Friday, 30 September 2016

اہل اسلام کو سال نو مبارک

ایس اے ساگر

وعن عبد الله بن هشام قال : 
كان أصحاب رسول الله ﷺ - 
يتعلمون هذا الدعاء إذا دخلت السنة أو الشهر : 
" اللهم أدخله علينا بالأمن والإيمان ، والسلامة والإسلام ، ورضوان من الرحمن ، وجوار من الشيطان " . 
رواه الطبراني في الأوسط ، 
وإسناده حسن .
-  كان أصحابُ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يتعلَّمون هذا الدُّعاءَ إذا دخَلَتِ السَّنَةُ أو الشَّهرُ اللهمَّ أدخِلْه علينا بالأمنِ والإيمانِ والسَّلامةِ والإسلامِ ورِضوانٍ مِنَ الرَّحمنِ وجَوازٍ مِنَ الشَّيطانِ
الراوي:
عبدالله بن هشام 
المحدث:  

الهيثمي      
-   المصدر:  مجمع الزوائد  -   الصفحة أو الرقم:  10/142خلاصة حكم المحدث:  إسناده حسن‏‏
ہجری سال قمری ہجری تقویم (ماہ و سال) کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے بعض ممالک میں اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری تقویم سے مراد تواریخ کا حساب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے لگانا ہے۔ اس میں جو مہینے استعمال ہوتے ہیں ان کا استعمال اسلام سے پہلے بھی تھا۔ جس میں سے محرم پہلا مہینہ ہے۔ چونکہ ایک قمری تقویم ہے لہذا اس کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہے۔سال کا کل دورانیہ 354.367056 دن اور ایک ماہ کا کل دورانیہ 29.530588 دن ہے۔
تکنیکی معلومات:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدینہ کو ہجرت 26 صفر کو ہوئی۔ مگر چونکہ عرب لوگ سال کا آغاز محرم سے کیا کرتے تھے اس لئے اسلامی سال کو ایک ماہ 25 دن پیچھے سے شمارکیا گیا۔ اس لئے پہلی قمری ہجری کی پہلی تاریخ یعنی اول محرم مؤرخہ 16 جولائی 622ء کے مطابق ہوئی۔ حسب سابق اس میں بارہ ماہ رکھے گئے۔
1 محرّم یا محرم الحرام
2 صفر یا صفر المظفر
3 ربیع الاول
4 ربیع الثانی
5 جمادی الاولی
6 جمادی الثانیہ
7 رجب یا رجب المرجب
8 شعبان یا شعبان المعظم
9 رمضان یا رمضان المبارک
10 شوال یا شوال المکرم
11 ذوالقعدۃ
12 ذوالحجۃ
ہر مہینہ انتیس یا تیس دن کا ہوتا ہے۔ جس کے شروع ہونے کا فیصلہ چاند کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ قمری ہجری سال ہر عیسوی سال کی نسبت دس یا گیارہ دن پہلے شروع ہوتا ہے یعنی ہر سال ہجری اور عیسوی سال کا وقفہ کم ہو جاتا ہے۔ اندازا ہے کہ سن 20842 میں ایک ہی قمری ہجری اور عیسوی سال ہوگا۔ ہر 33 یا 34 سال بعد ایسا موقع آتا ہے جب ایک قمری ہجری سال مکمل طور پر ایک عیسوی سال کا اندر ہی رہتا ہے جیسا سن 2008 عیسوی میں۔
عربوں کی اصل تقویم:
جامعہ بنوریہ عالمیہ، انچارج تخصص فی التفسیر وڈپٹی ایڈیٹر ہفت روزہ اخبارالمدارس سینئر ریسرچ اسکالر مولانا محمد جہان یعقوب رقمطراز ہیں کہ عربوں کی اصل تقویم قمری تقویم تھی، مگر وہ مدینہ منورہ کے پڑوس میں آباد یہودی قبائل کی عبرانی (یہودی) تقویم کے طرز پر اپنے تجارتی اور ثقافتی فائدے کی خاطر خالص قمری کی بجائے قمری شمسی تقویم استعمال کرتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اس قمری شمسی تقویم کو ہمیشہ کیلئے منسوخ فرماکر خالص قمری تقویم کو بحال رکھا، جس کا آغاز ہجرت مدینہ کے اہم واقعے سے کیا گیا تھا، لہٰذا یہ تقویم ہجری تقویم کے نام سے موسوم ہوئی۔ اس کی ابتدا خود حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے ہوئی اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں سرکاری مراسلات میں ’اسلامی قمری ہجری‘ تاریخ کا اندراج لازمی قرار دیا، یہ ان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جوان کی یاد دلاتا رہے گا۔
احکام شرعیہ کا دارومدار:
انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ آج کے مسلمان اور بالخصوص نئی پود کو، جو مستقبل کی معمار و صورت گرہے، اسلامی ہجری تقویم کے مہینوں کے نام تک معلوم نہیں، اگرچہ دفتری ضروریات کے تحت گریگورین (عیسوی) کیلندڑ کا استعمال درست ہے، تاہم اسلامی مہینوں کے ناموں کا جاننا اور ان کی عظمت و فضیلت کا قائل ہونا بھی فرض کفایہ ہے۔ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم میں احکام شرعیہ مثلاً: حج و غیرکا دارومدار قمری تقویم پر ہے۔ روزے قمری مہینے رمضان کے ہیں۔ نزول قرآن بھی رمضان میں ہوا، عورتوں کی عدت، زکوٰۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط وغیرہ سب قمری تقویم کے اعتبار سے ہیں. عیدین یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی کا تعلق بھی قمری تقویم سے ہے۔ ناس ہو لارڈ میکالے کے وضع کردہ نظام تعلیم کا، جس نے ہمیں اسلاف کی دوسری زریں روایات کے ساتھ ساتھ اپنی اصل ہجری قمری تقویم بھی بھلادی۔ ہمیں اپنے بچوں کو اہتمام وخصوصیت سے اسلامی سال کے مہینوں کے نام یاد کروانے چاہئیں۔
قمری تقویم کی بنیاد زمین کے گرد چاند کی ماہانہ گردش پر ہے اور ہر مہینے کا آغاز نئے چاند سے ہوتاہے ۔قمری تقویم میں تاریخ کا آغاز غروب شمس سے ہوتا ہے اور قمری مہینہ کبھی 29 دن کا اور کبھی 30 دن کا ہوتا ہے۔ یوں قمری سال عموما 354 دن اور بعض مرتبہ 355 دن کا ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف موجودہ رائج عیسوی تقویم میں آج کل دن کا آغاز رات بارہ بجے سے ہوتا ہے اور اس میں یہ بھی طے ہے کہ ہر سال کون سامہینہ کتنے دنوں کاہوگا، جبکہ فروری کا مہینہ عام طور پر 28 دن کا لیاجاتا ہے اور لیپ یعنی چار پر تقسیم ہونے والا ہر چوتھے سال میں 29 دن کا ہوتا ہے۔ مہینوں کی یہ تعداد خود ساختہ ہے، کسی قاعدہ یا ضابطہ کے تحت نہیں البتہ سب مہینوں کے دنوں میں مجموعی تعداد 365 اور لیپ کے سال میں 366 دن ہوتی ہے۔
سال کے تمام موسم :
اس کے مقابل قمری تقویم میں ابہام ہے، جس میں کئی مصلحتیں پوشیدہ ہیں، مثلا: بعض اہم مواقع پر اس ابہام سے پیدا ہونے والی انتظاری کیفیت (سسپنس) نہایت مسرت افزا ہوتی ہے، اہل اسلام عید الفطرکے ہلال کی امکانی رویت و عدم رویت سے پیدا ہونے والی انتظاری کیفیت میں چاند دیکھنے کی والہانہ کوشش کرتے ہیں ۔بچوں، جوانوں ، بوڑھوں ، مردوں اور عورتوں کی چاند دیکھنے کی یہ مسرت آمیز مساعی ایک عجیب سماں پیدا کرتی ہیں۔ اگر عید وغیرہ کا دن پہلے سے ہی سو فیصد یقین کے ساتھ متعین اور مقرر ہوتا تو یقینا ہلال عید کی یہ خوشی نصیب نہ ہوتی۔ قمری مہینوں کی موسموں سے عدم مطابقت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ بعض نہایت اہم احکام شرعیہ مثلا؛ صیام رمضان کی تعمیل زندگی بھر میں تمام موسموں میں ممکن ہوجاتی ہے، مثلا؛ ایک شخص بالغ ہونے پر رمضان کے روزے رکھنا شروع کرتا ہے اور پچیس برس روزے رکھنے پر جسمانی صحت کے لحاظ سے روزے رکھنے کے قابل رہتاہے، تو وہ موسم گرما، موسم سرما ،موسم بہار اورموسم خزاں یعنی سال کے تمام موسموں میں روزے رکھنے کی سعادت حاصل کرلیتا ہے۔ اگر اس طرح کے احکام کے لئے شمسی مہینے متعین کئے جاتے تو ساری عمر ایسے احکام کی تعمیل ایک ہی موسم میں ہوتی، بلکہ شمالی نصف کرہ اور جنوبی نصف کرہ کے موسمی تضاد کی وجہ سے بعض علاقوں اور ملکوں کے لوگ موسم گرمامیں اور دوسرے علاقوں کے لوگ موسم سرما میں ان احکام کی تعمیل کے لئے ہمیشہ پابند ہوکر رہ جاتے اور ان احکام کی بجاآوری کے سلسلے میں موسمی تغیرات کا فائدہ نہ اٹھاسکتے، اسلامی تقویم نے ہی یہ بات ممکن بنادی ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین نے قمری ہجری تقویم کی بعض دیگر خصوصیات بھی بیان کی ہیں، من جملہ ان میں یہ بھی ہے کہ جب سے سن ہجری کا آغاز ہوا ہے، اس وقت سے لے کر آج تک اس میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، یہ خصوصیت غالباً صرف قمری تقویم ہی کو حاصل ہے۔ سن ہجری میں ہفتے کا آغاز جمعہ کے دن سے ہوتا ہے، جو سیدالایام یعنی تمام دنوں کا سردارہے۔ ہجری تقویم میں شرک ، نجوم پرستی یا بت پرستی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ مہینوں اور دنوں کے ناموں کو دوسری تقاویم کی طرح کسی بادشاہ، سیارے یا دیوی ، دیوتا سے کوئی نسبت نہیں. شرائع سابقہ میں بھی دینی مقاصد کیلئے یہی تقویم مستعمل تھی بعد میں لوگوں نے اس خالص قمری تقویم میں تحریف کرتے ہوئے اسے شمسی یا قمری شمسی تقویم میں بدل ڈالا۔ سال کا آغاز یکم محرم الحرام سے ہوتاہے، اور محرم الحرام کا یہ دن ہمیں ایک عظیم اور لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے کہ اس دن مراد رسول حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ایک بین الاقوامی سازش کے نتیجے میں شہید کردیا گیا تھا، اسی طرح اس مہینے کے ابتدائی دس دن ہمیں اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی فقید المثال قربانی کی یاد دلاتے ہیں کہ دین کی خاطر کیسی کیسی نابغہ روزگار شخصیات کو خاک و خون میں تڑپایا گیا، لہٰذایہ دین جب بھی قربانی کا تقاضا کرے، ان عظیم نفوس قدسیہ کی قربانیوں کو یاد کرکے قربانی کے لئے بصد دل وجان تیار ہوجانا،
کہ دانہ خاک میں مل کر گل وگل زار ہوتا ہے

اہل اسلام کو نئے سال کی مبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ ہم یہ پیغام بھی دیناچاہتے ہیں کہ ہمیں اپنی اصل پہچان یعنی اسلامی ہجری سال کو بالکل نہیں بھلا دینا چاہئے، بلکہ اس کے نام بھی یاد رکھنے چاہئیں اور اسے استعمال بھی کرناچاہئے، کہیں ایسا نہ ہوکہ آئندہ چند سال میں ہماری نئی پود کے ذہنوں سے یہ تصور ہی محو ہوجائے کہ ہم بھی ایک زندہ جاوید تہذیب و تاریخ کے امین ہیں، ہمارا بھی ایک شاندار ماضی ہے، ہمارا بھی ایک تشخص ہے۔
ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی:
قمری ہجری سے عیسوی تاریخ میں منتقلی کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ ہجری سال کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں۔ جواب میں اعشاریہ سے پہلے جو حصہ ہے وہ سال کو ظاہر کرے گا۔ اگر اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دے دی جائے تو جواب میں ان دنوں کی تعداد آ جائے گی جتنے دنوں کے بعد اس عیسوی سال میں یکم محرم ہوگی۔ یہ اعداد و شمار ایک یا دو دن کے فرق سے معلوم ہوں گے کیونکہ ایک ہی وقت میں دنیا کےمختلف حصوں میں دو مختلف اسلامی تاریخیں ممکن ہیں۔ 0.970224 اصل میں عیسوی سال کے حقیقی دورانیہ کو ہجری سال کے حقیقی دورانیہ پرتقسیم کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر 1428 کو 0.970224 سے ضرب دیں اور اس میں 621.5774 جمع کر دیں تو جواب میں 2007.057272 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ 1428 ہجری سن 2007 عیسوی میں شروع ہوگا۔ اگر 2007.057272 کے اعشاریہ کے بعد والے حصے کو 365 سے ضرب دی جائے تو 20.9 حاصل ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ یکم محرم 1428 ہجری دنیا کے کچھ حصوں میں 20 جنوری 2007 عیسوی اور کچھ حصوں میں 21 جنوری 2007 عیسوی کو شروع ہوگا۔ یاد رہے کہ چونکہ عیسوی تقویم میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں اس لئے 1500 عیسوی سے پہلے کی تاریخوں سے یکم محرم کا حساب لگانے کے لئے 365 سے ضرب دینے کے بعد تین تفریق کرنا ضروری ہے۔

1 محرّماسلامی سال کا پہلا دن اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یوم شہادت
10 محرّمشہادت حضرت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ يوم عاشوراء
28 صفررحلت حضور سرورکائنات حضرترسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورشہادت حضرت  حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ
12 ربیع الاولولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔ بعض روایات کے مطابق 9 ربیع الاول اور بعض کے مطابق 17 ربیع الاول
22 جمادی الثانیابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وفات پائی
13رجبولادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ
27 رجبواقعہ معراج
15 شعبانشب براتاور قبلہ تبديل كرنے كا حكم
3 رمضانحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی
17 رمضانحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی اور غزوہ بدر پیش آیا
19 رمضانحضرت علی کرم اللہ وجہہ پر قاتلانہ حملہ
21 رمضانشہادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ
27 رمضانشب قدر۔ ویسے یہ رمضان کی آخری راتوں میں کسی بھی طاق رات میں ہو سکتی ہے
یکم شوالعید الفطراور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی وفات
7 شوالغزوہ احد پیش آیا
23 شوالغزوہ خندق پیش آیا
5 ذوالحجۃغزوہ سویق پیش آیا
10 ذوالحجۃعید الاضحیٰ اور آخرى وحی كا نزول
18 ذوالحجۃعثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یوم شہادت

No comments:

Post a Comment