Tuesday 10 July 2018

امام نے تین رکعت والی نماز میں دو رکعت پڑھادی پھر کسی کے لقمہ دینے پر تیسری ملادی تو نماز کی بارے میں کیاحکم ہے؟

امام نے تین رکعت والی نماز میں دو رکعت پڑھادی پھر کسی کے لقمہ دینے پر تیسری ملادی تو نماز کی بارے میں کیا حکم ہے؟
سوال # 157863
اگر کسی امام نے تین رکعت والی نماز میں دو رکعت پڑھادی پھر کسی کے لقمہ دینے پر تیسری ملادی تو نماز کی بارے میں کیاحکم ہے؟ باہر یعنی غیر مقتدی کا لقمہ لینا کیسا ہے؟ اور اگر مقتدی لقمہ دے تو کیسے دے اگر مقتدی ایسے لقمہ دے کہ جس کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوجائے تو اس لقمہ سے امام کے تیسری رکعت ملانے پر کیا حکم ہے؟

Published on: Jan 25, 2018
جواب # 157863
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:407-369/N=5/1439
(۱): اگر تین رکعت والی نماز میں امام نے بھول کر دو رکعت پر سلام پھیردیا، اس کے بعد سینہ قبلہ سے پھیرنے اور نماز کے منافی کوئی عمل کرنے سے پہلے کسی مقتدی کے لقمہ دینے پر یا خود یاد آنے پر تیسری رکعت ملائی اور اخیر میں سجدہ سہو کیا تو امام اور مقتدی سب کی نماز بلاکراہت ہوگئی۔
لو توھم مصل رباعیة أو ثلاثیة أنہ أتمھا فسلم ثم علم أنہ صلی رکعتین أتمھا وسجد للسھو (نور الإیضاح مع المراقي وحاشیة الطحطاوي علیہ، کتاب الصلاة، باب سجود السھو،ص:۴۷۳، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔
سلم مصلی الظھر مثلاً علی رأس الرکعتین توھماً إتمامھا أتمھا أربعاً وسجد للسھو ؛ لأن السلام ساھیاً لا یبطل؛ لأنہ دعاء من وجہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب سجود السھو، ۲:۵۵۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
ولو عرض للإمام شیٴ فسبح المأموم لا بأس بہ؛ لأن القصد بہ إصلاح الصلاة …کذا فی البحر الرائق ناقلاً عن البدائع (الفتاوی الھندیةِ کتاب الصلاة،الباب السابع فیما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، الفصل الأول فیما یفسدھا، ۱: ۹۹، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔

(۲): اگر کسی غیر مقتدی نے امام کو لقمہ دیا اور امام کو بھی از خود یاد آگیا کہ ایک رکعت رہ گئی اور وہ محض اپنی یاد داشت کی بنیاد پر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوا، لقمہ کی بنیاد پر نہیں اور اخیر میں اس نے سجدہ سہو بھی کیا تو امام اور مقتدی سب کی نماز ہوگئی۔ اور اگر لقمہ کی بنیاد پر کھڑا ہوا یالقمہ سے اسے یاد آیا تو چوں کہ خارج نماز کا لقمہ لینے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے؛ اس لیے اس صورت میں امام اور مقتدی سب کی نماز فاسد ہوجائے گی اور امام کا تیسری رکعت ملانا مفید نہ ہوگا (بہشتی زیور مدلل، ۱۱: ۶۴، مسئلہ: ۴، مطبوعہ: کتب خانہ اختری متصل مظاہر علوم سہارن پور، فتاوی محمودیہ، ۶: ۵۹۳، جواب سوال: ۳۰۱۳، مطبوعہ: ادارہٴ صدیق ڈابھیل)۔
والذي ینبغي أن یقال: إن حصل التذکر بسبب الفتح تفسد مطلقاً أي: سواء شرع فی التلاوة قبل تمام الفتح أو بعدہ لوجود التعلم، وإن حصل تذکرہ من نفسہ لا بسبب الفتح لا تفسد مطلقاً، وکون الظاھر أنہ حصل بالفتح لا یوٴثر بعد تحقق أنہ من نفسہ؛ لأن ذلک من أمور الدیانة لا القضاء حتی یبنی علی الظاھر الخ (رد المحتار، کتاب الصلاة، باب ما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، ۲:۳۸۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
(۳): اگر مقتدی کو امام کی کسی غلطی پر متنبہ کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو زور سے سبحان اللہکہے، امام سمجھ جائے گا اور اصلاح کرلے گا۔ اور اگرمتنبہ کرنے کے لیے اللہ أکبرکہا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔
ولو عرض للإمام شیٴ فسبح المأموم لا بأس بہ؛ لأن القصد بہ إصلاح الصلاة …کذا فی البحر الرائق ناقلاً عن البدائع (الفتاوی الھندیةِ کتاب الصلاة،الباب السابع فیما یفسد الصلاة وما یکرہ فیھا، الفصل الأول فیما یفسدھا، ۱: ۹۹، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔
(۴): اگر مقتدی نے یہ کہہ کر لقمہ دیا کہ امام صاحب! صرف دو رکعتیں ہوئیں یا کوئی اور ایسا طریقہ اختیار کیا جس سے اس کی نماز فاسد ہوگئی تو اس کا حکم خار ج نماز کے لقمہ کی مانند ہوگا اور خارج نماز کے لقمہ کا حکم اوپر جواب نمبر ۲میں گذرچکا ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment