Sunday 15 July 2018

فیصلہ ہفت مسئلہ: حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی رہنمائی

فیصلہ ہفت مسئلہ: حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی رہنمائی
حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ علیہ (1899-1818) انیسویں صدی کے مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ ہندوستان میں دیوبندی مکتب فکر کی علمی، دعوتی اور متصوفانہ روایت جتنی کچھ بھی ہے، وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ حاجی صاحب ہی سے پھوٹی ہے۔ ان کے وابستگان میں مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، مولانا ذولفقار علی، مولانا یعقوب احمد نانوتوی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا فیض الحسن سہارن پوری، مولانا محمود الحسن مدنی رحمہم اللہ جیسے دیوبندی اکابرین شامل ہیں۔
بیسویں صدی میں رونما ہونے والے انتہائی شدید دیوبندی بریلوی اختلافات کے باوجود جن میں مندرجہ بالا بعض دیوبندی اکابرین پر کفر اور پورے دیوبندی مکتب فکر پر گمراہی کے فتوے بھی بریلوی اہل علم کی طرف سے لگا ئے گئے، بریلوی حضرات کے ہاں حاجی صاحب کو بالعموم احترام  کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بعض روایات کے مطابق پیر مہر علی شاہ جیسے بڑے بریلوی بزرگ بھی حاجی صاحب سے فیض یافتہ تھے اور انھی کی ہدایت پر حجاز مقدس سے واپس ہندوستان لوٹے تھے۔
حاجی صاحب کی ایک تصنیف ’’فیصلہ ہفت مسئلہ‘‘ ان سات اہم مگر فروعی مسائل کے بارے میں ایک رہنما تحریر ہے جنھوں نے تقریبا ایک صدی سے برصغیر میں زبردست مسلکی انتشار و اختلاف پیدا کر رکھا ہے۔ ان سات مسائل میں حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ایک الگ موضوع ہے، مگر اس تحریر میں انھوں نے ایک ایسی بات بھی لکھی ہے جو ہر قسم کے اختلافات کو ختم نہ بھی کرے تب بھی ایک ایسے دائرے میں لے آتی ہے جہاں یہ باعث فساد نہیں رہتے۔
وہ اس تصنیف میں پہلے مسئلے یعنی مولود شریف کی بحث کے آخر میں لکھتے ہیں:
’’عوام کو چاہئے کہ جس عالم کو متدین (دین دار) اور محقق سمجھیں اس کی تحقیق پر عمل کریں اور دوسرے فریق کے لوگوں سے تعارض نہ کریں۔ خصوصاً دوسرے فریق کے علما کی شان میں گستاخی کرنا، چھوٹا منہ اور بڑی بات کا مصداق ہے۔ غیبت اور حسد سے اعمال حسنہ ضایع ہوتے ہیں۔ ان امور سے پرہیز کریں اور تعصب و عداوت سے بچیں۔ اور ایسے مضامین کی کتابیں اور رسالے مطالعہ نہ کیا کریں کہ یہ علما کا کام ہے۔ عوام کو علما سے بدگمانی اور مسائل میں شبہ پیدا ہوتا ہے ۔‘‘
بلاشبہ یہ ایک انتہائی سچی بات ہے۔ ہمارا دین ایک محفوظ دین ہے۔ ہمارے دین کے بنیادی عقائد اور اعمال جتنے کچھ اللہ کے ہاں جوابدہی کا باعث ہوں گے وہ سب کے سب خاتم الانبیا علیہ الصلوۃ والسلام خود اپنی تعلیمات میں واضح طور پر بیان کرکے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود علم کی دنیا میں جزئی اور فروعی چیزوں پر اہل علم میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ اہل علم میں اختلاف ہونا ایک فطری چیز ہے۔ وہ پہلے بھی ہوا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ اس سے کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔
مسئلہ تب ہوتا ہے جب سطحی علم کے کچھ لوگ اور عوام الناس علمی  معاملات میں کود پڑتے ہیں۔ ایسے جہلا پورے اعتماد سے تنقیدیں لکھتے ہیں، پروپیگنڈے کرتے ہیں، الزام و بہتان کے تیر برساتے ہیں، کفر و ضلالت کے فیصلے کرتے ہیں حتیٰ کہ گالیوں اور بے ہودہ کلمات سے ہر اس شخص کو نوازتے ہیں جو ان کے نقطہ نظر سے مختلف رائے رکھتا ہو۔ یہ سب کچھ کرتے ہوئے وہ علم و اخلاق کے ہر مسلمہ ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ان کا دل حسد و نفرت سے بھرا ہوتا ہے۔ ان کی زبان غیبت سے آلودہ ہوتی ہے۔ ان کا ذہن الزام و بہتان کی فیکٹری بن جاتا ہے، ان کا قلم جھوٹ اگلتا ہے مگر حال یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں میں دین حق کے ترجمان اور اسلام کی مدافعت کا نعرہ لے کر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی وہ صورتحال ہے جس نے آج ہمارے ہاں علمی و ذوقی اختلافات کو فرقہ وارانہ تعصبات میں بدل دیا ہے۔
ایسے میں حاجی صاحب کی رہنمائی شاید وہ سب سے اہم چیز ہے جس کی آج دین کے نام پر کھڑ ے لوگوں کو سب سے بڑھ کر ضرورت ہے۔
----------------------------
قارئین ذی وقار!
نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلابات کئی خصوصیات کے حامل ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوٹی ہوئی انسانیت کو ایک جسم کی مانند کر دیا اور رحمت والے جھنڈے کے نیچے سب کو اکٹھا فرما دیا۔ جو لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے وہ ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے لگے قرآن مقدس نے بھی اس بات پر کافی زور دیا ہے کہ اُمت مسلمہ کا اتفاق و اتحاد ہونا چاہیے اور اُمت مسلمہ مل جل کر رہے۔ جیسا کہ قرآن شاہد ہے
حکم قرآنی اور انقلاب مصطفوی کے ساتھ ساتھ وقت کے حالات بھی یہی چاہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق ہو،اور یہ اُمت مسلمہ کفر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے۔
مگر افسوس کہ غیر مسلم لوگوں کے ہاتھوں ایجنٹ بن کر کام کرنے والے کبھی ان باتوں کا خیال کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
ہمیں اس وقت بریلوی حضرات کے متعلق کچھ لکھنا ہے اور ہم نہایت دیانتداری سے چند باتیں عرض کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ اُمت مسلمہ کا اتفاق و اتحاد پھر سے قائم ہو۔ اور ساتھ ساتھ آپ کو یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ کون اس اتحاد و اتفاق کے حق میں نہیں ہے اور ہم کوششیں کریں گے کہ بریلوی حضرات کے گھر سے ہی کچھ عرض کریں۔
اور یہ ثابت کریں گے کہ اتفاق و اتحاد میں بڑی رکاوٹ یہ حضرات ہی ہیں اور انسانیت میں پھوٹ ڈالنے والے یہ خود ہی ہیں۔
جیسا کہ ’’سوانح حیات اعلیٰ حضرت بریلوی‘‘ کے ص8پر موجود ہے کہ
مولانا احمد رضا خان صاحب پچاس برس مسلسل اسی جدوجہد میں لگے رہے یہاں تک مستقل دو مکتبہ فکر قائم ہو گئے۔ بریلوی اور دیوبندی۔
تو کیا جو ابتدا ہی میں اُمت مسلمہ کو ان حالات سے دو چار کرنے والے ہوں کیا ان حالات سے نکالنا پسند کریں گے نہیں اور ہرگز نہیں۔ یہ سنی اور بریلوی جھگڑا مولانا احمد رضا خان کی مہربانیوں میں سے ایک مہربانی ہے اور یہی بات ہم آگے جا کر مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی کے قلم سے بھی آپ کو دکھائیں گے کہ فاضل بریلوی کے وجہ سے گھر گھر میں جھگڑا پیدا ہوا، حالانکہ موصوف بھی بریلوی ہیں مگر بات تو سچ ہی کہہ دی۔
القصہ آئیے اور دیکھیے کہ کون اس اتفاق و اتحاد کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔
مفتی فیض احمد اویسی لکھتے ہیں:
فرقہ واریت ختم ہو سکتی ہے؟
امابعد فقیر اویسی غفرلہ ان مخلص کلمہ گو حضرات سے اپیل کرتا ہے فقیر کے رسالہ ہذا کو غور سے پڑھنے کے بعد دو گروہوں کو ان مسائل و عقائد پر متفق ہو کر عام پرچار کرنا ہو گا۔ جن پر دونوں گروہوں کے سربراہ متفق ہیں فضلا ء دیوبند کے مرکزی پیر و مرشد حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور موصوف کو بریلوی بھی اپنا مقتدر بزرگ تسلیم کرتے ہیں کیونکہ بریلویت کی بہت سی مقتدر شخصیات کے بھی پیرومرشد ہیں اگر ان دو گرہوں میں جو بھی حاجی صاحب کے عقائد و معمولات کے خلاف ہو اسے سمجھ لیں وہی فساد کی جڑ ہے۔
انعام اللہ فی عقائد حاجی امداد اللہ ص4، بتغییریسیر
اور یہی بات اویسی صاحب نے ص 7 پر بھی لکھی ہے اور یوں لکھتے ہیں اگر وہ (دیوبندی حاجی صاحب کا فیصلہ) نہ مانیں تو سمجھ لیں کہ یہی فساد کی جڑ اور ملا فی سبیل اللہ فساد۔
معلوم ہو گیا جو حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ نہ مانے بریلویوں کے اصول سے وہی فساد کی جڑ ہے چونکہ پہلے ایمانیات و عقائد کی بات ہوتی ہے اور اویسی صاحب نے بھی پہلے عقائد کی بات کی پہلے ہے اسی کو پہلے دیکھ لیتے ہیں۔
حاجی صاحب فیصلہ ہفت مسئلہ کے آخر میں ص 13پر یوں ارشاد فرماتے ہیں
اہل اللہ کی صحبت و خدمت اختیار کریں خصوص عزیزی مولوی رشید احمد صاحب کے وجودبابرکت کو ہندوستان میں غنیمت کبرٰی و نعمت عظمیٰ سمجھ کر ان سے فیوض و برکات حاصل کریں کہ مولوی صاحب موصوف جامع کمالات ظاہری و باطنی کے ہیں ان کی تحقیقات محض للہیت کی راہ سے ہیں ہرگز اس میں شائبہ نفسانیت نہیں یہ وصیت تو مولوی صاحب کے مخالفین کو ہے۔
کلیات امدادیہ ص 86
حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ضیاء القلوب ص72 پر یوں ارشاد فرماتے ہیں جو شخص مجھ سے عقیدت و محبت رکھے وہ مولوی رشید احمد صاحب سلمہ اور مولوی محمد قاسم صاحب سلمہ کو جو کمالات ظاہری و باطنی کے جامع ہیں۔ میری جگہ بلکہ مجھ سے بھی بلند مرتبہ سمجھے اگرچہ ظاہر میں معاملہ برعکس ہے کہ میں ان کی جگہ پر اور وہ میری جگہ پر ہیں اور ان کی صحبت کو غنیمت سمجھے کہ ان کے ایسے لوگ اس زمانے میں نہیں پائے جاتے ہیں اور ان کی بابرکت خدمت سے فیض حاصل کرے اور سلوک کے طریقے جو اس کتاب میں ہیں ان کے سامنے حاصل کرے ان شاء اللہ بے بہرہ نہ رہے گا۔ خدا ان کی عمر میں برکت دے اور معرفت کی تمام نعمتوں اور اپنی قربت کے کمالات سے مشرف فرمائے اور بلند رتبوں تک پہنچائے اور ان کے نور ہدایت سے دُنیا کو روشن کرے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں قیامت تک ان کا فیض جاری رکھے۔
کلیات امدادیہ: ضیاء القلوب ص72،73
بریلوی حضرات سے ہمارا سوال ہے کہ تم ان فیصلوں کو ماننے کے لیے تیار ہو؟ بریلوی کبھی بھی اس پیالے کو اپنے منہ سے لگانے کے لیے تیار نہیں۔ تو فساد کی جڑ بریلوی ہوئے یا ہم؟………
بریلوی علماء کی ہٹ دھرمی دیکھیے کہ ایک صاحب جو بریلویت کے بہت بڑے علامہ ہیں حیدر آباد دکن سے اس فیصلہ ہفت مسئلہ کی شرح کرنے اُٹھے جب آخر میں پہنچے جہاں وصیت لکھی تھی تو چپ سادھ لی اور یوں گوہر افشانی کی کہ
ہاں وصیت کے عنوان سے شاہ صاحب نے جوکچھ تحریر کیااسے ہم نے قابل توضیح نہ جانا اور اس عبارت کو ہاتھ نہ لگایا کہ فتنہ خوابیدہ بہ۔
فیصلہ ہفت مسئلہ توضیحات و تشریحات ص311
یعنی وصیت کوہاتھ لگاتے ہیں تو فتنہ جاگ جائے گا اور اسے نہ جگانا بہتر ہے واہ بریلویو واہ حاجی صاحب کی وصیت جس میں قطب الارشاد حضرت گنگوہی کی تعریف و توثیق تھی جو ہم نقل کر آئے ہیں اس وصیت کا ہاتھ لگانا فتنہ سمجھتے ہو۔ تو فسادی تم ہی ہوئے نہ کہ ہم
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا
ہو سکتا ہے کہ کسی کے جی میں آئے کہ اکابر دیوبند کو تو سعودیہ کے علماء نے کافر کہا ہے اس کا تفصیلی جواب تو آگے آئے گا۔ اختصار سے ہم کچھ یہاں بھی عرض کر دیتے ہیں کہ ان میں سے کئی حضرات نے اپنے فتاویٰ میں یوں لکھ دیا تھا کہ اگر یہ باتیں واقعی ان حضرات نے کہیں ہیں یا اگر یہ باتیں ان سے ثابت ہو جائیں وغیرہا اس طرح کی باتیں لکھ کر ثابت کردیا جن کا یوں عقیدہ ہو وہ کافر ہے اور یہ بات تو ہمارے اکابر سے لے کر آج تک ہم کہتے چلے آرہے ہیں کہ یہ ہمارے عقیدے نہ تھے بلکہ ہم پر یہ فاضل بریلوی کے الزامات ہیں۔
اس بات کی وجہ اول یہ ہے کہ فاضل بریلوی کو انصاف کا تقاضا مد نظر رکھنا چاہیے تھا اور ان حضرات کی پوری پوری باتیں نقل کرتے جیسا کہ اپنی باری میں بریلوی حضرات نے یہ بات اپنے مخالفین کو کہہ دی ’’اتحاد بین المسلمین وقت کی اہم ضرورت‘‘ ص 32پرلکھا ہے کہ
’’ انصاف کا تقاضا تھا کہ ہر عنوان پر وہ مولانا کی پوری عبارت نقل کرتے اور پھر اس پر رائے زنی کرتے۔ سیاق و سباق سے منقطع جملوں کو سامنے رکھ کر انہوں نے اپنے اشہب قلم کی جولانی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘ انتٰہی
دوسری وجہ یہ ہے کہ اپنی باری میں بریلوی یوں کہتے ہیں کہ عداوت و افتراق بین المسلمین کا ابلیسی پروگرام بنا کر ایک فتنہ گر فسادی مولوی نے عربی زبان میں ’’البریلویہ‘‘ لکھی ہے جس میں غلط حوالے دے کر عبارتوں کو توڑ موڑ کر اور مفہوم کو مسخ کرکے گم راہی پھیلائی۔
اتحاد بین المسلمین ص 66
ہم بھی یہی کہتے ہیں بریلویوں کے بارے میں جو انہوں نے غیر مقلدین کے عالم احسان الہٰی ظہیر کے متعلق لکھا ہے۔
تیسری وجہ احمد رضا کے ہمارے خلاف لگائے جانے والے فتوؤں کے الزام محض ہونے کی یہ ہے کہ مولوی عبد الستار خان نیازی لکھتے ہیں
اگر کسی کتاب میں قابل اعتراض عبارت نظر آجائے تو اس کی مراد متعین کرنے کا حق مصنف کو ہو۔
اتحاد بین المسلمین ص 116
ہمیں اس حق سے بھی بریلویوں نے محروم رکھا جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ فتوے محض الزام تھے۔
چوتھی وجہ یہ بھی ہے کہ مولوی عبد الستار خان نیازی لکھتے المھند کی اشاعت کے بعد تمام غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں اور موافقت کی راہ کھل جاتی ہے۔
اتحاد بین المسلمین ص 136
یعنی جو فتاوی جات اکابر دیوبند پر لگائے گئے ان کی صفائی المھند میں دیدی گئی اور غلط فہمی لوگوں کی دور ہو گئی تو وہ فتوے الزام ہی تو رہ گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ فاضل بریلوی اور ان کے ہم نوا ابھی تک یہی رٹ لگا رہے ہیں کوا سفید ہی ہوتا ہے یا مرغی کی ایک ٹانگ پر اڑے ہوئے ہیں چونکہ جو فتنہ و فساد ڈالنے والا ہوتا ہے وہ ایسے ہی کیا کرتا ہے کسی کی مانتا ہی نہیں جب مسلک بریلوی کے ذمہ دار آدمی مولانا عبد الستار خان نیازی کہہ رہے ہیں کہ ہماری غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں تو باقی بریلوی حضرات کو بھی توبہ تائب ہو کر رجوع کر لینا چاہیے تھا مگر جب مقصود ہی امت کو توڑنا اور ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہو پھر اپنی بات پر ہی تو فاضل بریلوی کو جمنا ہوگا۔
القصہ یہی بات ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ سعودیہ کے علماء نے تو یہاں تک فتویٰ دیا البریلویہ بعد القادیانیہ یعنی قادیانیوں کے بعد بریلویوں کی باری ہے۔ انہیں بھی ویسے کافر قرار دیا جائے جیسے قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا اور ابوظہبی کے اخباروں میں بھی خبریں چھپی تھیں کہ بریلوی دین سے خارج ہیں۔
سکین پیجز ملاحظہ فرمائیں
اب جو جواب بریلوی دیں وہی ہماری طرف بھی سے قبول فرما لیں۔
آج سے کچھ عرصہ قبل مولوی عبدالستار خان نیازی صاحب جو بریلوی مسلک کے مقتدر رہنما تھے نے ایک آواز اُٹھائی کہ اُمت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق پر زور دیاجائے اور اس سلسلہ میں وہ ایک کتاب لکھتے بھی نظرآتے ہیں۔ ’’اتحاد بین المسلمین و قت کی اہم ضرورت‘‘مگر پڑھ کر افسوس ہوا کہ نام تو کیسا خوبصورت اور اندر سراسر بریلویت کی ترجمانی۔ بہرکیف…
انہوں نے چارنکاتی فارمولا پیش کیا تھا کہ اگر اس پر عمل کر لیا جائے تو پاکستان میں فرقہ واریت ختم ہو سکتی ہے۔ ہم ترتیب سے ہر شق کو لاتے ہیں پھر اس پر کچھ گفتگو عرض کریں گے۔
نیازی صاحب لکھتے ہیں:
اتحاد ملت کے چار نکات:
پاکستان کی تمام جماعتیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے افکار و نظریات پر اصولاً متفق ہیں لہٰذا ہم اپنے تمام متنازعہ فیہ امور ان کے عقائد و نظریات کی روشنی میں حل کریں۔
اتحاد بین المسلمین ص113
تبصرہ:
نیازی صاحب انتہائی معذرت و افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ بریلوی دھرم میں ان حضرات کی تحریرات پر کفراور ان پر گستاخ رسول ہونے کے فتاویٰ درج ہیں اور ان میں سے بعض تو آپ کے قلم کی زد میں بھی آ گئے اب آپ کیسے کہہ رہے ہیں کہ ان کو ثالث ماناجائے ؟ بغل میں چھری منہ میں رام رام والی بات ہی ہو گی۔
----------------------------
سوال # 61144
کتاب 'فیصلہ ہفت مسئلہ' کس کی تصنیف ہے اور پڑھنا اس کتاب کا جائز ہے یا نہیں؟
Published on: Sep 15, 2015 
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1146-961/D=11/1436-U
”فیصلہ ہفت مسئلہ“ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی قدس سرہ کی تصنیف ہے جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ سے لکھوائی تھی، خاص حالات میں لکھی گئی تھی، عبارت اور زبان بھی پرانی ہے، مسائل بھی دقیق ہیں، پڑھنے والا ان مسائل کے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو پڑھ سکتا ہے۔
(۲) پڑھنے کا مقصد اور ضرورت واضح کریں۔
(۳) اس کتاب کے دو ضمیمے ہیں ایک حضرت گنگوہی کا ایک حضرت تھانوی کا انہیں بھی پڑھ لینا ضروری ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment