Friday 20 July 2018

احرام کی حالت میں عورت کے چہرہ کا پردہ: ایک غلط فہمی اور اس کا ازالہ

احرام کی حالت میں عورت کے چہرہ کا پردہ: ایک غلط فہمی اور اس کا ازالہ
السلام علیکم
1- میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ حج کے دوران احرام میں عورت کے پردے چہرے کے پردے کا کیا حکم ہے؟
2- اسی طرح عمرہ کے دوران احرام میں کیا حکم ہے؟
3- حج اور عمرہ میں احرام کی حالت میں چہرہ نہ ڈھاکنے میں گناہ تو نہیں ہوگا؟
4- اگر حج اور عمرہ میں پردہ کرنا چاہئے تو کس طرح پردہ کیا جاسکتا ہے؟ جبکہ احرام کی صورت میں چہرے پر کوئی کپڑا نہیں لگنا چاہئے۔
جواب: یہ بات سمجھنی چاہئے کہ عورت کے لئے نامحرموں سے پردہ کرنا ایک الگ حکم ہے اور حالت احرام میں چہرہ کو کپڑا لگنے سے بچانا الگ حکم ہے، حالت احرام میں دونوں احکام پر بیک وقت عمل کرنا ضروری ہے جو کہ ممکن ہے اور صحابیات کے زمانہ سے اس پر عمل بھی ہوتا چلا آرہا ہے، اب اس حکم کی انجام دہی کے لئے عورت حسب سہولت کوئی بھی ایسی صورت اختیار کرلے کہ پردہ بھی ہوجائے اور احرام کی پابندی پر عمل بھی، مثلا ایسے ہیٹ کا استعمال جس کے آگے چہرہ ڈھانپنے کے لئے کپڑا لگا ہوا ہو یا گھونگھٹ کو اس طرح گرائے رکھنا کہ پردہ بھی ہو او کپڑا بھی چہرے پر نہ لگے وغیرہ۔ واضح رہے کہ احرام کی حالت میں بھی اجنبی مردوں سے پردہ نہ کرنا اسی طرح گناہ ہے جیسے عام حالات میں اس لئے احرام کی پابندی پر عمل اپنی جگہ ضروری ہے اور پردہ کی پابندی اور اہتمام اپنی جگہ لازم ہے دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے. حاصل یہ ہے کہ پردہ تو کرنا چاہئے، کیوں نفس و شیطان جیسے یہاں ساتھ ہیں وہاں بھی ہوتے ہیں، خود ایک عورت بھی اپنا مشاہدہ بتلاسکتی ہے کہ مرد وہاں بد نظری کرتے ہیں، سلف صا لحین کی عورتیں اس زمانے میں پردے کے حکم پر اس طرح عمل کرتی تھیں کہ وہ خانہ کعبہ سے دور دور طواف کرتی تھیں اور ایسے وقت میں طواف کے لئے جاتی تھیں کہ مردوں کا ہجوم کم سے کم ہو، اب تو عورتیں مردوں کے ہجوم میں گھسنا کمال سمجھتی ہیں، یہ سب تفصیل تو اس صورت میں ہے کہ حالت احرام میں ہوں، احرام اتارنے کے بعد تو پردے کا حکم یہاں کی طرح ہے۔
۲۔ حج اور عمرے کے احرام کا ایک ہی حکم ہے۔
،۴،۳. چہرا ڈھانپنے پر تو گناہ ہوگا، گناہ سے بچتے ہوئے پردہ کرنے کی تدبیر اوپر بتادی گئی ہے۔
جامعہ بنوریہ کراچی
...........
سوال: میں نے سنا ہے کہ: احرام کی حالت میں خواتین کے چہرے کو ڈھانپنے کیلئے استعمال ہونے والا کپڑا لازمی طور پر ناک سے دور رہے، کیا یہ بات درست ہے؟
Published Date: 2015-03-22
الحمد للہ:
ہر مسلمان عورت پر اجنبی مردوں سے چہرہ چھپا کر رکھنا ضروری ہے، اور اگر خاتون حالت احرام میں ہو تو نقاب کے بغیر کسی اور کپڑے سے چہرہ  چھپائے گی، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام والی خواتین کو نقاب پہننے سے منع کیا ہے۔
یہ مسئلہ تفصیلی دلائل کے ساتھ فتوی نمبر: (172289) میں پہلے گزر چکا ہے۔
اور اگر احرام والی خاتون اپنے چہرے کو دوپٹے یا اوڑھنی  وغیرہ سے چھپائے تو  اس کیلئے  چہرے اور کپڑے کے درمیان فاصلہ رکھنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے، اور نہ ہی ایسی کوئی بات منقول ہے جس سے چہرے اور پردے کے درمیان فاصلہ رکھنا لازمی قرار پاتا ہو، بلکہ عہد نبوی میں خواتین کا عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایسا کرنا لازمی نہیں ہے۔
چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: 
"حجاج کےقافلے ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ احرام کی حالت میں تھیں، چنانچہ جیسے ہی قافلہ ہمارے قریب ہوتا  تو   ہر خاتون  اپنی اوڑھنی کو سر کی جانب سے  چہرے  کے آگے لٹکالیتی، اور جب قافلہ گزر جاتا تو ہم  چہرہ کھول لیا کرتی تھیں" احمد، ابو داود، ابن ماجہ
اور یہ بات عیاں ہے کہ جس اوڑھنی کو سر  کی جانب سے چہرے پر لٹکایا جائے تو وہ لازمی طور پر چہرے کو چھوئے گی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (26/112-113) میں کہتے ہیں:
"اور اگر کوئی خاتون اپنے چہرے کو ایسی چیز [کپڑے وغیرہ]سے ڈھانپے جو چہرے کو نہ چھوئے تو یہ بالاتفاق جائز ہے، اور اگر  یہ چیز چہرے کو چھو بھی جائے تو تب بھی صحیح  بات یہی ہے کہ یہ جائز ہے، لہذا کسی  عورت کو اپنا پردہ چہرے سے دور رکھنے کیلئے لکڑی یا ہاتھ وغیرہ استعمال کرتے ہوئے تکلّف کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کے چہرے اور دونوں ہاتھوں  کے بارے میں یکساں حکم  دیا  ہے، اور یہ دونوں  مرد کے بدن  کے حکم میں ہیں، سر کے حکم میں نہیں ہیں، ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اپنے چہروں   کے سامنے پردے کیلئے کپڑا لٹکا لیتی تھیں، اور کپڑے کو چہرے سے دور رکھنے کیلئے کوئی اہتمام نہیں کرتی تھیں۔" انتہی
احرام کی حالت میں مرد کے بدن اور سر میں یہ فرق  ہے کہ:  مرد کیلئے احرام کی حالت میں ایسی چیز کیساتھ سر  ڈھانپنا منع ہے جو سر کیساتھ  متصل ہو، چاہے  یہ چیز عادتًہ سر پر لی جاتی ہو یا نا لی جاتی ہو، جبکہ بدن کو ڈھانپنے سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ ایسے لباس سے منع کیا گیا ہے جو جسم کے مطابق کاٹ کر تیار کیا گیا ہو۔
ابن قیم رحمہ اللہ  کہتے ہیں: 
"ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "جب ہمارے قریب سے قافلے گزرتے تو  ہم میں سے  ہر ایک اپنے چہرے پر  اپنی اوڑھنی  لٹکالیتی تھی." [ام المؤمنین کے قافلے میں] کوئی بھی خاتون اوڑھنی کو اپنے چہرے سے دور رکھنے کیلئے کسی لکڑی  وغیرہ کا استعمال نہیں کرتی تھی، جبکہ کچھ فقہائے کرام [لکڑی وغیر استعمال کرنےکے] قائل بھی ہیں، حالانکہ یہ بات صحابہ کرام کی ازواج  اور امہات المؤمنین سے عملاً یا قولاً یکسر ثابت نہیں ہے،  چنانچہ ایسی چیزوں کا استعمال احرام کا  بنیادی حصہ اور شعار نہیں ہوسکتا جس کا جاننا ہر عام و خاص پر لازمی ہو۔ "انتہی "بدائع الفوائد" (2/664-665)
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"احرام والی خواتین کیلئے اپنے دوپٹے وغیرہ کو   چہرے کے آگے ڈالنا  جائز ہے، اس کیلئے کسی ایسی چیز کو استعمال  ضروری نہیں ہے جو کپڑے کو چہرے سے الگ رکھے، اور اگر یہ کپڑا چہرے کو لگ بھی جائے تو عورت پر کچھ لازم نہیں ہوگا؛ کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے وہ کہتی ہیں: "قافلے ہمارے پاس سے گزرتے اور ہم ۔۔۔ " اور گذشتہ مکمل  حدیث ذکر کی" انتہی "مجموع فتاوى شیخ ابن باز" (16/54-55) ابن باز رحمہ اللہ اسی طرح (16/56) میں کہتے ہیں:
"بہت سی خواتین کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے پردے کے نیچے کسی ایسی چیز کا استعمال کرتی ہیں جو کپڑے کو چہرے سے دور رکھے، ہمارے علم کے مطابق  شریعت میں اسکی کوئی دلیل نہیں ہے، اور اگر یہ کام شرعی ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ضرور بتلاتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اس مسئلے کیلئے خاموشی اختیار کرنا  آپ کے لئے جائز نہیں تھا" انتہی
شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر خاتون کا حجاب احرام کی حالت میں  چہرے کو لگ جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، بر خلاف  ان اہل علم  کے، کہ جن کا کہنا ہے کہ : "احرام کی حالت میں چہرے سے پردے کو دور رکھنا لازمی ہے" کیونکہ انکی  بات کتاب و سنت  کے دلائل سے بالکل عاری ہے" انتہی "مجموع فتاوى شیخ ابن عثیمین" (22/184)
واللہ اعلم.
......................
(۱) یہ صحیح ہے کہ احرام کی حالت میں چہرہ کو ڈھکنا جائز نہیں، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ احرام کی حالت میں عورت کو پردہ کی چھوٹ ہوگئی نہیں! بلکہ جہاں تک ممکن ہو پردہ ضروری ہے یا تو سر پر کوئی چھجا سا لگایا جائے اور اس کے اوپر سے کپڑا (نقاب) اس طرح ڈالا جائے کہ پردہ ہوجائے مگر کپڑا چہرہ کو نہ لگے یا عورت اپنے ہاتھ میں پنکھا وغیرہ رکھے (جہاں مردوں کا سامنا ہو) اُسے چہرہ کے آگے کرلیا کرے، اس میں شبہ نہیں کہ حج کے طویل اور پرہجوم سفر میں عورت کے لیے پردہ کی پابندی بڑی مشکل ہے، لیکن جہاں تک ہوسکے پردہ کا اہتمام کرنا ضروری ہے اور جو اپنے بس سے باہر ہو تو اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں گے۔ اھ (آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۴/۸۸)
(۲) عورت نے چہرہ کپڑے وغیرہ سے ڈھانپ لیا تو اگر ایک دن کامل یا ایک رات کامل اسی طرح (ڈھانپے) رکھا تو جنایت کامل ہوگی، یعنی دم لازم ہوگا اور اس سے کم میں صدقہ واجب ہوگا۔ اھ (احکام حج:۹۵،
مصنفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ)
(۳) سعودی حکومت کا اس سلسلہ میں کچھ نہ کہنا دلیل شرعی نہیں ہے۔ شریعت مطہرہ کا حکم وہ ہے کہ جو نمبر ایک کے تحت تفصیل سے لکھ دیا گیا ہے۔
(۴) نمبرایک میں اسکا حل کردیا گیا، بازار میں بھی جو چھجا نما ٹوپی عامة ملتی ہے اس کو خریدوالیں اور احرام باندھنے سے قبل اپنے مکان پر اس کو لگاکر نقاب کا کپڑا چہرہ کو نہ لگے، ہم نے اپنے ساتھ جانے والی مستورات کے احرام میں اس کا تجربہ کیا تو اس سے الحمدللہ پردہ کا بھی اہتمام رہا اور کپڑا چہرہ کو بھی نہ لگا، عافیت سے احرام کا زمانہ پورا ہوگیا، دعاء ہے کہ اللہ پاک آپ کو اور آپ کے شوہر کو نیز دیگر تمام حجاج کرام کو حج مبرور ومقبول کی دولت سے مالامال فرمائے، عافیت سے تمام مناسک حج کی ادائیگی کی توفیق بخشے، سعادتِ دارین سے نوازے اور تمام مکارہ وکلفتوں سے محفوظ رکھے۔ آمین
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
.........................
اکثر خواتین سمجھتی ہیں کہ حالتِ احرام میں چونکہ چہرہ پر نقاب یا کپڑا لگانا منع ہے تو شاید حالتِ احرام میں پردہ کا حکم ہی نہیں ہے، جبکہ شرعاًایسا نہیں ہے کیونکہ جیسے عام حالت میں چہرہ کا پردہ ضروری ہے اسی طرح حالت احرام میں بھی چہرہ کا پردہ ضروری ہے تاہم وہ پردہ اس طرح کیا جائے گاکہ کپڑا چہرہ پر نہ لگے،اور یہ حکم احادیث سے ثابت ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے دور میں بھی حالت احرام میں خواتین کے سامنے کوئی نامحرم آتا تو وہ اپنے چہرے پر اس طرح نقاب ڈال لیتی تھی کہ وہ چہرے کی جلد کو مس نہیں کرتاتھا۔جیساکہ احادیث کی کتب ابوداؤد اور مشکوۃ سے دو روایات درج ذیل ہیں:
1. عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ الرُّكْبَانُ يَمُرُّونَ بِنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مُحْرِمَاتٌ فَإِذَا حَاذَوْا بِنَا سَدَلَتْ إِحْدَانَا جِلْبَابَهَا مِنْ رَأْسِهَا إِلَى وَجْهِهَا فَإِذَا جَاوَزُونَا كَشَفْنَاهُ.(سنن أبى داود – 2/ 104)
2. وعن عائشة رضي الله عنها قالت : كان الركبان يمرون بنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم محرمات فإذا جاوزوا بنا سدلت إحدانا جلبابها من رأسها على وجهها فإذا جاوزونا كشفناه. صحيح (مشكاة المصابيح – 2/ 107)
ترجمہ: ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سوار ہمارے سامنے سے گزرتے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھے ہوتی، جب سوار ہمارے سامنے آ جاتے تو ہم میں سے پر ایک اپنے نقاب اپنے سر سے چہرے پر ڈال لیتے اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اسے کھول لیتے۔
مذکورہ حدیث میں چہرے پر نقاب ڈالنے کی تشریح میں مشکوۃ کی مشہورشرح مرقاۃ کے مصنف ملا علی قاریؒ مرقاۃ میں لکھتے ہیں کہ چہرہ پرنقاب ڈالنا اس طرح ہوتا تھا کہ وہ چہرے کی جلد کو مس (Touch) نہیں کرتا تھا۔
(مَنْ رَأْسِهَا عَلَى وَجْهِهَا) : بِحَيْثُ لَمْ يَمَسُّ الْجِلْبَابُ بَشَرَةَ الْوَجْهِ.( مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح -5/ 1852)
وهو محمول على توسيط شيء حاجب بين الوجه وبين الجلباب (الموطأ – 2/ 260)
قرآن و حدیث اور مذکورہ روایات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ خواتین کےاحرام میں دو باتیں ہیں، ایک چہرہ پر کپڑے کانہ لگنا اور دوسرا پردے کامستقل حکم جو احرام کی وجہ سے ختم نہیں ہوتا۔
اب کوئی ایسا طریقہ اپنایا جائے جس سے حالتِ احرام میں یہ دونوں شرعی حکم (چہرہ پر کپڑے کا نہ لگنا اورشرعی پردہ) پورے ہوجائیں، پہلے دور میں حضرت عائشہؓ اور دیگر صحابیات رضی اللہ عنہن کے طریقہ پر عمل ممکن تھا جبکہ موجودہ دور میں مکہ و مدینہ میں آبادی اور حاجیوں کی کثرت کی وجہ سے خواتین کیلئےاس طریقہ پرعمل ممکن نہیں رہا،اس لئے موجودہ دور میں مخصوص ہیٹ اس کا آسان حل ہے، یہی وجہ ہے کہ حج پر جانے والی خواتین کوپردہ کا شرعی حکم سہولت و آسانی سے پورا کرنے کیلئے اسی مخصوص ہیٹ کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ نیزعلماء نےلکھاہےکہ مسجد حرام و مسجد نبوی میں کسی نیک کام پرجیسےثواب زیادہ ہے تو اسی طرح خلاف شریعت کام پر گناہ بھی زیادہ ہوگا، اس لئے خواتین حج کےمکمل سفر میں پردے کا خاص اہتمام فرمائیں تاکہ اس سفر کا مقصدِ اصلی یعنی اللہ تعالی کی رضاءاور حج مقبول کا ثواب حاصل ہوجائے،اور احادیث میں حج مقبول کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس میں کسی قسم کاگناہ نہ کیا جائے۔
مَنْ حَجَّ لِلهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ (صحيح البخاري- ص: 274)
ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اللہ کے لیے اس شان کے ساتھ حج کیا کہ نہ کوئی فحش بات ہوئی اور نہ کوئی گناہ تو وہ اس دن کی طرح واپس ہو گا جیسے اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» (سنن الترمذي – 3/ 167)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے حج کیا اور اس نے کوئی فحش اور بیہودہ بات نہیں کی، اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کیا تو اس کے گزشتہ تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے“۔
چند مسائل:
1۔ عورت کے لئے احرام کے دوران سرپر پہننے کے لئے کوئی کپڑامثلا اسکار ف وغیرہ شرعاضروری نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس کے احرام کا حصہ ہے، اس کا احرام تو صرف چہرہ پر ہے کہ چہرہ پرکوئی کپڑا لگانہ رہے، نیز اگر اسکارف اس طرح باندھا جائے کہ جس سے پیشانی چھپ جائے تو خواتین کیلئےاس طرح اسکارف استعمال کرنا درست نہیں کیونکہ پیشانی بھی چہرہ کی حد میں داخل ہے، البتہ اگرکوئی خاتون بطورِ احتیاط یا ویسے ہی اسکارف بھی پہننا چاہے اوراس کی وجہ سے پیشانی نہ چھپے تو اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم یہ احرام کا حصہ نہیں ہے، لیکن ہیٹ یا اس قسم کی کسی دوسری چیز سے چہرہ چھپانا ضروری ہے جیسے اوپر وضاحت سے ذکر کیا ہے۔
2۔ اگر نقاب ہوا وغیرہ کی وجہ سے چہرے پر لگ کر علیحدہ ہوجاتا ہے تو اس کی وجہ سے عورت پر کچھ بھی واجب نہیں ہے البتہ اگرمستقل لگارہے تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ تھوڑی دیر (ایک گھنٹہ سے کم وقت ) کے لئے عورت کے چہرے کو لگارہے، یا چہرہ کے چوتھائی حصہ سے کم کو لگارہا تواس صورت میں اس پرایک مٹھی گندم صدقہ کرنا واجب ہے اوراگرایک گھنٹہ یا اس سے زائد وقت اورایک دن یا ایک رات (یعنی بارہ گھنٹے) سے کم کم لگارہے تو اس صورت میں پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے، اور اگر بارہ گھنٹہ یا اس سے زیادہ وقت پورا چہرہ یا اس کا چوتھائی حصہ کو نقاب سے لگارہا تو اس صورت میں ایک دم واجب ہوگا۔
3۔ دم کی ادائیگی کاطریقہ یہ ہے کہ ایک سال کی عمر کا صحیح سالم بکرا یا بکری حدود ِحرم میں ذبح کرکے اس کا گوشت فقراء اور مساکین پر صدقہ کردیاجائے ،اس میں سے خود کھانا یااپنی بیوی، بچوں کوکھلانا یا مالداروں کو کھلانا جائز نہیں۔
تحریر: محمدعاصم، متخصص فی الافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی

No comments:

Post a Comment