس شہید حقیقی کی زندگی بالکل ہی ممتاز ہوتی ہے۔ برزخی طور پہ شہیدوں کومردہ تو کہسکتے ہیں لیکن عام مردوں پہ انہیں قیاس کرنا بنص قرآنی ممنوع ہے۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
003:169

اور تو نہ سمجھ ان لوگوں کو جو مارے گئے اللہ کی راہ میں مردے بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے ہیں۔
قرآن کریم کی اسی آیت نے یہ بتلایا ہے کہ شہداء کو اللہ کی طرف سے جنت کا رزق ملتا ہے اور رزق زندہ آدمی کو ملا کرتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اس دنیا سے منتقل ہوتے ہی شہید کے لئے رزق جنت جاری ہوجاتا ہے اور ایک خاص قسم کی زندگی اسی وقت سے اس کو مل جاتی ہے، جو عام مردوں سے ممتاز حیثیت کی ہے (قرطبی) اب رہا کہ وہ امتیاز کیا ہے؟ اور وہ زندگی کیسی ہے؟ اس کی حقیت سوائے خالق کائنات کے نہ کوئی جان سکتا ہے نہ جاننے کی ضرورت ہے، البتہ بسا اوقات ان کی حیات خاص کا اثر اس دنیا میں بھی ان کے ابدان پر ظاہر ہوتا ہے کہ زمین ان کو نہیں کھاتی وہ صحیح سالم باقی رہتے ہیں (قرطبی) جس کے بہت سے واقعات دور نبوی سے آج تک مشاہدہ کئے جارہے ہیں۔ 
1. شہداء کی پہلی فضیلت اس آیت میں ان کی ممتاز دائمی حیات ہے، 
2. دوسری یہ کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ملتا ہے، 
3. تیسری فضیلت فرحین بما اتھم اللہ میں یہ بیان کی گئی کہ وہ ہمیشہ خوش و خرم رہیں گے، ان نعمتوں میں جو ان کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں۔
4. چوتھی فضیلت یہ ہے ویستبشرون بالذین لم یلحقوابھم، یعنی وہ اپنے جن متعلقین کو دنیا میں چھوڑ گئے تھے ان کے متعلق بھی ان کو یہ خوشی ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں رہ کر نیک عمل اور جہاد میں مصروف رہیں تو ان کو بھی یہاں آ کر یہی نعمتیں اور درجات عالیہ ملیں گے۔
اور سدی نے بیان فرمایا کہ شہید کا جو کوئی عزیز دوست مرنے والا ہوتا ہے شہید کو پہلے سے اس کی اطلاع کردی جاتی ہے کہ فلاں شخص اب تمہارے پاس آ رہا ہے وہ اس سے ایسا خوش ہوتا ہے جیسے دنیا میں کسی دور افتادہ دوست سے بعد مدت ملاقات کی خوشی ہوتی ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے:
جب جنگ احد کا وقت قریب آگیا تو مجھے میرے والد حضرت عبداللہ نے رات کو بلاکر کہا کہ مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اصحاب میں سب سے پہلا مقتول میں ہی ہوں گا اور دیکھو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے سوا دوسرا کوئی مجھے (اپنے عزیزوں اور وارثوں میں) تم سے زیادہ عزیز نہیں ہے، میں مقروض ہوں اس لیے تم میرا قرض ادا کردینا اور اپنی (نو) بہنوں سے اچھا سلوک کرنا۔
چنانچہ جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے میرے والد ہی شہید ہوئے۔ قبر میں آپ کے ساتھ میں نے ایک دوسرے شخص کو بھی دفن کیا تھا، لیکن میرا دل نہیں مانا کہ انہیں دوسرے صاحب کے ساتھ یوں ہی قبر میں رہنے دوں، چنانچہ چھ مہینے کے بعد میں نے ان کی لاش کو قبر سے نکالا دیکھا تو صرف کان تھوڑا سا گلنے کے سوا باقی سارا جسم اسی طرح تھا جیسے دفن کیا گیا تھا۔
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَ أُحُدٌ دَعَانِي أَبِي مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ: مَا أُرَانِي إِلَّا مَقْتُولًا فِي أَوَّلِ مَنْ يُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنِّي لاَ أَتْرُكُ بَعْدِي أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْكَ، غَيْرَ نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ عَلَيَّ دَيْنًا فَاقْضِ، وَاسْتَوْصِ بِأَخَوَاتِكَ خَيْرًا، «فَأَصْبَحْنَا، فَكَانَ أَوَّلَ قَتِيلٍ وَدُفِنَ مَعَهُ آخَرُ فِي قَبْرٍ، ثُمَّ لَمْ تَطِبْ نَفْسِي أَنْ أَتْرُكَهُ مَعَ الآخَرِ، فَاسْتَخْرَجْتُهُ بَعْدَ سِتَّةِ أَشْهُرٍ، فَإِذَا هُوَ كَيَوْمِ وَضَعْتُهُ هُنَيَّةً غَيْرَ أُذُنِهِ»۔(بخاری:1351)
حضرت قیس بن حازم فرماتے ہیں کہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ان کے کسی رشتہ دار نے خواب میں دیکھا تو انھوں نے فرمایا:
تم لوگوں نے مجھے ایسی جگہ دفن کردیا ہے جہاں پانی مجھے تکلیف پہنچاتا ہے میری جگہ یہاں سے تبدیل کرو ، رشتے داروں نے قبر کھو دی تو ان کا جسم نرم و نازک چمڑے کی طرح تھا اور داڑھی کے چند بالوں کے علاوہ جسم میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: رَأَى بَعْضُ أَهْلِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَنَّهُ رَآهُ فِي النَّوْمِ فَقَالَ:«إِنَّكُمْ قَدْ دَفَنْتُمُونِي فِي مَكَانٍ قَدْ أَتَانِي فِيهِ الْمَاءُ فَحَوِّلُونِي مِنْهُ فَحَوَّلُوهُ، فَأَخْرَجُوهُ كَأَنَّهُ سِلْقَةٌ لَمْ يَتَغَيَّرْ مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا شَعَرَاتٌ مِنْ لِحْيَتِهِ»۔(مصنّف عبد الرزاق:6657)
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نہر کظامہ جاری کرنے کا اردہ فرمایا تو یہ اعلان کروایا کہ جس کا کوئی شہید ہوتو وہ پہنچ جائے.
پھر ان شہداء کے اجسام نکالے گئے تو وہ بالکل تر و تازہ تھے یہاں تک کہ کھودنے کے دوران ایک شہید کے پاؤں پر کدال لگ گئی تو خون جاری ہوگیا۔
لَمَّا أَرَادَ مُعَاوِيَةُ أَنْ يُجْرِيَ الْكِظَامَةَ قَالَ:مَنْ كَانَ لَهُ قَتِيلٌ فَلْيَأْتِ قَتِيلَهُ يَعْنِي قَتْلَى أُحُدٍ قَالَ:فَأَخْرَجَهُمْ رِطَابًا يَتَثَنَّوْنَ قَالَ:فَأَصَابَتِ الْمِسْحَاةُ رِجْلَ رَجُلٍ مِنْهُمْ فَانْفَطَرَتْ دَمًا،فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ:لَا يُنْكِرْ بَعْدَ هَذَا مُنْكِرٌ أَبَدًا۔(مصنّف عبد الرزاق:6656)
ان دونوں حدیثوں سے واضح ہے کہ شہداء کے ساتھ خاص اعزاز وامتیاز ان کے اجسام طبعیہ کی سلامتی کی طرف بھی متعدی ہوتا ہے اور بطریق لزوم ودوام نہیں! بلکہ بعض اوقات ان کے اجسام بھی زمینی اثرات؛ سڑنے گلنے سے محفوظ رہتے ہیں۔
لیکن یہ امتیاز صرف اس شہید حقیقی کو حاصل ہے جس کی شہادت عند اللہ مقبول بھی ہوگئی ہو۔ ورنہ فساد نیت اور دیگر خرابیوں کی وجہ سے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے مار
ے جانے والے کو  بھی منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اللہم احفظنا منہ۔
پھر رہی یہ بات کہ کس کی شہادت مقبول ہوئی اور کس کی مردود؟ تو اس کا صحیح علم اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں۔
بعض حدیث وآثار سے بھی  پتہ چلتا ہے کہ شہید حقیقی کا جسم بھی سڑنے گلنے اور کیڑے لگنے سے محفوظ رہتا ہے ۔یعنی مٹی اس کے جسم پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
اس ذیل کی بعض حدیث اسنادی حیثیت سے اگرچہ ضعیف ہے لیکن تعدد طرق سے حسن کے درجے کو پہنچ سکتی ہے۔
المؤذِّنُ كالشَّهيدِ المتشحَّطِ في دمِهِ وإذا ماتَ لم يدوَّدْ في قبرِهِ
الراوي:ابن عمرو المحدث:ابن الجوزي المصدر:العلل المتناهية الجزء أو الصفحة:1/389 حكم المحدث:لا يصح
المؤذِّنُ المُحتسِبُ كالشَّهيدِ المتشحَّطِ حتَّى يفرغَ من أذانِهِ ويشْهدُ لَهُ كلُّ رَطِبٍ ويابسٍ فإذا ماتَ لم يدَوَّدْ من قبرِهِ
الراوي:ابن عمر المحدث:ابن الجوزي المصدر:العلل المتناهية الجزء أو الصفحة:1/390 حكم المحدث:لا يصح
المؤذِّنُ المُحتسِبُ كالشَّهيدِ المُتشَحِّطِ في دمِهِ ؛ إذا ماتَ لم يدوِّدْ في قبرِهِ
الراوي:عبدالله بن عمر المحدث:المنذري المصدر:الترغيب والترهيب الجزء أو الصفحة:1/147 حكم المحدث:[إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]
المؤذِّنُ كالشهيدِ المُتَشَحِّطُ في دَمِهِ وإذَا مَاتَ لم يُدَوِّدْ
الراوي:عبدالله بن عمر المحدث:الذهبي المصدر:تلخيص العلل المتناهية الجزء أو الصفحة:133 حكم المحدث:باطل [وروي من قول ابن عمر بسند فيه متهم وبسند فيه متروك]
المؤذّنُ المحتسبُ كالمتشحطُ في دمهِ , فإذا ماتَ لم يُدَوَدْ في قبرهِ
الراوي:عبدالله بن عمر المحدث:ابن حجر العسقلاني المصدر:لسان الميزان الجزء أو الصفحة:1/280 حكم المحدث:[فيه إبراهيم بن رستم ، ذكر من جرحه]
المؤَذِّنُ الْمُحْتَسِبُ كالشهيدِ الْمُتَشَحِّطِ فِي دمِهِ إذا ماتَ لَمْ يُدَوِّدْ في قبْرِهِ.
الراوي:ابن عمرو المحدث:السيوطي المصدر:الجامع الصغير الجزء أو الصفحة:9115 حكم المحدث:ضعيف
المؤذِّنُ المُحتسِبُ كالشَّهيدِ المُتشَحِّطُ في دَمِه ، إذا ماتَ لَم يُدوَّدْ في قبرِهِ
الراوي:عبدالله بن عمرو المحدث:الألباني المصدر:ضعيف الترغيب الجزء أو الصفحة:164 حكم المحدث:ضعيف
المؤَذِّنُ الْمُحْتَسِبُ كالشهيدِ الْمُتَشَحِّطِ فِي دمِهِ إذا ماتَ لَمْ يُدَوِّدْ في قبْرِهِ
الراوي:عبدالله بن عمرو المحدث:الألباني المصدر:ضعيف الجامع الجزء أو الصفحة:5900 حكم المحدث:ضعيف
المؤذِّنُ المحتسبُ كالشَّهيدِ يتشَّحطُ في دمِه حتَّى يفرغَ من أذانِه، و يشهدُ له كلُّ رطبٍ و يابسٍ و إذا مات لم يُدَوِّدْ في قبرِه
الراوي:عبدالله بن عمر المحدث:الألباني المصدر:السلسلة الضعيفة الجزء أو الصفحة:853 حكم المحدث:ضعيف جداً
روایات کی اس مجموعی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ شہید کی حیات برزخی انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی حیات سے ادون ہے لیکن عام مومنین وموتی کی زندگی سے اقوی وشدید الحس ہے۔شہید کے جسم کو بھی مٹی یا تو کھاتی نہیں، یا بدیر کھاتی ہے۔
واضح رہے کہ ان حدیثوں میں شہید کے جسم کو مٹی نہ کھانے کی بات آئی ہے۔ اگر مٹی کے علاوہ دوسرے عناصر مثلا پانی کی نمی وغیرہ کے اثرات  سے شہید کے اجسام گل جائیں تو یہ امر آخر ہے ایسا بسا ممکن ہے۔
پانی وغیرہ کی تاثیر کی وجہ سے جسم شہید کی سلامتی کی کوئی بات کسی بھی حدیث میں نہیں آئی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
١٣شعبان ١٤٣٩ہجری

No comments:

Post a Comment