Monday 30 July 2018

ہاروت وماروت کی معصیت سے متعلق قصہ من گھڑت وبے بنیاد ہے

ہاروت وماروت کی معصیت سے متعلق  قصہ من گھڑت وبے بنیاد ہے
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
مزاج عالی!
ہاروت ماروت کون تھے؟
انسان تھے یا فرشتے؟
ان کے بارے میں جو مشہور ہے کہ انسانی خواہشات کے ساتھ اتارے گئے تھے اور ایک عورت کے فتنہ میں  پڑ کر زنا کاری وشراب نوشی کا ارتکاب کر بیٹھے تھے اور وہ اس وقت دنیا کے کسی کنویں میں بطور سزا سر نگوں لٹکے ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ
تو اس واقعہ کی صحت وصداقت کے بارے میں آپ کی کیا تحقیق ہے؟
امید ہے کہ تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں گے
فقط
ابو طالب رحمانی ،نزیل حرم مکی
29 جولائی 2018

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
جمہور علماء ومفسرین کا خیال ہے کہ ہاروت و ماروت یہ دونوں  آسمانی فرشتے تھے جو شہر بابل میں بصورت انسان رہتے تھے، وہ علم سحر سے الہامی طور پر  واقف تھے، تاکہ اس فن کے ذریعہ اصلاح خلق کا فریضہ انجام دے سکیں یعنی لوگوں کو سحر وکہانت سے بچاسکیں، جو کوئی سحر سیکھنے کا طالب ان کے پاس جاتا اول تو وہ اس کو منع کرتے کہ اس میں ایمان جانے کا خطرہ ہے اس پر بھی اگر وہ باز نہ آتا تو اس کو سکھا دیتے اللہ تعالیٰ کو ان کے ذریعہ بندوں کی آزمائش منظور تھی جیسا کہ خوبصورت انسانی شکل میں فرشتوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو آزمایا تھا۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 102۔ تفسیر جلالین صفحہ 17)
یہ تفسیر آیت میں "وما أنزل على الملكين" میں "الملک" کو بفتح اللام پڑھنے کی صورت میں کی گئی ہے، اور اس لفظ کی یہی مشہور قرات بھی ہے (تفسیرکبیر)۔
لیکن دوسری قرأت "ملک" (بکسر اللام) کی بھی صحابہ وتابعین ہی کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، ابن عباس، ضحاک، حسن بصری کی یہی روایت ہے۔ قرأ الحسن بکسر اللام وھو مروی ایضا عن الضحاک وابن عباس (رض) (تفسیرکبیر) چناچہ اسی دوسری قرأت کی بنا پر بعض مفسرین اسی طرف چلے گئے ہیں کہ یہ دونوں اصلا فرشتے نہ تھے، بشر تھے اور بادشاہ تھے، اور انہیں جو دوسری روایتوں میں فرشتے کہا گیا ہے، تو وہ محض مجازا ہے، یعنی ان کے صفات ملکوتی کی بنا پر۔ قیل رجلان سمیا ملکین باعتبار صلاحھما (تفسیر بیضاوی) لیکن جمہور کا قول وہی قرأت مشہور کی بنا پر ان کے فرشتہ ہونے کا ہے۔ ذھب کثیر من السلف الی انھما کان ملکین من السماء وانھما انزلا الی الارض (ابن کثیر)
بابل جس قدیم ملک کا نام ہے۔ وہ موجودہ نقشہ اور جغرافیہ میں ملک عراق کہلاتا ہے۔ ملک کے پایہ تخت کا بھی یہی نام تھا۔ شہر بابل دریائے فرات کے کنارے واقع تھا۔ موجودہ بغداد سے کوئی 60 میل سمت جنوب میں۔ تقریبا وہیں جہاں آج ہلہ کی آبادی ہے، شہربہت بڑا تھا۔ رقبہ میلوں کا تھا۔ ملک اپنے عروج کے زمانہ میں بڑا سرسبز، شاداب، خوشحال، مہذب ومتمدن رہ چکا ہے، نہروں، پانی کے نلوں، شاہی قصروایوان، زبردست قلعوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ دجلہ وفرات دو دو مشہور دریا اس کے علاقہ کو سیراب کررہے تھے۔ سلطنت کے عروج کا زمانہ تخمینی طور پر 3000  قبل مسیح ہے جہاں بابلیوں کی سلطنت تھی،
اس ملک کی ایک خاص شہرت علوم سحر، عملیات سفلی اور جنتر منتر کے لحاظ سے تھی، جنہیں آج انگریزی میں Occult Science (علم نیز نجات) کہتے ہیں۔ اسی ملک کا ایک دوسرا قدیم نام کا لڈیا (کلدانیہ) ہے اور انگریزی میں آج تک لفظ کالڈین (کلدانی) ساحر کا مرادف چلا آرہا ہے، یہودونصاری کے صحیفوں میں اس ملک کی عظمت کا ذکر بھی  کثرت سے آیا ہے۔ اور اس کی بدعملیوں، تباہ کاریوں کا بھی۔ اس شہر کے لوگوں کے دین بابلی کا جزواعظم سحروکہانت، جنترمنتر ٹونے ٹوٹکے تھے۔” ۔ (انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس، جلد 2 صفحہ 1 16
مستفاد: تفسیر ماجدی)
اسی شہر بابل میں خدا کے تکوینی نظام کے تحت ہاروت وماروت نامی  دو فرشتوں کا نزول انسانی شکل میں ہوا۔
یہ دونوں فرشتے ”ھاروت وماروت“ ایک غرض خاص کے ساتھ انسانوں کے درمیان رہنے بسنے کیلیے بھیجے گئے تھے،
لہذا ان کی شکل وشباہت، رنگ وروپ، جسم و قالب انسانوں ہی کا ہونا چاہئے، اور ان کی عادتیں اور ان کے جذبات بھی بالکل بشری ہونی چاہئیں۔
ان کے متعلق بعض روایات میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں اولا تو وہ ثابت وصحیح نہیں ہیں  لیکن بالفرض صحیح ہوں بھی، تو جب کسی خاص مصلحت سے کسی فرشتہ کو پیکر انسانی اور جذبات بشری دے دیئے گئے، تو اگر کسی وقت وہ ملکوتی الاصل انسان بشری جذبات سے مغلوب بھی ہوجائے، تو اس میں کوئی استحالہ نہ شرعی ہے نہ عقلی۔ (تفسیر ماجدی)
ہاروت وماروت سے متعلق واقعہ
ابن حبان (717 ـ موارد) و مسند أحمد: (2 / 134 و رقم 6178 - طبع شاكر)
و عبد بن حميد: "المنتخب" (ق 86 / 1) و ابن أبي الدنيا: "العقوبات"
(ق 75 / 2) و البزار: ( 2938 ـ الكشف ) و ابن السني: "عمل اليوم و الليلة"
(651)  میں "زهير بن محمد" کی طریق سے عن موسى بن جبير عن نافع مولى ابن عمر عن

عبد الله بن عمر
یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ ابن عمر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتے ہوئے سنا :
" إِنَّ آدَم عَلَيْهِ السَّلَام لَمَّا أَهَبَطَهُ اللَّهُ إِلَى الْأَرْض قَالَتْ الْمَلَائِكَة أَيْ رَبّ " أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِك الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِك وَنُقَدِّسُ لَك قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ " قَالُوا رَبّنَا نَحْنُ أَطْوَعُ لَك مِنْ بَنِي آدَم قَالَ اللَّه تَعَالَى لِلْمَلَائِكَةِ هَلُمُّوا مَلَكَيْنِ مِنْ الْمَلَائِكَة حَتَّى يُهْبَط بِهِمَا إِلَى الْأَرْض فَنَنْظُر كَيْف يَعْمَلَانِ قَالُوا رَبّنَا هَارُوت وَمَارُوت فَأُهْبِطَا إِلَى الْأَرْض وَمُثِّلَتْ لَهُمَا الزُّهَرَة اِمْرَأَةً مِنْ أَحْسَن الْبَشَر فَجَاءَتْهُمَا فَسَأَلَاهَا نَفْسهَا فَقَالَتْ لَا وَاَللَّه حَتَّى تَتَكَلَّمَا بِهَذِهِ الْكَلِمَة مِنْ الْإِشْرَاك فَقَالَا وَاَللَّه لَا نُشْرِك بِاَللَّهِ شَيْئًا أَبَدًا فَذَهَبَتْ عَنْهُمَا ثُمَّ رَجَعَتْ بِصَبِيٍّ تَحْمِلهُ فَسَأَلَاهَا نَفْسهَا فَقَالَتْ لَا وَاَللَّه حَتَّى تَقْتُلَا هَذَا الصَّبِيّ فَقَالَا لَا وَاَللَّه لَا نَقْتُلهُ أَبَدًا فَذَهَبَتْ ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحٍ خَمْر تَحْمِلهُ فَسَأَلَاهَا نَفْسهَا فَقَالَتْ لَا وَاَللَّه حَتَّى تَشْرَبَا هَذَا الْخَمْر فَشَرِبَا فَسَكِرَا فَوَقَعَا عَلَيْهَا وَقَتَلَا الصَّبِيّ فَلَمَّا أَفَاقَا قَالَتْ الْمَرْأَة وَاَللَّه مَا تَرَكْتُمَا شَيْئًا أَبَيْتُمَاهُ عَلَيَّ إِلَّا قَدْ فَعَلْتُمَاهُ حِين سَكِرْتُمَا فَخُيِّرَا بَيْن عَذَاب الدُّنْيَا وَعَذَاب الْآخِرَة فَاخْتَارَا عَذَاب الدُّنْيَا . وَهَكَذَا رَوَاهُ أَبُو حَاتِم بْن حِبَّان فِي صَحِيحه عَنْ الْحَسَن عَنْ سُفْيَان عَنْ أَبِي بَكْر بْن أَبِي شَيْبَة عَنْ يَحْيَى بْن بُكَيْر - بِهِ وَهَذَا حَدِيث غَرِيب مِنْ هَذَا الْوَجْه وَرِجَاله كُلّهمْ ثِقَات مِنْ رِجَال الصَّحِيحَيْنِ إِلَّا مُوسَى بْن جُبَيْر هَذَا وَهُوَ الْأَنْصَارِيّ السُّلَمِيّ مَوْلَاهُمْ الْمَدِينِيّ الْحَذَّاء وَرُوِيَ عَنْ اِبْن عَبَّاس وَأَبِي أُمَامَة بْن سَهْل بْن حُنَيْف وَنَافِع وَعَبْد اللَّه بْن كَعْب بْن مَالِك وَرَوَى عَنْهُ اِبْنه عَبْد السَّلَام وَبَكْر بْن مُضَر وَزُهَيْر بْن مُحَمَّد وَسَعِيد بْن سَلَمَة وَعَبْد اللَّه بْن لَهِيعَة وَعَمْرو بْن الْحَرْث وَيَحْيَى بْن أَيُّوب وَرَوَى لَهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَهْ وَذَكَرَهُ اِبْن أَبِي حَاتِم فِي كِتَاب الْجَرْح وَالتَّعْدِيل وَلَمْ يَحْكِ شَيْئًا مِنْ هَذَا وَلَا هَذَا فَهُوَ مَسْتُور الْحَال وَقَدْ تَفَرَّدَ بِهِ عَنْ نَافِع مَوْلَى اِبْن عُمَر عَنْ اِبْن عُمَر رَضِيَ اللَّه عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيّ - صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَرُوِيَ لَهُ مُتَابَع مِنْ وَجْه آخَر عَنْ نَافِع كَمَا قَالَ اِبْن مَرْدَوَيْهِ حَدَّثَنَا دُعْلُج بْن أَحْمَد حَدَّثَنَا هِشَام بْن عَلِيّ بْن هِشَام حَدَّثَنَا عَبْد اللَّه بْن رَجَاء حَدَّثَنَا سَعِيد بْن سَلَمَة حَدَّثَنَا مُوسَى بْن سَرْجِس عَنْ نَافِع عَنْ اِبْن عُمَر سَمِعَ النَّبِيّ - صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُول فَذَكَرَهُ بِطُولِهِ .
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سماعت فرمایا ہے کہ آنخضرت نے فرمایا آدم علیہ السلام جس وقت زمین پر اتارے گئے تو ملائکہ نے اللہ تعالٰی سے عرض کیا کہ اے پرودگار زمین پر ایسا شخص خلیفہ بنارہا ہے جو فساد برپا کرے گا خونزریزی کا مرتکب ہوگا اور ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرنے والے ہیں اس لئے یہ مرتبہ حاصل کرنے کا زیادہ حق ہمیں ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا بلا شبہ مجھے وہ کچھ معلوم ہے جس کا علم تمھیں نہیں ہے۔ فرشتوں نے عرض کیا یا الٰہی بنی آدم سے بڑھ کر تیرے اطاعت گزار ہم ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا تم میں دو فرشتے آجائیں ہم دیکھیں گے کہ وہ کس طرح کے عمل کریں گے عرض کیا کہ ہاروت و ماروت دونوں پیش خدمت ہیں۔ اللہ تعالٰی نے ان کو فرمایا کہ تم زمین پر چلے جاؤ اور اللہ نے ان کے پاس بڑی خوبصورت عورت کی شکل میں زہرہ ستارے کو بنا بھیجا۔ وہ دونوں اس کے پاس آگئے اور زہرہ ستارے کو ان کی رفاقت کرنے کو کہا لیکن اس نے تسلیم نہ کیا اور ان سے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا جب تک کہ تم شرک کی یہ بات نہ کہوگے۔ ان دونوں نے جواب دیا، واللہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ہرگز نہیں قرار دیں گے پس وہ عورت اٹھی اور وہاں سے رخصت ہو گئی پھر جس وقت وہ لوٹ کر آئی تو ایک بچہ بھی اپنے ساتھ اٹھایا ہوا تھا۔ انھوں سے اس عورت سے پھر وہی سوال کیا تو اس نے کہا واللہ یہ نہ ہوگا جب تک یہ بچہ تم قتل نہ کردو۔ انھوں نے اس کو کہا کہ واللہ ہم اس کو کبھی قتل نہیں کریں گے اسکے بعد وہ شراب کا کاسہ لئے ہوئے واپس آئی اور ان دونوں فرشتوں نے اس کو دیکھا اور پھر پہلے والا سوال اس سے کیا عورت کہنے لگی واللہ ایسا نہیں ہوگا جب تک تم اس شراب کو نہ پیوگے پس انھوں نے وہ شراب نوش کی پھر نشے کی کیفیت میں انھوں نے اس کے ساتھ جماع بھی کرلیا اور بچہ بھی قتل کردیا۔ جس وقت وہ نشہ ختم ہوگیا تو ان کو عورت نے بتایا کہ تم نے ایسا فعل نہ کردہ نہیں چھوڑا جو کرنے سے تم انکار کرتے رہے تھے۔ تم نے وہ تمام کام نشہ میں ہی کرلئے۔
پھر ان کو حکم فرمایا گیا کہ تم دنیا کے اندر عذاب یا آخرت کے عذاب ان دونوں میں سے کوئی ایک اختیار کرلو تو انھوں نے دنیاوی عذاب اختیار کرلیا۔
تفسیر بن کثیر، سورہ البقرہ 102)
روایت کا حال
بعض مفسرین و محدثین کو اس روایت کو نقل کرنے میں سخت دھوکہ ہوا ہے اور وہ اسرائیلی روایات سے اپنی کتابوں میں یہ روایت اگرچہ نقل کردئیے ہیں
لیکن محدثین اور محققین تفسیر نے اس روایت کی صحت سے بالکل انکار کیاہے۔ اور متکلمین نے اس کی درایت سے انکار کیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ قصہ بالکل گڑھا ہوا اور لغومردود ہے۔ ان  میں قاضی عیاض، امام رازی، شہاب الدین عراقی وغیرہم شامل ہیں۔
اعلم ان ھذہ الروایۃ فاسدۃ مردودۃ غیر مقبولۃ (تفسیرکبیر) وھذا کلہ لایصح منہ شیء (البحر المحیط) ونص الشھاب العراقی علی ان من اعتقد فی ھاروت وماروت انھما ملکان یعذبان علی خطیھما مع الزھرۃ فھو کافر باللہ تعالیٰ (روح البیان)
قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی نے تفسیر مظہری ج1 ص 185 پہ ، اور امام رازی نے تفسیر کبیر ج 3 ص 219 پہ شرح وبسط سے کلام کرکے اس کا رد کیا ہے
قال ابن أبي حاتم في
"العلل" (2 / 69 ـ 70): سألت أبي عن هذا الحديث؟ فقال: هذا حديث منكر .
قلت: و مما يؤيد بطلان رفع الحديث من طريق ابن عمر أن سعيد بن جبير و مجاهدا
روياه عن ابن عمر موقوفا عليه كما في "الدر المنثور" للسيوطي (1 / 97 ـ 98)
امام ابن کثیر کہتے ہیں:
وكل ما عدا ظاهر القرآن في حال هذين الملَكين: فهو من الإسرائيليات ، يردها ما ثبت من عصمة الملائكة ، على وجه العموم ، دون ورود استثناء لهذا لأصل العام: ( وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ * لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ * يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ ) الأنبياء/26-28 .
وقال ابن كثير – رحمه الله - :
وقد روي في قصة "هاروت وماروت" عن جماعة من التابعين، كمجاهد ، والسدي ، والحسن البصري، وقتادة، وأبي العالية، والزهري، والربيع بن أنس، ومقاتل بن حيان، وغيرهم، وقصها خلق من المفسرين ، من المتقدمين والمتأخرين، وحاصلها راجع في تفصيلها إلى أخبار بني إسرائيل، إذ ليس فيها حديث مرفوع صحيح متصل الإسناد إلى الصادق المصدوق المعصوم الذي لا ينطق عن الهوى، وظاهر سياق القرآن: إجمال القصة من غير بسط ، ولا إطناب فيها ، فنحن نؤمن بما ورد في القرآن ، على ما أراده الله تعالى ، والله أعلم بحقيقة الحال .
"تفسير ابن كثير" (1 / 360) .
امام قرطبی لکھتے ہیں:
حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر، کعب احبار، سدی اور کلبی سے اس کا معنی مروی ہے۔ جب اولاد آدم میں فساد زیادہ ہوگیا تھا۔۔۔۔ یہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھا۔۔۔۔ ملائکہ نے انہیں عار دلائی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر تم ان کی جگہ ہوتے اور تم میں ان عناصر کی ترکیب ہوتی جو ترکیب ان میں ہے تو تم بھی ان جیسے اعمال کرتے۔ فرشتوں نے کہا: تیری ذات پاک ہے ہمارے لئے تو یہ مناسب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم اپنے اعلیٰ فرشتوں میں سے دو فرشتوں کا انتخاب کرو۔ انہوں نے ہاروت وماروت کو چنا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین میں اتارا اور ان میں شہوات کا عنصر رکھ دیا، ان پر ایک مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ ایک عورت کے عشق میں مبتلا ہوگئے اس عورت کا نام نبطی زبان میں (بیدخت) فارسی میں ناھیل اور عربی میں زہرہ تھا، وہ ان کے پاس جھگڑا لے کر آئی اور ان دونوں فرشتوں نے اس سے خواہش پوری کرنی چاہی تو اس نے انکار کیا، مگر یہ کہ وہ دونوں اس کے دین میں داخل ہوجائیں، شراب پئیں اور اس نفس کو قتل کریں جس کو اللہ نے حرام کیا ہے۔ انہوں نے اس کی شرائط قبول کرلیں اور انہوں نے شراب پی۔ وہ جب اس کے پاس گئے تو انہیں ایک شخص نے دیکھ لیا انہوں نے اسے قتل کردیا۔ ان فرشتوں سے اس عورت نے اس اسم کے بارے پوچھا جس کے ذریعے وہ آسمان پر چڑھ جاتے تھے۔ وہ بھی انہوں نے اسے سکھا دیا۔ اس نے وہ کلمہ پڑھا اور اوپر چڑھ گئی۔ اسے ایک ستارہ کی شکل میں مسخ کردیا۔
سالم نے اپنے باپ سے انہوں نے حضرت عبداللہ روایت کیا ہے کہ مجھے کعب الحبر نے بتایا کہ ان دونوں فرشتوں نے اپنا دن مکمل نہ کیا حتیٰ کہ انہوں نے وہ سب کام کر دئیے جو اللہ تعالیٰ نے حرام کیے تھے۔ اس حدیث کے علاوہ میں ہے۔ ان فرشتوں کو دنیا کے عذاب اور آخرت کے عذاب میں اختیار دیا گیا تو انہوں نے دنیا کا عذاب اختیار کیا۔ انہیں بابل میں ایک سرنگ میں عذاب دیا جارہا ہے۔ بعض نے کہا: بابل سے مراد بابل عراق میں ہے۔ بعض نے کہا: بابل نہاوند ہے، عطا سے مروی ہے کہ حضرت ابن عمر جب زہرہ ستارہ اور سہیل ستارہ کو دیکھتے تو انہیں برا بھلا کہتے اور فرماتے: سہیل یمن میں عشر وصول کرتا تھا اور لوگوں پر ظلم کرتا تھا اور زہرہ ہاروت وماروت کی دوت تھی۔
ہم کہتے ہیں: یہ سب حضرت ابن عمر وغیرہ سے بعید اور ضعیف ہے کوئی چیز بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس قلو کو ان فرشتوں کے متعلق اصول رد کرتے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی وحی پر امین ہیں اس کے رسولوں کے سفیر ہیں لا یعصون اللہ ما امرھم ویفعلون ما یؤمرون۔ (التحریم) (نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جس کا اس نے انہیں حکم دیا ہے اور فوراً بجا لاتے ہیں جو حکم نہیں فرمایا جاتا ہے) بل عبادٌ مکرمون۔ لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون۔ (الانبیاء) (بلکہ وہ تو (اس کے) معزز بندے ہیں نہیں سبقت کرتے اس سے بات کرنے میں اور وہ اس کے حکم پر کاربند ہیں) یسبحون الیل والنھارلا یفترون۔ (الانبیاء) وہ اس کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں رات دن اور وہ اکتاتے نہیں)
رہی عقل تو وہ فرشتوں کے معصیت میں واقع ہونے کا انکار نہیں کرتی۔ عقلاً ان سے اس کا خلاف پایا جاسکتا ہے جن کا انہیں مکلف کیا گیا ہے ان میں شہوات پیدا کی جاسکتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے۔ اسی وجہ سے انبیاء، اولیاء، فضلا، علماء کا خوف تھا لیکن اس جائز کے وقوع کا ادراک نہیں ہو سکتا مگر نقل کے ساتھ۔ اور وہ نقل صحیح نہیں ہے ایک اور چیز جو اس واقعہ کی عدم صحت پر دلالت کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو پیدا فرمایا اور ان کواکب کو پیدا فرمایا جب آسمان کو پیدا فرمایا۔ حدیث میں ہے: جب آسمان کو پیدا کیا گیا تو اس میں سات گردش کرنے والے ستارے پیدا کئے: زحل، مشتری، بہرام، عطارد، زہرہ، سورج اور چاند۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کل فی فلکٍ یسبحون۔ (الانبیاء) کا یہی معنی ہے اس سے ثابت ہوا کہ زہرہ اور سہیل یہ آدم کی تخلیق سے پہلے موجود تھے پھر فرشتوں کا یہ قول جو نقل کیا گیا ہے کہ "ہمارے لئے یہ مناسب نہیں" باعث عار ہے، تو ہمیں آزمانے پر قادر نہیں یہ کفر ہے ہم اللہ تعالیٰ کی اس سے پناہ مانگتے ہیں اور معزز فرشتوں کی طرف ایسی نسبت کرنے سے پناہ مانگتے ہیں ہم ان کی پاکیزگی اور طہارت بیان کرتے ہیں جو کچھ ذکر کیا گیا ہے اور جو کچھ مفسرین نے نقل کیا ہے اس سے فرشتے پاک ہیں : سبحان ربک رب العزۃ عما
یصفون۔
تفسير قرطبي
البقرة :102
یہ روایت من گھڑت کیوں ہے؟ 
روایت موضوع ومن گھڑت ہے
کیونکہ یہ اسلام کے بنیادی اصول کے خلاف ہے
کیونکہ فرشتہ کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ
وہ اس سے آگے بڑھ کر بات نہیں کرسکتے، اور وہ اسی کے حکم پر عمل کرتے ہیں، 021:027
یعنی فرشتے ادب، خشوع وتعبد میں  اللہ کے حکم کے منتظر رہتے ہیں۔
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ
اس کو معلوم ہے جو ان کے آگے ہے اور پیچھے اور وہ سفارش نہیں کرتے مگر اس کی جس سے اللہ راضی ہو اور وہ اس کی ہیبت سے ڈرتے ہیں ۔021:028
وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے،  اور وہ شفاعت بھی نہیں کرسکتے (کسی کی) بجز اس کے کہ جس کیلئے (اللہ کی) مرضی ہو اور وہ (سب) اس کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں،
یعنی فرشتوں کو یہ بھی یقین ہے کہ اللہ سب کے اگلے پچھلے احوال خوب جانتا ہے، اس لئے اس کا جو اور جب حکم ہوگا حکمت کے موافق ہی ہوگا، اس لئے چون وچرا کی گنجائش ہی نہیں۔
اس آیت میں ان کے ادب و اطاعت گزاری، اور ان کی مغلوبیت ومحکومیت کا نقشہ کھینچا گیا ہے 
لہذا ان کی عصمت صدور گناہ کے منافی ہے
نیز جب فرشتے بابل کے کنویں میں اوندھے منہ لٹکے ہوئے ہیں تو پھر انہیں لوگوں کو سحر سکھانے کا موقع کب ملا ؟؟
حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی نے اپنی تفسیر معارف القرآن میں اور بھی دیگر دلائل سے اس واقعہ کے بطلان کو ثابت کیا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ من گھڑت، بے بنیاد اور موضوع روایت ہے
یہودیوں کی کتابوں سے نقل در نقل ہوتے تفسیری کتابوں میں منقول ہوگئے ہیں
محدثین نے روایتا اور متکلمین نے درایتا پورے شد ومد کے ساتھ اس کی تردید کی ہے
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
29 جولائی 2018

No comments:

Post a Comment