Monday 19 September 2016

شیعہ فرقہ دلائل کی روشنی میں

شیعہ کے کتنے فرقے ہیں ؟
کیا سبھی فرقے کافر ہیں؟
شیعہ کو سلام کرنا اور ان سے معاملات وتعلق رکھنا کیسا ہے ؟
بحوالہ مدلل اس پر روشنی ڈالیں...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب و باللہ التوفيق
حامدا و مصلیا و مسلما
اولا شیعہ کے بارے میں جاننا ضروری ہے کہ یہ کونسی جماعت ہے کیسے وجود میں آئی۔
اس بارے میں ماہنامہ اعتدال میں بہت اچھا مضمون ہے ملاحظہ ہو:
رافضیت کا پس منظر اور اس کے فرقے
ماہنامہ اعتدال سے ماخوذ

رافضیت اور اس کے عقائد و تصورات یک بارگی پیدا نہیں ہوئے بلکہ مختلف مراحل کے ذریعہ اس کا ارتقاء ہوا ہے. شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں بالتفصیل جائزہ لیا ہے کہ کس طرح شیعیت کا آغاز ہوا اور مرحلہ در مرحلہ اس میں ترقی ہوئی۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں: 

’’اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں جب یہود ، نصاریٰ ، مجوسی ، اوربت پرستوں کے شہر اللہ تعالیٰ کی عنایت سے صحابۂ کرام و تابعین عظام کے ہاتھوں پر فتح ہوئے اور قتل و قید و لوٹ مار بدبخت کافروں پر پڑی اور ان کو انتہائی ذلت و عار کا منہ دیکھنا پڑا تو اول دو خلفاء کے دور میں کفار نے حمیت و غضب کے جوش سے بہت کچھ ہاتھ پیر مارے، قتل و جدال کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ لیکن چونکہ مدد الہٰی طائفہ اسلام کی پشت پناہی میں تھی، اس لئے کافروں کے ہاتھ سوائے ذلت وزیاں کاری کے اور کچھ نہیں آیا۔ مجبوراًخلیفۂ سوم کے عہد میں ایک دوسرا حیلہ تراشا اور زبردست مکر سے کام لیا۔ ان میں سے بہت بڑی جماعت کلمہ اسلام پڑھ کر جماعت مسلمین میں شامل ہوئی اورنور اسلام بجھانے کی فکر میں لگ گئی. یہ بدترین سوچنے لگے کہ کس طرح فتنہ و فساد اور بغض و عناد مسلمانوں میں پیدا کیا جائے۔ ناگاہ تقدیر الہٰی سے جب دور خلافت ختم ہونے لگا، مصریوں کی ایک جماعت نے خلیفہ ثالث کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ اوران کی اطاعت سے باہر ہوئے۔ بغاوت کی آگ بھڑکانے میں یہ جماعت سب سے زیادہ پیش پیش تھی۔ اس جماعت کے افراد اس موقع کو غنیمت جان کر اطراف و جوانب خصوصا ً کوفہ و نواحیِ عراق سے مدینہ منورہ میں سمٹ آئے۔ اور وہ فتنہ انگیزباتیں جو سالوں سے سو چ رکھی تھیں لیکن دبدبہ اسلام کی وجہ سے برملا زبان پر نہ لاسکتے تھے، علی الاعلان کہنا شروع کردیں۔ اب جب خلیفہ برحق حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت واقع ہوئی اور خاتم الخلفاء حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت وجود میں آئی تو اس جماعت نے خود کو حضرت علی کے محبین و مخلصین میں ظاہر کیا اور شیعہ علی اپنا لقب رکھا اور اس ہنگامہ سے بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے چاہا کہ اپنے بد باطن دلوں کی پوشیدہ باتوں کو بے خوف و خطر ظاہر و آشکارا کردیں اور اس فتنہ کو جو مٹنے اور بچنے کے قریب تھا، دراز کریں۔ اس جماعت کا سرگروہ عبداللہ ابن سبا یہودی یمنی صنعانی تھا جو بحالِ یہودیت سالہا دھوکے و گمراہی کا جھنڈا بلند کرچکا تھا ۔۔۔ اس نے سب سے پہلے خاندان نبوی کے ساتھ خلوص و محبت کا اظہار شروع کیا اور لوگوں کو اہل بیت کی محبت پر مضبوطی سے بھڑکانے لگا۔ خلیفہ برحق کی جانب داری، دوسروں کے مقابلہ میں ان کا انتخاب، ان کے مخالفین کی طرف ہرگز میل نہ کرنا ان سب پر زور دیا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کا معتمد علیہ بن جائے۔ پھر اس نے یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حضرت مرتضیٰ سب سے افضل اور نبی کریم سے سب سے اقرب انسان ہیں۔ کیوں کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وصی برادر ، اور داماد ہیں۔ جب اس نے دیکھا کہ اس کے شاگرد جناب علی مرتضیٰ کی افضلیت کو مان چکے تو اپنے خالص بھائیوں اور چیدہ دوستوں کو ایک دوسرے راز کی تعلیم دی کہ جناب امیر پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے وصی تھے اور آپ نے کھلے الفاظ میں ان کو اپنا خلیفہ بنایا تھا اور یہ کہ آپ کی خلافت قرآن مجید سے ثابت ہوتی ہے لیکن صحابہ نے مکْر سے اور اقتدار کی خاطر آنحضرت کی وصیت کو ضائع کردیا اور اللہ و رسول کی اطاعت نہیں کی۔ حَقِّ مرتضی کو تلف کردیا، دنیا کے لالچ میں آکر دین سے برگشتہ ہوگئے۔ اس طور پر ابن سبا نے صحابۂ کرام کے خلاف لوگو ں کو بھڑکایا اور خلفاء ثلاثہ پر طعن و دشنام کا تیر چلایا۔ جب اس کے شاگردوں نے اس کو مان لیا اور جماعت صحابہ سے نفرت و بیزاری کا اظہار کرنے لگے تو اسی نے ایک چال اور چلی اور اپنے مخصوص چنندہ شاگردوں سے عہد و پیمان لینے کے بعد بتایا کہ جناب مرتضیٰ سے چند چیزیں صادر ہوتی ہیں جو انسانی طاقت سے بالا تر ہیں مثلاً کرامتیں، ذاتوں کا بدل دینا، غیب کی خبریں سنانا، مردوں کا زندہ کرنا، اللہ کی ذات و دنیا کے حقائق بیان کرنا، باریک و گہری جانچ، حاضر جوابی وغیرہ کیا تم کچھ جانتے ہو کہ یہ سب کچھ کیوں ہے اور اس کا راز کیا ہے؟
اس کے شاگردوں نے عاجزی کا اظہار کیا ۔
تو بولا کہ یہ سب کچھ الوہیت کے خواص ہیں جو شریعت کے لباس میں جلوہ گر ہیں، غیرفانی لباس فنا میں خود کو نمودار کررہا ہے جان لو کہ حضرت علی ہی معبود ہیں۔ ان کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔
اس نازیبا کلام نے شہرت پکڑی اور جناب امیر کے کانوں تک پہنچایا۔ آپ نے اس جماعت کو مع ابن سبا کے آگ میں جلادینے کے ساتھ ڈرایا اور توبہ کروائی. اس کے بعد اس کو مدائن بھیج کر جلاوطن کیا. جب وہاں پہنچا تواپنا وہ ناشائستہ قول پھر ظاہر کیا اور اپنے شاگردوں کو آذربائیجان اور عراق میں پھیلا دیا۔ ادھر جناب مرتضیٰ باغیانِ شام کے ساتھ مصروف پیکار اور مہماتِ خلافت میں مشغول تھے، ابن سبا اور اس کے متبعین کی حالت کی طرف توجہ نہ فرما سکے۔ یہاں تک کہ اس کے مذہب نے رواج پکڑا اور شہرت حاصل کی۔ پس حضرت امیر کے فوجی اس ملعون شیطان کے وسوسے کو قبول کرنے یا نہ کرنے سے چار فرقوں میں بٹ گئے۔
(تحفہ اثنا عشریہ : باب:اول۲۔۵،
اردو ترجمہ سعد حسن خاں یوسفی۔
مطبوعہ کراچی)
شاہ صاحب نے آگے ان چار فرقوں کی تفصیل بیان کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے اول فرقہ شیعہ اولی اور شیعہ مخلصین کا ہے۔ یہ لوگ اصحاب رسول کرام اور ازواج مطہرات کی حق شناسی و ظاہر و باطن کی پاسداری میں اور باوجود جھگڑوں اور لڑائیوں کے سینہ کو مکر و نفاق سے پاک صاف رکھنے میں جناب مرتضی کے نشانات قدم پر چلے ۔ یہ لوگ ہر حیثیت سے اس دھوکے باز شیطان کے شر سے محفوظ و مامون رہے۔ جناب مرتضیٰ نے ان لوگوں کی مدح سرائی فرمائی۔
دوسرا فرقہ شیعہ تفضیلیہ کا ہے. یہ جناب مرتضیٰ کو تمام صحابہ پر فضیلت دیتے تھے۔ گویا یہ اس ملعون کے ادنیٰ شاگردوں میں سے تھے۔ انھوں نے اس کے وسوسے کو تھوڑا سامان لیا۔ جناب مرتضیٰ نے ان کے حق میں تہدید فرمائی اورارشاد فرمایا کہ اگرکسی کے بارے میں میں نے سنا کہ مجھ کو شیخین پر فضیلت دیتا ہے تواس کو اسی تازیانے حَدْ افتراء کے لگاؤں گا۔
تیسرافرقہ شیعہ سبیہ کا ہے جن کو تبرائیہ بھی کہتے ہیں۔ اس فرقہ کے لوگ صحابہ کو ظالم، غاصب بلکہ کافر اور منافق جانتے تھے۔ تو گویا یہ اس ناپاک کے درمیانی درجے کے شاگرد ہوئے اور ام المومنین و طلحہ و زبیر اور حضرت علی کے آپسی جھگڑے ان کے مذہب کے مؤید اور ان کے خیال کے محرک بن گئے اور چونکہ ان جھگڑوں کی بناء خلیفۂ سوم کی شہادت تھی، اس لئے لامحالہ انھوں نے ان کے بارے میں لعن طعن کی زبان کھولی۔۔۔ جناب مرتضیٰ ان کو اپنے خطبوں میں تہدید کرتے اور ان سے اپنی بیزاری ظاہر کرتے تھے۔
چوتھا فرقہ شیعہ غلاۃ کا ہے. یہ اس کے خاص شاگرد اور اس ناپاک کے گہرے دوستوں میں سے تھے. یہ آں جناب کی الوہیت کے قائل ہوئے ۔ اب جب مخلصین کی طرف سے ان پر سخت الزامات لگے کہ جناب مرتضیٰ میں الوہیت کے خلاف آثار اور بشریت کے تقاضے موجود ہیں۔ توان میں سے بعض صریح الوہیت سے پھر کر صرف اس کے قائل رہ گئے کہ روح الہٰی جناب مرتضیٰ کے جسم فانی میں حلول و سرایت کی ہوئی ہے جس طرح نصاریٰ لچر تاویلات کے ذریعہ حضرت مسیح کو اللہ کا بیٹا ثابت کرتے ہیں، ایسے ہی ان لوگوں نے جناب مرتضیٰ کے بعض کلمات کی بے جا تاویلات سے اپنے لغو عقیدے کے موافق بنایا۔ یہ ہے مذہب شیعہ کے پیدا ہونے کا اصلی راستہ۔
(تحفہ اثنا عشریہ: اردو ترجمہ: ۵۔۶)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے رافضی بدعت کے ظہور کا یہی پس منظر بیان کیا ہے ۔ ملاحظہ کریں: ( منہاج السنۃ النبویہ: ج:۱؍۸۔۳۰۶)
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ رافضیت کی ایجاد اوراس کی ترویج میں ابن سبا کا خصوصی کردار رہا ہے جیسا کہ شیعی مآخذ میں بھی کسی قدراس کا اعتراف موجود ہے۔ شیخ قمی لکھتے ہیں:
’’ابن سبا اول من اظہر الطعن علی ابی بکر وعمر وعثمان والصحابۃ وتبرأ منہم وادعی ان علیا امرہ بذلک‘‘
(المقالات والفرق: ص:۲۰)
’’وہ ابن سبا ہے جس نے سب سے پہلے حضرت ابوبکر وعمر اور عثمان اور صحابہ کرام پر زبان طعن دراز کی اور ان سے بیزاری کا اظہار کیا اور دعویٰ کیا کہ حضرت علی نے اس کو اس کا حکم دیا تھا‘‘۔
آگے ابن سبا کا تعارف کرواتے ہوئے موصوف نے لکھا ہے:
’’ان عبداللہ بن سبا کان یہودیا فاسلم و والی علیا و کان یقول و ہو علی یہودیۃ فی یوشع بن نون وصی موسی
بہذہ المقالۃ فقال فی اسلامہ بعد وفاۃ رسول اللہ فی علی بمثل ذلک وہو اول من شہد بالقول بفرض امامۃ علی بن ابی
طالب واظہر البراء ۃ من اعدائہ ‘‘
(حوالہ سابق الکشی: ۱۰۸)
’’عبداللہ ابن سبا یہودی تھا. اس نے اسلام قبول کیا اور حضرت علی سے ولایت کا اظہار کیا. وہ کہا کرتا تھا کہ جب وہ یہودی تھا توحضرت یوشع بن نون کو حضرت موسیٰ کا وصی سمجھتا تھا بنابریں اس نے یہ بات اسلام میں آنے کے بعد کہنا شروع کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد ان کا ایک وصی ہونا چاہئے. چنانچہ حضرت علی ان کے وصی ہیں. اس نے سب سے پہلے حضرت علی کی امامت کی فرضیت کا دعویٰ کیا اور ان کے مخالفین سے براءت کا اظہار کیا.‘‘

شیعہ کے مختلف فرقے:

شیعی عقائد و افکار میں جتنا اختلاف نظر آتا ہے، کسی دوسرے فرقے کے عقائد و افکار میں اتنے اختلافات نظر نہیں آتے اس کی وجہ یہ ہے کہ شیعوں کے مزعومہ ائمہ میں سے جس کسی کا انتقال ہوا تو ان کے بعد ایک نیا عقیدہ ایجاد کرلیا گیا بنابریں شیعہ کے ان گنت فرقے بنے. صاحب مروج الذہب المسعودی لکھتے ہیں کہ شیعہ فرقوں کی تعداد ۷۳تک پہنچتی ہے اور ہرفرقہ دوسرے کی تکفیر کرتا ہے۔ (مروج الذہب:۳؍۲۲۱)
علامہ المقریزی بیان کرتے ہیں کہ شیعہ کے کل تین سو فرقے ہیں۔ (انحطط :۲؍۳۵۱، بحوالہ اصول مذہب الشیعہ القفاری: ج:۱؍۱۱۲)
امام اشعری لکھتے ہیں کہ شیعیت کے بنیادی فرقے تین ہیں۔ غالی، رافضی، زیدی، باقی دیگر فرقے انھیں کی شاخیں ہیں جن کی تعداد پینتالیس تک پہنچتی ہے۔ ان کے نزدیک غالی شیعہ کے پندرہ فرقے ہیں، رافضی کے چودہ اور زیدی کے چھ، یہ اثنا عشری کو رافضی (امام ) فرقہ میں شمار کرتے ہیں۔ اسی طرح کی تقسیم امام رازی علامہ الاسفراینی اور امام ابن تیمیہ نے بھی کی ہے۔ (مقالات الاسلامیین :۱؍۶۶۔۸۸۔۱۴۰) (اعتقادات فرق لمسلمین :ص:۷۷، المنیۃ والامل: ص:۲۰، التسعینیہ لابن تیمیہ :ص:۴۰، مجموع فتاویٰ: ۵)
علامہ عبدالقادر بغدادی شیعہ کو بنیادی طور پر چار فرقوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ زیدی، امامی، کیسانی اور غالی، ان میں سے ہر ایک کا لقب رافضی ہے۔ ان کے نزدیک کل شیعہ فرقے بیس ہیں، غالی فرقہ کو چھوڑ کر۔
(الفرق بین الفرق :ص:۲۳۔۶۴)
علامہ شہرستانی بیان کرتے ہیں کہ شیعوں کے ان گنت فرقے ہیں کیوںکہ ان کے یہاں ہرمسئلے میں الگ رائے قائم کی گئی ہے بنابریں الگ الگ موقف، قول، مسلک اور فرقہ وجود میں آتا گیا۔ بنیادی طور پر وہ شیعہ کو پانچ فرقوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
1. کیسانی،
2. زیدی،
3. امامی،
4. غالی اور
5. اسماعیلی۔
(الملل والنحل:۱؍۱۴۷)
شیعی مآخذ میں شیعہ فرقوں کی تقسیم ایک دوسرے انداز سے کی گئی ہے. ان کے یہاں ہر امام کی وفات کے بعد مختلف فرقے بنے. اس طرح ان گنت فرقے ہوئے مجموعی طور پر ان کی تعداد ساٹھ تک پہنچتی ہے۔ (النوبختی، فرق الشیعۃ :ص:۹۴، المقالات والفرق للقمی: ۱۰۲)
بعض مشہور شیعہ فرقوں کے نام: شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب تحفۃ اثنا عشریہ میں بہت سے شیعہ فرقوں کا ذکر کیا ہے اور ان کا مختصر تعارف کروایا ہے. اس سلسلے میں انھوں نے درج ذیل فرقو ں کے نام گنائے ہیں:
غلاۃ شیعہ کے چوبیس فرقے ہیں ان کے نام اس طرح ہیں۔ سبائیہ، مفضلیہ، سیرغیہ، بنیرغیہ،کاملیہ، مغیریہ، قباحیہ، بیانیہ، منصوریہ، غمامیہ، امویہ، تفویضیہ، خطابیہ، معمریہ، غرابیہ، ذبابیہ، ذمیہ، اثینیہ، خمسیہ، نصیریہ، اسحاقیہ، غلبائیہ، زرامیہ مقنعیہ ان تمام کے یہاں مشترک بات یہ ہے کہ یہ سب کسی نہ کسی پہلو سے نبی یاامام کو الوہیت کے درجے تک لے جاتے ہیں۔
فرقہ کیسانیہ کے چھ فرقے ہیں ، کریبیہ، اسحاقیہ،حربیہ، عباسیہ، طیاریہ اور مختاریہ زیدیہ فرقے کی نوشاخیں ہیں۔ زیدیہ خالص، جارودیہ، جریریہ یا سلیمانیہ، تبرئیہ نعیمیہ (نعیم بن الیمان کی طرف منسوب) دکنیسہ، خشبیہ، یعقوبیہ اور صالحیہ۔
فرقہ امامیہ کی انتالیس شاخیں ہیں ۔ حسینیہ،نفسیہ، حکمیہ، سالمیہ، شیطانیہ یا نعمانیہ، زراریہ، یونسیہ، بدائیہ، مفوضہ، باقریہ، حاصریہ، ناوسیہ، عماریہ، انطحیہ، اسحاقیہ، قطعیہ، موسویہ، ممطوریہ، رجعیہ، احمدیہ، امامیہ، جعفریہ، اس میں آٹھ فرقے اسماعیل کے ہیں جن کے نام اس طرح ہیں۔ مبارکیہ، باطنیہ، قرمطیہ، شمطیہ، میمونیہ، خلفیہ، برقعیہ اورجنابیہ، اس طرح کل انتالیس فرقے ہوئے۔
ان فرقو ں کے وجود میں آنے کی تاریخیں: جن مختلف شیعہ فرقوں کا تذکرہ ہوا ہے، وہ تاریخ کے مختلف ادوار میں وجود میں آئے ہیں۔ فرقوں کے وجود میں آنے کی تاریخ اس طرح بیان کی گئی ہے۔
فرقہ کسیانیہ ۶۴ھ میں، مختاریہ۶۶ھ میں، ہشامیہ ۱۰۹ھ میں، زیدیہ ۲۱۱ھ میں، جوالقیہ اورشیطانیہ۱۱۳ھ میں، زرائیہ مغوضیہ بدائیہ، ناوسیہ اورعمائیہ ۱۴۵ھ میں، اسماعیلیہ ۱۵۵ھ میں، مبارکیہ ۱۵۹ھ میں، واقفیہ ۱۸۳ھ میں، حسنیہ ۱۹۵ھ میں، اثنا عشریہ ۲۵۵ھ میں، مہدویہ ۳۹۹ھ میں۔

بعض شیعہ فرقو ں کے القاب:

شیعوں کے مختلف فرقے ہونے کے ساتھ ان کے ایک ہی فرقہ کے ساتھ متعدد اسماء بھی ہوتے ہیں۔ جیسے اثنا عشری کے متعددالقاب ہیں۔
الشیعہ: شیعہ تمام شیعہ فرقوں کو بولا جاتا ہے مگرعام طور پر اس سے اثنا عشری شیعہ مراد ہوتے ہیں ۔ اس رائے کے قائل طبرسی امیرعلی، کاشف الغطاء محمدحسین العامل اورعرفان عبدالحمید ہیں۔ (الشیعہ فی التاریخ للعامل: ص:۴۳)
الامامیہ: یہ اصطلاح بھی عام طور پر تمام شیعہ فرقوں کے لئے مستعمل ہے۔ لیکن خصوصی طور پر یہ اثنا عشری شیعہ کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ (اوائل المقالات: ۴۴ ا،صل الشیعہ والاصول: ص:۹۲)
الاثنا عشریہ: یہ اصطلاح قدیم کتب شیعہ میں موجود نہیں ہے. سب سے پہلے اس کا استعمال المسعودی (شیعہ) نے کیا پھر غیرشیعہ مصنفین میں عبدالقادر بغدادی (متوفی ۴۲۹ھ) نے کیا۔ اس نام کی مناسبت یہ ہے کہ بارہویں امام کو امام غائب منتظر ہونے کا عقیدہ رکھا جاتا ہے۔ (الفرق بین الفرق :ص۶۴) اب یہ تمام امامی شیعہ کے لئے مستعمل ہے ۔(الاثناعشریہ واہل البیت :ص:۱۵)
القطعیہ: یہ اصطلاح اثنا عشری شیعہ کے لئے مستعمل ہے۔ اس نام کی مناسبت یہ ہے کہ اثنا عشری موسیٰ بن جعفر الصادق کی موت کو قطعی مانتے ہیں۔ بعض لوگ اس کو امامیہ کا مستقل ایک فرقہ گردانتے ہیں۔ (المقالات والفرق: ص:۸۹، مختصر تحفہ اثنا عشرہ: ص:۱۹۔۲۰)
اصحاب الانتظار: اثنا عشری شیعہ کا ایک لقب اصحاب الانتظار ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حسن عسکری کے بعد ان کے بیٹے محمد بن الحسن عسکری کے غائب ہونے اور دوبارہ آنے کا عقیدہ رکھتے ہیں اورتمام شیعہ ان کے آنے کا انتظار کررہے ہیں۔ (اعتقاد ات فرق المسلمین: ص:۸۴۔۸۵)
الرافضۃ: اثنا عشری شیعہ کا ایک نام رافضہ یا روافض بھی ہے ۔امام اشعری فرماتے ہیں کہ رافضہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ انھوں نے حضرت ابوبکر و عمر کی امامت کو تسلیم نہیں کیا۔ (مقالات الاسلامیین:۱؍۸۹، بحوالہ اصول مذہب الشیعہ)
الجعفریہ: اثنا عشری شیعہ کا ایک نام جعفریہ ہے اس کا انتساب جعفر الصادق (چھٹے امام) کی طرف ہے، کوفہ کے شیعہ جعفری کہلاتے ہیں۔ جعفریہ کا اطلاق بعض وقت اسماعیلی شیعہ کے لئے بھی ہوتا ہے۔ کیوں کہ ان دونوں میں افتراق جعفرالصادق کے انتقال کے بعد رونما ہوا ۔ (رجال الکشی :ص:۲۰۰، اعتقادات فرق المسلمین للرازی :۸۴)
الخاصۃ: اثناعشریہ شیعہ اپنے کو خاصہ کہتے ہیں اور اہل سنت وجماعت کو عامہ کہتے ہیں۔ (وسائل الشیعہ:۱۸؍۷۶)
موجودہ دورمیں اثنا عشری فرقے: شیعی مآخذ میں اثنا عشری شیعہ کے بہت سے فرقوں کا ذکرملتا ہے جس کی مختصر تفصیل گزر چکی ہے۔ موجودہ دور میں اس کے درج ذیل فرقوں کا پتا چلتا ہے:
اصولیہ: اخباریہ، شیخیہ، کشفیہ، رکنیہ، کریم خانیہ، قزل باشیہ، قرمتیہ، البابیہ، کوھریہ، نوربخشیہ۔
۔۔۔۔۔۔
اس اوپر کے مضمون سے شیعہ کے بارے میں بات واضح ہوجاتی ہے۔۔۔
اب سوال یہ کیا سبھی فرقے کافر ہیں؟
اس بارے میں اصولی بات یہ ہے کہ جو فرقے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتے ہیں یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالی دیتے ہیں اور کافر کہتے ہیں، وہ سب کافر ہیں اور جو محض حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو شیخین پر فضیلت دے، وہ مبتدع ہے۔
چنانچہ حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب فرماتےہیں:
ہندوستان کے شیعہ مختلف طبقات کے ہیں، بعض ان میں کفر کی حد تک نہیں پہنچتے مگر اکثر ایسے عقائد کے پابند ہیں جو کفر تک پہنچا دیتے ہیں.
(کفایت المفتی ۹، ۳۹۸)
فتاویٰ فریدیہ میں ہے:
چونکہ موجودہ دور کے شیعہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صحبت (صحابی ہونا) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت سے منکر ہیں اور قرآن پاک میں کمی بیشی اور امامت کی نبوت پر فضیلت کلا یا بعضا کے قائل ہیں ان کے کافر ہونے میں شک نہیں، اور جولوگ ضروریات دین سے منکر نہ ہوں تو کافر نہیں ہوتے.
(فتاویٰ فریدیہ ۱، ۱۳۴)
نیز نجم الفتاویٰ میں ہے:
شیعہ اگر ایسا ہو کی شیخین کو گالی دے یا ان پر لعنت کرے، حضرت عائشہ پر تہمت لگائے، حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت کا انکار کرے، صحابہ کرام کو گالیاں دینے کو مباح اور ثواب سمجھے یا صحابہ کے کفر کا اعتقاد رکھے، موجودہ قرآن کو تحریف شدہ سمجھتا ہو تو وہ بالاجماع کافر ہے اور اگر صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شیخین پر فضیلت دے تو وہ فاسق و مبتدع ہے، کافر نہیں ۔۔
کما فی شرح الفقہ الاکبر ﺻ ۱۶۷ ومن جحد القرآن ای کلہ او سورۃ منہ او آیۃ قلت وکذا کلمۃ او قراءۃ متواترۃ او زعم انہا لیست من کلام اللہ تعالٰی کفر یعنی اذا کان کونہ من القرآن مجمعا علیہ
وفی الہندیۃ ۲، ۲۶۴ الرافضی اذا کان یسب الشیخین ویلعنہما والعیاذ باللہ فہو کافر،، ولو قذف عائشۃ رضی اللہ عنہا بالزنا کفر،، من انکر امامۃ الصدیق فہو کافر
وفی الدر المختار مع رد المحتار ۴، ۲۳۶ من سب الشیخین او طعن فیہما کفر
(نجم الفتاویٰ ۱، ۳۷۲)
ان کے علاوہ بھی تقریباﹰ سارے اکابر کے فتاویٰ میں یہ جواب مذکور ہے ۔
ان سے واضح ہوگیا کی مذکورہ بالا عقائد کا حامل کافر ہے.
۔۔۔۔
ان سے سلام و تعلقات رکھنا اس بارے میں احسن الفتاویٰ میں ہے:
شیعہ اور قادیانی زندیق ہیں، اس لئے ان کے ساتھ تجارت میں اشتراک، بیع و شراء اور اجارہ و استجارہ وغیرہ کسی قسم کا کوئی معاملہ کرنا جائز نہیں
(احسن الفتاویٰ ۶، ۵۳۴)
والله سبحانہ اعلم 
ابراہیم علیانی
.......
فقہی سمینار 
آج کا سوال نمبر 191
5 ﺫی الحجہ 1437ھ مطابق 8 ستمبر 2016ع بروز پنج شنبہ

No comments:

Post a Comment