Thursday 15 September 2016

بحیرہ طبریہ کا خشک ہوجانا

ایس اے ساگر
بحيرة طبريا.. حرب مقبلة بين الأردن وإسرائيل

متعدد روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بحیرہ طبریہ کا خشک ہوجانا خروج دجال کی ایک علامت ہے ... جبکہ غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق کہا جاتا ہے کہ سرائیل طبریہ جھیل میں پانی کی سطح بتدریج کم ہونے کی وجہ سے اس میں ایک جزیرہ نمودار ہو گیا۔ مذہب اور تاریخ کی کتابیں اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ روز محشر یا قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک اس جھیل کا خشک ہونا بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس بابت فرما چکے ہیں۔ اسرائیل میں واقع طبریہ جھیل کے خشک ہوجانے کا تذکرہ علامات قیامت والی حدیث میں ہے:
صعِد رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم المِنبَرَ فحمِد اللهَ وأثنى عليه ثمَّ قال : ( أُنذِرُكم الدَّجَّالَ فإنَّه لم يكُنْ نَبيٌّ قبْلي إلَّا وقد أنذَره أمَّتَه وهو كائنٌ فيكم أيَّتُها الأُمَّةُ إنَّه لا نَبيَّ بعدي ولا أُمَّةَ بعدَكم ألَا إنَّ تميمًا الدَّارِيَّ أخبَرني أنَّ ابنَ عمٍّ له وأصحابَه ركِبوا بحرَ الشَّامِ فانتهَوْا إلى جزيرةٍ مِن جزائرِه فإذا هم بدَهْماءَ تجُرُّ شعَرَها قالوا : ما أنتِ ؟ قالتِ : الجسَّاسةُ أو الجاسِسَةُ - قالوا : أخبِرينا قالت : ما أنا بمُخبِرَتِكم عن شيءٍ ولا سائلتِكم عنه ولكنِ ائتوا الدَّيْرَ فإنَّ فيه رجُلًا بالأشواقِ إلى لقائِكم فأَتَوُا الدَّيْرَ فإذا هم برجُلٍ ممسوحِ العَيْنِ مُوثَقٍ في الحديدِ إلى ساريةٍ فقال : مِن أين أنتم ومَن أنتم ؟ قالوا : مِن أهلِ الشَّامِ قال : فمَن أنتم ؟ قالوا : نحنُ العرَبُ قال : فما فعَلَتِ العرَبُ ؟ قالوا : خرَج فيهم نَبيٌّ بأرضِ تَيْماءَ قال : فما فعَل النَّاسُ ؟ قالوا : فيهم مَن صدَّقه وفيهم مَن كذَّبه قال : أمَا إنَّهم إنْ يُصَدِّقوه ويتَّبِعوه خيرٌ لهم لو كانوا يعلَمونَ ثمَّ قال : ما بيوتُكم ؟ قالوا : مِن شَعَرٍ وصوفٍ تغزِلُه نساؤُنا قال : فضرَب بيدِه على فخِذِه ثمَّ قال : هيهاتَ ثمَّ قال : ما فعَلَتْ بُحَيرةُ طَبَريَّةَ ؟ قالوا : تدَفَّقُ جوانِبُها يُصدِرُ مَن أتاها فضرَب بيدِه على فخِذِه ثمَّ قال : هيهاتَ ثمَّ قال : ما فعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ ؟ قالوا : تدَفَّقُ جوانِبُها يُصدِرُ مَن أتاها قال : فضرَب بيدِه على فخِذِه ثمَّ قال : هيهاتَ ثمَّ قال : ما فعَل نخلُ بَيْسانَ ؟ قالوا : يُؤتي جَناه في كلِّ عامٍ قال : فضرَب بيدِه على فخِذِه ثمَّ قال : هيهاتَ ثمَّ قال : أمَا إنِّي لو قد حُلِلْتُ مِن وَثاقي هذا لم يَبْقَ مَنْهَلٌ إلَّا وَطِئْتُه إلَّا مكَّةَ وطَيْبةَ فإنَّه ليس لي عليهما سبيلٌ ) فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( هذه طَيْبةُ حرَّمْتُها كما حرَّم إبراهيمُ مكَّةَ والَّذي نفسي بيدِه ما فيها نَقْبٌ في سهلٍ ولا جَبلٍ إلَّا وعليه ملَكانِ شاهرَا السَّيفِ يمنَعانِ الدَّجَّالَ إلى يومِ القيامةِ )
الراوي: فاطمة بنت قيس تقول المحدث: ابن حبان - المصدر: صحيح ابن حبان - الصفحة أو الرقم: 6788
خلاصة حكم المحدث: أخرجه في صحيحه
اسميں بحيره طبريه كا ذكر ہے

ویکی پیڈیا کے مطابق طبریہ کو لاطینی زبان میں Tiberias کہتے ہیں. یہ اسرائیل کا ایک رہائشی علاقہ جو Kineret Subdistrict میں واقع ہے۔ یہ بحیرہ طبریہ کے مغربی کنارے پر واقع ہے. یروشلم کی تباہی (586 ق م) کے بعد طبریہ یہود کا تہذیبی مرکز بن گیا۔ اسے 13ھ میں شرحبیل بن حسنہ نے فتح کیا۔ اس پر یوروپی صلیبیوں کا قبضہ رہا۔ صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے معرکہ حطین (583ھ1087ء) میں اسے صلیبی قبضہ سے چھڑایا۔ بحیرہ روم کی بندرگاہ حیفا اور عکا 50 کلومیٹر اور بیت المقدس اور دمشق سے 125 کلو میٹر ہیں بائیبل میں اس کا نام گلیل آیا ہے. گرم پانی کا ایک چشمہ جو 'حمہ سلیمان بن داؤد' کہلاتا ہے، طبریہ اور بیسان کے درمیان واقع ہے۔ یہاں ایک تراشیدہ چٹان ہے جسے لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کی قبر بتاتے ہیں۔ بعض روایتوں میں وارد ہے کہ اللہ تعالی یاجوج ماجوج کو ظاہر کرے گا جو ڈورتے ہوئے تمام زمین میں آن کی آن میں پھیل جائیں گے، ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوگی کہ جب ان کی پہلی جماعت 'بحیرہ طبریہ' سے گزرے گی تو اس کا سارا پانی پی جائے گی۔ اسی کے قریب حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو عبرتناک عذاب سے دوچار کئے جانے کے نتیجے میں وجود میں آنے والا سمندر ’بحیرئہ مردار‘ یا ڈیڈ سی Sea Dead بہت تیزی سے خشک ہورہا ہے۔ یہاں چاروں اطراف دیوہیکل گڑھے وجود میں آرہے ہیں۔ ایسے گڑھوں کی تعداد 1990ء میں صرف 40 تھی، تاہم اب صرف مقبوضہ فلسطین کی جانب والے ساحل پر 3 ہزار گڑھے بن چکے ہیں، جس سے پانی تیزی سے زمین کی تہوں میں جارہا ہے۔ عرب خطے کی آب و ہوا پر تحقیق کرنے والی ایک ویب سائٹ 'عربین ویدر ڈاٹ کام' کے مطابق 'بحیرہ مردار' میں روزانہ کم از کم ایک خوفناک گڑھا وجود میں آرہا ہے۔ مذکورہ ویب سائٹ نے ان گڑھوں کی تصویریں شائع کرکے ماہرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ خوفناک گڑھے اتنے گہرے ہیں کہ ان کی گہرائی کا صحیح اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل یہ گڑھے سمندر کے اندر تھے، لیکن پانی کی سطح کم ہونے سے یہ ساحلوں پر نمودار ہورہے ہیں۔ ان گڑھوں کے اچانک وجود پذیر ہونے کے عمل میں تیزی آنے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ بحیرئہ مردار بہت جلد خشک ہوجائے گا. اس سے قبل ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ بحیرئہ مردار کے پانی کی سطح سالانہ ایک میٹر کم ہو رہی ہے۔ تاہم اب اس میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک میٹر کی سالانہ کمی سے 2050ء تک یہ سمندر خشک ہوجائے گا جبکہ پانی آج بھی بہت تیزی سے خشک ہو رہا ہے، جس سے ماہرین کا خیال ہے کہ بحیرئہ مردار 2050ء سے بہت پہلے اپنا وجود کھو بیٹھے گا۔ واضح رہے کہ بحیرہ مردار دنیاکی سب سے نمکین جھیل ہے، جس کے مغرب میں اسرائیل اور مشرق میں اردن واقع ہے۔ یہ زمین پر سطح سمندر سے سب سے نچلا مقام ہے جو 420 میٹر (1378 فٹ) نیچے واقع ہے۔ علاوہ ازیں یہ دنیا کی سب سے گہری نمکین پانی کی جھیل بھی ہے، جس کی گہرائی 330 میٹر (1083 فٹ) ہے۔ یہ جبوتی کی جھیل ’’اسال‘‘ کے بعد دنیا کا نمکین ترین ذخیرئہ آب ہے۔ 30 فیصد شوریدگی کے ساتھ یہ سمندر سے 8 اعشاریہ 6 گنا زیادہ نمکین ہے۔
اسرائیلی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بحیرئہ روم سے 9 گنا زیادہ نمکین ہے، جس کی شوریدگی 3 اعشاریہ 5 فیصد ہے، جبکہ مذکورہ ماہرین بحیرئہ مردار کی شوریدگی کو 31 اعشاریہ 5 فیصد قرار دیتے ہیں۔ بحیرئہ مردار 67 کلومیٹر (42 میل) طویل اور زیادہ سے زیادہ 18 کلومیٹر (11 میل) عریض ہے۔ رپورٹ کے مطابق، یہ سمندر حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو عذاب دینے کے نتیجے میں وجود پذیر ہوا تھا۔ اللہ کے حکم سے فرشتے نے اس بستی کو تہہ زمین سے اٹھایا اور اوپر لے جاکر بستی والوں سمیت الٹا کرکے گرایا، جس سے زمین کا یہ حصہ اتنا نیچے چلا گیا کہ سمندر وجود میں آیا۔
بحیرہ طبریہ جہاں سے اسرائیل اپنے لئے پانی حاصل کرتا ہے خشک ہونے والا ہے اور اب بحیرئہ مردار کی سطح آب میں بھی غیر معمولی کمی واقع ہورہی ہے۔ جس سے اسرائیل کو سخت پریشانی لاحق ہے، اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ اس کے سمندر خشک نہ ہوں۔ اس لیے نہر سویز سے ایک رابطہ نہر بحیرئہ مردار تک کھودی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ بحیرئہ احمر، بحیرہ مردار سے 400 میٹر اونچا ہے، رابطہ نہر کے علاوہ بحیرئہ احمر یا بحیرہ قلزم Sea Red کو بحیرہ مردار کے ساتھ پائپ لائن کے ذریعے جوڑنے کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو RSDSC منصوبہ کہتے ہیں، اس منصوبہ پر اربوں ڈالر خرچ ہوں گے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بحیرئہ مردار ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے تیزی سے خشک ہو رہا ہے۔

Why are Muslims
cheering about the
Sea of Galilee (بحيرة طبرية‎)
drying up?
When those from among them who constitute the first part of their army pass the lake of Tiberias (Sea of Galilee) which is in northern Palestine, they will drink up all the water of that lake.
So Ya'jooj and Majooj are already here then?
....................................................................................
http://www.dotmsr.com/details/%D9%83%D9%88%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9%85%D8%A7%D8%A1-%D8%A3%D8%AF%D8%A7%D8%A9-%D8%A7%D9%84%D8%AD%D8%B1%D8%A8-%D8%A7%D9%84%D9%82%D8%A7%D8%AF%D9%85%D8%A9-%D8%A8%D9%8A%D9%86-%D8%A7%D9%84%D8%A3%D8%B1%D8%AF%D9%86-%D9%88%D8%A5%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%D9%8A%D9%84

No comments:

Post a Comment