Wednesday 18 July 2018

زندگی کیا ہے؟

زندگی کیا ہے؟ 
جب روح جسم سے جدا ہوتی ہے تو انسان کا منہ کھل جاتا ہے. ہونٹ کسی بھی قیمت پر آپس میں چپکے ہوئے رہ ہی نہیں سکتے. روح پیر کی جانب سے کھنچتی ہوئی اوپر کی طرف آتی ہے. جب پھپڑوں اور دل تک روح کھینچ لی جاتی ہے اور انسان  کی سانس ایک ہی طرف یعنی باہر ہی چلنے لگتی ہے تو یہ وہ وقت ہوتا ہے جب چند لمحوں میں انسان شیطان اور فرشتوں کو دنیا ہی میں اپنے سامنے دیکھتا ہے. ایک طرف ابلیس اس کے کان میں کچھ مشورے دیتا ہے تو دوسری طرف اس کی زبان اس کے عمل کے مطابق کچھ الفاظ ادا کرنا چاہتی ہے اگر انسان نیک ہو تو اس کا دماغ، اس کی زبان کو کلمہ شہادت کی ہدایت دیتا ہے. اگر انسان کافر ہو، بد دین مشرک یا دنیا پرست ہوتا ہے تو اس کا دماغ کنفیوژن اور ایک عجیب ھیبت کا شکار ہوکر شیطان کے مشورے کی پیروی کرتا ہے اور بہت ہی مشکل سے کچھ الفاظ زبان سے ادا کرنیکی بھرپور کوشش کرتا ہے. یہ سب اتنی تیزی سے ہوتا ہے کہ دماغ کو دنیا کی فضول باتوں کو سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا. انسان کی روح نکلتے ہوئے ایک زبردست تکلیف ذہن محسوس کرتا ہے لیکن تڑپ نہیں پاتا کیونکہ دماغ کو چھوڑکر باقی جسم کی روح اس کے حلق میں اکٹھی ہوجاتی ہے اور جسم گوشت کے ایک بےجان لوتھڑے کی طرح پڑا ہوا ہوتا ہے جس میں کوئی حرکت کی گنجاہش نہیں رھتی. آخر میں دماغ کی روح بھی کھینچ لی جاتی ہے. آنکھیں روح کو لےجاتے ہوئے دیکھتی ہیں. اس لئے کہ آنکھوں کی پتلیاں اوپر چڑھ جاتی ہیں یا جس سمت فرشتہ روح قبض کرکے لے جاتا ہے، اس سمت کی طرف ہوتی ہیں اس کے بعد انسان کی زندگی کا سفر شروع ہوتا ہے جس میں روح تکلیفوں کےتہہ خانوں سے لےکر آرام کے محلات کی آہٹ محسوس کرنے لگتی ہے جیسا کہ اس سے وعدہ کیا گیا ہے جو دنیا سے گیا، واپس کبھی لوٹا نہیں، صرف اس لئےکہ کیونکہ اس کی روح عالم برزخ کا انتظار کررہی ہوتی ہے جس میں اس کا ٹھکانا دے دیا جائے گا. اس دنیا میں محسوس ہونے والی طویل مدت ان روحوں کے لئے چند سیکنڈز سے زیادہ نہیں ہوتی یہاں تک کہ اگر کوئی شخص آج سے کروڑوں سال پہلے ہی کیوں نہ مرچکا ہو. مومن کی روح اس طرح کھینچ لی جاتی ہے جیسے آٹے سے بال نکالا جاتا ہے. گناہ گار کی روح خار دار درخت پر پڑے سوتی کپڑے کی طرف کھینچی جاتی ہے. 
گزشتہ دنوں ایک محقق نے نیویارک کے چند ڈاکٹروں انسانی روح کا وزن معلوم کرنے کے لئے مختلف طریقے وضع کرنا شروع کر دیے، یہ لوگ بالآخر ایک طریقے پر متفق ہو گئے۔ ڈاکٹر نزع میں مبتلا لوگوں کو شیشے کے باکس میں رکھ دیتے تھے، مریض کی ناک میں آکسیجن کی چھوٹی سی نلکی لگادی جاتی تھی اور باکس کو انتہائی حساس ترازو پر رکھ دیا جاتا تھا، ڈاکٹر باکس پر نظریں جماکر کھڑے ہوجاتے تھے، مریض آخری ہچکی لیتا تھا، اس کی جان نکلتی تھی اور ترازو کے ہندسوں میں تھوڑی سی حرکت ہوتی تھی اور معمولی سی کمی آجاتی تھی، ڈاکٹر یہ کمی نوٹ کرلیتے تھے۔
ان لوگوں نے پانچ سال میں بارہ سو تجربات کئے‘ 2004ء کے آخر میں ٹیم نے اعلان کیا:
’’انسانی روح کا وزن 67 گرام ہوتا ہے.‘‘ 
ٹیم نے اپنی تھیوری کے جواز میں 12 سو  لوگوں کی ہسٹری بیان کی. ٹیم کا کہنا تھا ان کے باکس میں رکھا شخص جوں ہی فوت ہوتا تھا اس کا وزن 67 گرام کم ہوجاتا تھا لہٰذا وہ بارہ سو تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں انسانی روح کا وزن 67 گرام ہوتا ہے۔
اسی قسم کے تجربات لاس اینجلس کے ایک ڈاکٹر ابراہام نے بھی کئے، اس نے انتہائی حساس ترازو بنایا، وہ مریض کو اس ترازو پر لٹاتا، مریض کے پھیپھڑوں کی آکسیجن کا وزن کرتا اور اس کے مرنے کا انتظار کرتا، ڈاکٹر ابراہام نے بھی سیکڑوں تجربات کے بعد اعلان کیا: 
’’انسانی روح کا وزن 21 گرام ہے.‘‘ 
ابراہام کا کہنا تھا انسانی روح اس 21 گرام آکسیجن کا نام ہے جو پھیپھڑوں کے کونوں، کھدروں، درزوں اور لکیروں میں چھپی رہتی ہے، موت ہچکی کی صورت میں انسانی جسم پر وار کرتی ہے اور پھیپھڑوں کی تہوں میں چھپی اس 21 گرام آکسیجن کو باہر دھکیل دیتی ہے اس کے بعد انسانی جسم کے سارے سیل مرجاتے ہیں اور یوں انسان فوت ہوجاتا ہے۔
نیویارک کے ڈاکٹروں کا اندازہ درست ہے یا ڈاکٹر ابراہام کی تحقیق، یہ فیصلہ ابھی باقی ہے تاہم یہ طے ہو چکا ہے انسانی روح کا وزن گراموں میں ہوتا ہے، ہمارے جسم سے 21 یا 67 گرام زندگی خارج ہوتی ہے اور انسان فوت ہوجاتے ہیں، میں نے پچھلے دنوں ہالی وڈ کی ایک فلم دیکھی تھی، یہ فلم ڈاکٹر ابراہام کی تھیوری پر بنی تھی اور اس میں بھی انسانی روح کو 21 گرام قرار دیا گیا تھا، لہٰذا اگر ہم فرض کرلیں ہمارے جسم میں بھاگنے دوڑنے والی زندگی کا وزن محض 21 گرام ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان 21 گرام میں ہماری خواہشوں کا وزن کتنا ہے؟
اس میں ہماری نفرتیں، ہمارے ارادے، ہمارے منصوبے، ہماری ہیرا پھیریاں، ہمارے سمجھوتے، ہماری چالاکیاں، ہمارے لالچ، ہماری سازشیں اور ہماری ابد تک زندہ رہنے کی تمنا کتنے گرام ہے، ان 21 گرام میں ہماری ہوس اقتدار، ہمارے پانامہ، ہماری ٹی او آرز، ہمارے اقتدار، ہمارے الیکشن، ہماری لبرل ازم،  ہماری آزاد خیالی اور ہماری بہادری کا کتنا وزن ہے، ان 21 گرام میں ہمارے حوصلے، ہماری قوت برداشت، ہماری جرأت، ہماری خوشامد، ہماری پھرتیوں، ہماری عقل اور ہماری فہم کا کتنا حصہ ہے، ان 21 گرام میں ہماری اسمارٹ نس، ہماری الرٹ نس، ہماری فارن پالیسی اور ہماری باطل نوازی کا بوجھ کتنا ہے اور ہم آراضی کے کتنے قطعے ہتھیانا چاہتے ہیں، ہم اپنی اگلی نسل کو بادشاہ بنانا چاہتے ہیں، ہم اپنی ساری دولت لندن شفٹ کرنا چاہتے ہیں اور ہم اگلے بیس پچیس برس تک کرسی پر جلوہ افروز رہنا چاہتے ہیں ‘ہم نے خوشامد کو آرٹ کی شکل دے دی ہے۔
ہم روزانہ لاکھوں لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں، ہم ایک منٹ میں دس دس مرتبہ ضمیر کا سودا کرتے ہیں‘ ہم صرف اپنا مفاد بچانے کے لئے چھ چھ سو جھوٹ بولتے ہیں، ہم داڑھی اور نماز کو خوف کی شکل دے رہے ہیں اور ہم ظالم سے نفرت کرنے والے ہر شخص کو مجرم سمجھتے ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے ہماری ان ساری سوچوں، ہمارے ان سارے خیالات اور ہماری ان ساری خواہشوں کا وزن کتنا ہے اور ان21 گرام میں ہماری گردن کی اکڑ، ہمارے لہجے کے تکبر اور ہماری نظر کے غرور کا بوجھ کتنا ہے اور ہم ان21 گرام کی مدد سے قدرت کا کتنی دیر تک مقابلہ کرسکتے ہیں، ہم ان 21 گرام کے ذریعے قدرت کے فیصلوں سے کتنی دیر بچ سکتے ہیں، یہ 21 گرام ہمیں کتنی دیر تک وقت کی آنچ سے بچاسکتے ہیں، یہ21 گرام کب تک ہمارے غرور کی حفاظت کرسکتے ہیں اور یہ 21 گرام ہمارے منصوبوں اور ہماری خواہشوں کی کتنی دیرنگہبانی کر سکتے ہیں۔
تبت کے لوگ 21گرام کی اس زندگی کو موم سمجھتے ہیں لہٰذا یہ لوگ صبح کے وقت موم کے دس بیس مجسمے بناتے ہیں اور یہ مجسمے اپنی دہلیز پر رکھ دیتے ہیں، ان میں سے ہر مجسمہ ان کی کسی نہ کسی خواہش کی نمایندگی کرتا ہے، دن میں جب سورج کی تپش میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ مجسمے پگھلنے لگتے ہیں حتیٰ کہ شام تک ان کی دہلیز پر موم کے چند آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں بچتا، یہ لوگ ان آنسوؤں کو دیکھتے ہیں اور اپنے آپ سے پوچھتے ہیں: 
’’کیا یہ تھیں میری ساری خواہشیں؟‘‘ 
اور اس کے بعد ان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور یہ کائنات کی اس طاقت کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں جو ہمارے 21 گرام کی اصل مالک ہے، جس کے حکم سے ہماری سانسیں چلتی ہیں اور ہمارے قدم اٹھتے ہیں۔
ہمارے بدن میں ایک منٹ میں 87 کروڑ حرکتیں ہوتی ہیں، ہمارے ذہن میں ایک دن میں 68 ہزار خیال آتے ہیں، ہم ایک دن میں دس ہزار منصوبے بناتے ہیں لیکن اگلے دن یہ سارے خیال، یہ سارے منصوبے اور یہ ساری کروٹیں ہمارے ذہن کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتی ہیں، ہمارے یہ سارے خیال، یہ سارے منصوبے اور یہ ساری حرکتیں بھی انھی 21 گرام کی مرہون منت ہیں لیکن آپ انسان کا کمال دیکھئے ڈیڑھ سو گرام گندم، 8 اونس انگور اور کسی ایک وزیر کی خوشامد اس کے 21گرام کو خدا بنادیتی ہے۔ یہ خدا کے لہجے میں بولنا شروع کردیتا ہے، یہ اپنی ذات کو دنیا کی بقا قرار دے دیتا ہے، یہ خود کو ناگزیر سمجھنے لگتا ہے، ہم سب کیا ہیں؟
محض 21 گرام، محض ایک سانس، محض ایک ہچکی، محض ایک چھینک، محض ایک جھٹکا، محض ایک بریک، محض دماغ کا ایک شارٹ سرکٹ اور محض دل کے اندر اٹھتی ہوئی ایک لہر اور بس، ہم نے کبھی سوچا 21 گرام کتنے ہوتے ہیں‘ 21گرام لوبیے کے 14 دانے ہوتے ہیں، ایک چھوٹا ٹماٹر، پیاز کی ایک پرت، ریت کی چھ چٹکیاں اور پانچ ٹشو پیپر ہوتے ہیں، یہ ہیں ہم اور یہ ہے ہماری اوقات لیکن ہم بھی کیا لوگ ہیں، ہم 21 گرام کے انسان خود کو کھربوں ٹن وزنی کائنات کے خدا سمجھتے ہیں، ہم 21 گرام کے انسان خود کو کروڑوں انسانوں کا حکمران سمجھتے ہیں، ہم وقت کو اپنا غلام اور زمانے کو اپنا ملازم سمجھتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں بس ذرا سی تپش کی دیر ہے اور ہمارے اختیار، ہمارے اقتدار کی موم پگھل جائے گی۔
ہم شام تک موم کا آنسو بن جائیں گے، ہمارے 21 گرام مٹی میں مل جائیں گے، ہم تاریخ کی سلوں تلے دفن ہوجائیں گے اور21 گرام کا کوئی دوسرا خدا ہماری جگہ لے لے گا اور بس۔ کاش ہم روز موم لیں، اپنی ذات کا مجسمہ بنائیں، یہ مجسمہ اپنے اقتدار کی دہلیز پر رکھیں اور پھر اسے آنسو بنتا دیکھیں اور اس کے بعد سوچیں دنیا میں اگر فرعون جیسے لوگ نہیں رہے تو ہم کتنی دیر رہ لیں گے‘ دنیا سے اگر محمد علی کلے جیسا شخص رخصت ہو گیا تو ہم یہاں کتنی دیر رہ لیں گے اور بے شمار حکمراں رخصت ہوگئے تو ہم کتنی دیر حکمران رہ لیں گے، کاش ہم چند لمحوں کے لئے یہ سوچ لیں یہ ایوان اگر جنرل پرویز مشرف کے نہیں رہے تو یہ ہماری 21 گرام کی زندگی سے کتنے دیر وفا کر لیں گے، ہم ان میں کتنی دیر بس لیں گے۔
عام طور پر موت کے بعد میّت کا جِسم چند دِنوں میں خراب ہو جاتا ہے۔ گرمی ہو تو ایک دِن کے اندر اندر بُو چھوڑ دیتا ہے، سردیوں میں چند دِنوں کے بعد یہی حالت پیدا ہو جاتی ہے۔ قبر میں دفنانے کے بعد گلنے سڑنے کا عمل اور بھی تیز ہو جاتا ہے۔ چند دِنوں میں پیٹ پُھول کر پَھٹ جاتا ہے، دماغ کا مواد ناک اور کانوں کے راستے بہنا شروع ہو جاتا ہے، آنکھیں اُبل جاتی ہیں اور ہفتہ بَھر میں سارے جِسم میں کیڑے پڑ جاتے ہیں اور دو مہینوں تک جِسم کا گوشت یا تو کیڑوں کے پیٹ میں چلا جاتا ہے یا مٹی کے مرکبات کے ساتھ مِل کر مٹی ہو جاتا ہے، بقیہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈروجن سلفائیڈ اور پانی کے بخارات بن کر مٹی اور ہوا میں گم ہو جاتا ہے۔ تین ماہ کے بعد اِنسانی جِسم میں سے صِرف ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہتا ہے۔ کچھ سالوں میں مٹی کے مرکبات اُسے بھی کھا جاتے ہیں۔ یوں آدمی کی مٹی زمین کی مٹی سے مِل کر غائب ہو جاتی ہے۔ غرض وہ جِسم جِس پر اِنسان اِس قدر نازاں ہے جِس کی خوبصورتی اور بناوٹ پر فخر کرتا ہے اور جِس کی بالیدگی کے لیے ساری زندگی خرچ کردیتا ہے مرنے کے چند دِن بعد وہ اِس حالت میں ہوتا ہے کہ اگر کہیں خود وہ اپنے اِس حال کو دیکھ لے تو بُو کے مارے قریب نہ جائے اور کراہت سے بچنے کے لیے اُسے دیکھنا بھی گوارا نہ کرے۔
اللہ سبحانه وتعالی ھم سب کو موت کے وقت کلمہ نصیب فرماکر آسانی کیساتھ روح قبض فرما اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب فرما۔
آمین یارب العالمین
جمع و ترتیب: ایس اے ساگر 

No comments:

Post a Comment