Monday 23 July 2018

ایک بریلوی کی انکشافی تحریر؛ لڑکیوں کے مدرسے یا عشق وسرمستی کے اڈے؟

ایک بریلوی کی انکشافی تحریر؛
لڑکیوں کے مدرسے یا عشق وسرمستی کے اڈے؟

کسی زمانے میں کتابت نسواں کی حرمت کی وجہ سے صرف لڑکوں کے مدرسے ہوا کرتے تھے، لڑکیوں کے مدرسہ کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، کتابت نسواں کا مسئلہ اگرچہ اختلافی رہا ہے مگر جمہور علماء اہلسنت نے عدم جواز پر اعتماد فرمایا اور سد باب فتنہ کے پیش نظر اسی کا فتویٰ دیا لھذا لڑکیوں کے مدرسہ کا کوئی خیال تک دل میں نہیں لاتا تھا، مدرسے بہت ہوا کرتے تھے مگر صرف لڑکوں کے لئے--چنانچہ کبھی کبھار ان مدرسوں میں موضع فرث سے لطف اندوز ہونے اور ملت کے نونہالوں کے حلقوم عفت پر بےدرد چھری چلاۓ جانے کے واقعات رونما ہوجاتے تھے لیکن اب زمانہ ترقی کررہا ہے اب جابجا لڑکیوں کے مدرسے کھولے جارہے ہیں  اب موضع فرث سے موضع حرث کا رخ اختیار کرلیا گیا اور غیر فطری حرکت سے بچنے کا محفوظ اور آسان راستہ ڈھونڈ نکالا گیا ---- برہنہ سر، تنگ و چست اور چمکیلے لباس میں ملبوس اسکولوں، کالجوں کی طرف جاتے آتے نازنینوں کو دیکھ کر کچھ لوگوں کے منہ میں پانی آجاتا تھا اور وہ اپنا دل مسوس کر رہ جاتے تھے کہ اسکول وکالج والے ہم سے بازی لے گئے --- اور اک زمانے تک احساس کمتری کے شکار رہے ---------- لیکن بھلا ہو حضور محدث کبیر کا کہ سد باب فتنہ سے متعلق تمام مسائل کو درکنار کر عقیدہ وعمل کے اصلاح کی دہائی دیکر سب سے پہلے گھوسی میں کلیۃ البنات الامجدیہ کے نام سے ملت کے نازنینوں کے لئے ایک ادارہ قائم کرہی دیا ----------- اس کی وجہ سے لڑکوں کی عزت تو محفوظ ہوگئی مگر بے چاری لڑکیاں زد پر آگئیں اور اب جدھر دیکھو ادھر لڑکیوں کے مدرسے کھولے جانے کی اک باڑھ آگئی اور اب تو مدرسہ کھولنے والے ناظموں، انکے بیٹوں، بھتیجوں اور دیگر ارکان انتظامیہ کے لئے ہر موسم، موسم بہار ہے جسکی وجہ سے کئی اسکینڈل تو اخباروں کی زینت بن چکے ہیں پہلے وہابیہ، دیابنہ کے لڑکیوں کے مدرسوں کی خبریں آتی تھیں مگر اب سنیوں کے اداروں کی بھی خوب آرہی ہیں---------- ابھی کچھ دنوں پہلے راۓ پور چھتیس گڑھ کے سنی مدرسہ کی ایک طالبہ کے حاملہ ہونے کی خبر اخبار میں آئی ابھی وہ ٹھنڈی بھی نہ ہوپائی تھی کہ لکھنو کے ایک اشرفی پیر طریقت کے مدرسہ کی خبر ٹی وی اور اخباروں میں بڑے چٹ پٹے انداز میں پیش کی گئی کہ وہاں پڑھنے والی لڑکیوں سے جسم فروشی کروائی جاتی ہے اور ناظم مدرسہ ہر رات کسی نہ کسی طالبہ کو اپنی ہوس کا شکار بناتا ہے -رتناگیری  مدرسہ کی خبر کئی بار آئی کہ وہاں پڑھنے والی کئی طالبات بلا کسی ظاہری سبب کے حاملہ ہوگئیں- مراداباد میں ایک معروف قاری عامر نے لڑکیوں کا مدرسہ کھولا جہاں طالبات سے انکے بھتیجوں اور دیگر رشتہ داروں کے ناجائز تعلقات قائم ہوئے---- کالپی شریف میں سید غیاث میاں کی شہرت بھی اس سلسلے میں کم نہیں پہلے دوران تعلیم مفتی شہباز انور کی بیٹی سے معاشقہ جو نکاح پر منتہی ہوا اور ان سے بچے بھی ہوۓ ابھی دو چند سال پہلے شاہجہاں پور میں انھوں نے اپنے عقیدت مندوں کے یہاں قیام کرتے کرتے پہلے تو انکی بیٹی پر ہاتھ صاف کیا جس کا کفارہ نکاح سے ادا کیا لیکن اس کے بعد بھی ہوس کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی اسکے لئے لڑکیوں کا ایک مدرسہ کھولا جہاں طالبات کے رہائشی کمرے موصوف کے آرام گاہ سے بالکل متصل ہے جس میں ایک چور دروازہ بھی لگا ہے بظاہر دن بھر اس پر تالا لگا رہتا ہے لیکن رات بھر اسکی چابی سجادہ نشین موصوف کے پاس رہا کرتی ہے. سجادہ نشین موصوف کو بچیوں کے ان رہایشی کمروں کے توسل سے صبح بنارس اور شام اودھ کی ساری رعنائیاں گھر بیٹھے میسر ہیں اور قوم اپنی بچیوں کو انکی خدمت میں پیش کرنے سے دریغ بھی نہیں کررہی ایک رات انکی بیوی صاحبہ نے ایک معلمہ کے ساتھ منہ کالا کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑلیا اور ایسا ہنگامہ مچایا کہ الامان و الحفیظ! علاقے بھر کے سنی مسلمانوں کے سر شرم سے جھک گئے مگر موصوف کی بے شرمی آج بھی بام عروج پر ہے------انھیں کے ایک معتقد اور مرید قاری عبد السمیع نے جب دیکھا کہ انکے مرشد نے اتنا بڑا کام کرلیا ہے اور پیر صاحب کے حرم سرا میں انکی دال نہیں گلنے والی تو انہوں نے بھی لڑکیوں کا ایک مدرسہ کھول لیا، قاری صاحب کے مدرسہ میں صرف تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ بچیوں کو سیر و تفریح بھی کروایا جاتا ہے تاکہ انکے دماغ روشن ہوں اور وہ ہمیشہ کے لئے "روشن دماغ" بن جایئں- اسکول وکالج والے تو آگرہ، دلی اور لکھنؤ لے جاکر تاج محل، لال قلعہ، قطب مینار اور لکھنؤ کی بھول بھلیاں کی سیر کرواتے ہیں مگر قاری صاحب پکے دیندار ہیں لہذا وہ ان بچیوں کو دور دراز کی درگاہوں اور خانقاہوں کی سیر کرواتے ہیں کبھی کبھار تو انھیں بریلی شریف جیسے مقدس شہر میں دس دس پندرہ پندرہ دن کے لئے ہوٹل بک کروانا پڑتا ہے اور اس سفر میں بچیوں کے ماں باپ بھائی بہن سب کچھ قاری صاحب ہوتے ہیں ظاہر ہے محرم راز کے ہوتے ہوئے کسی اور محرم کی کیا ضرورت ہے؟----گھوسی کے کلیۃ البنات الامجدیہ کے قصے زبان زدِ خاص و عام ہیں محدث کبیر کے بیٹے جمال مصطفیٰ نے ایک کمسن طالبہ سے معاشقہ کے بعد شادی رچالی امجدیہ کے ایک مدرس وہیں کی ایک معلمہ کے عشق میں اپنے حواس کھو بیٹھے خود محدث کبیر کا ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں طالبات انکی دست بوسی کررہی ہیں انکے گھرانے کے لڑکوں کے بارے میں مشہور ہے کہ کلیہ کی طالبات سے معاشقہ انکا مرغوب ترین مشغلہ ہے-- بریلی کے علاقہ میں قاری صغیر جوکھنپوری نے لڑکیوں کا ایک مدرسہ کھولا تو انکے بیٹے نے ایک طالبہ سے معاشقہ کرلیا بالآخر مراداباد کی اس لڑکی سے شادی کے بعد فتنہ فرو ہوا. انکے داماد مولوی عبدالرحمن نے لڑکیوں کا ایک مدرسہ کھولا تو اپنی ایک کمسن طالبہ کو لےکر وہ بھاگ گیا قاری صغیر کی بیٹی سے عبد الرحمن کے چھہ بچے ہیں چند دن ہو ۓ سنا ہے قاری صغیر نے اپنے بیٹوں کے ذریعے آسکی خوب پٹائی کروائی ہے اور اب پستول کے دم پر طلاق لینے کی مذموم کوشش ہورہی ہے انھیں کے مدرسے کے ایک استاذ کے معاشقہ کی داستان عام ہوئی. راجستھان میں لڑکیوں کے کئی ادارے کھلے، وہاں سے بھی جنسی استحصال کی خبریں ہیں. ادھر پیلی بھیت ضلع کے نیوریا میں کیرلا والوں کے پیسوں سے لڑکیوں کا ادارہ کھلا جہاں کی طالبات کو بغیر محرم کئی دن کے سفر پر کیرلا گھمانے لے جا یا گیا. شاہجہاں پور کے سید احسن نے لڑکیوں کا ایک مدرسہ کھولا اور فراغت کے وقت میڈیا والوں کو بلاکر فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی کروائی گئی جسکا ویڈیو خوب وائرل ہوا سدھارتھ نگر بستی گونڈہ وغیرہ اضلاع میں معروف علماء نے بے شمار لڑکیوں کے مدرسے کھول رکھے ہیں جہاں انکے گھر خاندان کے لڑکے ساتھ باندیوں، لونڈیوں جیسا سلوک کرتے ہیں ان سب کے خلاف خدا ترس علماء کو آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں جب ان لڑکیوں کے مدرسوں کی آڑ میں مخالفین اسلام، اسلام اور مسلمانوں کو  نشانہ بنائیں گے اور ہم منہ دکھانے کے قابل نہ ہونگے بھلا سوچۓ! ان حالات میں مدرسۃ البنات کے قیام کا جواز کہاں سے ثابت کریں'گے؟ حیرت تو اس بات پر ہیکہ ان تمام بد اعمالیوں کے بعد بھی انکی خواہش ہے کہ ہر شخص انکو ولی تسلیم کرلے، مرنے کے بعد مدرسہ میں ہی عالی شان مزار بنے، دھوم دھام سے عرس منایا جانے اور بیوقوف مولوی صاحبان انکے جھوٹے واقعات اور فرضی کرامات بیان کرکے انھیں ولی کامل ثابت کردیں-
کار شیطاں می کند نامش ولی -
کرولی اینست لعنت بر ولی -----
قاف نون صدیقی

No comments:

Post a Comment