Tuesday 10 July 2018

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی امتیازی خصوصیات

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی امتیازی خصوصیات

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ،وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ ، وَنَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ سَيِّدَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا اَمَّابَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: النَّبِيُّ أَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ۔
 سورۃ الاحزاب: (6
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
نبی اول نبی آخر:
اللہ رب العزت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی، رسول، خاتم الاانبیاء اور خاتم المرسلین بنا کر بھیجا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کائنات کے وہ نبی ہیں کہ جن کو اللہ رب العزت نے سب سے پہلے نبوت عطا فرمائی ہے، اور سب سے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نبوت کا اظہار کرایا ہے۔ ہم سب امتی ہیں اور قیامت تک آنے والے تمام انسان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ نبی ہیں بحیثیت نبی امت سے کئی چیزوں میں ممتاز ،فائق اور بلند وبالا ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ساری خصوصیات وہ ہیں جو امت تو کیا انبیاء میں سے کسی کو بھی نہیں ملیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے بحیثیت نبی بہت ساری چیزیں عطا فرمائی ہیں۔ ان میں سے میں آپ کی خدمت میں صرف دو تین باتوں کا ذکر کرتا ہوں۔
نبی کی تین امتیازی خصوصیات :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء معصوم ہیں۔ کسی بھی نبی نے کبھی بھی نہ نبوت کا اظہار کرنے سے پہلے نہ نبوت کا اظہار کرنے کے بعد گناہ کیاہے، نہ چھوٹا گناہ کیا ہے نہ بڑا گناہ کیاہے۔ اللہ رب العزت کسی بھی نبی کو چھوٹے سے چھوٹا گناہ کرنے سے بچا لیتے ہیں۔
1.
ایک بات تو یہ ذہن نشین کرلیں کہ نبی معصوم ہے۔
2.
دوسری بات یہ ذہن نشین کرلیں کہ جس طرح نبی کا جسداطہر یہاں (دنیا میں) محفوظ ہے اسی طرح نبی کا جسد اطہر موت کے بعد قبر مبارک میں بھی محفوظ ہے۔
3.
اور تیسری بات یہ ذہن نشین کرلیں کہ جس طرح نبی کی دنیا میں حیات عام لوگوں سے ممتاز ہوتی ہے اسی طر ح قبر اور موت کے بعد بھی نبی کی حیات دوسری دنیا سے ممتاز ہوتی ہے۔
پیغمبر کی خصوصیات تو کئی ہیں ، میں ان میں سے صرف تین خصوصیات آپ کی خدمت میں پیش کرنے لگا ہوں:
1.
نبی معصوم ہے۔
2.
نبی کا جسد اطہر محفوظ ہے۔
3.
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء کا جسد اطہر زندہ ہے۔
ذات بھی معصوم، بات بھی معصوم:
اللہ رب العزت نے نبی کو جو چیزیں عطا فرمائیں وہ بہت ساری ہیں ان میں سے تین باتیں میں آج کی مجلس میں سمجھاؤں گا آپ اس کو سمجھنے کی کو شش فرمائیں۔
پہلی دلیل :
قرآن کریم میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى . إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى.
 سورۃ النجم: 3، (4
دوسری دلیل :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات بھی اپنی مرضی سے نہیں کرتا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو بات بھی کرتا ہے اللہ کےحکم سے کرتا ہے۔قرآن کریم میں ہے
فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِه۔
 سورۃ الانعام: (90
تیسری دلیل :
دیکھیں تم سب کو انبیاء کی ہدایت اور راہنمائی کی اقتداء کرنی چاہیے۔ ایک اور مقام پر اللہ رب العزت فرماتے ہیں
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي .
)سورۃ آل عمران: (31
اگر تم اللہ کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرتے ہوتو پھر تم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو۔ نبی کے نقش قدم پر چلو۔ اب اگر پیغمبر کی ذات ہی معصوم نہ ہو اور پیغمبر کی ذات ہی گناہ کرتی ہو تو پھر نبی کے نقش قدم پر چلو گے کیسے؟ اگر پیغمبر ہی گناہ کرتاہو پھر نبی کی زبان پر اعتماد کیسے ہو سکتا ہے ؟
سنی ، حنفی ، دیو بندی :
ہم اہل السنت و الجماعت احناف دیوبند پیغمبر کی زبان پر بھی اعتماد کرتے ہیں، پیغمبر کی سوچ پر بھی اعتماد کرتے ہیں ،پیغمبر کی فہم اور سمجھ پر بھی اعتماد کرتے ہیں ، نبوت کی سوچ اور دل و دماغ پر بھی اعتماد کرتے ہیں۔
یعنی نبی جو سوچے وہ بھی ٹھیک اور نبی جو بولے وہ بھی ٹھیک اور نبی جو کرے وہ بھی ٹھیک۔ نہ نبی کا کرنا گناہ ہے نہ نبی کا بولنا گناہ ہے نہ نبی کا سوچنا گناہ ہے۔ نبوت کو خدا ان تمام عیبوں اور گناہوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ نبی کے جتنے بھی کام ہیں ان میں نبی کی خواہشات کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔ بلکہ نبی خالص اللہ کا حکم سمجھ کر، اللہ کا دین سمجھ کر اور اللہ کی مرضی سمجھ کر اس پر عمل کرتا ہے۔ اس پر کئی ایک مثالیں ہیں۔ میں صرف ایک مثال سمجھانے کےلیے عرض کرتا ہوں۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی جداگانہ فضیلت:
خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں گیارہ مبارک نکاح فرمائے ہیں۔ ان میں سے دو بیویاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یعنی حضرت خدیجۃ الکبریٰ اور حضرت زنیب رضی اللہ عنہما تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی دنیا سے پردہ فرما گئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہاکا جنازہ پڑھایا ہی نہیں۔ اس لیے کہ اس وقت تک جنازے کا حکم اللہ نے اتارا ہی نہیں تھا۔حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا جنازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پڑھایا ہے۔ آپ کی گیارہ بیویوں میں سےحضرت زینب رضی اللہ عنہا کویہ اعزاز ملا ہے کہ ان کا جنازہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں آخر دم تک آپ کی زندگی میں آپ کے نکاح میں تھیں۔
نبی کا عمل منشاء خداوندی ہوتا ہے :
اس پر میں ایک بات سمجھانے لگا ہوں کہ بہت سارے کفار نے اعتراض کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس قدر نکاح کیوں کئے ہیں ؟ اہل اسلام نے اس کا جواب دیا ہے کہ پیغمبر کا کوئی نکاح اپنی مرضی سے نہیں ہے ، اللہ کی مرضی سے ہے۔ اس بات کا اندازہ کریں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا نکاح اس وقت کا ہے جب عمر 25 سال ہے اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال ہے۔ 25 سال کا مرد40 سال کی عورت سے نکاح نہیں کرتا اور 40 سال کی بھی بیوہ خاتون۔ اس سے پتہ چلا کہ یہ نکاح بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی خواہش پر نہیں ہےبلکہ تکوینی طو رپر اللہ کے امر سے ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج میں سے سب سے کم عمر زوجہ اور بیوی ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ ام المومنین کا نکاح اس وقت ہوا جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 52 سال ہے اور امی عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر مبارک آٹھ یا نوسال بنتی ہے۔
محض اللہ کا حکم ہوتا ہے :
دیکھیے کہاں آٹھ یا نوسال کہاں 52سال؟! اس سے پتہ چلا کہ اگر 25 سال کا 40سال سے اور 52سال کا 7سال کی عمر سے نکاح کرے تو یہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے ہے۔ میں یہ ایک مثال اس لیے دے رہا تھا تاکہ یہ بات سمجھ میں آجائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی عمل فرماتے اپنی خواہشات کی وجہ سے نہیں فرماتے تھے بلکہ اللہ کےحکم سے فرماتے تھے اور یہ معاملہ صرف اللہ کے نبی کا نہیں بلکہ تمام انبیاء کا ہے۔ اگر نبی پر وحی نہ آئی ہو اور اپنے اجتہاد سے نبی نے کوئی عمل فرمالیا ہو اور اس میں خطا ہو تو اللہ اس خطا کے خلاف وحی نازل فرمادیتے ہیں۔ اورنبی کو خدا گناہ کے قریب بھی نہیں پہنچنے دیتے۔
حفاظت خداوندی:
حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال دیکھ لیں۔ کہاں یوسف علیہ السلام بچپن میں گئے ہیں ؟ غلامی میں گئے ہیں ، شاہ مصر کے گھر پہنچے ہیں اور ان کا ایک وقت آیا خدا نے خزانے کا قلم دیا ہے ، عزیز مصر کے وزیر بنے ہیں اور عزیز مصر کی گھر والی حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں غلط خیال رکھتی تھی۔ ایسا ماحول کہ آدمی نوجوان بھی ہو اور دعوت دینے والی بادشاہ یا وزیر کی بیوی ہو اور گناہوں کے سارے اسباب موجود ہوں، ایسے موقع پر بندہ گناہ نہ کرے یہ سوائے اللہ کے فضل سے نہیں ہو سکتا۔ اس لیے یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا
إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبّیِ.
) سورۃ یوسف: (53
دیکھو جو بھی نفس ہو وہ حکم گناہوں کا دیتا ہے۔ ہاں جس پر اللہ رحم فرمادے اللہ اس کو گناہوں سے بچا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں
كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاء .
) سورۃ یوسف: (24
یہ نہیں کہ ہم نے یوسف کو برائی سے دور رکھا بلکہ فرمایا کہ ہم نے برائی کو یوسف علیہ السلام کے قریب بھی نہیں جانے دیا۔ اس قدر ماحول میں بھی نبی گناہوں کی دنیا سے بچ جاتا ہے جہاں بچنا بندے کے بس میں نہیں ہوتا۔
شرک اکبر و شرک اصغر :
میں دوسرا واقعہ سنا رہا ہوں۔ ایک حضرت یوسف علیہ السلام کا اور دوسرا خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ نبی کی زندگی میں نبی کی اپنی خواہشات کو دخل نہیں ہوتا۔ خواہش پر عمل کرنا تو چھوٹے درجے کا شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاه .
 سورۃ الجاثیۃ: (23
اے پیغمبر !کیا آپ نے ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے؟ تو معلوم ہو اکہ اپنی خواہشات پر عمل کرنا جو خلاف شریعت ہو ں تو گویا کہ چھوٹے درجے کا شرک ہےاور اللہ تعالیٰ نبی کو شرک خفی اور شرک جلی ، شرک اصغر اور شرک اکبر ،چھوٹے اور بڑے تمام قسم کے شرک سے محفوظ رکھتے ہیں
مقام نبوت اور ذنب کا معنیٰ:
نبی کی ذات معصوم ہوتی ہے، نبی سے کبھی بھی گناہ سرزد نہیں ہوتا۔ میں یہ بات سمجھا رہاتھا اوراگر قرآن کریم میں کہیں ہے بھی جس سے لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے جیسے
Īمَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرĨ
 سورۃ الفتح: (2
اے نبی! اللہ نے آپ کے ذنب معاف کر دیے۔ بعض لوگوں نے کہا کہ دیکھو ! ذنب کا لفظ بولا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ العیاذ باللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی گناہ کیا ہے۔ یہاں یاد رکھیں کہ ذنب کا معنیٰ گناہ نہیں ہے بلکہ ”ذنب“ ایسا لفظ ہےجب اس کی نسبت نبی کی طرف ہو تو معنیٰ اور ہے امت کی طرف ہوتو معنیٰ اورہے۔
لفظ محبت کا معنیٰ بدل جاتا ہے :
جیسے ”محبت“ ایک لفظ ہے جب اس کی نسب ماں کی طرف ہوتو معنیٰ الگ ہوتا ہے ،بہن کی طرف ہوتو معنیٰ الگ ہوتا ہے ، بیٹی کی طرف ہو تو معنی الگ ہوتا ہے اور اگر بیوی کی طرف ہوتو معنیٰ الگ ہوتا ہے۔ محبت لفظ ایک ہی ہے لیکن نسبت کے بدلنے سے معنیٰ بدل جاتا ہے۔ ذنب لفظ ایک ہی ہے نسبت کےبدلنےسے معنیٰ بدل جاتا ہے۔ امتی کی طرف آئے تو معنیٰ گنا ہ ہوتا ہے اور پیغمبر کی طرف آئے تو معنیٰ گناہ نہیں بلکہ پیغمبر کی بھول چوک ہوتا ہے جس کو گناہ نہیں کہتے۔
عصمت انبیاء کی عقلی دلیل :
میں سمجھا رہاتھا کہ نبی کی ذات معصوم ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ پیغمبر سے گناہ نہیں ہونے دیتے اور معصوم نبی کی ذات کیوں ہے؟ اس کی بنیادی اور عقلی وجہ سمجھیں کہ اللہ رب العزت نے انسان کو مٹی اور آسمانی روح سے بنایا ہے اور مٹی زمین والی اور روح آسمان والی ہے۔ کچھ انسان کے جسم میں تقاضےمٹی کے ہیں اور کچھ تقاضے آسمانی روح کے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
Īوَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍĨ ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا ہے۔کچھ آگے فرمایا: Īفَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي Ĩ
اور میں نے جب اس کو برابر کردیا اور اس میں روح کو ڈال دیا Īفَقَعُوْا لَهُ سَاجِدِينَĨ پھر فرمایا ملائکہ سے کہ اسے سجدہ کرو مٹی کا جسم پھر آسمانی روح۔ کچھ تقاضے مٹی کے جسم کے ہیں اور کچھ تقاضے آسمانی روح کے ہیں۔
جسم اور روح کی دوا:
مٹی کےتقاضے کیا ہیں ؟ کیونکہ اللہ نے آدمی کا جسم مٹی سے بنایا اب اگر آدمی کے جسم کو خوراک چاہیے تو اللہ نے خوراک انسان کے بدن کی مٹی سے پیدا فرمائی ہے۔ اسی طرح انسانی جسم مٹی سے بنا یا اگر یہ بیمار ہو جائے تو اس کو علاج کےلیے دوا چاہیے جسم جب مٹی کا ہے تو دوا بھی مٹی سے بنتی ہے۔ اللہ نےروح کو آسمان سے نازل فرمایا۔ اگر انسان کی روح کو خوراک چاہیے تو خوراک بھی آسمان سےآتی ہے اور اگر انسان کی روح کو دوا چاہیے تو آسمانی روح کی دوا بھی آسمان سے آتی ہے۔
انسا نی روح و جسم کے معالج :
بالکل اسی طرح کبھی آدمی کا جسم بیمار ہوتا ہے اور کبھی روح بیمار ہوتی ہے۔ اگر جسم بیمار ہو جائے تو اسے طبیب چاہیے جس کو حکیم اور ڈاکٹر کہتے ہیں، اگر روح بیمار ہو جائے تو اس کو طبیب چاہیے جسے نبی اور رسول کہتے ہیں۔ تو جسم کے طبیب کا نام ڈاکٹر اور حکیم ہے اور روح کے معالج کا نام نبی اور رسول ہے۔ کسی بھی طبیب کا جس مرض کا وہ ماہر ہو اس میں مبتلاء ہونا اس کا عیب ہوتا ہے۔آنکھوں کا ڈاکٹر ہو اور خود نابینا ہو تو یہ اس کا عیب ہے۔
نبی طبیب روحانی ہوتاہے :
نبی کیونکہ امراض روحانیہ کے معالج ہیں۔ مرض ر وحانی کا نام گناہ ہے، پیغمبر اگر گناہ کرے تو گویا جس مرض کا معالج اسی مرض میں مبتلاء ہو یہ طبیب کا عیب ہوتا ہے۔ اللہ نبی کی ذات کوعیوب سے پاک رکھتے ہیں۔ میں بتا یہ رہا تھا یہ عقیدہ بنالیں کہ نبی معصوم ہوتا ہے، نبی پاک ہوتا ہے۔ نبی کی ذات سے گناہ نہیں ہوتا۔
غلط عقیدے کی تردید:
ہمارے ہاں ایک لفظ چلتا ہے ” پنجتن پاک“۔پنجتن پاک کالوگ معنیٰ کیا سمجھتے ہیں؟حضرت علی رضی اللہ عنہ پاک،حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پاک، حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہما پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاک۔ یہ نہایت غلط عقیدہ اور غلط نظریہ ہے کبھی بھی اپنی زبان سے نہ کہا کریں پنجتن پاک۔ پنجتن پاک کا معنیٰ کیا ہوگا ؟ اب حضرت فاطمۃالزہرا رضی اللہ عنہا پاک ہیں تو فاطمہ کی والدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کیا پاک نہیں ہے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر فاطمۃالزہراہ رضی اللہ عنہا پاک ہیں تو ان کی باقی تین بہنیں حضرت زینب ،رقیہ ،ام کلثوم رضی اللہ عنہن کیا پاک نہیں ؟ العیاذ باللہ! اگر رسول کے داماد علی پاک ہیں تو کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پاک نہیں ہے؟ اگر داماد پاک ہیں تو کیا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم العیاذ باللہ پاک نہیں ہیں؟ اس لیے پنجتن پاک کا لفظ نہ بولا کریں، بلکہ یہ کہا کریں کہ نبی کے سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پاک ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری بیٹیاں پاک ہیں ،نبی کی ساری بیویاں پاک ہیں ،نبی کے سارے اہل بیت اور سارےصحابہ پاک ہیں۔رسول کی ذات گرامی پاک ہے نا پاکی کا تصور بھی نہیں۔
حفاظت پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم:
پہلا مسئلہ یہ کہ نبی کی ذات پاک ہے، معصوم ہے۔ دوسرا مسئلہ اور دوسری صفت کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر جس طرح دنیا میں محفوظ ہے اسی طرح موت کے بعد قبر میں بھی محفوظ ہے۔ قرآن کریم میں ہے
Ī وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِĨ
 سورۃ المائدۃ: (67
جب تک یہ آیت نازل نہ ہوئی تھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ا پنے گارڈ رکھتے تھے، اپنے پہرے دار رکھتے تھے اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کبھی بھی ایک لمحہ کے لیے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا نہیں چھوڑتے تھےکہ جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفا ظت اور سیکورٹی کا مسئلہ درپیش آئے۔ جب قرآن پاک کی آیت اتری:
Ī وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِĨ
میرے پیغمبر !اللہ آپ کو لوگوں سے بچائیں گے اب کوئی بندہ آپ کو قتل نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد آپ نےگارڈ ختم فرما دیے کہ اب وحی آ گئی ہے ،اب وعدہ الہی آچکا ہے اب تو کو ئی شک کی بات نہیں ہے، لیکن اس کے علاوہ اگر غور کیا جائے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنی ذات کی حفاظت کا انتظام فرمایا ہے۔
جسم اطہر کی حفاظت ……حکمت:
تو میں یہ بات سمجھا رہا تھا کہ پیغمبر کی ذات جس طرح معصوم ہے اسی طرح پیغمبر کی ذات قبر اطہر میں بھی محفوظ ہے۔ محفوظ ہونے کا معنیٰ ہے کہ جس طرح دنیا میں نبی کے جسم اطہر کو کوئی خراب نہیں کرسکتا تو موت کے بعد پیغمبر کے جسد کو حشرات الارض میں سے کوئی چیز خراب نہیں کرسکتی۔ حتیٰ کے مٹی بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو خراب نہیں کرسکتی۔ حدیث مبارک میں ہے
إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الأَنْبِيَاء.
)سنن ابی داؤد، باب فضل يوم الجمعة وليلة الجمعة (
کہ پیغمبر کی ذات محفوظ ہے اور پیغمبر کی ذات کو اللہ ہمیشہ محفوظ رکھتے ہیں۔
علمی نکتہ:
مٹی نبی کے جسم کو نہیں کھا سکتی۔ ایک نکتہ ذہن نشین فرمالیں کہ نبی کے جسد اطہر کو مٹی کیوں نہیں کھا سکتی ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مٹی زمین کی مٹی ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کی مٹی جنت والی۔ تو جنت والی مٹی کو زمین والی مٹی کیسے کھا سکتی ہے؟ اس لیے یہ دنیاوی مٹی نبوت کے وجود کو نہ کھا سکتی ہے نہ خراب کر سکتی ہے۔ توپیغمبر کی ذات اطہر بھی محفوظ ہے۔
نور الدین زنگی کا واقعہ:
بعض بد بختوں نے کوشش بھی کی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر تک پہنچنے کی، لیکن اللہ رب العزت نے حفاطت فرمائی۔ جس طرح نورالدین زنگی کےدور میں کچھ گوروں اور بے ایمانوں نے کوشش کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کو زمین سے نکال لیں۔ تو خواب کے ذریعے ان کو حکم ہوا اور نور الدین زنگی نےوہاں جا کر بد معاشوں کو گرفتار کر لیا اور ان کو قتل کردیا جو پیغمبر کے وجود اطہر کو زمین کے اندر نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ اللہ نے نبی علیہ السلام کے جسم کو محفوظ فرمادیاہے۔ زمین اور مٹی کے اجزاء پیغمبر کے وجود کو نہیں کھا سکتے،پیغمبر کا جسم بالکل محفوظ ہے اس پر میں ایک چھوٹا سے واقعہ عرض کرتا ہوں۔
قبولیت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ:
یہ واقعہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے جس پر بعض حضرات کو اشکال پیدا ہوتا ہے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے خواب دیکھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اطہر قبر مبارک میں بکھرا ہوا ہے اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس کو جمع کیاہے۔ اشکال یہ تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جسم کومٹی کھا ہی نہیں سکتی تو ہمارے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ جن کے ہم مقلد ہیں انہوں نے کیسے دیکھ لیا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈیاں بکھری ہوئی ہیں ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اقد س صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر کو مٹی نہیں کھا سکتی۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے حالت بیداری میں نہیں دیکھا حالت خواب میں دیکھا ہے اور جب کوئی خواب میں دیکھے تو اس کی تعبیر پوچھتا ہے کہ اس کی تعبیر کیا ہے؟ بسا اوقات خواب میں چیز کچھ اور ہوتی ہے اور اس کی تعبیر بالکل اور ہوتی ہے۔ اب خواب کی تعبیر پوچھیں یہ اعتراض تو نہ کریں کہ امام اعظم رحمہ اللہ نے دیکھا ہے۔ اس لیے پتہ چلا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود اطہر کو مٹی کھا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس خواب کی تعبیر کے لیے اپنے شاگرد کو امام ابن سیرین کےپاس بھیجا۔ امام ابن سیرین نے فرمایا کہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ جو رسول انور صلی اللہ علیہ و سلم کی سنتیں دنیا میں پھیل گئی ہیں ان کو یکجا کرنے کا کام اللہ رب العزت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے لے گا۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود اطہر کا نام دین:
اب اس کی تعبیر یہ کیوں دی ہے؟ میں بات سمجھا نے کے لیے کہتا ہوں کہ عام امتی کے اعمال کا نام دین ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے وجود اطہر کا نام دین ہے۔ وجود اطہر کو دیکھا خواب میں پھیلا ہوا، اس کا معنیٰ یہ کہ پیغمبر کی سنتیں دنیا میں پھیل گئیں ہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
Īوَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونĨ
) سورۃ الانفال: (33
کہ جب تک امت گناہوں سے استغفار کرے خدا عذاب نہیں دیتے۔ بعض حضرات سے ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ جس طرح نبی کاوجوداس دنیا میں ہواللہ امت کوعذاب سےبچالیتے ہیں نبی دنیا سے چلے جائیں اورپیغمبر کی سنت دنیا میں موجودہو اللہ تب بھی امت کوعذاب سےبچالیتے ہیں۔
نبی معصوم ، جسم محفوظ :
میں بتا یہ رہاتھا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے خواب کا مطلب یہ ہےکہ اللہ پاک نے نبی علیہ السلام کے وجودکودین بنایاہے تو نبی کے وجودکو خواب میں دیکھناکہ بکھرا ہے گویا کہ رسول پاک کا دین دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔تو ایک مسئلہ یہ ہواکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ قبر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اطہر محفوظ ہے۔
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم:
تیسرا وصف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو امت سے بالکل ممتاز ہے اور الگ ہے وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں جو مدینہ والی ہے اس میں زندہ ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زندگی ہے دنیا میں جسے ہم دیکھتے ہیں اور ایک زندگی ہے قبر مبارک کی جسے ہم نہیں دیکھتے۔ برزخ کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ برزخ عربی زبان کا لفظ ہے
Ī وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُون Ĩ
)سورۃ المومنون: (100
قرآن کریم میں ہے برزخ کا معنی ہے پردہ۔ جس طرح پردہ کے پیچھے کوئی چیز ہو تو نظر نہیں آتی اسی طرح پیغمبر زندہ ہیں لیکن ان کی زندگی ہم سے پردہ میں ہے۔ ہمیں پتہ نہیں کہ پیغمبر کس طرح زندہ ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں۔
عقیدہ حیات کا ثبوت:
ا ور اس پر آیات بھی ہیں اس پر احادیث بھی ہیں اور اس پر امت کے علماء کا اتفاق بھی ہے۔ جسے اجماع امت کہتے ہیں۔ گویا عقل بھی کہتی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں۔ ابھی جو میں نے حدیث مبارک سنائی ہے اس بات پر کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر قبر مبارک میں محفوظ ہے۔ اس حدیث کو سمجھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا ذہن کیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن مبارک کیا تھا۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نظریہ:
حدیث مبارک میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو فرمایا کہ مجھ پر درود پاک پڑھا کرو۔ کیوں؟
فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيّ۔
تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نظریہ :
صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے تعجب سے پوچھا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرَمْتَ۔ اللہ کے پیغمبر !ہمارا درود آپ پر کیسے پیش ہو گا؟آپ تو مٹی میں مل جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاء۔
اللہ پاک نے مٹی پر حرام فرما دیا ہے کہ مٹی نبی کے وجود کو کھائے۔ اب اس سوال اور جواب میں جوڑ کیسے ہے؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ پر درود پڑھا کرو تمہارا درود پیش ہوتا ہے۔ صحابہ نے کہا آپ کا وجود تو مٹی میں مل جائےگا درود کیسے پیش ہوگا ؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اللہ پاک نے مٹی پر نبی کے وجود کو کھانا حرام فرمادیا ہے۔
جواب بنے گا کیسے ؟
جواب یوں بنے گا کہ اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے کہ اللہ کے نبی کے جسم پر درود پیش نہیں ہوتا تو جب صحابہ نے سوال کیا کہ آپ کا جسم تو مٹی میں مل جائے گا درود کیسے پیش ہوگا؟ تو اللہ کے نبی فرمادیتے کہ جسم اگر مٹی میں مل بھی جائے گا تو جسم نے تودرود سننا ہی نہیں درود تو میری روح سنتی ہے یہ نہیں فرمایا بلکہ اللہ کے نبی نے فرمایا اللہ پاک نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ میرے وجود کو کھائے۔ اس کا معنیٰ یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذہن میں بھی یہ تھا کہ سننا اسی جسم نے ہے اور نبی کا ذہن بھی یہ تھا کہ سننا اسی جسم نے ہے۔ درود جو پیش ہوتے ہیں اس جسم پر پیش ہوتے ہیں۔ تبھی تو فرمایا کہ جسم محفوظ رہتا ہے۔ اس حدیث سے جہاں یہ بات پتہ چلی کہ نبی کا جسم محفوظ ہے وہاں یہ بھی پتہ چلا کہ نبی کا جسم مبارک اپنی قبر میں زندہ ہے، پھر حیرانگی کیوں؟
اس لیے ہم اہل السنت والجماعت کو یہ نظریہ اور عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اللہ کے نبی قبر مبارک میں زندہ ہیں۔ کیسے زندہ ہیں؟ ہمیں پتہ نہیں۔ حدیث مبارک میں ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور انہیں رزق بھی دیا جاتاہے۔
)مسند ابی یعلیٰ ج6 ص 471، رقم الحدیث(324
کیفیت پر بحث نہیں :
کیسے رزق دیا جا تاہے؟ ہمیں معلوم نہیں۔ اب دیکھیں ایک ماں کے پیٹ والی زندگی ہے اور ایک دنیا والی زندگی ہے اور ایک قبر کے پیٹ والی زندگی ہے۔ آپ نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ ہم دنیا میں کھاتے ہیں تو طریقہ اور ہے، پیتے ہیں تو طریقہ اور ہے اور جو ماں کے پیٹ میں بچہ ہے کھاتا تو وہ بھی ہے لیکن اس کے رزق کا سسٹم بالکل الگ ہے۔ اگر ماں کے پیٹ میں آدمی کے رزق کا سسٹم الگ ہو سکتا ہے اور یہ قابل تعجب نہیں ہے تو قبر میں جس کا سسٹم الگ ہوجائے تو اس میں تعجب کی بات کون سی ہے؟اللہ تعالیٰ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
درود تحفہ ہے:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جائے دور سے تو اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درود پہنچا دیتے ہیں اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر پر درود پڑھا جائے تو اللہ اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو سنوا دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درود مبارک ہم اہلسنت والجماعت کے نزدیک تحفہ ہے جو اللہ کے نبی کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
ہدیہ دینے کے آداب :
ہدیہ کا طریقہ کیا ہے ؟ آپ کا بھائی، آپ کا بیٹا اگر جدہ ،ریاض ،مکہ مکرمہ یا مدینہ میں رہتا ہے اور وہاں سے کوئی چیز بھیجنا چاہے توآنے والے بندے کے ہاتھ بھیجتاہے اور ساتھ یہ کہتا ہے کہ یہ کمبل میری امی جان کو دے دینا، یہ فلا ں میری باجی کو دے دینا ،یہ میری بیٹی کو دے دینا۔ جب دور سے کوئی چیز دینا چاہے تو کسی کے ہاتھ بھیج دیتا ہے۔ جب خود آئے تو کسی کے ہاتھ نہیں بھیجتا بلکہ اپنےہاتھوں سے اپنی امی جان کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ تو دور سے تحفہ بھیجا جاتا ہے اور قریب آکر تحفہ خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
درود ملائکہ پہنچاتے ہیں :
ہمارا نظریہ بھی یہ ہے کہ ہم سرگودھا میں ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہیں۔ ہم 87 جنوبی میں ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں ہیں۔ جب یہاں درود پڑھیں گے اللہ اپنے نبی کی خدمت میں ملائکہ کے ذریعے بھجوا دیں گے اور جب مدینہ منورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جاکر درود پڑھیں گے تو اللہ اپنے نبی کو سنوا دیں گے۔ تو دور سے تحفہ بھیجا جاتا ہے اور قریب جائیں تو تحفہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں سے درود بھیجتے ہیں اور وہاں جا کرپیش کرتے ہیں۔
درود کے الفاظ اور طریقہ:
اس لیے ہمارے درود کے الفاظ کا طریقہ بھی الگ ہے۔ جب یہاں سے درود پڑھیں تو ایسے پڑھتے ہیں
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
ہم دعا مانگتے ہیں : اللہ! آ پ اپنے نبی پر درود بھیج دیں، اللہ! آپ اپنے حبیب پر رحمتیں نازل فر ما دیں۔
روضہ رسول پر حاضری کے وقت:
اور جب روضہ پر جائیں تو کہتے ہیںالصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ۔ حضور !آپ پر اللہ کی رحمتیں اور درود ہو۔ یہاں سے اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ کہتے ہیں اور روضہ پرالصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہتے ہیں۔
گویا جب دور سے درود پڑھیں تو اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے درو د کو ان تک پہنچا دے اور جب روضہ پر درود پڑھیں تو پھر ہم براہ راست درود کو پیش کردیتے ہیں۔ تودور سے درود کو بھیجا جاتا ہے اور قریب جائیں تو پیش کیا جا تاہے۔
سلام کا جواب بھی عنایت فرماتے ہیں :
یہ بھی ہمارا عقیدہ ذہن نشین ہونا چاہیے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر درود پڑھیں تو اللہ کے نبی درود سنتے بھی ہیں اور جو درود پڑھا جا ئے اس کو سن کر مناسب سمجھیں تو جواب بھی دیتے ہیں۔ حدیث مبارک میں ہے
مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِيْ سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا أَبْلَغْتُهُ۔
)شعب الایمان للبیہقی:تعظیم النبی صلی اللہ علیہ و سلم(
اللہ تعالیٰ روح متوجہ فرماتے ہیں:
جو بندہ میری قبر پر درود پڑھتا ہے میں سن لیتا ہوں اور جو دور سے پڑھتا ہے وہ مجھ تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ فرمایا
مَا مِنْ أَحَدٍ يُسَلِّمُ عَلَيَّ إِلاَّ رَدَّ اللهُ عَلَيَّ رُوحِي حَتَّى أَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلاَمَ۔
) سنن ابی داؤد:باب زیارۃ القبور(
کہ جو بندہ مجھ پر سلام پڑھتا ہے اللہ میری روح کو متوجہ فرماتے ہیں اور میں اس کے سلام کا جواب دے دیتا ہوں۔
عرض ِاعمال کا عقیدہ:
اس لیے میں گزارش کروں گا میری نہایت قابل صد احترام ماؤ، بہنو، اور بیٹیو! یہ اپناعقیدہ اور نظریہ بناؤ کہ رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم قبر اطہر میں زندہ ہیں اور پیغمبر پر ہمارے اعمال پیش ہوتے ہیں،یہاں سے درود پڑھو تو اللہ پہنچا دیتے ہیں اور قبر پر جاکر دورد پڑھیں تو اللہ اپنے نبی کو سنوا دیتے ہیں۔
درس کا خلاصہ:
آج کے درس کا پورا خلاصہ تین چیزیں ہیں۔ اللہ پاک نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سارے اوصاف عطا فرمائے ہیں جن میں رسول امت سے بالکل ممتاز ہوتے ہیں۔ میں نے آج کی مجلس میں ان میں سے تین صفتوں کا ذکر کیا ہے۔
1)
نبی معصوم ہوتا ہے۔
2)
نبی قبر میں محفوظ ہوتا ہے۔
3)
نبی اپنی قبر مبارک میں زندہ ہوتا ہے۔
ہم نبی کو معصوم بھی سمجھیں، نبی کو محفوظ بھی اور نبی کو قبر میں زندہ بھی سمجھیں جو اللہ کے نبی کو معصوم نہ سمجھے اہل السنت والجماعت میں سے نہیں ہے، جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر مبارک میں محفوظ نہ سمجھے وہ اہل السنت والجماعت میں سے نہیں ہے۔
عقیدہ و عمل کی محنت :
ہمارے اس مدرسہ مرکز اصلاح النساء میں سب سے زیادہ اس بات پر زور دیا جا تاہے کہ بچیوں کے عقائد ٹھیک کرو اور بچیوں کے اعمال ٹھیک کرو۔ اگر عقیدہ ٹھیک ہو جائے اور عمل میں کوتاہی رہ جائے اللہ نجات فرما دیتے ہیں اور اگر عمل ٹھیک ہوجائے اور عقیدہ میں کوتاہی ہو پھر نجات نہیں ہوتی۔ پہلی چیز عقیدہ ہے اور عقیدہ کےبعد اعمال ہیں۔ اس لیے میں تمام ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں سے گزارش کروں گا کہ اپنے عقیدے اور اپنے اعمال کوبالکل درست رکھیں۔ ربیع الاول حضور علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے کا مہینہ ہے۔ اس آمد کے مہینے میں اس بات کا بھر پو ر خیال رکھنا چاہیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو کبھی بھی ضائع نہ ہونے دیں۔شریعت کے معاملے میں بالکل کوتاہی سے کام نہ لیں۔
جشن نہیں؛ مشن:
صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے پر خوشیاں منانا، صرف چاول پکانا اور جھنڈیاں لگانا یہ کوئی دین نہیں ہے۔ اصل دین یہ ہے کہ جس مقصد کےلیے اللہ کےنبی آئے اس مقصد کو سمجھا جائے۔
وہ مقصد کیا ہے؟
اپنے عقیدے ٹھیک کریں، اپنے اعمال ٹھیک کریں ، دنیا میں کسی کو دکھ نہ دیں ، کسی کو تکلیف نہ دیں ، کسی کو پریشان نہ کریں اور بلا وجہ کسی کا حق نہ کھائیں ، کسی کی غیبت نہ کریں ، چوری نہ کریں ، بدکاری نہ کریں ،برے اعمال نہ کریں ، گانا نہ سنیں ،بے پردہ نہ گھومیں ، روزے کا خیال کریں اور نماز کا خیال کریں، حیا ء کا خیال کریں، زکوٰۃ کا خیال کریں۔ اور جو شریعت میں کرنے کے کام ہیں اسے کریں اور جو چھوڑنے والے ہیں اسے چھوڑ دیں قرآن کریم کا اعلان ہے
Īوَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُواĨ
) سورۃ الحشر: (7
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان تمام شرور اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو نیک اعمال کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔
آخری گزارش:
میں تمام خواتین سے گزارش کرتا ہوں ایک تو عقیدہ وہ سمجھا کریں جو آپ کو سمجھا یا جاتا ہے۔ جمعہ کا بیان توجہ سے سنیں ، یہاں کا ماہانہ درس قرآن توجہ سے سنیں۔ بسا اوقات ہم سنتے ہیں کہ باہر سے کوئی نہ کوئی خاتون کسی نہ کسی گھر میں آکر اسے بیان کردیتی ہے جس کا تعلق شریعت کے ساتھ نہیں ہوتا۔ تو آپ ان کے مسائل پر اعتماد کرنے کی بجائے مرکز [اصلاح النساء] سے رجوع کر کے مسئلہ پوچھ لیا کریں۔ اپنے عقائد کی کتابیں لے کرپڑھیں، اپنے عقیدے کو مضبوط کریں۔ جن کو کتابیں چاہییں یہاں مرکز میں کہہ کر کتابیں لے لیا کریں اور کوشش کریں کہ اپنی بچیاں پڑھنے کے لیے مرکز میں بھجوائیں۔ اپنے بچوں کو وہاں مدرسہ میں بھجوائیں تاکہ بچوں اور بچیوں کے عقیدے بھی ٹھیک ہوں اور اعمامل بھی ٹھیک ہوں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
وَآخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

1 comment:

  1. ایمان افروز تحریر، پڑھ کر علم میں اضافہ ہوا۔ شکریہ

    ReplyDelete