Saturday 24 September 2016

الحق مر فلا نزيده مرارة

ایس اے ساگر
سچ کڑوا ہوتا ہے
نیم کے درخت کڑواہوتا ہے ،نبولی سے لے کر پتوں تک عرق کا مزا بظاہر کڑوا ہوتی ہے ....
لیکن نتائج کافی مثبت ظاہرہوتے ہیں....
بعینہ بعض انسان کے سچ میں بظاہر کڑواہٹ کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے....
لیکن اس کے نتائج بہت دوررس ہوتے ہیں....
غور کریں تو نیم کے درخت اور انسان کے سچ میں کافی مماثلت ہے، جیسے نیم کا عرق ہر شخص نہیں لے سکتا ،ایسے ہی ہر شخص سچ بول نہیں سکتا....
کیوں کہ جیسے نیم کا عرق لینے سے منہ کا ذائقہ کڑوا ہو جاتا ہے ایسے ہی سچ بولنے سے سامنے والے کا منہ بن جاتا ہے،بالکل اسی طرح جیسے کسی ناسمجھ کو نیم کا عرق پلا دیا ہو....
تاہم نتائج دونوں کے ایک جیسے ہیں....
نیم کے عرق کا نتیجہ بھی بعد میں ظاہر ہوتا ہے اور سچ بولنے کا نتیجہ بھی بعد میں ہی ظاہر ہوتا ہے....
...لیکن اس کا کیا کیجئے کہ وقتی طور پر دونوں ہی کڑوے ہوتے ہیں....
برصغیر اپنے آپ میں ایک منفرد اور متنوع خطہ ہے، یہاں بہت سی ملتی جلتی اور بہت سی یکسر مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان کے بے شمار لہجے ہیں، دوسرے فنون کا ایک عظیم ورثہ ہے جسے اس عظیم خطے کے باسی صدیوں سے بلکہ ہزاروں سال سے پالتے پوستے  اور بڑھاتےآئے ہیں۔ یہاں سمندر بھی ہیں اور دنیا کے عظیم تر پہاڑ بھی ,یہاں میدان بھی ہیں اور وسیع و عریض صحرا بھی ، شدید سرد علاقے بھی ہیں اور گرم ترین بھی غرض جو کچھ جہاں میں ہے وہ ہندوستاں میں ہے۔ یہی حال نباتاتی ورثے کا بھی ہے۔ ہر طرح کا پھول پودا اور درخت یہاں پھلتا پھولتا ہے۔ ایسے درخت ہیں جو ہمالیہ کے دامن سے لے کر جنوب میں تامل ناڈو تک اور بنگال سے لے کر سندھ تک یکساں طور پر پائے جاتے ہیں ۔
.
.
.
جنگ سے پیشتر وزیراعظم ضرور کریں یہ 35 کام:
رویش کمار
حملہ صرف اڑی کے بیس کیمپ پر نہیں ہوا ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بنے بھکتوں کے کیمپ پر بھی ہو گیا ہے. حریفوں کو بھی چھرے لگ گئے ہیں. دونوں چیخ رہے ہیں. جنگ کی للکار اور نہ ہونے پر پھٹکار کی بھرمار ہو گئی ہے. وزیر اعظم کیا کریں، کیا نہ کریں کی باڑھ آئی ہوئی ہے. اسی سیلاب سے گھبرا کر میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وزیر اعظم کبھی نہیں بنوں گا.
صلاحوں کے اس سیلاب سے مجھے وزیر اعظم سے ہمدردی ہو رہی ہے. ان سے فیصلہ لینے میں جو تاخیر ہو رہی ہے، اس جنگ کے متمنی بے چین ہوئے جا رہے ہیں. میں فیصلہ لینے میں ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں. چاہتا ہوں کہ وہ آزادانہ طور سے فیصلہ لیں. آگے اپنے طریقوں کو بتاتے ہوئے جگہ کی کمی کی وجہ سے پرائم منسٹر کو پر م لکھ رہا ہوں. میں نے وزیر اعظم کو جنگ کے لئے پینتیس قدم بتائے ہیں. چونکہ ان کا پتہ جنگ کے ہنگامے کے درمیان ہی بدل گیا ہے، اس وجہ سے ڈاک سے خط بھیجنے کے بجائے یہاں پوسٹ کر رہا ہوں تاکہ عوامی فلاح و بہبود کے راستے پر رہتے ہوئے وہ جنگ کرکے عوامی فلاح وبہبود کا کام کر سکیں.
1) سب سے پہلے پر م کسی جنرل کے ہمراہ چینل کے پینل میں آئیں.
2) پینل میں پندرہ سال پہلے ریٹائر ہوئے جنرل ہی ہوں.
3) ریٹائر جنرل پینل میں جنگ اچھا کرتے ہیں.
4) پر م موجودہ جرنلوں کے ہمراہ پینل میں نہ آئیں.
5) موجودہ جرنلوں کو جنگ کرنا نہیں آتا ہے.
6) چینل کے پینل میں آکر اینکر کو بھروسہ دیں.
7) چینل کے پینل سے پاکستان کو للكاریں.
8) نیوز روم میں گھوم کر جنگ کی تیاری کا جائزہ لیں.
9) صدر کو رپورٹ دیں کہ سارے چینل جنگ کے لئے تیار ہیں.
10) چینلوں کے گرافکس روم میں جا کر وار روم بنانے کے لئے ہدایات جاری کریں.
11) پر م اخباروں میں شائع سارے ادارتی مضمون پڑھنے چلے جائیں.
12) حکومت بالکل بات نہ کرے، حکومت کی بات اینکر کرے.
13) جنگ کے وقت حکومت ڈیٹیل نہ بتائے بلکہ اینکر ڈیٹیل بتائے.
14) اینکر یہ بالکل نہ بتائے کہ یہ حکومت نے بتانے کے لئے کہا ہے.
16) پر م پیوش گوئل کو ہدایات دیں کہ پرائم ٹائم کے وقت کہیں بجلی نہ چلی جائے.
17) پر م تمام چینلوں پر نہ جائیں، نمبر سات کے چینل منتخب کریں جو اس ہفتے کے اس گھنٹے نمبر ون ہو جائے.
18) پر م میرے شو میں نہ آئیں، زیرو ٹی آر پی شو میں جانے سے کوئی فائدہ نہیں.
19) زیرو ٹی آر پی اینکروں کے ساتھ پر م کو دیکھ عوام یقین نہیں کرے گی کہ جنگ ہو جائے گی.
20) پر م پارٹی ترجمان کو بھی زیرو ٹی آر پی اینکروں کے قریب جانے سے منع کر دیں.
21) جنگ کا مجمع نمبر ون سے تین تک کے چینل پر ہی لگے.
22) ویسے تین سے سات نمبر والے چینل بھی جنگ کے لئے کم کوشاں نہیں ہیں.
23) پر م کے ساتھ ہونے والے اس ایكسٹرا سپر پرائم ٹائم کا پرومو خوب چلے گا.
24) چینل کے پینل میں پر م کو تین آپشن دیے جائیں گے.
25) سرجیکل اسٹرائک، كوورٹ اسٹرائک، اسٹرائک.
26) پر م کو ان تینوں میں سے ایک پر بٹن دبانا ہوگا.
27) اس کے بعد ان سے ووٹ ڈالنے کے لئے کہا جائے گا جن کے آدھار نمبر سے ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹ کھلے ہوں.
28) جو بھی نتائج آئیں گے، ان میں سے کوئی ایک ریٹائرڈ جنرل چن کر کے بتائیں گے کہ پر م کو کیا کرنا ہے.
29) اس کے بعد پر م کو دوسرے آپشن میں سے ایک پر بٹن دبانا ہوگا.
30) جنگ، سفارت کا انقطاع، اقتصادی تعلقات کا انقطاع.
31) یہ بات اینکر کہے گا کہ وزیر اعظم نے جو بھی بٹن دبایا ہے، دبا ہے وہی جس سے نیوکلیئر اسٹرائک ہوتا ہے کیونکہ ہم نے ہر بٹن کا تار نیوکلیئر بٹن سے جوڑ دیا تھا.
32) اس کے بعد ایک ایکسپرٹ قوم کو بتائے گا کہ نیوکلیئر اسٹرائک میں پچاس کروڑ لوگ مر جائیں گے، پچاس کروڑ بچ جائیں گے.
33) اس بات پر اینکر جھوم اٹھے گا. بریکنگ نیوز ہو جائے گی.
34) پچاس کروڑ مرنے والوں میں اینکر، کیمرہ مین اور ان کے اہل خانہ کا کوئی نہیں ہو گا.
35) جن کے خاندان سے کوئی اینکر ہے وہ کسی جنگ سے نہ گھبرائیں. انہیں کچھ نہیں ہوگا.
سوشل میڈیا اور میڈیا میں وزیر اعظم کو صلاح دینے والوں کی بھیڑ دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا. میں نے بھی ان صلاحوں کے حساب سے صلاح دینے کا اپنا خواب پورا کر لیا ہے. مجھ دیکھا نہیں جا رہا ہے کہ سب نے اس وقت وزیر اعظم کو تنہا چھوڑ دیا ہے. جنگ کا فیصلہ ان پر تھوپنا صحیح نہیں ہے. میڈیا کے ذریعہ جو ہوابازی ہو رہی ہے، وہی کافی ہے یہ بتانے کے لئے کہ جنگ ہو چکی ہے اور ہم جیت چکے ہیں. نیوکلیئر اسٹرائک میں پچاس کروڑ ہندوستانیوں کے مر مٹ جانے کی خواہش کرنے والے ایکسپرٹ کو قومی سلامتی کے مشیر نہ بنانے پر میں پہلی بار وزیر اعظم سے استعفی مانگتا ہوں. وہ چاہیں تو پہلی بار میری مانگ کو رجیکٹ کر سکتے ہیں.
میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم میرا یہ مضمون پڑھیں، ہنسیں، تھوڑے اداس بھی ہوں. حکومت کتنی بھی اچھی ہو اگر اس کے دور میں میڈیا بندر ہو جائے تو اس حکومت کی کوئی بھی زینت کم پڑ جاتی ہے. میڈیا کو پروپیگینڈے سے آزاد رکھنے کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہے. دکھ کی بات ہے کہ یہ بات حکومت میں رہتے ہوئے کبھی کسی حکومت کو سمجھ میں نہیں آتی. پروپیگنڈہ کرنے والا میڈیا اس حکومت کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے.
عوام کو حکومت کا کام بھلے نہ سمجھ میں آئے مگر یہ جلدی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ میڈیا چاپلوس ہے. میں نے یہ مضمون اسی لئے لکھا ہے تاکہ حکومت چاپلوس میڈیا سے دور رہے. لوگ اپنے رہنما کو بہت پیار کرتے ہیں لیکن لوگ اس رہنما کے چمچوں کو کبھی پیار نہیں کرتے ہیں. بھارتی میڈیا ایک دن اپنی چاپلوسی سے حکومتوں اور سیاست کے تئیں عوام کو خواہ مخواه باغی بنا دے گا.
میری اس تاریخی اور کلاسیکی اعلان کو چار بار پڑھیں اور میڈیا ستیاناش بول کر تین بار کسی بھی دریا کا پانی چھڑکیں. اس لئے کہ جمہوریت میں حکومت اور سیاست کی وفاداری بہت ضروری ہے. یہ بھی تبھی ممکن ہے جب میڈیا کی تھوڑی بہت وفاداری بچی رہے. باقی آپ قاری خود سمجھدار ہیں. چینلوں کے یہ پینل ایک دن آپ کو بیوقوف بنا دیں گے. جلد ہی اس کی تصدیق کوئی ڈاکٹر کرنے والا ہے. حماقت ایک بیماری ہے. یہ بھارتی چینلوں کی دین ہوگی. اس اینکر اور ڈاکٹر کو مشترکہ طور پر نوبل انعام ملے گا.


युद्ध से पहले प्रधानमंत्री ये 35 काम ज़रूर करें

- रवीश कुमार
युद्ध से पहले प्रधानमंत्री ये 35 काम ज़रूर करें- रवीश कुमार
Facebook Share
हमला सिर्फ उड़ी के बेस कैंप पर नहीं हुआ है बल्कि सोशल मीडिया पर बने भक्तों के कैंप पर भी हो गया है. विरोधी को भी छर्रे लग गए हैं. दोनों चीख़ रहे हैं. युद्ध की ललकार और न होने पर फटकार की भरमार हो गई है. प्रधानमंत्री क्या करें, क्या न करें की बाढ़ आई हुई है. इसी सैलाब से भयाक्रांत होकर मैंने तय कर लिया है कि प्रधानमंत्री कभी नहीं बनूंगा.
सलाहों के इस सैलाब से मुझे प्रधानमंत्री से सहानुभूति हो रही है. उनसे निर्णय लेने में जो देरी हो रही है, उससे युद्धकामी अधीर हुए जा रहे हैं. मैं फ़ैसला लेने में उनकी मदद करना चाहता हूं. चाहता हूं कि वे स्वतंत्र भाव से निर्णय लें. आगे अपने उपायों को बताते हुए जगह की कमी के कारण प्रधानमंत्री को प्र म लिख रहा हूं. मैंने प्रधानमंत्री को युद्ध के लिए पैंतीस कदम बताए हैं. चूंकि उनका पता युद्ध के हंगामे के बीच ही बदल गया है, इसलिए डाक से पत्र भेजने के बजाय यहां पोस्ट कर रहा हूं ताकि लोक कल्याण मार्ग पर रहते हुए वे युद्ध कर जनकल्याण का कार्य कर सकें.
1) सबसे पहले प्र म किसी जनरल संग चैनल के पैनल में आएं.
2) पैनल में पंद्रह साल पहले रिटायर हुए जनरल ही हों.
3) रिटायर जनरल पैनल में युद्ध अच्छा करते हैं.
4) प्र म मौजूदा जनरलों के संग पैनल में न आएं.
5) मौजूदा जनरलों को युद्ध करना नहीं आता है.
6) चैनल के पैनल में आकर एंकर को भरोसा दें.
7) चैनल के पैनल से पाकिस्तान को ललकारें.
8) न्यूज़ रूम में घूमकर युद्ध की तैयारी का जायज़ा लें.
9) राष्ट्रपति को रिपोर्ट दें कि सारे चैनल युद्ध के लिए तैयार हैं.
10) चैनलों के ग्राफिक्स रूम में जाकर वॉर रूम बनाने के लिए निर्देश दें.
11) प्र म अख़बारों में छपे सारे संपादकीय लेख पढ़ने चले जाएं.
12) सरकार बिल्कुल बात न करे, सरकार की बात एंकर करे.
13) युद्ध के समय सरकार डिटेल न बताये बल्कि एंकर डिटेल बताये.
14) एंकर ये बिल्कुल न बताये कि ये सरकार ने बताने के लिए कहा है.
16) प्र म पीयूष गोयल को निर्देश दें कि प्राइम टाइम के वक्त कहीं बिजली न जाए.
17) प्र म सभी चैनलों पर न जाएं, नंबर सात के चैनल चुनें जो उस हफ्ते के उस घंटे नंबर वन हो जाए.
18) प्र म मेरे शो में न आएं, ज़ीरो टीआरपी शो में जाने से कोई लाभ नहीं.
19) ज़ीरो टीआरपी एंकर के साथ प्र म को देख जनता विश्वास नहीं करेगी कि युद्ध होगा.
20) प्र म पार्टी प्रवक्ता को भी ज़ीरो टीआरपी एंकर के करीब जाने से मना कर दें.
21) युद्ध का मजमा नंबर वन से तीन तक के चैनल पर ही लगे.
22) वैसे तीन से सात नंबर वाले चैनल भी युद्ध के लिए कम प्रयासरत नहीं हैं.
23) प्र म के साथ होने वाले इस एक्सट्रा सुपर प्राइम टाइम का प्रोमो ख़ूब चलेगा.
24) चैनल के पैनल में प्र म को तीन विकल्प दिये जाएंगे.
25) सर्जिकल स्ट्राइक, कोवर्ट स्ट्राइक, स्ट्राइक.
26) प्र म को इन तीनों में से एक पर बटन दबाना होगा.
27) उसके बाद उनसे वोट करने के लिए कहा जाएगा जिनका आधार नंबर से ट्वीटर और फेसबुक खाता खुला हो.
28) जो भी नतीजे आएंगे, उनमें से कोई एक रिटायर्ड जनरल चुनकर बतायेंगे कि प्र म को क्या करना है.
29) इसके बाद प्र म को दूसरे विकल्पों में से एक पर बटन दबाना होगा.
30) युद्ध, कूटनीतिक विच्छेद, आर्थिक संबंध विच्छेद.
31) यह बात एंकर कहेगा कि प्रधानमंत्री ने जो भी बटन दबाया है, दबा है वही जिससे न्यूक्लियर स्ट्राइक होता है क्योंकि हमने हर बटन का तार न्यूक्लियर बटन से जोड़ दिया था.
32) इसके बाद एक एक्सपर्ट राष्ट्र को बताएगा कि न्यूक्लियर स्ट्राइक में पचास करोड़ लोग मर जाएंगे. पचास करोड़ बच जाएंगे.
33) इस बात पर एंकर झूम उठेगा. ब्रेकिंग न्यूज हो जाएगा.
34) पचास करोड़ मरने वालों में एंकर, कैमरामैन और उनके परिवार का कोई नहीं होगा.
35) जिनके परिवार से कोई एंकर है वो किसी युद्ध से न घबरायें. उन्हें कुछ नहीं होगा.
सोशल मीडिया और मीडिया में प्रधानमंत्री को सलाह देने वालों की भीड़ देखकर मुझसे रहा नहीं गया. मैंने भी इन सलाहों के हिसाब से सलाह देने का अपना सपना पूरा कर लिया है. मुझसे देखा नहीं जा रहा है कि सबने इस वक्त प्रधानमंत्री को अकेला छोड़ दिया है. युद्ध का फ़ैसला उन पर थोपना सही नहीं है. मीडिया के ज़रिये जो हवाबाज़ी हो रही है, वही काफी है यह बताने के लिए कि युद्ध हो चुका है और हम जीत चुके हैं. न्यूक्लियर स्ट्राइक में पचास करोड़ भारतीयों के मर मिट जाने की कामना करने वाले एक्सपर्ट को राष्ट्रीय सुरक्षा सलाहकार न बनाने पर मैं पहली बार प्रधानमंत्री से इस्तीफ़ा मांगता हूं. वे चाहें तो पहली बार मेरी मांग को रिजेक्ट कर सकते हैं.
मैं बस इतना चाहता हूं कि प्रधानमंत्री मेरा यह लेख पढ़ें. हंसें. थोड़े उदास भी हों. सरकार कितनी भी अच्छी हो अगर उसके दौर में मीडिया बंदर हो जाए तो उस सरकार का कोई भी श्रृंगार फीका पड़ जाता है. मीडिया को प्रोपैगैंडा मुक्त रखने की ज़िम्मेदारी भी सरकार की है. दुख की बात है कि यह बात सरकार में रहते हुए कभी किसी सरकार को समझ नहीं आती. प्रोपेगैंडा करने वाला मीडिया उस सरकार के सभी प्रयासों पर पानी फेर देता है.
जनता को सरकार का काम भले न समझ आए मगर यह जल्दी समझ आ जाता है कि मीडिया चाटुकार है. मैंने यह लेख इसीलिए लिखा है कि ताकि सरकार चाटुकार मीडिया से दूर रहे. लोग अपने नेता को बहुत प्यार करते हैं लेकिन लोग उस नेता के चमचों को कभी प्यार नहीं करते हैं. भारतीय मीडिया एक दिन अपनी चाटुकारिता से सरकारों और राजनीति के प्रति जनता को ख़्वामख़ाह बाग़ी बना देगा.
मेरी इस ऐतिहासिक और कालजयी उद्घोषणा को चार बार पढ़ें और मीडिया सत्यानाश बोलकर तीन बार किसी भी नदी का जल छिड़कें. इसलिए कि लोकतंत्र में सरकार और राजनीति की विश्वसनीयता बहुत जरूरी है. यह भी तभी संभव है जब मीडिया की थोड़ी बहुत विश्वसनीयता बची रहे. बाकी आप पाठक खुद समझदार हैं. चैनलों के ये पैनल एकदिन आपको मूर्ख बना देंगे. जल्दी ही इसकी पुष्टि कोई डॉक्टर करने वाला है. मूर्खता एक बीमारी है. यह भारतीय चैनलों की देन होगी. उस एंकर और डॉक्टर को संयुक्त रूप से नोबल पुरस्कार मिलेगा.

No comments:

Post a Comment