Sunday 2 October 2016

مستورات کے کام کا جواز

ایس اے ساگر
الحمد للہ حضرت مفتی اعظم کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے لے کر دارالعلوم دیوبند تک ایسی متعدد تائیدیں موجود ہیں جن کی رو سے مستورات کے کام کا جواز ثابت ہوتا.
حضرت مولاناداود صاحب
مولوی داود اٹاڑوی کا خط........رائیونڈ حاجی بشیر احمد صاحب کے نام
مکرم بندہ جناب بھائی الحاج محمد بشیر احمدصاحب   
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
امید ہے کہ مزاجِ گرامی بعافیت ہوں گے۔ یہاں پر بھی خیریت ہی ہے. دو سال سے گھٹنوں میں ورم اور درد ہے۔ اور اب دو ہفتے سے ناف کی نیچے رگ میں ایک گلٹی اٹھی ہے جس میں درد رہتا ہے. بولنے سی درد میں اضافہ ہوتا ہے۔ دعاوں کی ضرورت ہے۔ اچھا مستورات کی کام کی ابتداء ۶۲ ،۸۲ء میں بالکل نہیں ہوئی۔ بندہ ۰۴۹۱ء میں مدرسے سے فارغ ہوا۔ ۱۴۹۱ء میں غالباً میں نظام الدّینؒ میں حضرت مولانا شاہ محمد الیاسؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ بندہ مدرسہ سبحانیہ میں پڑھتا تھا۔ حضرت مولانا عبد السبحان صاحبؒ اور آپ کی گھر والی، ہم انھیں امّاں جی کہا کرتے تھے، بہت محبت کرتی تھیں۔ امّاں جی دہلی میں مختلف جگہوں میں کتابیں سنایا کرتی تھیں۔ بندہ ان کی کارگذاری حضرت مولانا شاہ محمد الیاس صاحبؒ کو سناتا تھا، اور حضرت جیؒ کی ہدایات ان کو بتلایا کرتا تھا۔ ایک دن امّاں جی نے کہا کہ حضرت جیؒ سے کہیو کہ حضرت مردوں کی جماعت بھیجتے ہیں تو عورتوں کی جماعت کیوں نہیں بھیجتے۔ میں نے حضرتؒ سے عرض کیا کہ امّاں جی یوں کہتی ہیں کہ حضرت عورتوں کی جماعت کیوں نہیں بھیجتے۔ حضرتؒ یہ سُن کر بہت خوش ہوئے اور بے شمار دعائیں دیں پھر مجھ سے کہا کہ تم ان تینوں سے مشورہ لو کہ مستورات کی جماعت بھیجنا چاہتا ہوں‘ آپ کی کیا را ئے ہے۔ بندہ حضرت مولانا انعام الحسن صاحب مدظلہ العالی کی پاس گیا کہ حضرت مستورات کی جماعت بھیجنا چاہتے ہیں‘ آپ کی کیا رائے ہے۔ حضرت جی مدظلہ العالی کی الفاظ تو مجھے یاد نہیں مطلب یہ تھا کہ ابھی تو مردوں کا نکلنا ہی علماء کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے عورتوں کا نکلنا کیسے مان لیں گے اس لئے میری رائے نہیں ہے۔ یہی قاری داود صاحب مرحوم نے فرمایا. پھر حضرت مولانا شاہ محمد یوسفؒ کی خدمت میں گیا. آپ مسجد کی برابر اوپر کے مکتب میں رہا کرتے تھے۔ جہاں آج کل حافظہ کا مکتب ہے۔ جب میں نے رائے لی تو یوں فرمایا کہ میری تو رائے نہیں ہے۔ بس جیسی ان تینوں نے رائی دی تھی میں نے ویسی ہی حضرت جیؒ سے عرض کردیا کہ فلاں نے یوں فلاں نے یوں فرمایا۔ حضرت شاہ محمد یوسف صاحبؒ کی بات سن کر غصّہ فرمایا اور مجھے فرمایا کہ جو عورتیں جماعت میں جانے کے لئے تیار ہیں تو ان کو دہلی میں جاکر ایک گھر میں جمع کرکے بات شروع کردے اور میں دیکھتا ہوں ان مسلمانوں کو کہ ان کی رائے کیوں نہیں ہے۔ پہاڑ گنج ملتانی ڈھانڈا میں ایک گھر میں جمع کرکے بات شروع کردی۔ظہر کی نماز کی بعد حضرتؒ مولوی نور محمد باجھوٹ کو لے کر پہاڑ گنج پہنچ گئے اور مولوی نور محمد مرحوم نے بیان شروع کیا. دورانِ بیان مولوی صاحب نے فرمایا کہ دین سیکھنے کے لئے عورتوں کا بھی نکلنا ضروری ہے مگر عورتیں بغیر محرم نہیں جاسکتیں۔ بیان کے ختم کے بعد حضرت جیؒ نے مولوی نور محمد صاحب کو ڈانٹا کہ تجھے مفتی کس نے بنایا تھا جو تم نے بغیر محرم نکلنے کو منع کر دیا. یعنی پہلی جماعت ہے ابھی سے مسائل پر زور مت دو۔ خالی نکلنے کی ترغیب دو۔ یہاں تو یہ ہوا اور جب بڑی حضرت جیؒ نے مجھے دہلی بھیج دیا تو لکڑی یعنی اپنی بینت لی کر حضرت مولانا یوسف صاحبؒ کے پاس گئے اور فرمایا کہ تو ہی مسلمان ہے میں مسلمان نہیں ہوں؟ تو نے کیسے کہا کہ عورتوں کو تبلیغ میں نہیں جانا چاہئے۔ یہ عورتیں کہاں نہیں جاتیں۔ یہ شادیوں میں جاتی ہیں، دہلی کی عورتیں مہرولی جاتی ہیں، سیر کرنے کو اوکھلا جاتی ہیں، پھر تم نے کیسے کہا کہ میری رائے نہیں ہے۔ جب حضرت جیؒ محمدیوسفؒ سے خفا ہوکر آئے تو مولانا محمد یوسفؒ میرے اوپر خفا ہوئے کہ داود نے ابّا جی کو کیا کہہ دیا. مغرب کے بعد حضرت مولانا محمد یوسفؒ نے دو لڑکے حوض پر بٹھا دئے کہ جب داود دہلی سے آئے تو میرے پاس پکڑ کر لاو۔ ہم دہلی سے عشاء پڑھ کر آئے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ یہ لڑ کے مجھے حضرت مولانا محمد یوسف صاحبؒ کے پاس لے گئے۔حضرت نے فرمایا کہ ابّا جی میرے اوپر کبھی اتنا خفا نہیں ہوئے اور آج صرف اتنی کسر رہی کہ لکڑی سے مارا نہیں ورنہ زبان سے بہت کچھ کہا۔ تو تقریباً آدھا اشکال تو مولانا یوسفؒ کا حضرت کی خفگی سی نکل گیا اور میوات کو بار بار جماعتیں جانی لگیں تو حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب مفتی اعظم ہند کو عورتوں کا نکلنا معلوم ہوا تو بہت خفا ہوئے کہ یہ مولانا محمد الیاس صاحب ؒنے کیا کِیا اور دوسرے حضرات کو جو خطرہ تھا وہ سامنے آگیا۔ تو مفتی صاحب کے خفا ہونے کا کسی نے بڑے حضرتؒ کو آکر کہا تو بڑے حضرتؒ تانگہ لے کر مدرسہ امینیہ تشریف لے گئے اور حضرت مفتی اعظم کی سامنے عورتوں کے نکلنے کے فائدے بتلائے۔ ساتھ ساتھ عورتوں کی نکلنے کا اہتمام پیش کیا کہ جب مستورات کی جماعت نکالی جاتی ہے تو ہر عورت کو محرم کی ساتھ نکالا جاتا ہے۔ اوّل تو خاوند ہو یا بیٹا یا باپ ہو یا بھائی ہو‘ اگر کوئی عورت بغیر محرم آگئی اور کہا کہ میرا محرم کل پرسوں آئے گا تو اس عورت کو واپس کر دیا جاتا ہے اورجہاں جماعت جارہی ہے ان کو پہلے مطلع کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ مکان طے کرکے خالی کروالیں۔ جس مکان میں عورتیں ٹھہرتی ہیں وہ اسی مکان میں رہتی ہیں۔ گاوں والی جماعت کی پاس آتی ہیں۔ گشت عورتوں کے محرم اور مقامی مرد مل کر کرتے ہیں۔ یہ مرد، مردوں سی بات کرتے ہیں کہ اپنی مستورات کو فلاں صاحب کے گھر میں جماعت کی پاس بھیجو۔ یہ جماعت کی عورتیں کہیں نہیں جاتیں۔ پردے کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ تو حضرت مفتی صاحب ؒ کو پورا اطمینان ہوگیا کہ اگر اتنا اہتمام کرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ پھر جو جماعت مستورات کی کام کرکے آتی تو حضرت مولانا یوسف صاحبؒ کو کارگذاری دیتی۔ ان تمام باتوں سے حضرت مولانا یوسف صاحبؒ کا اشکال آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔ سب سی پہلی جماعت گھاسیڑہ اور نوح کی قریب آس پاس میں آٹھ یوم لگا کر آئی۔ بندہ جماعت کے ساتھ تھا۔ جب جماعت آٹھ یوم میں واپس ہوئی تو بڑی حضرت خفا ہوئے کہ اتنی جلدی کیوں آگئے۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت عورتیں زیادہ کپڑے لی کر نہیں گئی تھیں تو فرمایا کہ تو نوح سے نئے کپڑے بنوا کر دیتا،  پیسے مجھ سی آکر لے لیتا۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت مشورے والوں نے فرما یا تھا کہ یہ پہلی جماعت ہے ان کے جذبات کا خیال رکھنا، اس لئے جلدی آگئے۔ مشورہ کی بات سن کر حضرت بہت خوش ہوئے اور بہت دعائیں دیں۔ جب یہ جماعت مشورہ سے گھاسیڑہ وغیرہ طے ہوئی تو حضرت نے چودھریوں کی نام خط لکھا کہ میں تمھارے یہاں دہلی کی پردہ نشین مستورات بھیج رہا ہوں، تم ان کی خوب نصرت کرنا وغیرہ وغیرہ۔گھاسیڑہ والوں کو جماعت کا انتظار تھا۔ سڑک پر استقبال کے لئے آگئے۔ جب جماعت پہنچی تو گاوں والوں نے استقبال میں بندوقیں چلائیں اور پرُ زور استقبال کیا کہ مستورات کی پہلی جماعت ہمارے گاوں میں آئی ہے اور ہر گاوں میں ایسا ہی استقبال ہوا۔ پھر تھوڑے تھوڑے وقفے سے کئی جماعتیں نکلیں۔ بعدہ میوات سے مستورات کی جماعت کے مطالبے آنے لگے۔مستورات کا کام غالباً ۲۴۹۱ء میں شروع ہوا ہے۔اس سے پہلے نہیں۔ اس لئے کہ بندہ ۱۴۹۱ء میں مرکز آیا تھا۔ مرکز میں آنے کی بعد مستورات کا  کام شروع ہوا ہے۔ اگر حضرتؒ کے انتقال سے دس سال پہلے شروع ہوتا تو ہندوستان کے کئی شہروں میں مستورات کی بے شمار جماعتیں پہنچ جاتیں۔ حضرتؒ کی حیات میں میوات کے علاوہ کہیں یہ جماعتیں نہیں گئیں۔ 
واللہ اعلم۔
والسلام بندہ : 
مولوی داود ۰۱۔۳۔۳۱
عورتوں کا تبلیغی جماعتوں میں جانا کیسا ہے؟
شہید اسلام حضرت مولانا 'آپ کے مسائل اور ان کا حل' کے تحت ایک سوال "عورتوں کا تبلیغی جماعتوں میں جانا کیسا ہے؟"
کے جواب میں رقمطراز ہیں کہ "تبلیغ والوں نے مستورات کے تبلیغ میں جانے کے لئے خاص اُصول و شرائط رکھے ہیں، ان اُصولوں کی پابندی کرتے ہوئے عورتوں کا تبلیغی جماعت میں جانا بہت ہی ضروری ہے، اس سے دِین کی فکر اپنے اندر بھی پیدا ہوگی اور اُمت میں دِین والے اعمال زندہ ہوں گے۔"
علمائے عصر کے دونظریے :
حضرت اقدس مفتئ اعظم گجرات مد ظلہ رقم طراز ہیں؛
عورتوں کو تبلیغی جماعت میں بھیجنے کے سلسلے میں علمائے عصر کے دونظریے اور دو رائے ہیں، بعض علماء و اکابر نے تبلیغی اہمیت اور احساس کے باوجود مفاسد کے غالب ہونے کے پہلوکو مد نظر رکھ کر اجازت نہیں دی، اور بعض دوسرے علمائے کرام نے عصرحاضر کے لوگوں میں دین سے غفلت، اسلامی تہذیب و کلچر سے بعد و دوری، علوم اسلامیہ کی تحصیل و ترویج سے سستی و بیزاری وغیرہ دیگر حقائق نیز تبلیغی جماعت کے فوائدِ کثیرہ من جملہ ان میں سے لوگوں میں اس کے ذریعہ علوم دینیہ کی تحصیل کا شوق و جذبہ، سنت نبوی علیہ الصلاة و السلام سے والہانہ لگاؤ، شریعت ِ اسلامی و تہذیب محمدی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ترویج و اشاعت کا شوق و عزم وغیرہ پہلوؤں کے پیشِ نظر رکھ کر چند اہم و ضروری شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دی ـ
چنانچہ مفتی لدھیانوی شہید رحمة الله تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں؛
 تبلیغ والوں نے مستورات کے تبلیغ میں جانے کے لئے خاص اُصول و شرائط رکھے ہیں، ان اُصولوں کی پابندی کرتے ہوئے عورتوں کا تبلیغی جماعت میں جانا بہت ہی ضروری ہے، اس سے دِین کی فکر اپنے اندر بھی پیدا ہوگی اور اُمت میں دِین والے اعمال زندہ ہوں گے۔
مفتی رشید احمد صاحب طویل بحث کرکے بصیرت فقیہ عنوان قائم کرتے ہوئے رقم طراز ہیں؛
بصیرت فقہیہ:
حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی عبارات مذکورہ سے ثابت ہوا کہ اموروینیہ کے لئے خواتین کے خروج کی ممانعت قرآن وحدیث میں منصوص نہیں بلکہ ان  حضرات نے اپنے زمانے کے حالات اور شیوع فتن و فسادات کی وجہ سے اصول شریعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی آراء وانظار کا اظہار فرمایا ہے  لہٰذا ان حضرات کا  فیصلہ کوئی نص قطعی اور حرف آخر نہیں  بلکہ تغیر زمانہ سے اس میں ترمیم کی گنجائش ہے۔
دور حاضر میں غلبہ جہل اور  دین سے بے اعتنائی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ خواتین کے لئے ضرورات شرعیہ سے خروج کو مطلقاً ممنوع و حرام قرار دینا اور کسی بھی ضرورت شرعیہ کے لئے خروج کی اجا زت نہ دینا اقامت دین کی بجائے ہدم دین ہے چنانچہ اسی کے پیش نظر مجموع النوازل میں مسائل شرعیہ معلوم کرنے کی ضرورت سے خروج کی اجازت دی گئی ہےــ
آخر میں حضرت اقدس سیدی مفتی خانپوری مدظلہ فرماتے ہیں کہ بہر حال یہ مسئلہ دیانت سے تعلق رکھتا ہے، اس کی پوری بنیاد ہی دیانت پر ہے، لہٰذا جو حضرات بھیجنے والے ہیں اور جو بھیج رہے ہیں ان کی بہت بڑی اور بہت اہم ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے اس بات کا اطمنان حاصل کرلیں کہ جماعت ِ تبلیغ میں بھیجی جانے والی یہ خواتین کس نوع کی ہیں آج تک کے ان کے طرز عمل اور رویہ سے اس بات کا اطمنان ہو کہ یہ عورتیں اس سلسلے میں جو خاص اصول و شرائط تجویز کیے گئے ہیں ان کی مکمل پابندی کریں گی تو بھیجنے کی اجازت و گنجائش ہے ــ
محمود الفتاوی
.
بـسـم اللہ الـر حـمـن الـر حـیـم
کیا عورتیں دعوت و تبلیغ کا کام کر سکتی ہے؟
سوال
جب عورتوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی غرض سے گھر سے نکلنے کی ممانعت ہے تو مدر سة البنات میں پٍڑھنے پڑھانے کے لئے یا دعوت و تبلیغ کے لئے گھر سے نکلنے کی کیسے اجازت ہو سکتی ہے؟
جــواب
نماز کے لئے گھر سے باہر نکلنے کی بنیاد یہ ہے کہ عورت کے لئے نماز باجماعت میں سرے سے کوئی فضیلت ہی نہیں ہے  بلکہ اسکے حق میں افضل یہ ہے کہ وہ گھر میں پڑھے، زیادہ سے زیادہ جواز تھا اور فتنہ کی وجہ سے اس پر قدغن لگادی، لیکن جو امور اصل میں ہی عورت کے لئے مطلوب اور ماموربہ ہیں اگر انکی غرض سے نکلنا ہو اور حجاب کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھا جائے تو جائز ہے،کیونکہ بضرورت خروج جائز ہے اور ضروریات میں وہ امر بھی داخل ہے جس کی تحصیل مأموربہ اور مطلوب ہے، ان میں سے ایک علم کا حصول ہےـ
    حصول علم ایسی چیز ہے جو عورت کے لئے مأموربہ ہے اگر عورت حجاب کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے حصول علم کے لئے گھر سے نکلے تو جائز ہے بلکہ مأموربہ ہے
    اسی طرح ایک حکم مأموربہ تو نہیں ہے لیکن مطلوب فی الدین ہے جیسے دعوت و تبلیغ، عورتوں پر وہ فریضہ عائد نہیں ہوتا جو مردوں پر ہوتا ہے، عورت کے لئے مأموربہ نہیں ہے لیکن فی نفسہ یہ بات دین میں مطلوب ہے کہ مسلمانوں کو حق کی طرف بلایا جائے، "وتواصوبالحق وتواصوبالصبر" اگر عورت اس غرض کے لئے حجاب کے تمام تقاضوں کےمدنظر رکھتے ہوئے گھر سے باہر نکلے خاص طورپر یہ بات سامنے رکھکر کہ عورتوں میں بےدینی بہت زیادہ پھیل رہی ہے  اور عورتوں کی بےدینی نسلوں کو تباہ کرنے میں زیادہ مؤثر ہورہی ہے، لہٰذا انکو متوجہ کرنے کے لئے اگر خواتین حجاب کا خیال رکھتے ہوئے گھر سے باہر نکلے تو جائز ہے
     دین کے مزاج کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے، جب ہم جنوبی افریقہ گئے تو دیکھا کہ وہاں یہ حالت ہے کہ عورتٰن بازاروں میں بےپردہ پھر رہی ہیں، یہاں تک کہ علماء کہ خواتین کی بھی یہی حالت ہے تو ایسے میں جماعت کے کچھ حضرات نے یہ کوشش کی کہ عورتوں میں دعوت کا کچھ کام کیا جائے، چنانچہ کچھ اجتماعات منعقد کئے، ایک صاحب نے وہاں ایک فتویٰ دیا کہ عورتوں کے لئے جماعت میں جانا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ انکا گھر سے خروج جائز نہیں ہے. 
     اب عورتیں بازاروں میں بےپردہ پھررہی ہیں اور اس حالت میں یہ فتویٰ دیا جارہا ہے، جسکا مطلب یہ ہوا کہ بازاروں میں جاؤ، ہوٹلوں اور کلبوں میں جاؤ لیکن جماعت میں نکلکر دعوت کا کام نہ کرو، تو یہ وہ بات ہے جسکو سمجھنے کی ضرورت ہے. 
(بحوالہ: انعام الباری جلد3  صفحہ نمبر  598  کتاب الاذان)
سماجی روابط کی سائٹس پر پیغام :
"ابھی چند روز قبل ہمارے ایک بھائی نے عورتوں کی تبلیغ سے متعلق ازہر ہند دار العلوم دیوبند کا ایک اہم فتوی اپلوڈ کیا تھا جس میں عورتوں کی تبلیغ کو ناجائز اور ناپسند قرار دیا گیا تھا ... ہمارے بھائی نے اس کے متعلق رائے مانگی تھی ..... 
عرض ہے کہ اس فتوے سے تو ہم بھی متفق ہیں مگر اس سے پہلے اصل سوال کو سمجھنا ہوگا تاکہ عورتوں کے جماعت میں جانے کے تعلق سے کوئی اشکال نہ پیدا ہو  ..... اصل غلطی یہ ہو رہی ہے کہ لوگ عورتوں کی جماعت کو عورتوں کا تبلیغ کرنا سمجھتے ہیں جبکہ یہ بالکل غلط ہے ... ہر شخص جانتا ہے کہ عورتیں جماعت میں سیکھنے کے لئے جاتی ہیں، تبلیغ کے لئے نہیں ... نہ وہ گشت کرتی ہیں نہ انفرادی و اجتماعی ملاقات .. بس وہ چند دن پردے کے پورے اہتمام کے ساتھ کسی گھر میں رہتی ہیں، وہاں آپس میں ایک دوسرے سے دین سیکھتی اور سکھاتی ہیں اور مرد حضرات بیانات کرتے ہیں اس کے ذریعہ دین سیکھتی ہیں .. ان تمام اعمال میں عمل تبلیغ نہیں ہے بلکہ تعلم ہے  .... یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے بنات ( لڑکیوں)  کے مدرسے ... وہاں بھی لڑکیاں قیام کر کے دین سیکھتی ہیں اور یہاں بھی دین سیکھا جاتا ہے ... بلکہ یہاں تو محرم مرد قریب ہی مسجد میں ہوتا ہے اور مدارس میں تو یہ امکان بھی نہیں .... اگر چند دن کسی گھر میں پردے کے اہتمام کے ساتھ دین سیکھنا غلط ہے تو لڑکیوں کے مدارس بھی اسی فتوے کے زد میں آنے چاہئیں .... علماء اور مشائخ کی مجالس میں جو مستورات کو دعوت دی جاتی ہے اور جہاں وہ بغیر محرم مردوں کے آتی ہیں وہ بھی اسی فتوے کی زد میں ہیں .... لیکن نہیں ہم ایسا نہیں کہتے کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ مستورات کے لئے تبلیغ نہیں ہے لیکن تعلم دین (دین کا سیکھنا) ضروری ہے ... اور یہ سب اسی کا حصہ ہیں .. چاہے عورتوں کی.جماعت ہو یا مدارس بنات یا اصلاحی مجالس ... اور اگر مستورات کی جماعت اس وضاحت کے بعد کہ وہ تبلیغ نہیں بلکہ تعلم ہے غلط ہے تو مدارس بنات اور مستورات کی دینی مجالس بدرجہ اولی غلط ... کیونکہ ان میں پردے کا اور محرم مردوں کی اتنی احتیاط اور شرائط نہیں ہیں جتنی عورتوں کی جماعت میں ہیں .... مگر افسوس، اصل سوال اور پورے نظام کو سمجھے بغیر ہمارے بھولے بھالے بھائی عورتوں کی جماعت کو غلط بلکہ ناجائز تک قرار دے دیتے ہیں  .... اللہ ہم سب کو صحیح فکر اور اخلاص نصیب فرمائے .. 
آمین  .."





No comments:

Post a Comment