Monday, 26 September 2016

رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا

ایس اے ساگر

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

177593: تحقيق حديث ( من قال رضيت بالله ربا ، وبالإسلام ديناً ، وبمحمد رسولا وجبت له الجنة )

السؤال : 

قرأت حديثاً عن أبي سعيد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( من قال : رضيت بالله رباً ، وبالإسلام ديناً ، وبمحمد صلى الله عليه وسلم نبياً وجبت له الجنة ) . فهل هذا الحديث صحيح أم ضعيف ؟

الجواب :
الحمد لله
أولا :
هذا الحديث يرويه الصحابي الجليل أبو سعيد الخدري رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( مَنْ قَالَ : رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ )
رواه ابن أبي شيبة في " المصنف " (6/36)، وعبد بن حميد في " المسند " (ص308)، وأبوداود في " السنن " (رقم/1529)، والنسائي في " السنن الكبرى " (9/7)، وابن حبان في " صحيحه " (3/144)، والحاكم في " المستدرك " (1/699) وقال : " هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ".
جميعهم من طريق زيد بن الحباب ، حدثنا عبد الرحمن بن شريح الإسكندراني ، حدثني أبو هانئ الخولاني ، أنه سمع أبا علي الجنبي ، أنه سمع أبا سعيد الخدري رضي الله عنه . 
وهذا إسناد صحيح ، رجاله ثقات ، ليس فيه مطعن ظاهر .
وجاء الحديث أيضا بلفظ قريب من اللفظ السابق ، رواه أحد تلاميذ أبي هانئ الخولاني ، وهو عبدالله بن وهب ، عن أبي هانئ ، عن أبي عبد الرحمن الحبلي – وليس عن أبي علي الجنبي – عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( يَا أَبَا سَعِيدٍ ، مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ . فَعَجِبَ لَهَا أَبُو سَعِيدٍ ، فَقَالَ : أَعِدْهَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللهِ ، فَفَعَلَ ، ثُمَّ قَالَ : وَأُخْرَى يُرْفَعُ بِهَا الْعَبْدُ مِائَةَ دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ ، مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ، قَالَ : وَمَا هِيَ يَا رَسُولَ اللهِ ؟ قَالَ : الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ ، الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللهِ ) .
رواه الإمام مسلم في " صحيحه " (رقم/1884) والنسائي في " السنن الكبرى " (9/7) وقال – منبها على الاختلاف على أبي هانئ - : " خالفه عبد الله بن وهب ، رواه عن أبي هانئ ، عن أبي عبد الرحمن ، عن أبي سعيد ", وقال الطبراني في " المعجم الأوسط " (8/ 317): " ورواه الليث بن سعد ، وعبد الله بن وهب ، عن أبي هانئ ، عن أبي عبد الرحمن ، عن أبي سعيد ".
وهذا الاختلاف في الإسناد على أبي هانئ لا يضر إن شاء الله ، فسياق الحديث واحد تقريبا ، وإن كان الأرجح هو السياق الثاني ، وذلك لثلاثة أدلة :
الدليل الأول : أن عبدالله بن وهب أوثق من عبد الرحمن بن شريح ، فقد كان أحد الأئمة الأعلام ، وجاء في ترجمته في " تهذيب التهذيب " (6/73): " قال الحارث بن مسكين : جمع ابن وهب الفقه ، والرواية ، والعبادة ، ورزق من العلماء محبة وحظوة من مالك وغيره . وكان يسمى ديوان العلم ، قال ابن القاسم : لو مات ابن عيينة لضربت إلى ابن وهب أكباد الإبل ، ما دون العلم أحد تدوينه ، وكانت المشيخة إذا رأته خضعت له ".
الدليل الثاني : أن السياق الثاني أخرجه واختاره الإمام مسلم رحمه الله ، وانتقاء مسلم أولى من انتقاء غيره ، فقد أجمعت الأمة على جلالة صحيحه ودقته وحسن انتقائه .
الدليل الثالث : ثم إن الطبراني في " المعجم الأوسط " (8/317)، والبيهقي في " شعب الإيمان " (6/ 118) روياه من طريق عبدالله بن صالح ، عن عبدالرحمن بن شريح ، عن أبي هانئ ، باللفظ الذي روى به عبدالله بن وهب عن أبي هانئ ، ما يدل على أن الأصل الثابت هو سياق حديث عبد الله بن وهب .
ثانيا : 
يقول ابن القيم رحمه الله – في التعليق على هذا الحديث ، وحديث ( ذاق طعم الإيمان من رضي بالله ربا ، وبالإسلام دينا ، وبمحمد رسولا ) -:
" هذان الحديثان عليهما مدار مقامات الدين ، وإليهما تنتهي ، وقد تضمنا الرضا بربوبيته سبحانه وألوهيته ، والرضا برسوله والانقياد له ، والرضا بدينه والتسليم له ، ومن اجتمعت له هذه الأربعة فهو الصديق حقا . وهي سهلة بالدعوى واللسان ، وهي من أصعب الأمور عند الحقيقة والامتحان ، ولا سيما إذا جاء ما يخالف هوى النفس ومرادها . 
فالرضا بإلهيته يتضمن الرضا بمحبته وحده ، وخوفه ، ورجائه ، والإنابة إليه ، والتبتل إليه ، وانجذاب قوى الإرادة والحب كلها إليه ، وذلك يتضمن عبادته والإخلاص له .
والرضا بربوبيته يتضمن الرضا بتدبيره لعبده ، ويتضمن إفراده بالتوكل عليه ، والاستعانة به ، والثقة به ، والاعتماد عليه ، وأن يكون راضيا بكل ما يفعل به .
فالأول يتضمن رضاه بما يؤمر به . والثاني يتضمن رضاه بما يُقدَّر عليه .
وأما الرضا بنبيه رسولا فيتضمن كمال الانقياد له ، والتسليم المطلق إليه ، بحيث يكون أولى به من نفسه ، فلا يتلقى الهدى إلا من مواقع كلماته ، ولا يحاكم إلا إليه ، ولا يحكم عليه غيره ، ولا يرضى بحكم غيره ألبتة ، لا في شيء من أسماء الرب وصفاته وأفعاله ، ولا في شيء من أذواق حقائق الإيمان ومقاماته ، ولا في شيء من أحكام ظاهره وباطنه ، لا يرضى في ذلك بحكم غيره ، ولا يرضى إلا بحكمه ، فإن عجز عنه كان تحكيمه غيره من باب غذاء المضطر إذا لم يجد ما يقيته إلا من الميتة والدم ، وأحسن أحواله أن يكون من باب التراب الذي إنما يتيمم به عند العجز عن استعمال الماء الطهور .
وأما الرضا بدينه فإذا قال ، أو حكم ، أو أمر ، أو نهى : رضي كل الرضا ، ولم يبق في قلبه حرج من حكمه ، وسلم له تسليما ولو كان مخالفا لمراد نفسه أو هواها ، أو قول مقلده وشيخه وطائفته ، وهاهنا يوحشك الناس كلهم إلا الغرباء في العالم ، فإياك أن تستوحش من الاغتراب والتفرد ، فإنه والله عين العزة ، والصحبة مع الله ورسوله ، وروح الأنس به ، والرضا به ربا ، وبمحمد صلى الله عليه وسلم رسولا ، وبالإسلام دينا ... فمن رسخ قدمه في التوكل والتسليم والتفويض حصل له الرضا ولا بد ، ولكن لعزته وعدم إجابة أكثر النفوس له وصعوبته عليها لم يوجبه الله على خلقه رحمة بهم ، وتخفيفا عنهم ، لكن ندبهم إليه ، وأثنى على أهله ، وأخبر أن ثوابه رضاه عنهم ، الذي هو أعظم وأكبر وأجل من الجنان وما فيها . 
فمن رضي عن ربه رضي الله عنه ، بل رضا العبد عن الله من نتائج رضا الله عنه ، فهو محفوف بنوعين من رضاه عن عبده : رضا قبله أوجب له أن يرضى عنه ، ورضا بعده هو ثمرة رضاه عنه ، ولذلك كان الرضا باب الله الأعظم ، وجنة الدنيا ، ومستراح العارفين ، وحياة المحبين ، ونعيم العابدين ، وقرة عيون المشتاقين " انتهى باختصار من " مدارج السالكين " (2/171). 
وقال بدر الدين العيني رحمه الله : 
" قوله : ( رضيت بالله ربا ) أي : قنعتُ به ، واكتفيت به ، ولم أطلب معه غيره . قوله : (وبالإسلام دينًا ) أي : رضيت بالإسلام دينا بمعنى : لم أسْع في غير طريق الإسلام ، ولم أسْلك إلا ما يوافق شريعة محمد- عليه السلام . قوله : ( وبمحمد رسولا ) أي : رضيت بمحمد رسولا بمعنى : آمنتُ به في كونه مُرسلا إليّ وإلى سائر المسلمين . وانتصاب " ربا " و " دينًا "
و" رسولا " على التمييز ، والتمييز وإن كان الأصل أن يكون في المعنى فاعلا يجوز أن يكون مفعولا أيضًا كقوله تعالى ( وفجرْنا الأرْض عُيُونًا ) ويجوز أن يكون نصبها على المفعولية لأن" رضِي " إذا عُدي بالباء يتعدى إلى مفعول آخر " انتهى من " شرح سنن أبي داود " (5/439)
والله أعلم .

موقع الإسلام سؤال وجواب
أضف تعليقا
.....................................................................................................

عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ: جس کسی نے اللہ کو رضا کے ساتھ رب مان لیا اور اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان لیا تو اس نے ایمان کا مزہ پالیا۔ (مسلم: کتاب الایمان، اس بات کا بیان کہ جس نے اللہ کو رضا کے ساتھ رب مان لیا تو اس نے ایمان کا مزہ پالیا: ٥٦)

عن العباس بن عبدالمطلب انہ سمع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، یقول: ذاق طعم الایمان من رضی باللہ ربا، وبالاسلام دینا، وبمحمد رسولا​

راوی حدیث: عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان کا مکمل نام عباس بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف ، ابوالفضل الہاشمی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال بڑے تھے۔

ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ بڑے ہو یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟ انہوں نے جواب دیا:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں اور میری عمر ان سے زیادہ ہے۔ انہوں نے اسلام مکی ہی دور میں قبول کر لیا تھا لیکن اسے چھپائے رکھا تھا، اور جب اوس اور خزرج کے لوگوں نے عقبہ کی گھاٹی میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ آنے کی دعوت دی تو اس وقت صرف عباس رضی اللہ عنہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور اس موقع پر انہوں نے ایک زبردست تقریر کی تھی جس میں انہوں نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ اگر تم ان کی مکمل طریقہ سے مدد کرو ، ان کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری لو تو میں انہیں تم لوگوں کے ساتھ بھیجنے کے لئے تیار ہوں ورنہ انہیں تم یہاں کمزور مت سمجھوبلکہ وہ یہاں اپنے خاندان میں بڑی شان و شوکت سے ہیں۔ اسی طرح غزوہ بدر کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:

دورانِ جنگ اگر عباس رضی اللہ عنہ دکھیں تو انہوں قتل نہ کرنا کیوں کہ وہ مجبورا ًلائے گئے ہیں 

(ان کے ساتھ چند اور لوگوں کا بھی نام ذکر کیا تھا)۔

عباس رضی اللہ عنہ کی وفات بروز جمعہ ، ١٤ رجب ٣٢ ھ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی۔ ٨٨ سال کی عمر پائی اور بقیع میں دفن ہوئے۔

(طبقات ابن سعد: جزء ٤، ص ٣)

الفاظ حدیث کی لغوی و اصطلاحی تشریح:

ذاق: اس کی اصل( ذال ، واو ، قاف) ہے۔ جس کے معنی ہے چکھنا، ظاہری یا باطنی حاسہ سے کسی چیز کے خوش مزہ یا بدمزہ ہونے کا اندازہ لے لینا، ذوق کم درجہ میں ہونے کے باجود زیادہ کے بارے میں خبر دے دیتا ہے ،قرآن کریم میں عذاب اور دنیاوی رحمت دونوں کے لئے لفظ ذوق کا استعمال ہوا ہے کیونکہ گرچہ وہ کم ہے لیکن تاثیرا اور احساس کے اعتبار سے زیادہ ہے۔

ذہنی اور قلبی کیفیت کے اعتبار سے مومن کے لئے ایمان کی حلاوت اور ذائقہ ہی دنیا میں کافی ہے اور وہ اس سے زیادہ کی طاقت بھی نہیں رکھ سکتا اس لئے احادیث میں ذوق اور حلاوت کا ذکر ہوا ہے اس کو ایمان کا مکمل مزہ جنت ہی میںدیا جائے گا۔

رضا: یہ غضب کی ضد ہے، اس سے مقصود یہ ہے کہ ظاہر اور باطن کو اللہ کے تابع کرے، اوراللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے اس کی آزمائشوں پر برضا صبر کرے۔

مفہوم حدیث:

رضا باللہ کا مفہوم:

اللہ پر مکمل طریقہ سے ایمان لایا جائے، اس کی ربوبیت اور الوہیت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے، اللہ رب العالمین کی ہر اچھی اور بری تقدیر سے ہمیشہ خوش رہا جائے ، اللہ رب العالمین کا ہر طرح سے ہر چیز پر شکر ادا کیا جائے، اللہ کے ہر کام اور ہر حکم میں خیر ہی ہوتا ہے۔ اور عبودیت کی حقیقت بھی یہی ہے کہ بندہ اللہ کی رضا اور غضب سے موافقت کرے ، یہ یقین رکھے کہ اللہ بندوں کے لئے جو کچھ بھی کرتا ہے اس میں خیر ہوتا ہے ۔

اللہ رب العالمین سے رضا کا اظہار بھی بندوں سے ہونا چاہیئے جو اس کے اجر و ثواب کو بڑھاتے ہیں اور وہی ایمان باللہ اور رضا باللہ کی علامت ہوتے ہیں ۔ اللہ سے رضامندی کی کئی ساری علامتیں اور نشانیاں ہیں جن میں سے چند یہ ہے:

ٔ٭ جب بھی بندے پر کوئی تکلیف آئے تو وہ اس پر غم نہ کرے بلکہ دل کی خوشی کے ساتھ اس پر صبر کرے ۔اور اللہ سے اس تکلیف کے دور کرنے کے لئے دعا کرے۔

٭ مصیبت کتنی بھی بڑی ہو ہاتھ پھیلائے تو صرف اللہ کے سامنے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے دعا کرے تو صرف اللہ رب العالمین سے، کیونکہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے جانا گویا یہ شہادت دینا ہے کہ وہ اللہ سے راضی نہیں اور نہ اللہ اس سے راضی ہے ۔

٭ اللہ رب العالمین کے فضل اور احسان کا ہمیشہ شکر ادا کرے ، اس کی نعمتوں کی نسبت اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف بالکل نہ کرے۔اللہ ہی ہر چیز کا سبب پیدا کرنے والا اور نعمتوں کو اتارنے والا ہے۔

٭ اس بات کو اپنے دل میں جازم کرلے کہ اللہ بہت ہی زیادہ مغفرت کرنے والا ہے وہ ہر گناہ کو معاف کرتا ہے ۔

٭ اور اس بات کو بھی اپنے دل میں راسخ کرلے کہ اللہ چاہے تو بہت ہی سخت عذاب بھی دے سکتاہے ۔

٭ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو۔

٭ گناہ ہونے پر فورا ً اللہ رب العالمین کی طرف رجوع ہو اس سے توبہ کر ے اور اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے۔

٭ اللہ سے محبت کرے ، اس کی اطاعت کرے ، ہر عبادت کو اسی کے لئے خالص کرے ، اور ریاکاری سے بچے۔

٭ اللہ رب العالمین کے انعامات اور احسانات کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھے ، کیونکہ یہ بندے کو اللہ سے قریب کرتی اور اس کی رضا کا حقدار بناتی ہے۔

٭ لفظ ''اگر '' سے بچے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو ایسا ہوتا، یا اگر میں ایسا نہیں کرتا تو ایسا ہوتا۔ کیونکہ اس میں بھی اللہ کی قدر پر اعتراض ہے۔

رضا بالاسلام کا مفہوم:

صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو اللہ رب العالمین کے نزدیک مقبول ہے ، اسلام کی ہر ہر تعلیم پر مکمل طریقہ سے عمل کرے، یہ یقین رکھے کہ اس کی تعلیمات ہر وقت کے لئے اور ہر انسان کے لئے ہے ۔اور اس کے ہی احکامات ہمیں تجارت اور لین دین کے نقصانات سے بچا سکتے ہیں۔ دنیا اور آخرت کی کامیابی صرف اسی میں ہے ۔ اور یہ یقین رکھے کہ اس کا ہی قانون دنیا میں امن اور شانتی پیدا کرسکتا ہے ۔ اسلام سے راضی نہ ہونے کی کئی ساری علامتیں ہیں جو آج کئی مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:

٭ اسلام کی تعلیمات پر نکتہ چینی کرنا، اس کی تعلیمات کو یہ کہہ کر رد کرنا کہ پندرہ سو سال پرانا قانون ہے۔

٭ تجارت اور لین دین میں یہ کہہ کر حرام کاری کرنا کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کریں گے تو کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔

٭ اس کے احکامات اور اوامر پر عمل کرنے والوں کو پچھڑی قوم کہہ کر مخاطب کرنا۔ یا پرانے خیالات والے کہنا۔

٭ اس کی تعلیمات پر ظالمانہ اور غیر عادلانہ ہونے کا الزام لگانا۔

٭ قرآن کی آیات اور احادیث کی تاویل منہج سلف کے خلاف کرنا۔

٭ اس کے بتائے ہوئے احکامات پر دل کی رضا کے ساتھ عمل نہ کرنا بلکہ ایک بوجھ سمجھ کر عبادت کرنا۔ اور احکامات کو دل کی تنگی کے ساتھ انجام دینا۔

رضا بالرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا نبی دل کی خوشی کے ساتھ تسلیم کرے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ سے آگے کسی کو نہ رکھے اور نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے کسی اور کی بات کو تسلیم کرے، ان کے ہر ہر طریقہ کو اپنی زندگی داخل کرنے کی کوشش کرے، ان کے ہی اسوہ اور طریقہ کو سب سے بہترین مانے اور اسے اپنائے، اس بات پر یقین رکھے کہ انہوں نے اللہ رب العالمین کی طرف سے آیا ہوا ہر ہر پیغام ہم تک پہنچایا اور اس میں سے کچھ بھی نہیں چھپایا۔ ان کی اطاعت کرے اور نافرمانی سے بچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راضی نہ ہونے کی بھی کئی ساری علامتیں ہیں جو آج ہم میں سے ہر ایک میں پائی جاتی ہے جن میں سے چند یہ ہیں:

٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو یہ کہہ کر رد کر ددینا کہ آج ماحول بدل گیا ہے۔

٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سے آگے کسی امام یا عالم کی بات کو رکھنا۔

٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل نہ کرنا۔

٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر کسی بھی طرح کا الزام لگانا، چاہے وہ ان کی ذات سے تعلق رکھے یا دین سے۔ کیونکہ ان پر الزام گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت پر الزام ہے ۔

٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے مقام سے نیچے کرنا ، ان کے فیصلوں سے راضی نہ ہونا۔

٭ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے مقام سے بڑھانا ، اور الوہیت تک پہنچا دینا۔

دین اسلام کے یہ تین بنیادی اصول ہیں اور انہی تین اصولوں کے بارے میں قبر میں سوال کیاجائے گا۔ جن کا جواب ایک بندہ اسی وقت دے سکتا ہے جب وہ دنیا میں ان سے راضی ہوگا اورن کے نواقضات سے بچتا رہے گا۔

ان کا ذکر صبح و شام کی دعا ئوں اور اذان کے بعد کی دعا میں بھی آیا ہے جن کی فضیلت یوں بیان ہوئی ہے:

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اذان کے بعد کہے '' اشھد ان لا الہ الا اللہ ، وحدہ لا شریک لہ، و ان محمداً عبدہ ورسولہ، رضیت باللہ ربا ،بمحمد رسولا ، بالاسلام دینا '' کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، میں نے اللہ کو رضا اور خوشی کے ساتھ رب مان لیا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اور اسلام کو دین تسلیم کرلیا۔ تو اس کے گناہوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم: ٣٨٦)

ابو سلام بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم نے ان سے روایت کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صبح اور شام کے وقت تین تین مرتبہ یہ دعا پڑھا '' رضیت باللہ ربا ، وبالاسلام دینا ، و بمحمد نبیا '' کہ میں نے اللہ کو رضا اور خوشی کے ساتھ رب مان لیا اور اسلام کو ددین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی تسلیم کرلیا ۔ تو اللہ اس سے قیامت کے روز یقینا راضی ہوجائے گا۔ (مسند احمد: ٣١، ص ٣٠٣، ١٨٩٦٨، شعیب الارنوط نے اس پر صحیح لغیر ہ کا حکم لگایا ہے۔) 

No comments:

Post a Comment