Friday 27 July 2018

چاند گہن؛ افراط و تفریط سے بچیں

چاند گرہن؛ افراط و تفریط سے بچیں
.....
چاند گہن آج رات 10:44 سے شروع ہوگا اور 4:58 تک رہیگا۔
........
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو دین عطا فرمایا ہے وہ افراط وتفریط سے پاک معتدل دین ہے۔ ماہرین فلکیات کی اطلاعات کے مطابق  27 جولائی 2018ء شام کو چاند گرہن ہوگا۔ اس موقع پر ہمارے سادہ لوح مسلمان دو طرح کے طبقات میں خود کو تقسیم کرلیتے ہیں۔ ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کی اس جیسی نشانیوں کو محض سائنس کی کرشمہ سازی سمجھتا ہے جبکہ دوسرا جاہلانہ اوہام و خیالات کا شکار ہو ضعف اعتقادی (حاملہ عورت چھری، چاقو یا تیز دھار آلہ استعمال نہ کرے ورنہ پیٹ میں موجود بچہ یا بچی کے ہونٹ کٹ جائیں گے وغیرہ) میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
دین اسلام مذکورہ بالا دونوں طبقات کے افراط وتفریط پر مبنی نظریات کو بڑی شدومد سے مسترد کرتا ہے اور ایسی معتدل تعلیم دیتا ہے جو انسان کے عقل وشعور، فکر ونظر اور قلبی کیفیات کو حقیقت کی طرف لے جاتی ہے چنانچہ
عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا، أَنَّهَا قَالَتْ خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِالنَّاسِ ….فَخَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ ‏”‏ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لاَ يَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ وَكَبِّرُوا، وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا‏‏.‏ ثُمَّ قَالَ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ! وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ، يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ! وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلاً وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا
صحیح بخاری، باب صدقہ فی الکسوف، حدیث نمبر 1044
ترجمہ: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز(خسوف )پڑھائی……آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں کو خطبہ دیا۔ جس میں اللہ کی حمدوثناء بیان فرمائی۔ اس کے بعد فرمایا: سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں وہ کسی کی موت یا زندگی سے بے نور نہیں ہوتے۔ جب تم گرہن دیکھو تو اللہ کو یاد کرواور تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور خیرات کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اے امت محمد! دیکھو اللہ سے زیادہ کوئی غیرت والا نہیں اس کو بڑی غیرت آتی ہے اگر اس کا بندہ یا بندی زنا کرے۔ اے امت محمد! اگرتم وہ بات جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو تم  کم ہنسے  اور زیادہ روتے۔
حدیث مبارک میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے فکروشعور اور اعتقادات کو صحیح رخ کی طرف موڑتے ہوئے سمجھایا کہ سورج اور چاند گرہن کومحض سائنس کی کرشمہ سازی نہ سمجھو اور نہ ہی اسے تغیرات زمانہ کی طرف منسوب کرو بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے یعنی وہ اپنی قدرت کے اظہار کے لیے انہیں رونما فرماتا ہے۔ فکری تربیت اور اعتقادات کا ضعف دور کرنے کے بعد پھر تین اہم کاموں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے: 
1. نماز، 
2. دعا اور 
3. صدقہ۔
نماز میں اللہ سے مناجات ہوتی ہے مشکل وقت میں نماز کے ذریعے نصرت خداوندی کو طلب کیا جاتا ہے، اہم العبادات ہے قربت الہیٰ کا سب سے اہم اورعام ذریعہ ہے جبکہ دعا عبادت کا مغز اور نچوڑ ہے اللہ کی رحمت کو متوجہ کرتی ہے۔ اسی طرح صدقہ اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے، حادثاتی مصائب کو دور کرتا ہے۔ حدیث کے آخر میں زنا جیسے کبیرہ گناہ سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
اس موقع پر زنا کو ذکر کرنے کی مناسبت یہ نظر آتی ہے کہ لوگوں کو نماز، دعا اور صدقہ جیسے نیک اعمال کرنے کا حکم دیا تو ساتھ میں زنا جیسے کبیرہ گناہ سے رکنے کو بھی کہا کیونکہ زنا ایک کبیرہ گناہ ہے جو مصائب کے نزول کا سبب ہے۔
باقی معاشرتی طور پر بھی زنا ہر قوم میں قبیح اور برا سمجھا جاتا ہے یہ محض انفرادی نوعیت کا گناہ نہیں بلکہ اجتماعی نوعیت کا سنگین جرم ہے جس سے غیرت کا جنازہ نکلتا ہے اور کبھی اسی کی وجہ سے غیرت کے نام پر جنازے اٹھتے ہیں نسب اور میراث کے احکام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے انسانی نظام تباہ ہوتا ہے اور فطرت خداوندی کے اصول پاش پاش ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس موقع پر ایسے گناہ کا ذکر کرنا اس وجہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اتنے بڑے حادثات دیکھ کر انسانوں کے دلوں میں خوف پیدا ہوتا ہے اس خوف کو صحیح سمت کی ضرورت ہوتی ہے اور خوف کی صحیح سمت یہ ہے کہ انسان میں خوف خدا پیدا ہوجائے اور ایسے گناہ جو اس کے عذاب کا ذریعہ بنتے ہیں ان سے توبہ کی جائے۔
اس لیے اعتقادی اور فکری طور پر افراط و تفریط سے بچ کر معتدل نظریہ اپنائیں۔ اس موقع پر احکام شریعت پر عمل کرتے ہوئے نماز ، دعا اور صدقہ کا اہتمام کریں اور تمام گناہوں سے اللہ کے حضور سچی توبہ کریں۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
مسقط سلطنت عمان
جمعرات، 27 جولائی، 2018ء
(وعظ و نصیحت قسط 79)
..............
چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں یہ سورج کی روشنی پڑنے سے چمکتا ہے ..مکمل چاند گرہن کے وقت ہماری زمین سورج اور چاند کے درمیان میں آجاتی ہے اور خلا میں زمین کے پیچھے اس کا سایہ بنتا ہے مکمل گہن کے وقت چاند زمین کے سائے میں داخل ہوجاتا ہے اس طرح سورج کی روشنی چاند پر نہ پہنچنے کی وجہ سے چاند تاریک اور پھر سرخ ہوجاتا اس کو چاند گرہن کہتے ہیں۔ زمین کے سائے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جزوی سایہ جس کو Penumbra اور دوسرا مکمل گہرا سایہ جس کو Umbra کہا جاتا ہے ۔۔۔ چونکہ زمین کا سایہ کافی چوڑا ہوتا ہے لہذا چاند زمین کے مکمل سائے کے ایک چھوٹے سے حصے سے گزرتا ہے کبھی چاند مکمل سائے کے شمالی جانب سے گزرتا ہے تو کبھی جنوبی جانب سے اور کبھی چاند بالکل سائے کے درمیان سے گزرتا ہے جب چاند سائے کے کناروں سے گزرتا ہے تو اس کو مکمل سائے سے گزرنے میں کم وقت لگتا ہے اور درمیان سے گزرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ آج کے مکمل چاند گرہن میں چاند زمین کے مکمل سائے کے درمیان سے گزرے گا اسی وجہ سے چاند کو زمین کا سایہ عبور کرنے میں زیادہ وقت لگ جائے گا ۔۔۔ آج 27 جولائی کو عین مکمل گہن کا (یعنی چاند کے زمین کے مکمل سائے سے گزرنے کا) دورانیہ 1 گھنٹہ 43 منٹ ہوگا ۔۔ 31 جنوری 2018 کو بھی مکمل گہن ہوا تھا لیکن اس گہن میں چاند زمین کے مکمل سائے کے جنوبی جانب سے گزرا تھا یہ فاصلہ اس وقت 1 گھنٹہ 16 منٹ میں طے ہوا تھا ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ مکمل گرہن کا طویل ترین دورانیہ 1 گھنٹہ 47 منٹ ہے اور 16 جولائی 2000 کو مکمل گرہن ہوا تھا اس وقت مکمل گرہن کا دورانیہ 1 گھنٹہ 46.7 منٹ تھا جو کہ زیادہ سے زیادہ ممکنہ دورانیے کے قریب ترین تھا لہذا 16 جولائی 2000 کا مکمل چاند گرہن بیسویں کا سب سے طویل ترین چاند گرہن تھا ۔۔ آپ نے غور کیا بیسویں اور اکیسویں صدی دونوں میں طویل ترین چاند گرہن جولائی میں ہوئے اس کی وجہ یہ ہے کہ جولائی میں زمین سورج کے گرد گردش کرتے ہوئے سورج سے بعید ترین مقام پر پہنچ جاتی ہے اس کو فلکیاتی اصطلاح میں phelion کہا جاتا ہے اس سورج سے دوری کی وجہ سے زمین کا سایہ خلا میں کافی چوڑا ہوجاتا ہے جس سے گزرنے میں چاند کو زیادہ وقت لگتا ہے لہذا گرہن کا وقت طویل ہوجاتا ہے ۔۔ اور جولائی میں چاند زمین سے بعید ترین مقام Apogee ’حضیض قمر‘ پر بھی 27 جولائی کو... اس وقت چاند زمین سے کافی دور ہوتا ہے اور چھوٹا دکھائی دیتا ہے اس  چھوٹے بدر کامل کو Mini Moon یا Micro Moon  کہا جاتا ہے۔ یہ چھوٹا نظر آنے والا چاند جب زمین کے سائے سے گزرے گا تو مکمل گرہن کا دورانیہ اور طویل ہوجائے گا۔۔  آج 27 جولائی کو اکیسویں صدی کا طویل ترین چاند گرہن ہوگا جس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سے بعید ترین مقام پر واقع سال کا چھوٹا ترین چاند Micro Moon جب زمین کے اس سائے سے گزرے گا جو جولائی میں زمین کی سورج سے دوری کی وجہ سے کافی چوڑا ہوگیا ہے تو چاند کے مکمل گرہن کے وقت کا دورانیہ طویل ترین ہوجائے گا ۔۔







No comments:

Post a Comment